(Last Updated On: )
وہ شہرِ بے انا کو کثرت اشیا سے بھر دیں گے
زر تہذیب کے بدلے اسے تہذیب زر دیں گے
کبھی تعبیر سے ان کی کھلا تھا باغ دنیا کا
اگر یہ خواب سچے ہیں تو دو بارہ ثمر دیں گے
ترا پیغام برحق ہے، مگر تعمیل مشکل ہے
زیادہ سے زیادہ ہم تجھے داد ہنر دیں گے
کرشمے دیکھتے جاؤ خداوندان مغرب کے
کہ وہ انسان کو آخر میں نا انسان کر دیں گے
شکوہ سبز بے موسم صلہ ہے سخت جانی کا
تمہیں اس کی گواہی برف زاروں کے شجر دیں گے
٭٭٭