وہ سارا سامان گاڑی سے نکال کر لا چکا تھا ..عیشل بت بنی کھڑی تھی
ایک ہی کمرہ کھول رہا ہوں کیونکہ زیادہ کھولوں گا تو صفائی بھی زیادہ کرنی پڑے گی اور وہ تم کر نہیں سکتی …یزدان طنز کرتا بیگ اٹھا کر ایک کشادہ سے کمرے میں لایا
وہ اسکے پیچھے پیچھے جا رہی تھی
کیا مطلب ہے تمہارا …کس نے کرنی ہے صفائی …عیشل نے حیرانگی سے پوچھا
سیدھا مطلب ہے ..تم نے کرنی ہے اور کس نے کرنی ..یہاں کوئی ملازمہ تو ہے نہیں …یزدان کی بات سن کر اسے صدمہ ہوا
مجھے نہیں کرنی آتی میں نے کبھی نہیں کی …
نہیں کرنی آتی تو آجائے گی …کرنی تو تمہیں ہی ہے ورنہ گند میں رہنا پڑے گا …اس نے کندھے اچکائے
عیشل وہاں موجود بیڈ پہ بیٹھ گئ
اچھا میں جا رہا ہوں شام کو آ جاؤں گا تم دروازہ اچھے سے بند کر لو …یزدان کچھ دیر اسے بیٹھا دیکھتا رہا اور پھر اپنے جانے کا بتایا
میں اکیلی نہیں رہوں گی …پتہ نہیں کب سے گھر بند ہی پڑا تھا اگر یہاں جن بھوت ہوئے تو …تم پلیز یہیں رہو یا مجھے بھی ساتھ لے جاؤ …عیشل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے
جن بھوت ہوئے تو خیر ہے تم بھی تو چڑیل ہو …یزدان نے اسکی آنکھوں سے نظر ہٹائی اور جانے کے لیے قدم بڑھائے
نہیں یزدان پلیز مجھے اتنے بڑے گھر میں ڈر لگے گا ..میں مر جاؤں گی یہاں پہ…عیشل اسکے پیچھے پیچھے آ رہی تھی ..
یزدان اسکی پکار پہ کان دھرے بنا بیرونی دروازہ عبور کر گیا …وہ گیٹ کو باہر سے تالا لگا رہا تھا عیشل اسی طرح پکار رہی تھی
وہ تھکے قدموں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا
کیا میں نے غلط فیصلہ کیا ہے ? ..وہ واقعی میں اکیلے پریشان ہو گی …لیکن یہ بھی تو ضروری تھا وہ کچھ تو سیکھے گی اور پھر پنچایت ….
بابا جان سے جب ہ اجازت لینے گیا تھا تب انہوں نے بتایا کہ راجپوتوں نے پنچایت بلائی ہے …ان کا کہنا ہے ہم ان کی منگ لے آئے ہیں …بابا جان کی بات سے اس نے اپنا فیصلہ مزید پختہ کیا …وہ عیشل کو کبھی بھی نہیں چھوڑے گا چاہے پنچایت بلائی جائے یا کچھ اور …
وہ سوچوں میں مگن تھا جب اسکا فون بجا ..باباجان کی کال تھی
اسلام علیکم بابا جان …
جی میں آ رہا ہوں جی وقت پر پہنچ جاؤں گا …اللہ حافظ …
پنچایت کا ٹائم ہو گیا تھا باباجان اسے بلا رہے تھے …اس نے گہرا سانس لیا گیٹ کی طرف دیکھا اور گاڑی سٹارٹ کی..
________________________________
.
چوہدری صاحب یہ اتنی سوہنی سندر لڑکی کو مجھ سے ہتھیا کے خود عیش کر رہا ہے…بلال عرف بالا بڑی عاجزی سے اپنا مسئلہ چوہدری صاحب کو بتا رہا تھا وہ ابھی مزید بھ کچھ کہتا لیکن یزدان ملک کی برداشت بس اتنی ہی تھی…
بس…اب ایک اور لفظ بھی اس کے بارے میں کہا تو میں ان تمام بزرگوں کا بھی لحاظ نہیں کرونگا …وہ اپنی جگہ سے اٹھ چکا تھا .. اسکا چہرہ سرخ ہو رہا تھا
ایسے کیسے نہ کچھ کہوں میری بچپن کی منگ ہے وہ …بالا بھی اپنی موڑھے سے اٹھ بیٹھا تھا
تمہاری بچپن کی منگ ہے اور میری بیوی ہے وہ …میری برداشت اتنی ہی تھی بابا سائیں …میں اپنی عزت کو یوں کھلے عام ڈسکس ہوتے نہیں دیکھ سکتا …آپکی اس پنچائت کا فیصلہ میرے حق میں ہوا تو ٹھیک ورنہ یہ پنچائت میرے جوتی کی نوک پر سمجھیے گا…
اسکے الفاظ چند لمحوں کے لیے سب کو ششدر کر گئے تھے …ان سب کے سنبھلنے سے پہلے وہ جا چکا تھا….
ملک صاحب دیکھ لیں اپنے بھتیجے کی خود سری …پنچایت کے ایک سربراہ نے بابا جان سے شکوہ کیا
دیکھیں ریاض صاحب وہ ٹھیک کہہ رہا ہے ..وہ لڑکی اسکی بیوی ہے اور کوئی بھی شخص اپنی بیوی کے بارے میں ایسے الفاظ برداشت نہیں کر سکتا …انہوں نے کڑی نگاہ بلال راجپوت پہ ڈالتے ہوئے کہا
بیوی ہے تو کیا ہوا بچپن کی منگ ہے میرے بیٹے کی …اسے شرم نہ آئی ایسی حرکت کرتے ہوئے …دیکھیں سر پنج جی بات سیدھی ہے میرے بیٹے کی منگ اور میری بھتیجی واپس کی جائے ورنہ ہم کسی سے ڈرتے نہیں …افتخار راجپوت نے کروفر سے دھمکی دی
دیکھ افتخار زبان سنبھال ک بات کر …اگر تم ڈرتے نہیں تو ہم بھی نہیں ڈرتے …تم ایک دفعہ کچھ غلط کرنے کی حرکت تو کرو پھر انجام دیکھنا ..باباجان نے غصے سے کہا
آپ دونوں آرام سے بات کریں ..ملک جی آپ بات کو سمجھیں ..آپکو پتہ تو ہے یہاں بچپن کی منگ کوعزت سمجھا جاتا ہے ..آپکے بھتیجے نے غلط کیا لیکن اب وہ اسکی بیوی ہے …وہ یقینا اس پہ حق بھی رکھتا ہے …معاملہ چونکہ کافی گھمبر ہے تو رحمت اللہ صاحب کے آنے کا انتظار کر لیتے ہیں جو فیصلہ وہ کریں سب وہی مانیں گے … سرپنج کا ایک چوہدری کم تھا ..لہذا اسکے آنے تک پنچایت کا فیصلہ روک دیا گیا
____________________________________
وہ پنچایت سے نکل کر بلاوجہ گاڑی بھگاتا رہا
اسکے دماغ سے بلال کے الفاظ نہیں جا رہے تھے
چوہدری صاحب یہ اتنی سوہنی سندر لڑکی کو مجھ سے ہتھیا کے خود عیش کر رہا ہے ..
اس نے زور سے سٹئیرنگ پہ مکا مارا
کمینے چھوڑوں گا نہیں تمہیں …
وہ آپے سے باہر ہو رہا تھا …بادل گرجنے کی آواز سے وہ یکدم ہوش میں واپس آیا
رات ہو رہی تھی
افف ..وہ تو دن میں ہی ڈر رہی تھی رات کو کیا حا ل ہو گا پاگل کا …اس نے پریشانی سے گاڑی موڑی
______________________________________________
گیٹ کا لاک کھول کر جب وہ اندر آیا تو سارا گھر اندھیرے میں گھر ہوا تھا
اندر آکر اسنے موبائیل کی ٹارچ آن کی
باہر بارش شروع ہو گئی تھی ..
اس نے سارے ہال میں نظر دوڑائی عیشل کہیں بھی نہیں تھی
عیشل …ایشے ..ایشے ..وہ اسے آوازیں دیتا کمرے کی طرف بڑھا
تبھی اسے کمرے کے دروازے کے پاس بیٹھا وجود دکھائی دیا
وہ گھٹنوں میں سر دیے ہولے ہولے لرز رہی تھی
یزدان کو خود پہ غصہ آیا وہ اسکے قریب ہی بیٹھ گیا
ایشے…اس نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا
عیشل نے سر نہ اٹھایا
ایشے ..دوبارہ آواز دینے پر ایشے نے سر اٹھایا
اسکا چہرہ رو رو کر سرخ ہوا پڑا تھا
یزدان نے اسکے گرد بازو پھیلایا
عیشل جو اسے دیکھ رہی تھی فوراً بدک کر پیچھے ہوئی
ہاتھ مت لگاؤ مجھے …کیوں آئے ہو اب .. یہ دیکھنے کے کب مروں گی …عیشل نے خشک حلق سے چیختے ہوئے کہا
ایشے سوری مجھے یاد نہیں رہا …تم نے لائٹ بھی تو آن نہیں کی اسی لیے ڈر گئ ہو …یزدان نے ہلکی آواز سے جواب دیا
عیشل کچھ نہ بولی پھر سے گھٹنوں میں سر دیے رونے لگی
ایشے پلیز رؤو تو نہ … میں آ گیا ہوں نا ..اب نہیں جاؤں گا کہیں بھی پرامس…وہ اسکے نزدیک ہوتے ہوئے بولا
مجھے تمہارے ساتھ نہیں رہنا …مجھے جانا ہے یہاں سے …وہ آنسو صاف کرتے ہوئے اٹھی
اوکے صبح میں خود لیکر جاؤں گا تمہیں …میری غلطی تھی مجھے تمہیں یہاں نہیں لانا چاہیے تھا …رئیلی سوری ..وہ بھی اٹھ کر اسکے سامنے آیا
مجھے جانا ہے یہاں سے نہیں رہنا مجھے تمہارے ساتھ …تم وہ شخص ہو جسکی وجہ سے آج میں لا چاری کی حالت میں ہوں …تمہاری وجہ سے میری فیملی بچھڑی تمہاری وجہ سے تمہاری گرل فرینڈ نے میرا سودا کر دیا ..تمہاری وجہ سے میں اس گاؤں میں اور اس گھر میں آئی تم نے مجھے ایک گھر ے بھاگی ہوئی عورت کے لیے مارا .اور آج اس ویرانے میں میں مر جاتی تو ..تمہارا کیا جاتا …مجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ تم مجھے ابھی طلاق دو …عیشل بہتے ہوئے آنسوؤں سے بول رہی تھی
اسکا مطالبہ سن کے یزدان کا دماغ گھوما
اوکے تمہیں طلاق لینی ہے تو ٹھیک ہے …لیکن اس سے پہلے حقیقت سن لو …جسے تم گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کہہ رہی ہو نا وہ تمہاری ماں تھی الفت جو نعمان راجپوت یعنی تمہارے باپ کے ساتھ بھاگی تھی …جسے تم اپنی فیملی کہہ رہی ہو وہ دراصل باباجان کے دوست کے بیٹے کی فیملی تھی …میں تمہیں تمہاری فیملی میں لے کر آیا تھا …جسے تم میری گرل فرینڈ کہہ رہی ہو اسکے بھائی جائیداد کے لیے اسے مارنا چاہتے تھے وہ میری دوست تھی اسی لیے اسے پناہ دی مجھے اندازہ نہیں تھا وہ اتنا گھناؤنا کھیل کھیلے گی …جس گاؤں کو تم بر بھلا کہتی ہو اسی گاؤں میں پیدا کوئی تھی تم پانچ سال یہاں گزارے تھے تم نے …باباجان کے پیار کی وجہ سے مجھے سولی چڑھنا پڑھا ..تمہارے ددھیال والے تمہیں اغوا کر کے تمہاری ماں کی جائیداد میں حصہ لینا چاہتے تھے …تم سے نکاح کر کے محفوظ رکھنا میری ذمہ داری تھی …لیکن تم ..تم ہمیشہ مجھے غلط ہی سمجھنا صرف اپنے دماغ سے سوچنا ….تمہیں طلاق چاہیے نا تو ٹھیک ہے کل پیپرز بن جائیں گے …چلو حویلی چھوڑ دو ں تمہیں …وہ بت بنی عیشل کو ساری حقیقت بتانے کے بعد باہر نکل گیا ..
عیشل کچھ دیر تک وہیں کھڑی رہی پھر مرے ہوئے قدموں کے ساتھ اسکے پیچھے گئ