وہ طلسم ایک دم ٹوٹا تھا… وہ ہوش میں آئ تو اجنبی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگی… یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ عرصے بعد نیند سے جاگی ہو گی… ہپناٹزم کے اس عمل کے دوران وہ کیا کیا بول گئ تھی اسے کچھ معلوم نہ تھا…
سامنے دیکھا تو ڈاکٹر نادیہ اجمل ٹیپ ریکارڈر بند کر رہی تھیں… ہانیہ کے دیکھنے پر وہ بھی ہانیہ کی جانب متوجہ ہوئیں… ہلکی سی مسکراہٹ نے ان کے چہرے کا احاطہ کیا… پھر وہ اٹھیں… کمرے کی لائٹ آن کی اور ٹیبل کے پیچھے موجود اپنی کرسی سنبھالی…
“یہاں آ جائیے مسز حسن… ” نرمی سے اسے مخاطب کیا… پھر بیل بجائ تو آفس بواۓ اندر داخل ہوا…
“مسٹر حسن رضا کو بھیجیے اندر… ” آفس بواۓ ان کی بات سن کر باہر نکل چکا تھا…
کچھ ہی دیر بعد حسن اندر آیا… ڈاکٹر نادیہ اجمل نے دوسری کرسی پر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا…
“مسز حسن… آپ تھوڑی دیر کے لیے اس کرسی پر چلی جائیے… مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے ان سے…” شائستگی سے ہانیہ کو مخاطب کیا تھا انہوں نے… ہانیہ چند لمحے خالی خالی نگاہوں سے انہیں دیکھے گئ… پھر اٹھ کر اس کرسی کی طرف چلی گئ…
“مسٹر حسن رضا… میں جو کچھ کہنے جا رہی ہوں اسے دھیان سے سنیے… آپ کی وائف پرسنیلٹی ڈس آرڈر کا شکار ہیں… یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے… جس میں ایک انسان خود ہر چیز امیجن کرتا ہے… اسے یوں لگتا ہے جیسے کوئ اسے مارنا چاہتا ہے, یا نقصان پہنچانا چاہتا ہے… جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہوتا… اس حالت میں مریض اپنے خیر خواہوں کو بھی اپنا دشمن سمجھنے لگتا ہے… ہر پل اداس اور پریشان رہنا… اکیلے رہنے سے خوفزدہ ہونا… رشتوں کو نبھا نہ پانا, اور خود کو زخمی کرنا, نقصان پہنچانا… یہ سب اثرات ہیں جو اس بیماری کی وجہ سے ہوتے ہیں… یوں سمجھ لیں کہ اس مرض میں انسانی دماغ کچھ دیر کے لیے واقعات کو ذہن میں محفوظ نہیں رکھ پاتا… مریض خود اپنے آپ کو زخمی کرتا ہے… اور پھر جب اس حالت سے باہر آتا ہے تو اسے کچھ یاد نہیں رہتا… بس اسے یوں لگتا ہے جیسے کسی اور نے اسے مارنے کی کوشش کی… اور وہ خود اپنی پرچھائ تک سے ہراساں ہو جاتا ہے… اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں… بچپن کی محرومیاں, ماں باپ کے لڑائ جھگڑے, تنہائ, یا کوئ ایسی خواہش جو پوری نہ ہو پاۓ اسے سوچتے سوچتے مریض پرسنیلٹی ڈس آرڈر کا شکار ہو جاتا ہے… ” ڈاکٹر نادیہ اجمل سانس لینے کو رکیں… ان کی آواز دھیمی تھی… انتہائ دھیمی… حسن نے مڑ کر ہانیہ کی طرف دیکھا جو ان دونوں سے بے نیاز چھت کو گھورے جا رہی تھی…
“اس کا کوئ حل ہے ڈاکٹر…؟؟” حسن نے آہستگی سے پوچھا… سر جھکا رکھا تھا… ہانیہ کو اس حالت میں دیکھنا اس کے لیے بے حد مشکل ثابت ہوتا تھا…
“ویل… حل تو ہر چیز کا ہوتا ہے مسٹر حسن… شاید آپ کی اگنورنس کے باعث وہ اس حال تک پہنچ چکی ہیں کہ اپنے آپ میں مگن رہتی ہیں اور اردگرد ہونے والی کسی سرگرمی میں ان کی دلچسپی نہیں… آپ نے اپنی مصروفیات میں گھر کر انہیں شدید تنہا کر کے رکھ دیا… اب اس کا یہی حل ہے کہ اس تنہائ کے احساس سے نکالیں انہیں… پبلک پلیسز پر لے کر جائیں… چاہے وہ کتنا ہی خوفزدہ ہوں ایسی جگہوں پر جانے سے… آپ ایک دو بار لے کر جائیں گے تو ان کا ڈر ختم ہو گا… زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزاریں… اور اگر میری بات مانیں تو اپنی فیملی آئ مین اپنے پیرنٹس میں سے کسی کو بلا لیں یہاں… یا ان کے پیرنٹس کو… کیونکہ گھر کی کل وقتی ملازمہ کی بجاۓ اگر کوئ فیملی ممبر ہو گا ان کے ساتھ جس سے وہ کھل کر اپنے دل کی ہر بات کر سکیں تو ان کی حالت میں خاطر خواہ بہتری آ سکتی ہے… اور اگر آپ انہیں لاہور لے جائیں جہاں تمام فیملی ممبرز ہیں تو یہ سب سے بہتر ہو گا… جب ان کا تنہائ کا احساس ختم ہو گا تو خودبخور ٹھیک ہونے لگیں گی… ابھی یہ چند میڈیسنز لکھ کر دے رہی ہوں… یہ استعمال کروائیے انہیں… ” ڈاکٹر نے نوٹ پیڈ پر قلم گھسیٹتے ہوۓ کہا… حسن فقط اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا… ہانیہ کو ساتھ لے کر ان کے کلینک سے نکلتے ہوۓ ایک نئ پریشانی اس کے ہمراہ تھی…
💝💝💝💝💝
“میں نے ایک بار کہہ دیا نا… کہ مجھے نہیں جانا تو بس نہیں جانا…” وہ چلّائ تھی… حسن اس کے انداز پر دنگ رہ گیا… اس کی بدتمیزی پر غصہ تو بہت آیا لیکن اس کی حالت کے پیش نظر صبر کا گھونٹ بھر کر رہ گیا…
“دیکھو ہانی… تم میری بات کیوں نہیں سمجھ رہی ہو… اس وقت تمہارا لاہور جانا بہت ضروری ہے… تمہاری اپنی صحت کے لیے… یہاں تنہا رہتے رہتے طبیعت زیادہ خراب ہو گی… اور پھر تمہارا دل نہیں چاہتا لاہور جانے کو…؟؟ اپنی فیملی سے ملنے کو…؟؟ اپنے گھر کو مس نہیں کرتی تم…؟؟” حسن تھک چکا تھا اسے سمجھاتے سمجھاتے… لیکن نہ جانے کیا ہو گیا تھا اسے کہ وہ جانے کو راضی ہی نہ تھی…
“میرا کوئ گھر نہیں ہے… یہی گھر ہے میرا… یہیں رہوں گی میں… کہیں نہیں جاؤں گی… ” وہ اب بھی اپنی بات پر قائم تھی…
“ہانیہ سمجھتی کیوں نہیں ہو تم… کیوں اتنی ضد کرتی ہو… تمہارے بھلے کے لیے ہی یہ فیصلہ کیا ہے میں نے… ” حسن زچ ہونے لگا…
“آپ کیوں نہیں سمجھتے میری بات حسن… اگر ہم نے یہ گھر چھوڑنے کی کوشش کی تو وہ مار دے گا آپ کو… یہ اس کا گھر ہے… یہ حویلی اس کی ہے… ہمیں یہاں بلانے کا پلان بھی اس کا تھا… آپ اور میں اپنی مرضی سے نہیں آۓ یہاں… وہ لے کر آیا ہے ہمیں… اور وہ کبھی جانے نہیں دے گا یہاں سے ہم دونوں کو… آپ نے اس کا غصہ, اس کے جلال کو نہیں دیکھا… میں نے دیکھا ہے… وہ بہت طاقتور ہے… بہت خطرناک بھی… میں نہیں چاہتی کہ وہ میری وجہ سے آپ کو کوئ نقصان پہنچاۓ…” وہ رو دی تھی… حسن کا دل چاہا اپنا سر کسی دیوار میں دے مارے… وہ جتنی کوشش کرتا تھا کہ ہانیہ کے ذہن سے اس بھوت کا خیال نکال سکے وہ اتنی ہی زیادہ اس کے بارے میں سوچتی تھی… اس کی باتیں کرتی تھی…
“فار گاڈ سیک ہانیہ… ایسا کوئ وجود نہیں ہے… کسی نے نہیں بلایا ہمیں… مجھے آفس کی طرف سے یہاں ٹرانسفر کیا گیا تھا… اور اب میں بھی تمہارے ساتھ واپس جا رہا ہوں لاہور… بھاڑ میں جاۓ پرموشن… بھاڑ میں جاۓ یہ نوکری… مجھے تم سے زیادہ عزءز کچھ نہیں…” حسن اس پر سختی کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن پیار سے وہ بات مان ہی نہ رہی تھی…
“آپ کو میرا یقین نہیں ہے حسن… لیکن میں جانتی ہوں… وہ ہے… یہیں ہے… ہمارے گھر… ہمارے آس پاس… اور وہ آپ کو کوئ تکلیف دے یہ میں برداشت نہیں کر سکتی… میں خود پر ہر جبر سہہ سکتی ہوں لیکن آپ پر نہیں… ” وہ قطعیت سے کہتی وہاں سے جا چکی تھی… حسن لب بھینچ کر رہ گیا…
💝💝💝💝💝
رات کو حسن نے بہت مشکل سے اسے راضی کیا باہر ڈنر کے لیے جانے پر… تقریباً ایک ہفتے سے حسن اس سے لاہور جانے کے بارے میں کوئ بات نہ کر رہا تھا… کبھی کبھار ہانیہ کی طبیعت خراب ہو جاتی تھی لیکن پہلے کی نسبت سکون تھا گھر میں… حسن کی موجودگی میں اس کی حالت بہتر رہتی تھی…
حسن ڈنر کے بعد لانگ ڈرائیو پر لے گیا تھا اسے… وہ خوش تھی آج… خوشگوار موسم کے باعث موڈ کافی اچھا تھا اس کا… رات کے تیسرے پہر وہ دونوں گھر لوٹے تھے… ہانیہ کمرے میں لیٹی تھی جب حسن کچن میں چلا آیا… برگر پیک کروا کر لاۓ تھے وہ… ساتھ کولڈ ڈرنک گھر میں موجود تھی… حسن نے دو گلاس لیے… ان میں کولڈ ڈرنک انڈیلی… پھر کچن میں ایک جانب چھپا کر رکھی بے ہوشی کی دوا نکال کر ایک گلاس میں ملا دی… چمچ سے اچھی طرح ہلا کر وہ ٹتلرے اٹھاۓ کمرے میں آیا…
“لیں جناب… بندۂ بشر آپ کی من پسمد کولڈ ڈرنک لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہے…” اس نے لہجے میں شرارت سمو کو کہا… پھر ٹرے ایک جانب رکھتے ہوۓ ایک گلاس ہانیہ کو تھمایا… دوسرا خود لے کر بیٹھ گیا… برگر کھاتے ہوۓ اور کولڈ ڈرنک پیتے ہوۓ وہ کن اکھیوں سے ہانیہ کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے رہا تھا… جب تک وہ خالی برتن کچن میں رکھ کر آیا تب تک ہانیہ کو چکر آنے لگے تھے… وہ سر تھامے ایک جانب گر سی گئ…
“ہانیہ…” حسن نے اسے پکارا… ساتھ ہی اسے تکیے سے ٹیک لگوائ… چند ہی لمحوں میں وہ اردگرد سے غافل ہو چکی تھی… حسن نے سب تیاریاں پہلے ہی کر چکا تھا… ضرورت کا سامان بھی پیک کر لیا تھا اس نے… تبھی اپنا اور ہانیہ کا بیگ اٹھا کر جلدی سے ڈگی میں رکھا… ہانیہ کو بازوؤں میں اٹھاۓ وہ گاڑی کی جانب بڑھا… اسے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر ٹیک لگا کر بٹھایا… پھر اندر جا کر لائٹس وغیرہ آف کیں… گاڑی گیٹ سے نکال کر گھر کو لاک کیا اور گاڑی آگے بڑھا لے گیا… یہ پچھلے ایک ہفتے سے وہ بے حد پریشان تھا کہ ہانیہ کو کیسے راضی کرے لاہور جانے کے لیے… تبھی احمد نے اسے یہ مشورہ دیا تھا کہ بے ہوشی کی حالت میں وہ مزاحمت نہیں کر سکے گی لہذا لاہور لے جانے میں آسانی ہو گی… اور حسن نے رات کا تیسرا پہر اس لیے منتخب کیا کیونکہ اس وقت ٹریفک بہت کم ہوتی تھی… وہ جلد سے جلد یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا…
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوۓ اس نے ایک نظر برابر بیٹھی ہانیہ پر ڈالی جو فی الحال تو ہوش میں نہ تھی… اور اگلے پندرہ گھنٹے تک اس کے ہوش میں آنے کے چانسز بھی نہ تھے… وہ سکون سے ڈرائیو کر سکتا تھا… اور جب تک وہ ہوش میں آتی وہ لوگ کافی دور نکل چکے ہوتے کراچی سے…
💝💝💝💝💝
صبح ساڑھے چار بجے کا وقت تھا… اندھیرا چھٹ رہا تھا… صبح کا ملگجا اندھیرا تاریکی کا پردہ چاک کرتا اپنے پر پھیلا رہا تھا… تقریباً اڑھائ گھنٹے ہو چکے تھے حسن کو ڈرائیو کرتے ہوۓ… کبھی کبھار ایک نظر ہانیہ پر ڈال کر وہ پھر اپنی توجہ ڈرائیونگ پر مرکوز کر لیتا…
اس وقت ان کی گاڑی گھنے جنگل کی حدود میں داخل ہو چکی تھی… یہ شارٹ کٹ تھا جس کا گزر ایک جنگل سے ہوتا تھا… کافی آگے جا کر یہ راستہ پھر مین روڈ سے جا ملتا… گھنے جنگل کے باعث یہاں ابھج تک اندھیرا محسوس ہو رہا تھا… حسن نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھائ… سیل فون کی اسکرین روشن کی… گھر کال کرنے کی غرض سے فون اٹھایا تاکہ انہیں اپنی آمد کا بتا سکے…. لیکن شاید جنگل کے باعث یہاں سگنلز کا مسئلہ تھا… کال مل ہی نہ پائ… اس نے سیل فون رکھا ہی تھا جب برابر بیٹھی ہانیہ نے ایک دم آنکھیں کھولیں… حسن نے چونک کر اس کی جانب دیکھا… اور اس کی آنکھیں دیکھ کر وہ کانپ کر رہ گیا… ہاتھوں میں بھی لرزش سی طاری ہوئ… ہانیہ کی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں… چہرے کے نقوش بھی عجیب سے ہو رہے تھے…
“تم لے کر جاؤ گے ہانیہ کو مجھ سے دور…؟؟ وہ صرف میری ہے… سمجھے تم…” ہانیہ کے منہ سے مردانہ آواز سن کر حسن کے حواس ساتھ چھوڑنے لگے…
“ہا… ہانی… تت… تم کیسے بات کر رہی ہو یہ…” ہ بمشکل بول پایا… ڈرائیونگ سے توجہ بھی ہٹ گئ…
“یہ صرف میری ہے… صرف میری… کوئ اور ہمارے درمیان آیا تو جان سے جاۓ گا…” ہانیہ دوبارہ مردانہ آواز میں مخاطب ہوئ… ساتھ حسن کے اسٹیرنگ پر موجود ہاتھوں پر اپنے ہاتھ جماۓ اور اسٹیرنگ کو گھما دیا… حسن کو لگا جیسے اس کے ہاتھ بھاری بوجھ تلے دب کر رہ گۓ ہوں… اس نے بہت کوشش کی اسٹیرنگ کو سنبھالنے کی… لیکن ہانیہ کے اندر موجود وہ جناتی طاقت حسن کی طاقت سے کہیں زیادہ تھی… حسن نے بریک پر پاؤں کا دباؤ بڑھایا… لیکن بریک نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا… بار بار بریک لگانے کی کوشش کی لیکن نتیجہ صفر رہا… گاڑی میں اب مردانہ قہقہوں کی آواز گونج رہی تھی… گاڑی ادھر ادھر ہچکولے کھاتی سڑک سے ہٹ کر جنگل میں داخل ہو گئ… حسن کو لگا جیسے اس کا آخری وقت آن پہنچا ہو… ہانیہ کی سب باتیں اسے یاد آنے لگیں جب وہ اسے اس جن ذادے کے بارے میں بتانے کی کوشش کرتی تھی… لیکن حسن ہر بار اسے ٹال دیتا تھا… آج اندازہ ہوا تھا کہ اس کی بات پر یقین نہ کر کے کتنی بڑی غلطی کی تھی اس نے…
وہ مسلسل زور لگا رہا تھا اپنے ہاتھ ہانیہ کے ہاتھوں کے نیچے سے نکالنے کے لیے… تبھی سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں… اگلے ہی پل گاڑی زور سے سامنے موجود درخت سے ٹکرائ… گاڑی کی ونڈ اسکرین ٹوٹ گئ… کانچ کے کئ ٹکڑے اس کے چہرے اور وجود میں پیوست ہو گۓ… زور دار ٹکر ہونے کے باعث حسن ونڈ اسکرین سے ہوتا ہوا باہر کافی دور جا گرا… پہلے کانچ لگنے اور جھاڑیوں پر گرنے کے باعث وہ کراہ کر رہ گیا… ہورا وجود دکھنے لگا تھا… سر زمین سے ٹکرانے کے باعث پچھلے حصے سے ٹیسیں سی اٹھنے لگیں… اسے ہانیہ کی فکر ہوئ… تبھی اپنی تکلیف کو بھول کر وہ فوراً اٹھا… گاڑی کی جانب دیکھا… درخت گاڑی پر گرنے کے باعث گاڑی کا سامنے والا حصہ پچک سا گیا تھا…
“ہانیہ…” گاڑی کی حالت دیکھ کر وہ کراہ کر رہ گیا… پتا نہیں ہانیہ کس حال میں تھی… گاڑی کا اگلا حصہ یوں پچک گیا تھا تو ہانیہ کی کیا حالت ہوئ ہو گی… حسن کے رخسار اور کنپٹی سے خون بہہ رہا تھا… پیشانی پر بھی کئ خراشیں تھیں… اور جسم پر تو نہ جانے کہاں کہاں چوٹیں آئ تھیں… لیکن اپنے ذخموں کی پرواہ کیے بغیر وہ تیزی سے آگے بڑھا… کہ اس وقت خود سے زیادہ فکر اسے ہانیہ کی تھی… ابھی دو قدم ہی لیے تھے جب اسے رک جانا پڑا… گاڑی کا پچک جانے والا حصہ خودبخود ٹھیک ہونے لگا… حسن حیران سا گاڑی کو دیکھتا رہ گیا… گاڑی سامنے سے بالکل ٹھیک ہو چکی تھی… اگلے ہی لمحے گاڑی کا دروازہ کھلا اور ہانیہ کا بے ہوش وجود ہوا میں معلق ہوتا خودبخود گاڑی سے باہر آنے لگا… یون جیسے کسی ان دیکھی طاقت نے اسے اٹھا رکھا ہو… حیرت انگیز طور پر ہانیہ کو ایک معمولی خراش تک نہ آئ تھی… کچھ فاصلے پر بکھرے پتے خودبخود ہوا سے اڑتے سائیڈ پر ہونے لگے… جگہ صاف ہوئ تو ہانیہ کا وجود اس جگہ جا کر رکھ دیا گیا… حسن نے ہانیہ کی جانب بڑھنے کی کوشش کی لیکن کسی غیر مرئ قوت کے زیر اثر اس کے قدم گویا زنجیروں میں جکڑے گۓ تھے… وہ بے بس انداز میں دور کھڑا ہانیہ کو دیکھ رہا تھا… تبھی ہانیہ سے کچھ ہی فاصلے پر ایک ہیولہ سا نمودار ہوا… وہ ہیولہ آہستہ آہستہ واضح ہوتا چلا گیا… اور اس کی صورت دیکھ کر حسن ہکا بکا رہ گیا تھا…
“تم…” لہجے میں حیرت, غصہ, درشتگی, اور بے یقینی بھری تھی… سامنے کھڑا شخص وہی تھا جو لاہور میں اسے آفس میں ملا تھا… باس کے ساتھ… جس کی چمک دمک, اس کے انداز و اسٹائل اور اس کی خوبصورتی سے حسن متاثر ہوا تھا اور جسے باس نے اشھب ہمدانی کہہ کر مخاطب کیا تھا… وہ پراسرار مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ حسن کی جانب بڑھنے لگا….
“کیا ہوا…؟؟ جھٹکا لگا مجھے یہاں دیکھ کر…؟؟” اشھب طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا…
“کون ہو تم…؟؟” حسن نے خود اپنی آنکھوں سے اسے ظاہر ہوتے دیکھا تھا…. اب تو کوئ گنجائش ہی نہ تھی شک کی… یقیناً یہی تھا وہ جن ذادہ جس کی ہانیہ بات کرتی تھی…
“میں…؟؟ ابھی تک سمجھے نہیں تم…؟؟ کتنی کوشش کی تمہیں تمہاری بیوی نے میرے بارے میں بتانے کی… لیکن نہیں… کیسے یقین کرتے تم اس کا… جب میں نے اپنا آپ کبھی تم پر ظاہر ہی نہ کیا… اس کے ذریعے بہت بار بتانے کی کوشش کی تمہیں… کہ مجھے اور اسے جو بھی الگ کرنے کی کوشش کرے گا وہ مرے گا… لیکن تم نے نہیں سنا… تمہیں کیا لگتا تھا تم یوں اسے مجھ سے دور لے جانے میں کامیاب ہو جاؤ گے…؟؟” اس کی بھاری گرجدار آواز جنگل میں گونج رہی تھی… حسن کا قد بھی اس کے نزدیک چھوٹا لگ رہا تھا جبکہ وہ اچھی خاصی ہائیٹ کا مالک تھا…..
“تمہیں یہاں بلانے والا میں ہی تھا…تو اتنی آسانی سے کیسے جانے دے سکتا ہوں تمہیں… بہت کوشش کی تم دونوں کو جدا کرنے کی… تمہیں مارنے کی بھی… لیکن نہ جانے کس کی دعا تھی جو تمہیں بچاتی رہی اور تم دونوں کے اس رشتے کو بھی…لیکن تم دونوں یہاں سے نہیں جا سکتے اب… ہاں ایک راستہ ہے… تم اکیلے جانا چاہو تو چلے جاؤ… لیکن ہانیہ کو آزاد کرنے کے بعد… کیونکہ ہانیہ میرے ساتھ جاۓ گی… میری دنیا میں… تم اپنا رشتہ توڑ دو اس سے… پھر ہم دونوں اپنا رشتہ مضبوط بنائیں گے… محبت کی ایک نئ مثال قائم کریں گے… ” حسن نے اس کی بات پر طیش بھری نگاہوں سے اسے دیکھا…
“بیوی ہے وہ میری… اور اپنی بیوی کو چھوڑ کر جاؤں میں ایسا ممکن ہی نہیں… میں یہاں سے جاؤں گا اور ہانیہ کو ساتھ لے کر ہی جاؤں گا…” نہ جانے کہاں سے اس میں اتنی ہمت آ گئ تھی کہ وہ اس جن زادے کو چیلنج کرتا ہانیہ کی جانب بڑھنے لگا… تبھی اس جن زادے کے اشارے پر حسن کا وجود اڑتا ہوا درخت سے ٹکرایا… اور وہ زمین بوس ہوا… منہ سے کراہیں بلند ہونے لگی تھیں… اشھب نے استہزائیہ نگاہوں سے اسے دیکھا… کچھ دیر تک گہرے گہرے سانس لینے کے بعد وہ ہمت کرتا پھر اٹھا… دوبارہ ہانیہ کی جانب بڑھنے کی کوشش کی… تبھی زمین سے سارے پتے اڑتے ہوۓ اس کے چہرے سے ٹکرانے لگے… ان پتوں نے حسن کے وجود کو گھیرے میں لے لیا… کہ اس دائرے کے باہر وہ کچھ دیکھ نہ پا رہا تھا… چہرے کے سامنے ہاتھ رکھے وہ آنکھوں اور چہرے کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا… اشھب کے قہقہے اسے سنائ دے رہے تھے… کچھ دیر بعد پتوں کا وہ جھنڈ ہٹا تو حسن آنکھیں مسلنے لگا… شاید پتوں کے ساتھ مٹی کے چند ذرات اس کی آنکھوں میں جا گھسے تھے…
آنکھیں مسل کر اس نے سامنے دیکھا تو اشھب اس کے قریب کھڑا تھا… حسن کے سر اٹھاتے ہی اشھب نے اپنا سر اس کے سر سے زور سے ٹکرایا… حسن اپنا سر تھامے پیچھے جا گرا…. اس کی نظروں کے سامنے سے ہر چیز گھومنے لگی تھی… اس نے اشھب کو اپنی جانب بڑھتے دیکھا تو اٹھنے کی کوشش کی لیکن اس بار ناکام رہا… اشھب کچھ فاصلے پر کھڑا اپنی سرخ آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا… تبھی حسن کو اپنی گردن پر دباؤ محسوس ہونے لگا… ایک بار حلق سے دردناک چینخ برآمد ہوئ… لیکن پھر آواز گھٹ کر رہ گئ… اس کا دم گھٹنے لگا… سانس رکنے لگی… آنکھیں باہر کو ابلنے لگی… سامنے کھڑے اشھب کی نگاہوں میں وحشیانہ چمک تھی… گردن کے آزاد ہوتے ہی وہ زور زور سے کھانسنے لگا… وجود بے دم سا ہو رہا تھا…
اشھب چلتا ہوا اس کے قریب آیا… گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے گردن سے پکڑا اور اس کا چہرہ اپنی آنکھوں کے سامنے کیا… اشھب کیبآنکھوں سے چند مخصوص شعاعیں نکل کر حسن کی پیشانی میں جذب ہو گئیں… کچھ ہی دیر بعد حسن ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکا تھا… فاتحانہ نگاہوں سے اسے تکتے ہوۓ اشھب اس کے قریب سے اٹھ گیا…
“جب تک تمہارا اور ہانیہ کا رشتہ قائم ہے تب تک تمہیں مار تو نہیں سکتا میں… لیکن تمہیں اس کے قابل بھی نہیں چھوڑوں گا… آخر وہ خود تمہیں چھوڑ دے گی… میری زندگی میں آ جاۓ گی… اور اس کے بعد تمہیں ختم کرنا میرے لیے قطعی مشکل نہ ہو گا…” چہرے پر سختی لیے وہ حسن کی جانب دیکھ کر کہہ رہا تھا…
💝💝💝💝💝💝
ایک ہفتہ ہو چکا تھا حسن کو ہاسپٹل ایڈمٹ ہوۓ… جنگل کے قریب سے گزرتے کسی راہگیر نے انہیں وہان دیکھا تو ہاسپٹل لے آیا… ڈاکٹرز اس کی طرف سے ناامید ہو چکے تھے… ان کے بقول حسن کوما کی حالت میں تھا… ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کا کوئ علاج نہیں کر سکتے… فقط خدا سے دعا کریں… ہو سکتا ہے وہ ایک دن میں ہوش میں آ جاۓ… یا ہو سکتا ہے اسے ہوش میں آنے میں ایک ہفتہ, ایک مہینہ ایک سال یا کئ سال لگ جائیں… اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کبھی ہوش میں آۓ ہی نہ… ہانیہ کا رو رو کر برا حال تھا… وہ اس صدمے سے سنبھل ہی نہ پا رہی تھی…. اسے خود اپنا ہی ہوش نہ رہا تھا… نہ کچھ کھاتی پیتی تھی… نہ کچھ بولتی تھی… بس حسن کے وریب بیٹھی اس کے نیم مردہ وجود کو تکتی رہتی… یا رونے لگتی تو روۓ چلی جاتی… اس ایک ہفتے میں احمد ہی تھا جو ڈاکٹرز سے بات چیت کر رہا تھا… حسن کا علاج کروا رہا تھا… اور ہانیہ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا… وہ کئ بار ہانیہ سے گھر کا نمبر پوچھ چکا تھا تاکہ وہاں کسی کو انفارم کر سکے لیکن وہ بس خالی خالی نگاہوں سے سب کو دیکھے جاتی… یوں جیسے کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہو… احمد اس صورتحال میں بے بس سا اسے دیکھے جاتا…
احمد آج رات حسن کے پاس رکا تھا ہاسپٹل میں… ہانیہ کو تھوڑا سا کھانا کھلانے کے بعد اس نے زبردستی گھر بھیج دیا تھا… کہ یہاں رہ رہ کر اس کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی… پہلے سے بہت کمزور ہو گئ تھی وہ… آنکھوں تلے حلقے واضح ہونے لگے تھے… لاغر وجود, سفید پڑتے چہرے اور پپڑیاں جمے ہونٹوں کے ساتھ اس پر کسی لاش کا سا گمان ہوتا…
وہ آئینے کے سامنے کھڑی ویران نگاہوں سے اپنے عکس کو دیکھ رہی تھی… ایسا کیا تھا اس میں, اس کے چہرے میں, اس کے وجود میں کہ وہ جن ذادہ یوں عاشق ہو گیا تھا اس پر… کسی قیمت پر اس کی جان بخشنے پر تیار ہی نہ تھا… اسے خود سے نفرت محسوس ہو رہی تھی… گھن آ رہی تھی اپنے وجود سے… یہ سوچ سوچ کر کہ آج اس کی وجہ سے حسن اس حالت میں ہے… اگر اس کی جگہ کوئ اور لڑکی حسن کی ذندگی میں ہوتی تو شاید حسن کا آج یہ حال نہ ہوتا… غصے میں اس نے ایک جانب بڑا گلدان اٹھا کر آئینے پر دے مارا… اگلے ہی لمحے شیشہ چکنا چور ہو کر فرش پر بکھر گیا… ہانیہ نے بے حسی بھری نگاہوں سے فرش پر بکھرے کانچ کو دیکھا… پھر فقط خود کو اذیت دینے کی خاطر ننگے پیر اس کانچ پر چلنے لگی… پہلا قدم رکھتے ہی منہ سے سسکی بلند ہوئ تھی جس کی آواز کو لب دانتوں تلے دبا کر گھونٹ دیا اس نے… آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے… تکلیف کی شدت سے پورا چہرہ پسینے سے تر ہو رہا تھا… لیکن وہ آنکھیں بند کیے ضبط کی کڑی منزلوں سے گزرتی خود کو اذیت کی آخری حد پر پہنچا دینا چاہتی تھی…
“کہاں ہو تم… آؤ دیکھو… دیکھو میرا حال… میرے وجود کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہو نا… میرے اس وجود سے محبت ہے نا تمہیں… اپنے اس وجود کو چھلنی کر ڈالوں گی میں… ختم کر دوں گی خود کو… تم ہی کہتے ہو نا…. کہ میری تکلیف سے تمہیں بھی تکلیف ہوتی ہے… تم مجھے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے… آؤ میرے سامنے… دیکھو آج مجھے… تاکہ تمہیں بھی درد ہو… تم بھی جانو کہ اذیت کیا ہوتی ہے… تمہیں بس دوسروں کو تکلیف دینی آتی ہے… آج تم بھی درد سے آشنا ہو… ” وہ چینخ رہی تھی… اونچی آواز میں… روتے ہوۓ… آواز درد کی شدت سے پھٹ رہی تھی..
“کہاں ہو تم… میں جانتی ہوں تم یہیں ہو… میرے آس پاس… سن رہے ہو مجھے… سامنے آؤ…” وہ حلق کے بل چلائ… فرش اس کے پیروں سے نکلتے خون سے رنگین ہو رہا تھا… لیکن اسے خود پر ذرا بھی رحم نہ آیا… تبھی اسے چکر سا آیا… کنپٹی پر ہاتھ رکھتی وہ لہرا کر کانچ پر ہی گرنے کو تھی تبھی جیسے ہوا کا کوئ جھونکا سا آیا اور فرش پر بکھرا سارا کانچ سمٹ کر ایک کونے میں جمع ہو گیا… ہانیہ نیچے گری تھی لیکن اس کا سر کسی کی گود میں آیا تھا…
اس نے بند ہوتی آنکھیں بمشکل کھول کر دیکھا… تو نظروں کے سامنے اشھب کا چہرہ تھا… جو آنکھوں میں اذیت, درد, تکلیف اور بے بسی کا احساس لیے اسے دیکھ رہا تھا… اس کی آنکھوں میں چبھن سی تھی… جیسے اسے ہانیہ کی یہ حالت تکلیف دے رہی ہو… وہ ایک جھٹکے سے دور ہوئ تھی اس سے…
“تمہاری ہمت کیسے ہوئ میرے قریب آنے کی… دور رہو مجھ سے… دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے… میری ذندگی سے… نفرت کرتی ہوں میں تم سے… شدید نفرت… اور تمہیں تمہارے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دوں گی… اگر حسن کو کچھ ہوا نا… تو میں خود اپنی جان دے دوں گی… اپنے وجود کو ختم کر ڈالوں گی لیکن تمہارے ساتھ تمہاری دنیا میں ہرگز نہیں جاؤں گی…سنا تم نے…” وہ بمشکل خود کو ہوش میں رکھنے کی کوشش کر رہی تھی… لیکن اب ہمت ختم ہونے لگی تھی… نہ جانے کتنا خون بہہ گیا تھا اس کا… تبھی نقاہت اور کمزوری محسوس کرتی وہ حواس کھو بیٹھی…
💝💝💝💝💝
“حسن… مجھے پتا ہے… تم کسی اور سے بات کرو نہ کرو… کسی اور کی سنو نا سنو… تم میری بات سنتے ہو… پہلے تو ہر بار بلانے پر دوڑے چلے آتے تھے… پلیز… اب بھی میری سن لو… واپس لوٹ آؤ حسن… مجھے تمہاری ضرورت ہے… شدید ضرورت… پلیز…” وہ حسن کا ہاتھ آنکھوں سے لگاۓ رو رہی تھی… تبھی کچھ کھٹکا سا ہوا… اس نے سر اٹھا کر دروازے کی جانب دیکھا… وہاں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تھا… حسن کو گھر میں شفٹ کر دیا گیا تھا…. اور وہ دن رات حسن کی خدمت میں جٹی ہوئ تھی… اس کا ہر کام خود اپنے ہاتھوں سے کرتی… اب اسے کسی قسم کا کوئ ڈر یا خوف بھی محسوس نہ ہوتا… وہ اب بھی حسن کو اپنے ساتھ محسوس کرتی تھی… اور اسے یقین تھا کہ حسن کے ہوتے ہوۓ کوئ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا…
کمرے کے دروازے کے قریب سے کوئ گزرا تھا شاید… ہانیہ نے ایک نظر حسن کو دیکھا… پھر تیز قدموں سےدروازے کی جانب بڑھی… کوئ ہیولہ سا تھا جس کے عقب میں وہ چلتی جا رہی تھی…یوں جیسے اس کی اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفقوذ ہو گئیں تھیں… اس کا رخ اب پرانی حویلی کی جانب تھا… کافی راہداریاں عبور کرنے کے بعد وہ ایک کمرے کے دروازے کے سامنے تھی… دروسزہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئ… اس کے پیچھے دروازہ خودبخود بند ہو گیا… وہ ایک دم جیسے ہوش میں آئ… تیزی سے مڑ کر دروازہ کھولنا چاہا لیکن ناکام رہی… بار بار دروازہ پیٹا… لیکن کوئ فائدہ نہ ہوا…
“ڈرو مت… کوئ نقصان نہیں پہنچاؤں گا تمہیں… ” آواز ابھری تھی… ہانیہ نے ہراساں نگاہوں سے مڑ کر دیکھا… وہاں اشھب موجود نہیں تھا… لیکن اس کی آواز اب بھی آ رہی تھی…
“مجھے ڈھونڈ رہی ہو نا… لیکن جب تمہیں میرا چہرہ پسند نہیں… نفرت ہوتی ہے تمہیں مجھ سے… تو میں کیسے تمہارے سامنے آ سکتا ہوں… ” شکست خوردہ سی آواز میں کہا گیا تھا…
“تم میرا پیچھا چھوڑ کیوں نہیں دیتے آخر… کیوں نہیں سمجھتے کہ ہم انسانوں کی دنیا بہت الگ ہے تم لوگوں کی دنیا سے… انسانوں کو صرف انسانوں کے لیے بنایا گیا ہے… کیوں قدرت کے قانون سے کھیل رہے ہو تم… ” وہ بے بس اور بھیگی آواز میں اس سے مخاطب تھی…
“سمجھ ہی تو گیا ہوں شاید… تبھی تو ایک آخری فیصلہ کرنے کے لیے آیا ہوں آج تمہارے پاس… “وہ آواز,آج رعب, اکڑ اور غرور سے خالی تھی… اس آواز میں آج ہار کی جھلک دکھائ دے رہی تھی…
“بہت کوشش کی تمہیں اپنی طرف مائل کرنے کی… لیکن ناکام رہا میں… قدرت سے کھیلنے چلا تھا تو کامیابی کیسے ملتی بھلا… خود کو مختار کل سمجھنے لگا تھا… اور مجھ جیسوں کو تو قدرت خود اپنے ہاتھوں سے سزا دیتی ہے… میری سزا بھی شاید یہی ہے کہ ہمیشہ کے لیے تم سے محروم کر دیا جاؤں… تمہارے بغیر جینے کا تصور ہی نہیں کر پاتا میں… لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تمہیں تمہارے شوہر سے جدا بھی نہیں کر سکتا… ” لہجے میں ہلکی سی نمی کی جھلک تھی… ہانیہ ناسمجھی سے سامنے دیکھے گئ…
“اللّہ کی بنائ ان حدود سے کوئ تجاوز نہیں کر سکتا … چاہے وہ انسان ہوں … یا ہم جنات… لیکن بہت دیر کر دی میں نے یہ سمجھنے میں… تم دونوں واقعی ایک دوسرے کے لیے بنے ہو… میں تو خوامخواہ تم دونوں کے درمیان آنے کی کوشش کرتا رہا…” وہ اب اپنی ہر غلطی تسلیم کر رہا تھا… ہانیہ خاموش تھی… بالکل خاموش…
” لیکن پھر بھی جانے کیوں بار بار یہی خیال آتا ہے کہ شاید… کبھی کسی ایک پل میں تمہیں بھی مجھ سے محبت ہوئ ہو… تمہیں میری محبت کا احساس ہوا ہو… میرا خیال آیا ہو…. شاید کبھی تم نے بھی خوشی سے میرے بارے میں سوچا ہو… پتا نہیں یہ میرا وہم ہے یا کیا… لیکن شاید مجھے خوش گمانیوں میں رہنے کی عادت ہو چلی ہے…” ایک عجیب سی تشنگی تھی اس لہجے میں… ہانیہ لب کاٹ کر رہ گئ…
تبھی کچھ فاصلے پر موجود میز پر ایک کتاب نمودار ہوئ…
“میں جانتا ہوں میں اپنے ساتھ بہت غلط کرنے جا رہا ہوں… لیکن… کسی ایک کی تو زندگی سنورنی چاہیے… کسی ایک کو تو خوش رہنا چاہیے… تمہیں دیکھنے کے بعد اور تمہیں حاصل نہ کر پانے کا احساس ہوتے ہی میرے دل میں یہ حسرت پیدا ہوئ کہ کاش میں انسان ہوتا… لیکن قدرت کو جو منظور… میرے اس فیصلے سے مجھے تو کچھ نہیں ملے گا… ہاں لیکن تمہیں مجھ سے چھٹکارا مل جاۓ گا… تمہارے سامنے جو کتاب پڑی ہے یہ تمہاری مدد کر سکتی ہے تمہارے شوہر کو ٹھیک کرنے میں… لیکن اسے ٹھیک کرنے کے لیے میری موت ضروری ہے… میرے ہوتے ہوۓ وہ کبھی ہوش میں نہیں آ سکتا .. لیکن جیسے ہی میری جان نکلنے لگے گی تمہارا شوہر خودبخود ہوش میں آنے لگے گا… بس تمہیں کرنا یہ ہے کہ اس کتاب کو جلانا ہے… میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میری محبت زیادہ طاقتور ہے یا اس حسن کی… اگر تمہیں کبھی بھی مجھ سے محبت کا احساس ہوا ہو تو تم اس کتاب کو نہیں جلاؤ گی… اور اگر اس کتاب کو جلا دیا تو میں سمجھوں گا کہ حسن کی محبت جیت گئ اور میں ہار گیا… اور اس کتاب کے جلتے ہی میں اپنی محبت سمیت جل کر خاکستر ہوجاؤں گا… فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے… اور کل تک کا وقت… کل رات تک اگر میں ختم نہ ہوا تو تمہارا شوہر ختم ہو جاۓ گا… ہم میں سے کسی ایک کو تو جانا ہی ہو گا… اب جانے والا وہ ہو گا یا میں… یہ تم پر چھوڑ دیا ہے…” ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا تھا… اور فیصلہ کرنے والا سارے اختیارات اسے سونپ کر جا چکا تھا… ہانیہ نے کانپتے ہاتھوں سے وہ بھاری کتاب اٹھائ… اور نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوۓ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی…
💝💝💝💝💝💝
اس ایک رات میں اور اگلے پورے دن میں اس نے بہت سوچا… فیصلہ کرنا بے حد مشکل ثابت ہو رہا تھا… ایک جانب حسن تھا جو اس کی محبت تھا.. جس کی خاطر وہ کچھ بھی کر سکتی تھی… دوسری جانب اشھب تھا جو اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا اور اس کی خاطر اپنی جان تک دینے کو تیار ہو گیا تھا… وہ برا نہیں تھا… اچھا تھا… بے حد اچھا… اس کا انداز انتہائ کئیرنگ تھا… اگر وہ انسان ہوتا تو شاید ہر لڑکی کا آئیڈیل ہوتا… لیکن یہی اس کی بدقسمتی تھی شاید کہ وہ جن ذادہ تھا… جس کا انسانوں کی اس نگری میں کوئ کام نہ تھا… ہانیہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ جل کر خاک ہو جاۓ… وہ چاہتی تھی کہ وہ جن زادہ بس اپنی دنیا میں چلا جاۓ اور انہیں ان کی دنیا میں خوش رہنے دے… لیکن اس کے شوہر کی زندگی کے لیے اس کتاب کو جلانا ناگزیر ہو گیا تھا….اس کا دل رو رہا تھا یہ فیصلہ کرتے ہوۓ لیکن اسے خود کو مضبوط بنانا تھا… اس فیصلے پر عمل کرنا تھا… مغرب کی اذان کے بعد کا وقت تھا… جب وہ کتاب لیے آتشدان والے کمرے میں داخل ہوئ… آتشدان میں آگ جلائ… پھر بے بسی بھری نگاہوں سے ہاتھ میں پکڑی اس کتاب کو دیکھا.. دل نے پکارا تھا کہ مت جلاؤ اسے… محبت کرنے والے کو اتنی بڑی سزا مت دو… لیکن دماغ نے فوراً تنبیہہ کی تھی کہ اسے کسی ایک کو چننا ہو گا… اس جن ذادے کو.. یا اپنے شوہر کو… اگلے ہی لمحے اس نے کتاب کو آتشدان میں پھینک دیا… اور خود وہیں گر سی گئ… عجب لٹی پٹی سی حالت تھی اس کی… سامنے اشھب کی ہرچھائ سی نمودار ہوئ تھی جو آنکھوں میں اذیت اور نمی لیے کھڑا تھا… اس کے چارون جانب آگ لگی تھی… اور اس کا وجود آہستہ آہستہ ہوا میں تحلیل ہو رہا تھا… اشھب نے ایک الوداعی نگاہ ہانیہ پر ڈالی اور اگلے ہی لمحے اس کا وجود خاک ہو گیا… ہانیہ نے ویران نگاہوں سے آتشدان کہ طرف دیکھا جہاں وہ کتاب جل کر راکھ ہو چکی تھی… وہ گھٹنوں میں چہرہ چھپاۓ ہچکیوں سے رو رہی تھی… اس جن ذادے کا دکھ رگوں کو چیر رہا تھا…
“ہانی…” حیرت بھری آواز پر ہانیہ نے گردن موڑی… دروازے میں حسن کھڑا تھا…. خود اپنے پیروں پر… صحیح سلامت… مکمل ہوش و حواس میں…
.”حسن…” وہ اذیت بھرے لہجے میں کہتی بھاگ کر اس تک آئ اور اس کے کندھے پر سر ٹکاۓ پھوٹ ہھوٹ کر رونے لگی…
.”کیا ہوا ہے ہانیہ…؟؟تم ٹھیک تو ہو…؟؟ ایسے رو کیوں رہی ہو…؟؟” حسن پریشان سا کہہ رہا تھا… ہانیہ بمشکل خود پر قابو پا سکی…
“ہاں… میں ٹھیک ہوں… ” اس نے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا…
“تم فکر مت کرو ہانی… میں سب ٹھیک کر دوں گا… میں جانتا ہوں بہت بڑی غلطی کی میں نے تمہاری باتوں کو اہمیت نہ دے کر… تمہارا یقین نہ کر کے… لیکن اب اس جن ذادے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے میں نے… تمہاری ہر بات پر یقین آ گیا ہے مجھے… میں اس کا کوئ نہ کوئ حل نکال لوں گا… ” حسن سمجھ رہا تھا کہ شاید آج بھی وہ اسی جن ذادے سے ملنے والی اذیتوں کے باعث رو رہی ہے…
“سب ٹھیک ہو چکا ہے حسن… اب کوئ تیسرا ہمارے درمیان نہیں آۓ گا… آپ نے ٹھیک کہا تھا… اللّہ پاک نے انسانوں کو انسانوں کے لیے بنایا ہے اور اس کی مخلوق میں سے کوئ بھی کسی کو کسی سے جدا نہیں کر سکتا…. ” اس کا دل آہستہ آہستہ پرسکون ہوتا جا رہا تھا… حسن الجھن بھرے انداز میں اسے دیکھے گیا…
“ہم اب یہاں نہیں رہیں گے حسن… ہم کل لاہور چلے جائیں گے… اپنی فیملی کے ساتھ رہیں گے… مجھے یہاں نہیں رہنا اب تنہا…” وہ حسن کے سینے سے سر ٹکاۓ کہہ رہی تھی… حسن نے بے یقینی سے اسے دیکھا… کہ کیا واقعی وہ خود یہ سب کہہ رہی ہے…
“لیکن وہ جن ذادہ… وہ کبھی ہمیں جانے نہیں دے گا ہانیہ…” حسن کے کہنے پر ہانیہ کے ذہن میں اشھب کا عکس لہرایا…
“وہ ہماری دنیا سے, ہماری ذندگیوں سے جا چکا ہے حسن… اب وہ کبھی واپس نہیں آۓ گا… کبھی نہیں…” وہ مطمئین سی کہہ رہی تھی… اور اس کا اطمینان دیکھ کر حسن بھی پرسکون سا ہو گیا…
ہانیہ کے دل میں اشھب کے جانے کا افسوس تو تھا… لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ کسے کس سے ملانا ہے یہ سب رب کے فیصلے ہیں… اور رب کے فیصلوں میں کوئ مداخلت نہیں کر سکتا…
ختم شد…