وہ ساری رات اس نے خوف میں مبتلا رہ کر گزاری… حسن سے وہ اس معاملے کو ڈسکس کر سکتی تھی لیکن آج کل ان دونوں کے ملنے پر سخت پابندی لگا دی گئ تھی… کسی اور کو وہ اصل بات بتانا نہیں چاہتی تھی کیونکہ وہ جان چکی تھی کہ اس کے ساتھ ہونے والے پے در پے واقعات پر تائ اماں حسن کے ساتھ اس کا رشتہ کروانے پر پچھتانے لگی ہیں… اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ اب مہمانوں کی موجودگی میں شادی پر کسی قسم کی کوئ بدمزگی ہو… مہرالنساء کو وہ بتا نہیں سکتی تھی کہ وہ پہلے ہی بلڈ پریشر کی مریضہ تھیں… ذرا سی بات کو دل پر لے کر گھنٹوں روتی رہتیں اور اپنی طبیعت خراب کر کے بیٹھ جاتیں… گھر میں مہمان جمع ہو چکے تھے… ایسے میں کوئ راستہ سجھائ نہ دے رہا تھا کہ کرے تو کیا کرے…
بہر حال وہ ساری رات اس نے جاگ کر گزاری… کبھی اٹھ کر ٹہلنے لگتی… کبھی بیڈ پر بیٹھ کر سر ہاتھوں میں گرا لیتی… پھر اٹھ کر اس نے واش بیسن سے کپڑا گیلا کیا اور ڈریسنگ مرر کو اچھی طرح رگڑ رگڑ کر صاف کیا کہ اگر صبح ہونے پر کومل وغیرہ نے یہ سب دیکھا تو سو سوال پوچھیں گی اور اگر انہیں کسی بات کی ذرا سی بھی بھنک پڑ گئ تو تائ اماں کو خبر ہوتے دیر نہیں لگے گی…
صبح وہ جلدی اٹھ کر ناشتے کی لیے باہر نہ آئ تو مہرالنساء ٹرے میں ناشتہ سجاۓ اس کے کمرے میں ہی چلی آئیں… آکر دیکھا تو وہ ابھی تک بستر میں دبکی تھی… مہرالنساء کا حیران ہونا بنتا تھا کہ وہ سحر خیز تھی… صبح جلدی اٹھ کر فجر ادا کرنے کے بعد ایک کپ چاۓ پینا اس کے معمول میں شامل تھا… لیکن آج شاید اس نے نہ تو نماز ادا کی تھی اور نہ ہی چاۓ کا کوئ کپ کمرے میں نظر آ رہا تھا..
مہرالنساء نے کھڑکیوں کے پردے کھینچے تو سورج کی روشنی کمرے میں پھیل گئ…
“ہانیہ… “پردے باندھتے ہوۓ انہوں نے ہانیہ کو آواز دی لیکن کوئ جواب نہ ملا…
“ہانی اٹھو بیٹا… دیکھو ساڑھے دس ہو رہے ہیں… اٹھ کر ناشتہ کر لو پھر مجھے اور تمہاری تائ اماں کو جیولر کے ہاں بھی جانا ہے…” انہوں نے ایک بار پھر اسے پکارا… اور چلتی ہوئیں بیڈ کی طرف آئیں… ہانیہ ابھی تک مدہوش سی تھی…
“ہانی… کیا ہوا ہے…؟؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمہاری..؟؟” محبت سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوۓ اس کے بالوں کو سنوارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا لیکن ہاتھ پیشانی سے مس ہوتے ہی ہانیہ کے بخار کی شدت کا اندازہ ہوا…
“اف میرے خدایا… تمہیں تو بہت تیز بخار ہے… اتنے شدید بخار میں تپ رہی ہو… کسی کو بتایا کیوں نہیں بیٹا… ” شدید پریشانی کے عالم میں وہ کبھی اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھتیں تو کبھی اس کی کلائ تھام کر دیکھتیں… پورا جسم گرم ہو رہا تھا…
“ہانیہ… آنکھیں کھولو بیٹا…” اس کے گال تھپتھپاتے ہوۓ اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی…
ہانیہ نے بمشکل آنکھیں کھولیں… لیکن سر بھاری ہونے کے باعث پھر آنکھیں بند کر گئ…
“مما…” اس کے لبوں سے سرسراہٹ کے سے انداز میں برآمد ہوا… جبکہ چہرہ بخار کی شدت سے سرخ پڑ رہا تھا…
“جی مما کی جان… کیا ہو گیا ہے تمہیں… پتا نہیں کس کی نظر لگ گئ ہے میری بچی کو…. “مہرالنساء باقاعدہ رونے لگی تھیں…
ہانیہ نے تکلیف کے عالم میں ان کی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھے… پھر بمشکل ہاتھ بڑھا کر ان کے آنسو اپنے ہاتھ سے پونچھ ڈالے…
“روئیں مت مما… مم…. میں ٹھیک ہوں…” فقط ان کی تسلی کی خاطر وہ کہتی ہوئ ان کی گود میں سر رکھ گئ… ساتھ ہی آنکھیں بھی موند لیں تھیں…
“نظر آ رہا ہے مجھے کتنی ٹھیک ہو تم… اٹھو, اٹھ کر منہ دھو لو… ناشتہ لائ ہوں تمہارے لیے… کچھ کھا لو… تب تک میں تمہارے بابا یا محسن کو بھیجتی ہوں ڈاکٹر کو بلا کر لاۓ… کل مہندی ہے اور کیا حال ہوا پڑا ہے میری بچی کا… ” مہرالنساء کے لہجے میں ایک ماں کی تڑپ واضح محسوس ہو رہی تھی…
ہانیہ کے انکار کرنے کے باوجود مہرالنساء اسے سہارا دیتے ہوۓ واش بیسن تک لائیں… منہ دھونے میں مدد کی.. پھر اپنے ہاتھوں سے اسے ناشتہ کروایا… کچھ آج کل بیٹی کی رخصتی کے باعث ان کا دل دکھی تھا کہ بیٹی پرائ ہو رہی ہے… اور کچھ اس کی طبیعت نے پریشان کر رکھا تھا… ہانیہ کی روز بروز بگڑتی حالت دیکھ کر جیسے ان کا کلیجہ منہ کو آتا… ہانیہ نے بے بسی سے ماں کا چہرہ دیکھا… وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ ایسا کیا کرے وہ کہ اس کے پیرنٹس کی پریشانیاں ختم ہو جائیں…
دو نوالے لینے کے بعد ہی اس میں بیٹھنے کی سکت نہ رہی تو وہ ہاتھ سے ناشتہ پرے کرتے لیٹ گئ… نقاہت کے باعث آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا رہا تھا…. مہرالنساء آنسو چھپاتیں باہر نکلیں… شفیق صاحب کو اس کی حالت کے بارے میں بتایا تو وہ فوراً ڈاکٹر کو فون کرنے لگے… دس سے پندرہ منٹ بعد ڈاکٹر آۓ… چیک اپ کیا… میڈیسن دی اور چلے گۓ…
تقریباً سہ پہر کے وقت کہیں جا کر بخار کا زور ٹوٹا… تب اسے تھوڑا ہوش آیا… بستر پر لیٹے لیٹے کمر تختہ ہو رہی تھی… مما کے منع کرنے کے باوجود وہ اٹھ کر باہر سب کے ساتھ بیٹھ گئ… سب میں موجود ہوتے ہوۓ بھی وہ ذہنی طور پر کہیں اور پہنچی ہوئ تھی… یہ بات سمجھ میں ہی نہ آ رہی تھی کہ آخر کرے تو کیا کرے… رات کو اس بتائ گئ جگہ پر جاۓ یا نہیں… دل و دماغ الجھ کر رہ گۓ تھے… وہاں جانے سے بھی ڈر لگتا تھا… کہ نہ جانے کیا حالات پیش آئیں وہاں… لیکن وہ جانتی تھی اس کے سب سوالات کے جوابات اسی جگہ ملیں گے اسے… اپنی حالت سے وہ خود شدید پریشان ہو چکی تھی… اوپر سے مما بابا کے پریشان چہرے اس کا دل دکھاتے… یہ احساس کچوکے لگاتا کہ اس کی وجہ سے وہ دونوں بھی اذیت سے گزر رہے ہیں… تو کیا ان سب سوالات کے جوابات حاصل کرنے اور اس نادیدہ قوت سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس واحد راستے پر چلنا چاہیے اسے…؟؟ ایک بہت بڑا رسک تھا یہ… لیکن پہلے بھی اپنی من مانی کرتے ہوۓ بغیر کچھ سوچے سمجھے وہ اس پرانی عمارت میں چلی گئ تھی… اگر اب دوبارہ ایسا کچھ ہوا تو…؟؟ اگر وہاں جانے سے حالات زیادہ خراب ہو گۓ تو…؟؟ وہ جھجھری سی لے کر رہ گئ… رات کا جو وقت بتایا گیا تھا اس وقت گھر سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا… وہ بھی اس صورت میں جب گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا… وہ نظر بچا کر کسی صورت نہیں نکل سکتی تھی… اور دوسری بات اگر گھر سے نکل بھی جاتی تو ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت پر SP Fort تھا… پیدل وہ جا نہیں سکتی تھی اور رات کے دوسرے پہر سواری کہاں سے ملتی… عجیب مصیبت میں پھنس کر رہ گئ تھی وہ…
بالآخر دل میں وہاں نہ جانے کا مصمم ارادہ کر لیا اس نے… فیصلہ کر لینے کے باوجود دل عجب بےچینی, اضطراب اور خوف کے حصار میں جکڑا ہوا محسوس ہو رہا تھا… نہ جانے کیا ہونے والا تھا آج رات…
رات میں ڈنر کرتے ہی عورتیں کل کے مہندی کے فنکشن کی تیاریوں اور انتظامات کا ذکر چھیڑ چکی تھیں… جبکہ لڑکیاں ڈھولک رکھ کر بیٹھ گئیں… زبردستی ہانیہ کو بھی کھینچ کر ساتھ بٹھا لیا گیا…. ان کے گانوں اور ٹپوں کے ساتھ ساتھ ان کی چھیڑ چھاڑ پر ہانیہ بمشکل مسکراہٹ چہرے پر سجا پائ… ورنہ دل چاہ رہا تھا ان سب سے کہیں دور جا کر چھپ جاۓ… جہاں دنیا کا کوئ فرد اسے نہ دیکھ سکے… جہاں وہ ہر آنکھ سے اوجھل ہو جاۓ… ان دنوں کے حوالے سے کبھی اس نے ڈھیروں خواب سجاۓ تھے لیکن کیسے حالات ہو گۓ تھے کہ وہ سب خواب دھرے کے دھرے رہ گۓ… وہ جو اتنی شوخ و چنچل لڑکی ہوا کرتی تھی اب مسکرانے سے بھی ڈرنے لگی تھی…
تقریباً پونے ایک بجے اسے کمرے میں جانے کی اجازت دی گئ… کیونکہ وہاں بیٹھے سب افراد نیند میں جھوم رہے تھے… کمرے میں آ کر اس نے اچھی طرح کھڑکیاں چیک کیں… سب کھڑکیاں بند تھیں… اپنے دل کے وہم سے مجبور ہو کر اس نے کمرے کا کونا کونا چھان لیا کہ کہیں کوئ غیر معمولی چیز تو نہیں کمرے میں… لیکن سب نارمل تھا… ہر طرف سے مطمئین ہوتے ہوۓ اس نے دروازہ اچھی طرح بند کر دیا… لائٹ بھی آن رہنے دی آج… اضطراب کے عالم میں انگلیاں مروڑتی وہ بار بار وال کلاک کی جانب دیکھنے لگتی… کمبل میں دبک کر کئ بار سونے کی کوشش کی… لیکن نیند جیسے اس سے صدیوں کی مسافت پر تھی… وہ خوف کے باعث سکڑ کر لیٹی تھی… پہلے دل چاہا اٹھ کر مما بابا کے کمرے میں چلی جاۓ… لیکن پھر یہ خیال اسے روک گیا کہ خوامخواہ وہ پریشان ہو جائیں گے… اور پھر کیا وجہ بتاۓ گی انہیں اپنے آنے کی… اسی سوچ میں وہ اپنا یہ خیال بھی رد کر گئ… تقریباً سوا دو بج رہے تھے جب اسے ایک دم شدید پیاس کا احساس ہوا… سائیڈ ٹیبل پر دیکھا تو جگ اور گلاس دونوں غائب تھے… وہ حیران ہوئ… شاید مما آج اس کے روم میں پانی رکھنا بھول گئ تھیں… کمرے سے باہر جانے سے ڈر لگ رہا تھا تبھی اس نے سختی سے آنکھیں میچ کر سونے کی کوشش کی… لیکن حلق میں تو گویا کانٹے اگ آۓ تھے… جب کسی طرح سکون نہ ملا تو وہ جھنجھلا کر اٹھ بیٹھی… کلاک کی جانب نگاہ دوڑائ تو دو بج کر بیس منٹ ہو رہے تھے… ہمت مجتمع کرتی وہ اٹھی… سلیپرز پیروں میں اڑس کر بغیر آواز پیدا کیے دروازہ کھولا… اور سر باہر نکال کر محتاط نظروں سے ادھر ادھر دیکھا… باہر لاؤنج کی لائٹس آف تھیں… چار سو خاموشی چھائ تھی… اس نے کمرے کا دروازہ پورا کھول دیا… تو کمرے میں جلتی لائٹ کی ہلکی ہلکی روشنی باہر آنے لگی… گہرا سانس بھرتی وہ خود کو مضبوط بناتی دوپٹہ کندھے پر ٹکا کر کچن کی جانب بڑھ گئ… وہاں بھی کسی غیر معمولی چیز کو نہ پا کر اس نے شکر کا سانس لیا… پانی کا گلاس لبالب بھر کر اسے ہونٹوں سے لگایا تو بغیر سانس لیے ہی اسے ختم کر گئ… جانے یہ پیاس کی شدت تھی یا خوف کا اثر… اسے مزید پانی کی طلب محسوس ہونے لگی… دوبارہ گلاس میں پانی انڈیلنے لگی تو یونہی کچن کی کھڑکی سے باہر نظر آتے لان میں کسی سایے کا گمان ہوا… وہ چونکی… بوتل بند کی… تبھی وہ جو کوئ بھی تھا وہ کچن کی کھڑکی میں آ دھمکا…
“حسن تم… اس وقت…؟؟” ہانیہ کی تو چینخ نکلتے نکلتے رہ گئ… وہ اس ساۓ کو دیکھ کر نہ جانے کیا کیا سوچ چکی تھی… دل ایک دم تیز تیز دھڑکنے لگا…
“ہانیہ… باہر آؤ یار…تم سے ضروری بات کرنی ہے…” حسن نے آواز دبا کر کہا… کہ کہیں کوئ جاگ نہ جاۓ…
“تم پاگل تو نہیں ہو حسن… رات کے اس وقت یوں چوروں کی طرح آنے کی کیا ضرورت تھی… مرواؤ گے تم …” وہ آنکھیں نکال کر اسے گھورنے لگی…
“ارے یار… بعد میں گھور لینا… پہلے باہر تو آؤ… دن میں تو کوئ ملنے نہیں دیتا تم سے… تو رات کو آنا مجبوری تھی… کتنے دن ہو گۓ تمہیں دیکھا تک نہیں… قسم سے ترس گیا ہوں اپنی ہی بیوی کو ایک نظر دیکھنے کو… جلدی آ جاؤ باہر… میں گھر کے پچھلی طرف تمہارا ویٹ کر رہا ہوں…. ” وہ ہلکی آواز میں جلدی جلدی کہہ کر وہاں سے چلا گیا… ہانیہ کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا…
ہانیہ لب کاٹتی ہوئ وہیں کھڑی رہ گئ… دل تو اس کا بھی بہت چاہ رہا تھا حسن سے ملنے کو… اور پھر آج اگر وہ آ ہی گیا تھا تو ہانیہ اس سے اپنی پریشانی شئیر کر سکتی تھی… ہو سکتا ہے کہ وہ کوئ حل نکال لے اس سب کا… یہی سوچ کر وہ دوپٹا کندھوں پر درست کرتی بالوں میں ہاتھ چلا کر انہیں درست کرتی باہر نکل گئ… چوکنّی نگاہوں سے ایک بار ادھر ادھر دیکھا… سب خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے… وہ بنا کوئ آہٹ پیدا کیے لاؤنج کا دروازہ عبور کرتی باہر نکل آئ… اب اس کا رخ بھی گھر کی پچھلی طرف تھا جہاں چند قدآدم درخت لگے تھے… اسے دور سے ہی حسن کی پشت دکھائ دی… لبوں پر خوبصورت مسکان سجاۓ وہ اس کی جانب قدم بڑھانے لگی… آہستہ آہستہ چلتی وہ حسن کی پشت پر آن ٹھہری لیکن حسن نے اس کی جانب رخ نہیں موڑا… شاید اسے ابھی تک ہانیہ کے آنے کی خبر نہ ہوئ تھی…
“ہاؤ…” ہانیہ نے اس کے کان کے قریب ذرا اونچی آواز میں کہا… مقصد اسے ڈرانا ہی تھا… ساتھ ہی وہ خود بھی اپنی اس بچگانہ حرکت پر ہنسنے لگی… حسن نے اس کی جانب رخ موڑا تو ہانیہ کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں… منہ سے چینخ نکلنے ہی والی تھی جب سامنے کھڑے اس وجود نے ہانیہ کی پیشانی کے درمیان میں اپنی انگلی رکھی… ہانیہ کو لگا جیسے اس کی آواز حلق میں ہی گھٹ کر رہ گئ ہو… دہشت سے آنکھیں پھٹنے کے قریب تھیں… سامنے جو وجود کھڑا تھا اس کی آنکھیں سرخ تھیں… گہری سرخ… جیسے ان سے خون ٹپک رہا ہو… چہرہ بھی عجیب سا تھا… جیسے بے شمار جھریاں پڑی ہوں… اور وجود سے اتنی تپش اٹھ رہی تھی کہ ہانیہ کو لگا وہ جھلس کر رہ جاۓ گی…. چند ہی لمحے لگے تھے جب ہانیہ کو اپنا ذہن غنودگی میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوا… آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا چھایا تھا… پھر اسے یوں لگا جیسے اس کا وجود ہوا میں معلق ہو کر رہ گیا ہو…. جیسے وہ ہوا میں اڑ رہی ہو… بہت تیزی سے… وہ آنکھیں کھولنا چاہ رہی تھی لیکن خود اپنے وجود پر کوئ اختیار نہ رہا تھا اس کا… اسے اپنا آپ ان دیکھی زنجیروں میں جکڑا ہوا محسوس ہونے لگا…
کچھ ہی دیر بعد اسے لگا جیسے ہر چیز تھم سی گئ ہو… اسے اپنا وجود بہت ہلکا پھلکا سا محسوس ہونے لگا… دل سے ڈر اور خوف محو ہونے لگا… تھوڑی سی تکلیف کے بعد وہ اپنی آنکھیں کھولنے میں کامیاب ہو گئ… اور جب سامنے نگاہ پڑی تو منظر دیکھ کر اسے شدید حیرت کا جھٹکا لگا… سامنے SP Fort موجود تھا… شیخوپورہ کا وہ پرانہ قلعہ… جو آسیب ذدہ مشہور تھا.. جس کےقریب سے لوگ خوف کے مارے شام کے بعد گزرتے تک نہ تھے… بہت سی کہانیاں مشہور تھیں اس قلعے کے بارے میں.. جو نہ جانے سچی تھیں یا جھوٹی… لیکن اب ہانیہ اس قلعے کے بالکل سامنے موجود تھی… اس نے تیزی سے اپنی کلائ میں موجود گھڑی دیکھی… جہاں اب پورے اڑھائ بجے کا وقت تھا… جبکہ کچن میں جب وہ پانی پی رہی تھی اس وقت دو بج کر پچیس منٹ ہو رہے تھے… دو سے تین منٹ حسن سے بات کرتے اور لان میں جاتے ہوۓ بھی لگے ہوں گے اسے… تو کیا دو گھنٹے کا طویل سفر اس نے فقط دو منٹ میں طے کر لیا تھا… حیرت ہی حیرت تھی… بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے… صرف دو منٹ میں اتنا سفر طے کر پانا کیسے ممکن تھا… وہ الجھ رہی تھی… دل میں ایک دم خوف کی شدید لہر اٹھی… اس نے واہس مڑ کر وہاں سے بھاگنا چاہا جب ایک گرجدار آواز پر اسے رکنا پڑا…
“رکو…” اور ہانیہ کے قدم وہیں رک گۓ… اس نے آگے بڑھنا چاہا, اس قلعے سے دور جانا چاہا لیکن یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے قدم زمین نے جکڑ لیے ہوں… وہ چاہ کر بھی قدم نہیں اٹھا پا رہی تھی… پھر نہ جانے کس چیز نے اسے مڑنے پر مجبور کیا تھا… اس نے نگاہیں اٹھا کر پھر قلعے کی جانب دیکھا… قلعے کے سامنے بنے چھوٹے سے چبوترے پر اسے کوئ بیٹھا ہوا دکھائ دیا… اپنے وجود پر چادر لپیٹے… اس کی جانب پشت کیے… اس سے کچھ ہی فاصلے پر وہ شخص بھی ہاتھ باندھے غلاموں کی طرح کھڑا تھا جسے ہانیہ نے لان میں دیکھا تھا اور شاید وہی اسے یہاں تک لے کر آیا تھا… البتہ اس نے بھی ہانیہ کی طرف سے رخ پھیر رکھا تھا شاید اس نیت سے کہ ہانیہ کو خوف محسوس نہ ہو…
“ادھر آؤ…” آواز اس بار بے حد نرم تھی… اور چبوترے پر بیٹھا وجود ہی اس سے مخاطب تھا… ہانیہ نے سختی سے آنکھیں میچتے ہوۓ تھوک نگلا… پورے بدن پر لرزش طاری ہو چکی تھی… اس کے ہونٹ تک کپکپا رہے تھے… سرد موسم ضرور تھا… لیکن اس وقت اسے سردی کا کوئ احساس نہ تھا.. خوف ہر چیز پر غالب تھا…
“ڈرو مت… آگے بڑھو… کچھ نہیں ہو گا تمہیں… صرف چند ضروری باتیں کرنی ہیں تم سے… جتنی جلدی مان جاؤ گی اتنی جلدی یہاں سے گھر واپس جا سکو گی… ” دوبارہ وہی خوبصورت مردانہ آواز سنائ دی تھی… ہانیہ الجھی… یہ آواز پہلے بھی کہیں سنی سنائ لگ رہی تھی… تو کیا وہ اس شخص کو پہلے جانتی تھی…؟؟ کہاں سنی ہو گی یہ آواز… ؟؟ وہ اپنی جگہ پر کھڑی الجھ رہی تھی… پھر ہمت جمع کرتے ہوۓ اس نے چند قدم آگے بڑھاۓ… اور اس چبوترے سے کچھ ہی فاصلے پر رک گئ…
“ہانیہ…” اس کا نام پکارا گیا تھا.. لہجہ عجب چاشنی لیے ہوۓ تھا… جیسے پکارنے والے کے دل میں بے تحاشا محبت ہو اس کے لیے… جیسے اس نام سے اور اس نام سے جڑے وجود سے بے پناہ عقیدت ہو اس وجود کو…
ہانیہ کے ذہن میں جھماکہ سا ہوا…
“بیوٹی فل…” کوئ پرانا خیال ذہن مین گونجا اور پرانی آواز سماعتوں سے ٹکرائ… یہ وہی آواز تھی جو اس نے اپنے کمرے میں سنی تھی اور جس کے سحر سے وہ آج تک نکل نہ پائ تھی… اس کے کمرے میں آکر اسے چھونے اور اس کے ہاتھ پر عقیدت بھرا بوسہ دینے والے کی آواز تھی یہ…
“میں جانتا ہوں تم خوفزدہ ہو… بہت ڈرتی ہو آج کل… لیکن یہ یقین رکھو کہ میرا مقصد تمہیں کسی قسم کی تکلیف پہنچانا نہیں ہے… حتیٰ کہ میں تو تمہاری طرف رخ بھی نہیں کر سکتا کہ کہیں تم خوفزدہ ہو کر بے ہوش ہی نہ ہو جاؤ… ورنہ تمہیں ایک نظر دیکھنے کو شدت سے دل چاہ رہا ہے…” وہ جو بھی تھا اس کے لہجے میں عجب سی بے بسی در آئ تھی… ہانیہ نا سمجھی کے عالم میں اس کی پشت کو تکے گئ…
“کک…کون ہے تم…؟؟ کیوں…. کیوں پریشان کر رہے ہو مجھے…؟؟” ہکلاتے ہوۓ بمشکل اپنی بات مکمل کرکے اس نے پوچھنے کی جرأت کر ہی لی…
دوسری جانب سے ایک قہقہہ سنائ دیا تھا… جس میں اذیت کی جھلک تھی… تکلیف تھی… بے بسی تھی… اور نمی بھی…
“میں…؟؟ میں ایک بدقسمت جن ذادہ… جو فقط ایک پل میں تمہاری ذلفوں کا اسیر ہو گیا…” عجب شکست خوردہ سے انداز میں کہا گیا تھا… جیسے وہ تھک گیا ہو… ہار مان چکا ہو اس سب سے… ہانیہ کو جھٹکا لگا تھا اس بات پر…
“د… دیکھو… ایسا گھٹیا مذاق مت کرو میرے ساتھ… خدارا میرا پیچھا چھوڑ دو… کیوں میری جان لینے پر تلے ہو… کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا…؟؟ کیا چاہتے ہو آخر…؟؟” وہ روہانسی ہو گئ تھی… اسے لگا جیسے یہ کوئ انسان ہی ہے جو جان بوجھ کر اسے ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے…
“کاش کے تمہیں چھوڑ سکتا… لیکن جسے ابھی تک پایا ہی نہیں اسے کیسے چھوڑوں…؟؟ تم نے کچھ نہ بگاڑتے ہوۓ بھی میرا سب کچھ بگاڑ دیا… میرا سب کچھ اپنے نام کروا لیا… لیکن افسوس… شکوہ بھی نہیں کر سکتا تم سے… ” دھیمی سی آواز میں کہا گیا تھا… ہانیہ لب کاٹ کر رہ گئ کہ جب کسی بات کی سمجھ ہی نہ آئ تھی تو جواب کیا خاک دیتی…
“اور رہی بات میرے کچھ چاہنے کی…” اس وجود نے اپنی بات جاری رکھی… “تو فی الحال تو میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ تم اس شادی اور اس رخصتی سے انکار کر دو جو پرسوں ہے… تمہاری اور تمہارے اس کزن کی شادی… ” کچھ دیر پہلے جو لہجہ بے حد نرم اور شکست سے بھرپور تھا اب وہی لہجہ سنگینی اختیار کر گیا… ہانیہ کے تو سر پہ لگی تلووں پر بجھی… چٹخ کر رہ گئ تھی وہ اس کی بات پر… بھی بولی تو لہجے میں نفرت ہی نفرت تھی…
“تم کون ہوتے ہو میری ذندگی کے فیصلے کرنے والے… مجھے یہ بتانے والے کہ مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں… محبت کرتی ہوں مین حسن سے… ایک ساتھ رہنے کے خواب دیکھے ہیں ہم نے… وفائیں نبھانے کے وعدے کیے ہیں… اور اب تو ویسے بھی میں اس کے نکاح میں ہوں…. ہمارا ساتھ اٹل ہے… سمجھے تم… اور یہ شادی ہو کر رہے گی… ہر حال میں… ” وہ سارے ڈر اور خوف بالاۓ طاق رکھ کر چلّائ تھی… حسن سے جدا ہونے کا خیال ہی جان نکالنے کو کافی تھا…
“ہونہہ… تکلیف ہوئ نا… اپنی محبت کی جدائ کے خوف سے… مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے… ایسے ہی تڑپ رہا ہوں میں بھی… اسی اذیت سے گزر رہا ہوں جب جب یہ خیال آتا ہے کہ تم میری نہیں ہو سکتی… لیکن ایک بات یاد رکھنا اگر تم میری نہیں ہوئیں تو تمہیں کسی اور کا بھی نہیں ہونے دوں گا… کسی اور کے قابل نہیں رہنے دوں گا… جلد یا بدیر… تمہیں میری ہونا ہی پڑے گا… اور اس کے لیے میں قدرت تک سے ٹکرا جاؤں گا… ہر کسی سے چھین لون گا تمہیں… ” اس کے لہجے میں بے انتہا سختی تھی… ہانیہ خوف سے ذرد پڑنے لگی… مزید کچھ کہنے کی ہمت ہی نہ ہوئ…
بہت دیر تک وہاں خاموشی چھائ رہی تھی…
دونوں اپنی اپنی جگہ خاموش تھے…
“سخت لہجہ اپنانے کے لیے معذرت… لیکن میری بات تمہیں ماننا ہی پڑے گی… ورنہ انجام کی ذمہ دار تم خود ہو گی… تم جا سکتی ہو اب… ” وارننگ دینے کے سے انداز میں کہہ کر وہ وجود اٹھا اور چلتا ہوا قلعے کے اندر غائب ہو گیا… جبکہ کچھ ہی فاصلے پر ملازم کہ طرح ہاتھ باندھے کھڑا وہ شخص نگاہیں جھکاۓ ہانیہ کی جانب بڑھنے لگا… ہانیہ کی نگاہیں ابھی تک قلعے کے دروازے پر جمی تھیں… جب وہ وجود اس کے مقابل آ کھڑا ہوا… اس کی پیشانی پر دوبارہ انگلی رکھی… اور ہانیہ کی آنکھیں زبردستی بند ہونے لگیں…
کچھ ہی دیر بعد اس نے خود کو لاؤنج کے دروازے کے قریب کھڑے پایا… آنکھیں کھولنے پر آس پاس کوئ اور دکھائ نہ دیا… اس کا سانس پھولنے لگا تھا… تیزی سے دروازہ کھول کر وہ بھاگتی ہوئ اپنے کمرے میں داخل ہوئ… دروازہ بند کر کے اسی دروازے سے ٹیک لگا کر منہ پر ہاتھ رکھتے ہوۓ سسکیوں کو روکنا چاہا… لیکن آنسو بھل بھل آنکھوں سے بہہ رہے تھے… روتے ہوۓ اس کی نگاہ آئینے پر پڑی جہاں سرخ لپ اسٹک کے ساتھ بڑا دل بنایا گیا تھا… ہانیہ نے نفرت سے منہ موڑ لیا… اور گھٹنوں میں منہ چھپاۓ سسکنے لگی…