ہائے وہ شخص میرا تھا
تھا کا مطلب تو سمجھتے ہو
سردیوں کی ڈھلتی ہوئی شام تھی پرندے دن بھر دانہ چگنے کے بعد واپس اپنے گھونسلوں کی طرف جارہے تھے
لوگ بھی اوور کوٹ پہنے خود کو مکمل طور پر گرم لباس میں چھپائے جلدی جلدی اپنی منزلوں کی طرف بڑھ رہے تھے
انہیں اپنی منزلوں پر جانے کی جلدی تھی
یا یہ خود کو گرم رکھنے کا ایک زریعہ تھا
پر وہ تو ہر چیز سے بے نیاز تھی نا ہی اسے منزل پر پہنچنے کی جلدی تھی اور نا ہی اسے سردی محسوس ہو رہی تھی
اسکی حسیات تو ایسے جیسے مرچکی تھی
سردی تو زندہ لوگوں کا لگتی ہے پر وہ تو ایک زندہ لاش کی طرح تھی
منزل پر پہنچنے کی جلدی تو ان لوگوں کو ہوتی ہے جن کا کوئی انتظار کررہا ہو
اسکا انتظار بھی تو کسی کو نہیں تھا
لیکن
اسکی یہ سوچ غلط تھی بہت سے لوگ تھے جو اسکا انتظار کررہے تھے جو اس سے محبت کرتے تھے اسکی سانسوں کی ساتھ سانسیں لیتے تھے
پر اسکے چہرے پر بیزاری تھی جو شاید اسکی زات پر بھی چھائی تھی
اسکے چہرے سے ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی خوف اسکے دل میں ناگ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھا ہو
کسی سے بچھڑ کا ڈر کسی اپنے کو کھو دینے کا خوف
اور یہ خوف دھیرے دھیرے اسکی سانسیں کھینچ رہا تھا
کتنی ہی دیر وہ ناجانے ایسے ہی بیٹھی رہتی کسی گاڑی کے تیز ہارن نے اسے چونکا دیا تھا
اس نے بے دردی سے اپنی آنکھیں رگڑ ڈالی
اور اُٹھ کے اپنی منزل کی طرف بڑھ گئ
شاید اسے یاد آگیا تھا کہ کوئی ہے جو اسکا شدت سے انتظار کررہا ہے
اور اس سے بچھڑنا میرا آخری خوف تھا
آج وہ بھی ختم ہو گیا
ملک ہاؤس میں ہر طرف گہما گہمی پائی جاتی
ہر طرف ہر وقت رونق سی ہوتی ملک ہاؤس میں ہر طرف خوشیوں کا راج تھا غموں کا دور دور کوئی بسیرا ناتھا یا غموں کو اس گھر کا راستہ بھول گیا
ملک صاحب تین بھائی تھے ملک صاحب سب سے بڑے تھے ملک صاحب پندرہ سال کے تھے کہ انکی باپ اور چچا ہی دشمنی میں لڑائی ہو گئی
ملک صاحب کی والدہ خدیجہ خاتوں نے گاؤں چھوڑا ساری جائیداد بیچی
اپنے چار بچوں اور ایک بھتیجے اور بھتیجی کولیے شہر آگئی
خدیجہ خاتوں کی دیورانی اپنی بیٹی کی پیدائش کے وقت ہی اپنے خداوند حقیقی سے جاملی
وہ اپنے بچوں کو ان دشمنیوں کے بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتی تھی
اسلیِے سب بیچ کے شہر چلی آئی ملک صاحب چونکہ سب سے بڑے تھے وہی اپنی ماں کا سہارا بنے
ملک صاحب کا اصلی نام احمد ملک تھا اسکے بعد خرم ملک اس سے چھوٹی ابیہا ملک اور سب سے حمزہ ملک
خدیجہ خاتون کی بھتیجے اور بھتیجی کا نام
ماحد ملک اور سارہ ملک
خدیجہ خاتوں نے ان دونوں بچوں کو بھی اپنی اولاد سمجھا
اور بڑے ہوتے ہی انکی شادیاں آپ میں کر دی
احمد ملک چونکہ سب سے بڑے تھے
تو انکے لیے وہ اپنی بھائی کی بیٹی سعدیہ لے آئی
سارہ ملک کو خرم ملک کی بیود بنا دیا
اسی طرح ابیہا ملک اپنی بیٹی کو ماحد ملک کی دلہن بنادیا
حمزہ ملک کیلئے رشتہ داروں میں سے لڑکی پسند کی اور یوں ہما حمزہ کی دلہن بن کر اس گھر آگئی
سب اسی گھر میں رہتے تھے اور سب اپنا اپنا بزنس سنبھال رہے تھے
احمد صاحب کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا
حماس ملک اور ہمیرا ملک تھے
خرم ملک کی ایک بیٹی حور ملک
ملک ہاؤس کی جان تھی
حمزہ ملک کے دو بیٹے ثوبان ملک اور سبحان ملک تھے دونوں جڑواں تھے پر صرف نام کے
اسکے بعد ماحد ملک کی ایک بیٹی سحر ملک حور کی ہم عمر اور بیسٹ فرینڈ
اور ایک بیٹا آذر ملک تھا
سب ہر جگہ ایک ساتھ پائے جاتے اور ایک دوسرے کی جان تھے
ہمیرا اور سبحان ہم عمر تھے اس لیے بچپن میں انکا رشتہ طے کر دیا گیا
ثوبان حور اور سحر سے تین سال بڑا تھا
سب جانتے تھے کہ حور اور ثوبان ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں
لیکن کبھی اظہار نہیں کیا تھا ہمیشہ دوستوں کی طرح رہے
گھر میں ہمیرا اور سبحان کے نکاح کی تیاریاں شروع تھی
اس لیے ہر طرف رونق تھی
حور اُٹھ جا یار ثوبان کو بول شاپنگ پر چلیں سحر بولی
تو تو خود بول لیں حور نے آنکھیں مندھے جواب دیا
میری نہیں مان رہا وہ تیری نہیں مان رہا تو میری تو جیسے مان لے گا نا
میرے تو جیسے مامے کا پتر ہے حور نے تڑخ کر جواب دیا
مامے کا نا سہی چاچے کا تو ہے نا
تو تیرے بھی تو تائے کا ہے خود بولے
پر وہ تیری مان لے گا نا اُٹھ جا حور کی بچی میں نے تیرا سر پھاڑ دینا
او ہیلو مس میرہ بات سنو کان کھول کے مجھے جو مرضی بول لو پر خبر دار اگر میری بچی کو کچھ کہا
میں اپنے بارے میں سب سن سکتی ہون
لیکن اپنی اولاد کے بارے میں نہیں بہت محبت سے رکھنا میں نے اپنی اولاد کو
جبکہ سحر تو دیدے پھاڑے حور کی بات س رہی تھی کہ کونسی بچی کی بات ہو رہی ہے
جبکہ سحر کے ساتھ حور کے روم میں داخل ہوتا ثوبان بھی ٹھٹکا
کہ حور کی بچی کہاں سے آگئی
ککک کونسی بچی سحر اچھنبے سے بولی
تتتت تجھے ہمارے منہ پر کالک ملتے شرم نا آئی ہم تجھے اسلئے پڑھنے بھیجتے ہیں سحر تو سر پکڑ کر بیٹھ گئی
اوئے میں اس بچی کی بات کر رہی ہوں جو میری شادی کے بعد پیدا ہوگی حور شرماتے ہوئے بولی
جہاں سحر نے اسے گھورا وہی ثوبان نے بھی اپنا رُکا سانس بحال کیا
حور انتہائی بے شرم واقع ہوئی ہو تم شرم تو تمہین چھو کے بھی نہیں گزرت
سحر گردن ہلاتے ہوئے افسوس سے بولی
ارے بھئی چھوئیں گی بھی کیوں نامحرم ہے میرے لیِے
حور کی بات پر ثوبان نے بامشکل اپکی مسکراہٹ دبائی
آؤ ثوبان پلیز سحر کو شاپنگ کیلئے لے جاؤ
حور ثوبان کو دیکھتے ہوئے بولی
لے جاؤ گا پر ایک شرط پر
کیسی شرط
تم بھی ساتھ چلو گی تو کیوں تمہارا میرے ساتھ نکاح ہوا ہے
جو تم میرے بغیر نہیں جا سکتے حور چٹخ کر بولی
ہوا تو نہیں
پر تم کہو گی تو کر لیتے ہیں سبحان کے ساتھ ہی یہ نیک کام کر لیتے ہیں
سحر وہاں سے اُٹھ کر چل دی
جبکہ
حور نے ثوبان کو گھورا
ہوں شادی ابھی ہوئی نہیں اور بیویوں کی طرح گھوریاں پہلے ڈالنے لگی ہو
ثوبان آنکھوں میں شرارت لیے بولا
چلو نکلو یہاں سے میں فریش ہیچ کر آتی ہوں
حور اپنی خفت مٹاتے ہوئے بولی
خدایا کیوں مجھ سے برداشت نہیں ہوتا
کیسے ہو گیا یہ سب کب کیسے مجھے محبت ہو گئی ثوبان سے جبکہ میں جانتی ہون حور اور ثوبان ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں
کیسے یہ گناہ ہوگیا مجھ سے
کیسے میں اپنی دوست سے اسکی خوشیاں چھین سکتی ہوں
خدا میری مدد کر مجھے اس مصیبت سے نکال دے
کیا سوچے گی حور کہ مجھ سے اپنی دوست کی خوشیاں برداشت نہیں ہوئی
اب اور بھی بھاؤ بڑھے گا عشق کا بازار عشق میں
سنا ہے دو لوگوں نے ایک ہی محبوب چن لیا ہے
یار آجکل دوست نہیں ہوتے آستین کے سانپ ہوتے ہیں شکر ہے خدا کا مجھے تو مل گئی ورنہ کوئی سانپ ملنا تھا
سحر کے کانوں میں حور کے الفاظ گردش کرنے لگے
ننننن نہیں میں ایسا کیسے کر سکتی ہوں
مممم میں سانپ نہیں ہوں میں حور کی دوست ہوں مممم میں سانپ ککککک کیسے بن سکتی ہوں
نننن نہیں میں ایسا نہیں کرسکتی مجھے اس محبت کو یہی ختم کرنا ہوگا
بھول جا سحر ثوبان صرف حور کا ہے وہ دونوں ایک دوسرے کیلئے بنے ہیں سحر اپنی آنکھوں کو بے دردی سے مسلتے ہوئے بولی