وہ شخص ذرا عجیب تھا
جو راستوں کو مہکا گیا
کبھی ساتھ چلا دھوپ میں
کہیں چھوڑ صحرا میں گیا
میرے دل پہ لگے قفل پر
وہ پھول گلاب اُگا گیا
میرے حال سےواقف رہا
وہی بے رخی سےجلا گیا
سلجھا کے میری ذات کو
نئی الجھنوؤں میں ڈال گیا
نا آشنا رہا جو ہر قدم
قلبِ آشنا کا وہ مکین تھا
از قلم
عائشے گل
********
یا میرے اللہ یہ کیا حال بنا دیا ہے کمرے کا۔۔۔ایمان جیسے ہی کمرے میں آٸی ہر طرف ناولز ڈاٸجسٹ پھیلے ہوۓ تھے۔۔۔اور عفاف میڈم ان میں پتا نہیں کیا ڈھونڈنے میں لگی تھی۔۔
عفاف۔۔ایمان چیخی تھی مگر اسکی چیخ بھی چویا جیسی تھی گھر میں سب سے آرام سے بات کرنا اور اپنے نام کی طرح ایمان کی پکی تھی۔۔۔اللہ کی باتیں کرنے والی۔۔۔
اسکی آواز کا عفاف پر جب کوٸی اثر نہ ہوا تو ایمان اسے کندھے سے ہلا کر پوچھنے لگی۔۔۔
یہ سب کیا ہے عفاف۔۔۔مل گیا مل گیا۔۔۔دیکھے آپی مل گیا وہ ڈاٸجسٹ میں کوٸی غزل دیکھانے لگی۔۔۔
تم کب سے یہ ڈھونڈ رہی تھی عفاف تمھارے آنے سے پہلے میں پورا کمرہ صحیح کر کے گی تھی۔۔۔
تم جب سے کالج سے آٸی ہو تم نے ڈریس بھی چینج نہیں کیا۔۔۔پچھلے ایک گھنٹے سے کیا کر رہی ہو۔۔۔۔
آپی مجھے خوشبو کی بچی نے کہا تھا کے یہ غزل ڈھونڈ کر دوں اسنے شرط لگاٸی تھی۔۔۔آپ کو تو پتا ہے عفاف محمود کبھی نہیں ہارتی۔۔۔۔وہ پلاٹھی مار کر بیٹھ گی۔۔۔۔
اچھا جی چلو میں آج تم سے شرط لگاتی ہو HSC میں اےون گریڈ لے آٶ۔۔۔آپی بہت بری بات ہے کسی کی کمزوری پر ہاتھ مارنا۔۔۔آپ کو تو پتا ہے ایس ایس سی SSC بھی سپلی دے کر پاس کیا ہے اب گھر والوں نے کالج میں ڈال دیا۔۔
اوففففففف!!!!! اب میں ایک معصوم کہاں کہاں جاٶ اور اوپر سے وہ کمبخت بھی ابھی آنا تھا قسمے آپی اس بندے کو دیکھ کر نیندیں اڑ جاتی ہیں میری۔۔۔
استغفراللہ کس کی باتیں کر رہی ہو۔۔۔۔وہی جو کل شہری بھاٸی کے ساتھ تشریف لاٸیں ہیں۔۔۔مجھےتو لگتا تھا آپی یہ ایسے لڑکے تو ناولز میں ملتے ہیں۔۔۔جیسے جہان سالار عاص ہمارے یہاں تو بس ٹماٹر کے منہ والے ہی نظر آتے ہیں۔۔۔۔وہ بڑے آرام سے اپنے خوابوں کے شہزادے کا تعارف کرا رہی تھی جس سے عفاف کو دیکھتے ہی پیار ہوگیا۔۔۔۔
بری بات ہے عفاف ایسے نہیں کہتے وہ نا محرم ہے تمھارا۔۔۔ہاں تو اسے کہے محرم بن جاۓ دیکھے نا ہمارے تو نام بھی ملتے جلتے ہیں۔۔۔عفاف عفان کتنے ملتے ہیں اور آپ دیکھنا ہم ایک ساتھ بہت ججیں گۓ۔۔۔۔۔وہ آرام سے اپنے دل کی باتیں اس سے کر رہی تھی۔۔۔
عفاف بس کرو اللہ پاک ناراض ہوتا ہے۔۔۔۔اور اب جلدی تیار ہو کر باہر آٶ میں کھانا لگاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔
ایمان آپی باہر سے شہری کی آواز آٸی تو وہ عفاف کو بولتی باہر آگی۔۔۔
ہاں شہری بولو۔۔۔۔آپی باہر عفان آیا ہے اپکے ہاتھ کی چاۓ پینا چاہتا ہے۔۔۔۔ آپ بنا دینگی۔۔۔
ہاں یہ بھی کوٸی کہنے کی بات ہے تم لوگ بیٹھو میں ابھی لاتی ہوں۔۔۔۔
ہاں آپی وہ ہیام میڈم کہاں ہے؟؟
اہہہم اہہہہم وہ ہنسی چھپا کر کہنے لگی۔۔۔مجھے کیا پتا آپکی بیگم ہے خود سنبھالیں۔۔۔
اپی آپ بھی نہ وہ۔۔اسکے مزاج ہی کہاں ملتے ہیں آپی آپ کے پاس چھوڑ کر گیا تھا تین سال کے لیے کچھ کرتی سدھارتیں اسے۔۔۔
تمھیں ہٹلر کا لقب دے چکی ہے ۔۔۔۔جو پچھلی بار تم نے اسے ہاسٹل جانے سے منع کردیا تھا۔۔۔۔۔اب تمھاری طرف داری کی تو اس لسٹ میں میرا نام بھی شامل ہو جانا ہے…وہ کہتی چاۓبنانے چلے گی۔۔۔۔
*********
کیا مصیبت ہے یہ کیسی یونی میں بھیجا ہے اسکی طرح ہٹلر ہی ہے۔۔۔
ہر دوسرے دن اساٸمنٹ اور ٹیسٹ دے دیتے ہیں اور اگر دیتے ہیں تو یہ تو ہماری مرضی ہونی چاہیے کہ اگر نہ کرنا ہو تو نہ کریں ذبردستی تو نہ کرو۔۔۔لاٸبریری میں بیٹھ کر وہ اپنے یونی میں اڈمیشن کرانے پر پچتا رہی تھی۔۔۔اور جس نے اڈمیشن کروا کر دیا تھا اسے بھی کوس رہی تھی۔۔۔
اتنی مشکل سے فیل ہوٸی کے اب کوٸی نہیں کہے گا پڑھنے کے لیے اور آرام سے سوٶں گی موویز دیکھوں گی۔۔۔۔مگر نہیں میری خوش و خرم زندگی میں عذاب ڈالنے کے لیے شہریار حسن صاحب ہیں نہ۔۔۔میری خوشی برداشت کہا ہوتی ہے کسی کو…..
باہر پڑھنے وہ جاۓ گھومے وہ ہٹلر اور اسکے لیے میری شادی کردی۔۔۔۔۔
چلو کردی تو کردی مگر وہ ہی ملا تھا۔۔۔۔اب ساری زندگی اسکی جی حضوری کرو ۔۔۔اب اس سے ہر چیز کی اجازت لو۔۔کیو بھٸ میرا ابا ہے وہ اتنا دور بیٹھ کر بھی میری ہر بات پتا نہیں کیسے پتا چل جاتی ہے اسے۔۔۔۔وہ اپنے دکھرے سناٸی جارہی تھی اور بچاری ہبہ کرتی تو کیا کرتی اسے سنتی جارہی تھی۔۔۔۔۔
ہیام ہمیں آج یہ کام دینا ہے ورنہ پروفیسر نے ہمیں اکسپیل کردینا ہے مہینے بھر کے لیے۔۔۔
کیا سچی یہ بات کیوں نہیں بتاٸی ابھی میں جاکر بولتی ہو پروفیسر کو مجھے نہیں کرنا پھر اپن دونوں مزے سے ایک مہینہ مزے کریں گے۔۔۔۔۔
پاگل نہیں بنو ہیام میں نہ تمھاری طرح اتنی امیر ہوں اور نہ میرا کوٸی شوہر اتنی پہچان رکھتا ہے۔اچھا نا بلیک میل کیوں کر رہی ہو کرتی ہوں نہ۔۔مگر تم میری کہانی سنو گی۔۔۔
ہیام تمھاری یہ کہانی میں سو سے ذیادہ مرتبہ سن چکی ہوں۔۔۔۔انفیکڈ روز سنتی ہوں۔۔۔۔
**********
ہاں بھٸ کتنا مال پہنچا ہے۔۔۔۔صاحب جی بس سب کو کارخانے میں ڈال دیا ہے۔۔۔
اوہ پاگل کے پتر کتنے پیس لے کر آۓ ہو اور کہاں کہاں سے پکڑے ہیں۔۔۔۔اس دفعہ چھوٹی عمر کے ہیں نہ پچھلی بار بھی کم پیسوں میں سودا ہوا تھا۔۔۔
آپ فکر ہی نہ کریں صاحب جی سات سال سے بڑا کوٸی نہیں ہے بہت اچھی قیمت لگے گی۔۔اور یہ سب صاحب جی اس چیتے کی وجہ سے ہوا ہے اتنی صفاٸی سے بچے اٹھاتا ہے۔۔۔۔سب پتا لگا کر جاتا ہے صاحب ہم نے اسے رکھ کر بہت اچھا کیا۔۔۔
ہہہمم۔۔۔۔چل اب شکل گم کر اپنی اور سن کہا ہے وہ چیتا بھیج اسے صاحب وہ معلومات جمع کرنےگیا ہے کہا کہا اچھا مال ہے۔۔۔۔
ہہہم سن نظر رکھ اس پر کسی پر اتنی جلدی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔۔۔
جی صاحب جو حکم۔۔اور وہ سن کر وہاں سے چلا گیا۔۔
*********
فون کیوں نہیں لگ رہا ہے۔۔۔۔شہریار کب سے ہیام کو فون ملا رہا تھا مگر فون بند تھا۔۔۔
بیٹا وین والے کو ملاو نہ۔۔۔جی دادو وہ تعبداری سے کہتا فون ملانے لگا۔۔۔۔
دادو وہ کہہ رہا ہے کوٸی باہر ہی نہیں آیا۔۔۔اور اسنے بتایا کے ایسا وہ کٸ بار کر چکی ہے دوستوں کے ساتھ چلی جاتی تھی۔۔۔شہریار کیسے اپنے غصے پر قابو کر رہا تھا وہ تو صرف شہری اور ایمان جانتے تھے۔۔۔ایمان کا فون بجا ان نون نمبر دیکھ کر اسکا چہرہ سفید پڑتا جارہا تھا۔۔۔
لاونج میں بیٹھا ہر شخص اسکی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔ایمان آپی کال اٹھاٸیں عفاف بولی۔۔۔۔
ایمان بچا کال اٹھاٶ۔۔۔۔سلطانہ بیگم جو اسکے برابر کرسی پر بیٹھی تھی اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولنے لگیں۔۔۔۔
جی نانو۔۔۔اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ۔۔۔۔کون بات کر رہا ہے۔۔۔
میں ہیام بات کر رہی ہوں تم لوگوں کو کوٸی پرواہ ہے میں معصوم گھر نہیں آٸی تو کوٸی لینے بھی نہیں آیا۔۔۔ایمان نے سکون کا سانس لیا۔۔
تم کہاں ہو ہیام ایمان نے پوچھا۔۔۔۔ٹھیک ہے وہی رہو میں بھیجتی ہوں کسی کو۔۔۔
ایمان سن۔۔۔ہیام بولی اس ہٹلر کو نہیں بھیجنا سمجھی۔۔۔۔ہہہہممم کہہ کر فون کاٹ دیا۔۔
وہ اپنی یونی میں ہی ہے باہر تیز بارش ہورہی ہے اسلیے کوٸی رکشہ نہیں مل رہا ہے۔۔۔۔
آپی آپ نے پوچھا نہیں اب تک کیا کر رہی تھی۔۔۔وہ اساٸمنٹ
ہہہمم میں جاتا ہوں۔۔۔بیٹا دھیان سے سادیہ بیگم نے دم کر کے پھونکا۔۔آرام سے جانا بہت تیز ہے بارش۔۔جی امی آپ فکر نہ کریں۔۔۔
بھاٸی میں بھی چلوں۔۔۔۔میں پکنک پر نہیں جا رہا ہوں وہ گاڑی کی چابی اٹھاتا۔۔باہر جانے لگا ہاں بیوی کے ساتھ گھومنا جو ہے۔۔۔اور وہ دانیال کو آنکھیں دیکھاتا باہر نکل گیا۔۔۔
ایمان بھی سب سے نظریں بچا کر باہر آٸی۔۔۔۔۔
شہری۔۔۔۔ایمان نے اسکو پکارہ
جی۔۔۔وہ جو گاڑی میں بیٹھنے لگا تھا ایمان کی آواز پر مڑا
اسے ڈانٹنا نہیں۔۔۔۔آپی آپ اسکی طرفداری کرنا چھوڑ دیں اب۔۔
شہری۔۔۔۔ ایمان اسے آنکھیں دیکھانے لگی
اچھا ٹھیک ہےنہیں کہتا اسے کچھ میں۔۔۔۔وہ کہتا گاڑی میں بیٹھ کر ہیام کے یونی کو روانہ ہوا۔۔۔
اسلام آباد کا موسم ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا تھا۔۔۔کچھ پتہ نہیں چلتا کب تیز بارش شروع ہوجاۓ۔۔۔
وہ گاڑی دوڑاتا یونی پہنچا تو ہیام اور ہبہ وہی چھپڑے کے نیچے کھڑی انتظار کر رہیں تھی۔۔۔۔
دیکھا منع بھی کیا تھا میں نے ایمان کو کے اسے مت بھیجھنا مگر میری سننی ہی کس نے ہے۔۔۔ گاڑی میں شہریار کو بیٹھا دیکھ کر اسے تپ چڑھ گی۔۔۔۔
ہیام کے ساتھ اسکی دوست کو دیکھ کر اسنے لحاظ کیا اور ہورن بجانے لگااتنا نہیں ہو رہا اس سے کے اتنی تیز بارش ہے چھتری بھیج دے اور دوسری طرف شہریار ہورن پر ہورن بجاۓ جا رہا تھا۔۔۔۔
ہبہ ہیام کا ہاتھ پکڑ کر اسے گاڑی کی طرف لے گی۔۔اور دونوں پیچھے بیٹھ گٸیں۔۔۔شہریار اسے غصے سے مرر سے دیکھ رہاتھا۔۔۔جو اسے نظر انداز کرتی کھڑکی کی طرف مڑ گی۔۔
شہریار بھاٸی وہ آج لیٹ ہوگیا ہے اور بارش بھی بہت تیز ہورہی تو کیا آپ مجھےچھوڑ دینگے گھر۔۔۔
جی بلکل آپ اڈریس بتادیں۔۔۔جی اور اسنےگاڑی چلادی۔۔۔
ویسے آپ لوگ پہلی بار تو لیٹ ہوۓ نہیں ہیں جیسے پہلے جاتی تھی آج بھی آجاتی گھر۔۔۔شہریار کا یہ کہنا تھا کہ ہیام کی نظریں اٹھی اور مرر سے دونوں کی نظریں ملی اور ہیام نے فوراً سے نظریں چرالی ۔۔۔
اس وین والے کو تو میں چھوڑوں گی نہیں۔۔۔اور یہ جاسوس میرے پیچھے پڑ گیا ہے۔ہیام دل میں سوچنے لگی
آپ کا گھر آگیا۔۔۔شہریار کے بولتے ہی ہبہ بیگ اٹھاتی تھینکس بولتی نکل گی اور ہیام اپنی شامت کے لیے تیار ہورہی تھی۔۔۔
بچپن سے لے کر اب تک یہی تو ہوا تھا ہیام جو گھر میں کسی کے قابو نہیں آتی تھی۔۔۔۔شہریار کی ایک دھار پر ڈر کر کمرے سے نہیں نکلتی تھی۔۔
اور آج بھی یہی ہوتا تھا مگر اب ہیام اس سے لڑ جاتی تھی۔۔آگے آٶ۔۔۔۔اور وہ سنی ان سنی کر کے کھڑکی سے باہر ہوتی بارش جو اب ہلکی ہوگی تھی۔۔اسے دیکھنے لگی۔۔
ہیام آگے آٶ۔۔۔اب شہریار دھاڑا تھا۔۔۔جس سے وہ ڈر کر آگے جاکر بیٹھ گی۔۔اور ابھی وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔۔۔
شہری نے اسے اپنی طرف کھنچتے ہوۓ کہا۔۔جب میں تمھارے ساتھ ہوں تو یہ اپنا سستا اٹیٹیوٹ گھر پر چھوڑ کر آیا کرو۔۔۔
آپ کبھی تمیز سے بات نہیں کر سکتے۔۔۔شہریار گاڑی کو گھوماتے ہوۓ اسے دیکھ کر ہنسنے لگا۔۔۔
دنیا کی سب سے بدتمیز لڑکی کہہ رہی ہے مجھ سے تمیز سے بات کرو۔۔حیرت کی بات ہے۔۔
آپ مجھے بدتمیز کہہ رہے ہیں۔۔۔جو جیسا ہے اسے وہی کہیں گے نہ۔۔۔وہ پھر منہ پھیڑ کر بیٹھ گی۔۔۔
اچھا ذرا یہ تو بتاٶ یہ وین میں نہ جاکر کہاں گھومتی تھی۔۔کہی نہیں جھوٹ بولتا ہے وہ وین والا۔۔
میں یہ تو مان سکتا ہو کہ تم جھوٹ بول رہی ہو۔۔مگر وہ۔۔شہریار بولتے بولتے روکا۔۔
اچھا مطلب آپکی بیوی جھوٹ بول رہی ہے آپ سے اور وہ وین والا تو چچا کا بیٹا ہے نہ تمھارا۔۔
شہریار اسکے تم کہنے پر اسے گھورنے لگا اور ابھی بولنے ہی والا تھا کہ فون بجا نمبر دیکھ کر ماتھے پر شکن آگی۔۔
ہیام کو خاموش رہنے کا کہہ کر گاڑی سے باہر نکل گیا۔۔۔ اور واپس آکر کار بھاگانے لگا۔۔
آرام سے چلاٸیں۔۔بارش ہورہی ہے پھسل نہ جاۓ۔۔۔اور وہ نو لفٹ کا بورڈ لگاۓ گاڑی چلاتا گیا۔۔
عجیب۔۔۔اور ہیام منہ موڑ کر بیٹھ گی۔۔۔اور گھر آتے ہی نکل کر بھاگ گی اور وہ بھی کار ریورس کرتا اپنے کام سے جانے لگا۔۔۔
**********
آپ نے بلایا صاحب جی۔۔۔۔۔کہاں تھا چیتے سامنے بیٹھا شخص کڑاہت سے اسے دیکھتے ہوۓ پوچھنے لگا۔۔۔۔۔
صاحب جی مال کی تلاش میں نکلا تھا۔۔آپکو تو پتا ہے کتنا ڈھونڈنا پڑتا ہے۔۔۔
اس دفعہ بہت ڈھونڈ کے لایا ہوں۔۔بہت پیسا ملے گا۔۔ہہہہمممم دیکھتے ہیں۔۔۔کل رات کو مال پہنچانا ہے۔
سخت نگرانی میں کام ہوناچاہیے پولیس سے بھی بات کرلینا پیسے مار کر منہ بند کروا دینا۔۔۔
جی صاحب جی میں نکلوں۔۔۔مقابل بیٹھا شخص اپنے ہاتھ کے اشارے سے جانے کا کہہ کر کش لگانے لگا۔۔
**********
رات کے کھانے کے بعد سب ڈراٸنگ روم میں بیٹھے تھے۔۔آج عفان کی دعوت رکھی تھی جو شہریار کا لندن کا دوست تھا تین سال دونوں نے وہاں پڑھ کر گزارے تھے اور کچھ دن پہلے واپس آۓ تھے تو سلطانہ ہاوس کے لوگوں سے گھل مل گے تھے۔۔۔
بھاٸی آپ کے دوست آۓ ہیں۔۔۔اور کوٸی ہمارے اسلام آباد آۓ اور ہم اسے اپنا شہر نہ گھوماٸیں ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔عفاف نےتیر چلایا اور دانیال بھی اسکے ساتھ مل گیا۔۔۔۔
اسلام آباد گھومنے کی بات پر عفان نے شہریار کو دیکھا اور دونوں مسکرانے لگے
ہاں بھاٸی چلیں نہ مارگلہ چلتے ہیں کتنے مہینے گزرے ہم مارگلہ ہلز نہیں گے ہیں۔۔اور ہے بھی صرف مشکل سے پچس منٹ کی دوری پر ۔وہاں سب گھومنے کی پلانگ کر رہے تھے۔۔
ایمان سب کے لیے چاۓ بنا کر لاٸی۔۔۔محراب کی نظریں بار بار ایمان پر جا رہی تھی۔۔۔اور یہ بات کلثوم بیگم کی نظروں سے بچ نہیں سکی۔۔۔
خالہ چاۓ۔۔۔
ایمان جب کلثوم بیگم کو چاۓ دینے لگی۔۔۔۔انھوں نے نفرت بھری نظر سے دیکھا اور چاۓ لینے سے منع کر دیا۔۔۔
ایمان بیٹا عفان کو چاۓ دو۔۔۔۔اسے تمھاری ہاتھ کی چاۓ بہت پسند ہے۔
جی نانو۔۔۔وہ تعبداری سے بولتی عفان کو چاۓ دینے لگی۔۔اور محراب اپنے غصے پر قابو کرنے کے لے سر جھکا گیا۔۔
دادو آپ بولیں نا شہری بھاٸی کو لے جاٸیں ہمیں۔۔۔سب ضد کرنے لگے اور ان میں اب ہیام بھی شامل ہوگی تھی۔۔۔اور اسے بچوں کی طرح دادی کے ہاتھ پکڑ کر مناتا دیکھ کر شہریار بےحد پیار آیا۔۔۔
ہاں لے جاٶ ان سب کو بھی کبھی کہی نہیں جاتی میری معصوم بچیاں۔۔۔جی دادو میں نے کب منع کیا ہے۔۔ شہریار تعبداری سے کہنے لگا۔۔۔
ایمان بیٹا تم بھی تیار ہوجانا۔۔۔
جی نانو۔۔۔اور سب چاۓ پی کر اپنے اپنے کمروں میں چلے گیے کل صبح سات بجے نکلنے کا پروگرام بنا تھا۔۔۔
**********