جب ہمیں پتہ چلا کہ حضرت نظام الدینؒ، امیر خسروؒ، اور مرزا غالبؒ کے مزار قریب قریب ہیں اور لاجپت بھون سے زیادہ فاصلہ بھی نہیں تو دل نے وہاں جانے کی رٹ لگا لی۔ خواہشوں کی کچی کلیاں تو نہیں جانتی کب کھلنا اور کب مرجھانا ہے۔ ہم نے یوسف بلوچ کا ہاتھ تھاما اور وہاں پہنچ گئے۔ یہاں کچھ نیا نہیں تھا وہی فضا وہی ماحول جو ہر جگہ صوفیاء کرام کے مزاروں کے باہر نظر آتا ہے۔
سبز چادروں کی دُکانیں، مٹھائیوں کی دُکانیں، کتابوں اور کیسٹوں کی دکانیں اگر بتیوں کی خوشبو، قوالیوں کی آواز، میلے میلے کپڑوں میں ملبوس لمبے لمبے بالوں والے ملنگ، جنھوں نے کلائیوں میں کڑے، گلے میں موتیوں کی مالائیں پہن رکھی ہوتی ہیں اور ان کے جسم سے بدبو کے بھبکے نکل رہے ہوتے ہیں۔ ان کے قریب سے گزریں تو سانس تک لینا دشوار ہو جاتا ہے پھر ڈھیٹ نسل کے فقیر جو اللہ کے نام پر بھی جان نہیں چھوڑتے۔ صوفیاء کے مزاروں کے باہر ایسے ماحول میں ہمیشہ سے ہمارا دم گھٹتا ہے۔ دل کو بہت تکلیف اور ذہن کو بڑی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے مگر کیا کریں محبوب تک جانے کے لئے راستے کی سختیاں اور تکلیفیں تو برداشت کرنا ہی پڑتی ہیں۔ یہاں تو ایک نہیں تین تین برگزیدہ ہستیاں موجود تھیں۔ سو ہم بھی ان فقیروں اور دوکانداروں کی صفوں کو چیرتے ہوئے درگاہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ حضرت نظام الدینؒ کے احاطہ میں جہاں قوال حضرات قوالی پیش کر رہے تھے۔ قوالی سننے والوں میں ایک طرف عورتوں اور ایک طرف مردوں کا ہجوم تھا یہاں بھی سجادہ نشین، گدی نشین اور مجاور حضرات عقیدت اور محبت میں حاضری کے لئے آنے والوں کی جیبیں خالی کرنے میں مصروف تھے۔
ہر طرف ہاتھ ہی ہاتھ اور جھولیاں ہی جھولیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ نظام سرکارؒ سے مانگنے والے ہاتھ، ان سے مانگنے والی جھولیاں، ضرورتوں اور حاجتوں کے مارے ہوئے لوگ، دھکم پیل، بے قابو ہجوم، جلد بازی، افراتفری، ہنگامہ ہی ہنگامہ، کوئی ضبط کوئی ٹھہراؤ کوئی سکون نہیں تھا جیسا کہ ہمارے چھوٹے سے شہر میں حضرت خواجہ خدا بخشؒ کے مزار پر ہوتا ہے۔ گنتی کے لوگ عقیدت اور محبت سے بھرے ہوئے، برآمدے اور صحن میں بے فکر آ کر لیٹ جاتے ہیں جیسا کہ دربار کا حصہ بن گئے ہوں۔ کسی گھٹن کا احساس نہیں ہوتا۔ گرمیوں میں بھی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے بچپن میں ہم امتحانوں کے دوران صبح خواجہ صاحبؒ کے مزار پر حاضری دے کر جاتے۔ جلدی ہوتی تو دروازے کو چھو کر ہاتھ آنکھوں اور دل سے لگاتے تا کہ پیپرز اچھے ہوں۔ کمرۂ امتحان میں یقین ہوتا کہ خواجہ صاحبؒ کی مدد ساتھ ہے۔
پیپر خراب ہو جاتا تو پھر بھی دل کو تسلی ہوتی خواجہ صاحبؒ کی سفارش چل جائے گی۔ غریب شاہؒ کا مزار جو ہمارے شہر سے تقریباً دس بارہ کلو میٹر دور نہر کنارے کے ساتھ ٹیلوں میں تھا اور اس کے ساتھ ٹھنڈے پانی کا کنواں، ساتھ ہی قبرستان اور تاحدِ نظر کھُلا آسمان، کھُلی فضا، تازہ آب و ہوا جب کنویں سے پانی کا بوکا باہر آتا تو بڑی خوشی ہوتی پھر ٹھنڈے پانی سے ہاتھ پاؤں اور منہ دھونے سے ہم سرشار ہو جایا کرتے۔ یہاں آنے والوں کو بھی کوئی جلدی نہ ہوتی زیادہ تر نو راتیں ٹھہرنے کے لئے آتے مگر حضرت نظام سرکارؒ کے مزار پر ہجوم دھکم پیل اور افراتفری تھی احاطہ بھی تنگ تھا مجھے بھی ممتاز مفتی کی طرح ان صوفیاء کرام کے حوصلے پر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے لوگوں کو برداشت کرتے ہیں۔ صبح و شام درخواستیں وصول کرتے ہیں کبھی اُکتاتے نہیں تنگ نہیں آتے۔ امیر خسروؒ کے دربار پر حاضری دینے والوں کا بھی یہی عالم تھا ان میں سے زیادہ تر لوگ ان کے علمی، ادبی اور موسیقی کے حوالوں سے کم کم واقف تھے۔ وہ تو اتنا جانتے تھے کہ یہ حضرت نظام سرکارؒ کے عاشق اور مرید خاص تھے وہ اتنا جانتے تھے کہ یہ بندۂ خدا حضرت نظام سرکارؒ کے رنگ میں رنگا ہوا تھا اس لئے وہاں بھی حاضری دینے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔
ہم نے ایک مولانا صاحب سے بڑے فخریہ انداز میں اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا:
’’السلام علیکم یا حضرت ہم پاکستان سے آئے ہیں ہمیں مرزا اسد اللہ غالب کے مزار کے بارے میں بتا دیجیے کس طرف ہے‘‘۔
ہمارا جملہ مکمل ہوتے ہی مولانا صاحب کا چہرہ لال سرخ ہو گیا۔ آنکھیں غصہ سے باہر نکل آئیں۔ یوں لگا جیسے ہم نے ان کے سر پر ہتھوڑا مار دیا ہو۔ وہ ہم سے چار قدم پیچھے ہٹ کر بولے:
’’وہ شرابی کبابی‘‘۔
بے ساختہ ہماری زبان پر مرزا غالب کا یہ شعر جاری ہو گیا۔
ہوئے ہم جو مر کے رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کہیں جنازہ اُٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اس شعر میں کتنی بڑی حقیقت پوشیدہ تھی اس کا ادراک ہمیں اس روز ہوا۔ ہم اس شعر کو گنگناتے، سر دھنتے مرزا غالب کے مزار تک کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی گئے چھوٹے سے احاطہ میں سنگ مرمر سے بنا چھوٹا سا مقبرہ اس کے ساتھ چند قبریں، لکڑی کا مقفل دروازہ، درو دیوار سے حسرت ٹپک نہیں بلکہ برس رہی تھی۔ دل کو بہت تکلیف ہوئی کہ اردو اور فارسی زبان کے اتنے بڑے شاعر کے مزار کی یہ حالت اس قدر اُداسی، تنہائی اور ویرانی۔
اسی دوران کچھ اور لوگ جو غالب کے چاہنے والے تھے اس ’’مفرور محافظ‘‘ کو ڈھونڈ کر لے آئے جس کے پاس مزار کے گیٹ کی چابی تھی اور وہ بڑی دیر سے غائب تھا۔ دروازہ کھلا تو ہم مقبرہ کی دیوار سے لگ کر بیٹھ گئے۔ مرزا کی زندگی کی فلم ہمارے تصور میں چلنے لگی۔ مرزا کی شوخیاں، باتیں، خطوط، شاعری، لطیفے، تنگدستی، مے نوشی سب کچھ ایک ایک کر کے یاد آ رہا تھا کچھ لوگوں نے مرزا کی لحد پر پھول چڑھائے۔ ہم نے مرزا کے چند شعر حاضرین کو سنائے کسی نے لطیفے اور کسی نے مرزا کے خطوط سے اقتباس سنائے تو مزار کی تنہائی تھوڑی دیر کے لئے آباد ہو گئی۔
آخر میں ہم سب نے اس عظیم شاعر کے لئے فاتحہ پڑھی بہرحال عجیب درد بھری خاموشی اور تنہائی کا احساس ہمیں وہاں ہوا اس خموشی اور تنہائی میں اگر کوئی ہنستا اور بات کرتا تو یوں لگتا جیسے برسوں ویران پڑے کنویں میں کسی نے پتھر پھینکا ہو۔ ہم کچھ دیر تو اس خموشی کا حصہ بن کر بیٹھے رہے اس سے ہمکلام نہ ہو سکے اورپھر بوجھل قدموں اور ملول دل کے ساتھ ایک بار پھر لاجپت بھون لوٹ آئے۔
ہمارے کان میں ایک روز عابد گوندل نے چپکے سے کہہ دیا تھا کہ دلی کے سینماؤں میں جو فلم دیکھنے کا مزہ ہے وہ دنیا میں کہیں اور نہیں پورے انڈیا کی سیر ایک طرف اور فلم دیکھنے کا لطف ایک طرف۔ فلم دیکھنے کی لت ہمیں بھی بچپن سے پڑی ہوئی تھی۔
کراچی کے تمام خوبصورت سینماؤں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم وہاں بچپن میں فلم دیکھتے رہے ہیں جن میں نشاط، پرنس، بمبینو، کیپری اور ریگل وغیرہ شامل ہیں۔ عابد گوندل نے فلم کی بات کر کے ہماری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ ہم نے ایک لمحہ تاخیر کئے بغیر تیاری کر لی تھوڑی دیر بعد ہم ایک آٹو والے بھائی کی بنتی کر رہے تھے کہ ہمیں اس سینما پر چھوڑ دیجئے جہاں ’’اشوکا‘‘ لگی ہو۔ ’’اشوکا‘‘ شاہ رخ اور کرینہ کی نئی فلم تھی جو مہان بادشاہ ’’اشوکا‘‘ کی زندگی پر تھی اور ان دنوں پاکستان اور بھارت میں اس کے بڑے چرچے تھے۔
ہمیں کرینہ کی آنکھیں بہت پسند ہیں سو ہم ان بڑی بڑی آنکھوں کو بڑی سکرین پر دیکھنا چاہتے تھے۔ تین سینماؤں پر گئے مگر آٹو والا اپنے روپے بنانے کے چکر میں تھا شاید اسے بھی اندازہ ہو گیا تھا یہ ’’اشوکا‘‘ دیکھے بغیر ٹلنے والے نہیں۔ آخر کار تھوڑی سی اور مُسافت، تھوڑی سی اور تگ و دو کے بعد ہم اس نیک مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ کناٹ پیلس کے ایک سینما میں اشوکا لگی ہوئی تھی پہلے تو ہم گھبرا گئے ہر طرف جوڑے ہی جوڑے۔ نوجوان جوڑے فلم دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ ’’گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ‘‘ ہاتھوں میں ہاتھ، آنکھوں میں آنکھیں، ہم نے سوچا سینما سے باہر اتنا رومینٹک (Romantic) ماحول ہے تو اندر کیا ہو گا۔ تمام لڑکے لڑکیوں نے جنیز (Jeans) پہنی ہوئی تھی۔ عابد گوندل اور ہم نے ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھا اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ عابد گوندل نے سچ کہا تھا:
فلم دیکھنے کا جو مزہ اس شب آیا زندگی میں کہیں اور نہیں آیا۔ اگلی صبح ہمارے لئے زندگی کی یادگار صبح تھی۔ نثار اے سنی نے وعدہ پورا کر دیا اور ہم آگرہ کے لیئے روانہ ہو گئے۔
سکندر لودھی نے جب سولہویں صدی کی ابتدا میں دریائے جمنا کے مغربی کنارے پر آباد آگرہ کو اپنا پایہ تخت بنایا تو اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو گا کہ آگے چل کر یہ شہر مغلیہ جاہ و جلال کی ایک علامت بن جائے گا۔ بابر اور ہمایوں نے بھی یہاں کچھ تعمیرات کیں لیکن اکبر اعظم کے دور میں اس شہر نے خصوصی اہمیت حاصل کی۔ اس میں کچھ دخل اکبر کے پایۂ تخت فتح پور سیکری اور آگرہ کی قربت کو بھی ہو گا۔ لاہور سے واپسی پر تو اکبر آگرہ ہی میں قیام پذیر ہوا اور اپنی وفات تک یہاں رہا۔
جہانگیر کشمیر کا عاشق تھا سو آگرہ کو زیادہ توجہ نہ دی لیکن شاہ جہاں کا نام تو آگرہ کے ساتھ لازم و ملزوم ہو گیا۔ آگرہ کے قلعے کی بیش تر تعمیرات اور جامع مسجد اپنی جگہ لیکن ’’تاج محل‘‘ کا کیا کہیے۔ دار الحکومت تو ۸۳۶۱ء میں دہلی منتقل ہو گیا مگر تاج کی بدولت آگرہ کو جو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی وہ آج تک برقرار ہے۔
۱۶۷۱ میں جاٹوں اور ۱۷۷۰ میں مراٹھوں کے ہاتھوں اس شہر پر مشکل وقت بھی آئے لیکن اس شہر کی یادگاریں یہ امتحان جھیل ہی گئیں۔ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں بھی آگرہ ایک اہم محاذ تھا۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...