(Last Updated On: )
وہ سارے بند وہ سارے حصار جھوٹے تھے
ہماری گوشہ نشینی کے سب بہانے تھے
عجیب فصل تھی، ہر سمت تھی بہارِ خزاں
کہ پہلے دن سے ہی پودوں کے پتے پیلے تھے
کسی کے واسطے اک نغمۂ سرور تھا وہ
کہ جس کے شور سے کچھ لوگ سہمے سہمے تھے
جو دن میں رہتے تھے پوشیدہ اور نا دیدہ
وہی ستارے گھنی رات میں چمکتے تھے
جوان ہو کے اداروں میں ہو گئے مصروف
یہ بچے پہلے ہر اک بات پر مچلتے تھے
کہاں ملے دلِ بے کینہ، اصفیا جیسا
اسی لیے، مرے احباب میرے جیسے تھے
گزرنے والا تو سرعت سے پاس ہو کے گیا
ہم انتظار میں ہر گام یوں ہی ٹھہرے تھے
ہوا میں ہوش نہ تھا، روشنی میں شورش تھی
زمینِ دل پہ تلاطم کے جال پھیلے تھے
٭٭٭