آج اس کو اس سینٹر میں جاب کرتے ہوئے پانچ ماہ ہو ہوگئے تھے۔وہ پچھلے کچھ دنوں سے غور کررہا تھا کہ ڈاکٹر شہزاد راؤ کافی پریشان ہیں اس نے ان سے معلوم بھی کرنے کی کوشس کی مگر انھوں نے ٹال دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی کچھ ہی دیرپہلے وہ کتاب کامطالعہ کر کے سویا تھا ۔۔۔۔
ٹڑن۔۔ٹڑن۔۔۔۔
اس کے فون کی گھنٹی بجی۔
اس نے غنودگی کی حالت میں فون اٹھایا اورسلام کیا
دوسری طرف سے جو بات کہی گئی وہ ایک دم سیدھا ہوگیا۔
کون سے ہاسپٹل میں۔۔۔
اس نے پوچھا ۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے میں پہنچتا ہوں۔
®®®®®®
اس وقت اس کاریڈور میں ان دو افراد کے علاوہ کوئی بھی نہ تھا سب اپنے کمروں میں تھے۔
جن میں ایک وہ تھا جس کی زندگی سنوارنے والے وہ تھے ۔۔
حو اس کے لیے مشعل راہ تھے جب وہ بھٹکا تو راستہ انھوں نے دکھایا
اور دوسری جو سر گھٹنوں میں دیے بیٹھی ہے وہ ہے جس کا وہ سائبان ہیں۔۔۔۔۔
ان دونوں کے علاوہ وہاں صرف گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی ۔۔۔۔
اس نے ایک نظر آپریشن تھیٹر کے اوپر لگے بلب کو دیکھا حو سرخ تھا ۔اور ایک نظر گھڑی پر دیکھا جو رات کے تین بجا رہی تھی پچھلے دو گھنٹوں سے آپریشن جاری تھا۔اچانک وہ بلب سبز ہوگیا اور ڈاکٹرباہر آئے ۔
ڈاکٹر۔۔۔۔۔۔۔
اسکی آواز سن کر وہ جو کب سے گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی ایک دم سیدھی ہو کر وہ کھڑی ہوگئی ۔
آپ میں سے امان کون ہے ۔انھوں نے پوچھا ۔
جی میں ہوں۔۔۔۔اس نے کہا۔
اپ اندر جائیں وہ آپ کو بلارہے ہیں ۔۔۔۔۔ڈاکٹر بولے
اس کے جانے کے بعد وہ ڈاکٹر سے بولی۔
وہ۔۔وہ ٹھیک تو ہیں نہ۔۔۔۔۔۔اس نے پوچھا ۔
دیکھیں ہم کچھ کہہ نہیں سکتے جس حالت میں وہ یہاں لائے گئے تھے انکا اب اس حاکت میں آنا بہتری کی نشانی ہے ہم آپکو کوئی امید نہیں دلاسکتے۔کیس ابھی بھی کریٹیکل ہے۔وہ اپنے پیشہ وارانہ انداز میں کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے ۔۔۔۔۔
وہ بس انکو دیکھتی رہ گئی۔
****************
چھوٹے چھوٹے قدم لیتا وہ انکےپاس پہنچا ۔اس نے ایک بھرپور نظر ان پر ڈالی۔
وہ سفید پٹیوں اور مشینوں میں جھکڑے ہوئے تھے اس وقت اس کو انکی حالت قابل رحم لگی۔
کسی کی آہٹ سن کر انہوں نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں ۔
امم ان ۔م۔ی۔ری۔باات سن۔۔نو۔۔انھوں نے ٹوٹے ہوئے لفظوں میں کہا۔
انکل آپ آرام کریں پلیز اور اس آکسیجن ماسک کومت ہٹائیں۔
وہ جو ماسک ہٹا کر بات کررہے تھے۔اس نے انکو روکا ۔
ی۔ہ۔یہ پ۔پڑ۔۔ڑ۔ھو۔۔۔انھوں نے بولا اور خط اسکی طرف بڑھاتے ہوئے بولے۔۔۔
انکا سانس اکھڑنے لگ گیا۔
ڈاکٹر ۔۔۔۔۔ڈاکٹر ۔۔۔وہ چلایا ۔
اسکی آواز سن کر وہ بھاگتے ہوئے اندر آئے اور اسکوباہر جانے کا کہا۔۔۔۔۔
باہر آکر وہ ایک بینچ پر بیٹھ گیا ۔
دھیرے دھیرے خط کھولا اور پڑھنا سٹارٹ کیا۔
“امان میں تمہیں آج کچھ ایسی باتیں بتانے جارہا ہوں جس کا تمہیں علم نہیں میں خاندانی مسلمان نہیں ہوں یہ تب کی بات ہے جب میری نئ نئ شادی ہوئی تھی ۔ اَللّٰه (ُﷻ) نے میرے والد صاحب کو ہدایت دی اور ہم بھی ہدایت کی اس روشنی سے فیض یاب ہوئے ۔
میرا تعلق یہود قبیلے سے تھا ۔جو مسلمان کو فتنہ انگیز سمجھتے تھے اور ان کے سب سے بڑے دشمن تھے۔مگر میرے تایا کو یہ بات منظور نہ تھی انہوں نے میرے والد صاحب پر بے انتہا تشدد کرکے انکو زندہ جلادیا ۔
میں اور میری زوجہ ہجرت کرآئے اور استنبول کو ہی اپنی زمین بنالیا۔ اللّٰه نے ہمیں اپنی رحمت سے نوازا جو ایک بیٹی کی صورت میں تھی۔
چونکہ وہ ہمارے خاندان کی پہلی فرد تھی حو مسلمان پیدا ہوئی تھی اسی لیے اس کا نام ” عائشہ “رکھا۔
امان میرے گھر والے ابھی بھی میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں مجھے اور میری بیٹی کو مارنا چاہتے ہیں۔امان مجھے اپنی فکرنہیں بس تم میری بیٹی کے نگہبان بن جاؤ مجھ پر یہ احسان کردو۔۔۔۔” عائشہ کے حقیقی محافظ بن جاؤ۔۔۔”
۔۔۔۔”ایک بےبس باپ”شہزاد راؤ”
وہ خط پڑھ کر ایک گہری سوچ میں چلا گیا جس سے ڈاکٹر نے توڑا۔
دیکھیں آپ کے پیشنٹ کی حالت بہت کریٹیکل ہوتی جارہی ہے ان کے پاس بہت کم وقت بچا ہے آپ دونوں ان سے مل سکتے ہیں۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
اس وقت کمرے میں مکمل خاموشی تھی ۔شہزاد راؤ امان کو حسرتی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے شائد جواب چاہتے تھے۔
امان انکی نظروں کا مفہوم سمجھتے کوئے سر کو جھکالیتا ہے اور مثبت جواب دیتا ہے اس کے اس عمل سے سن کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آجاتی ہےاب وہ اپنی بیٹی کی طرف دیکھتے ہیں جو کب سے سرجھکائے کھڑی ہوتی ہے اس کے آنکھوں کے اشارے سے پوچھتے ہیں جس کے جواب میں وہ بھی مثبت جواب دیتی ہے ۔
اسی طرح کچھ ہی دیر بعد وہ عائشہ شہزاد سے عائشہ امان بن جاتی ہے۔
اپنی بیٹی کو مخفوظ ہاتھوں میں دیکھ کر وہ بھی خالق حقیقی کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔۔۔
،∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
عائشہ اور امان ایک دوسرے کے لیے بہترین ثابت ,ہوئے۔
نومبر کی اختتامی شامیں اپنے عروج پر تھیں۔
وہ بالکونی میں چائے کا کپ تھامے کھڑی تھی ۔
وہ اپنے خیالوں میں اس قدر ڈوبی تھی کہ اسے امان کے آنے کی خبر تک نہ ہوئی۔
پریشان ہو؟؟؟اس نے پوچھا۔
اسکی آواز سن کر وہ چونکی۔پلٹ کر اسے دیکھا اور گہرا سانس لے کر بولی۔
“نہیں”
ادھر میری طرف دیکھو۔وہ اس کا رخ اپنی طرف کرکے بولا۔
وہ جو کب سے آنسو روکے کھڑی تھی وہ بہہ کر گال پر آگئے۔
یار دیکھو یہ تو میرا خواب تھا نہ میں ایک جہادپر جاؤں اب جب میں جارہا ہوں تو تم یوں کر کے مجھے کیوں کمزور کررہی ہو تمہیں تو میری طاقت بننا چاہیے نہ۔۔۔وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا ۔
میں عائذ کے بارے میں سوچ رہی اگر خدانخواستہ آپکو کچھ ہوگیا تو یہ ننھی سی جان تو ہوش سنھبالنے سے پہلے ہی یتیم ہوجائے گی۔وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی اور اپنے بیٹے عائذ کو دیکھا جو آٹھ ماہ کا تھا۔
عائشہ کیا تمہارا ایمان اتنا کمزور کیا تمہیں اپنے رب ہر بھروسہ نہیں میں نے تم لوگوں کو اسکی امان میں دیا ہے اور مجھے یقین ہے اس سے بہتر کوئی نگہبان نہیں۔بس تم دعا کرنا وہ مجھے شہیدوں میں سے کردے یا پھر غازیوں میں سے۔وہ اس سے بولا۔۔
اسکی بات پر وہ کچھ کہہ نہ سکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج امان کو گئے مہینہ ہونے کو تھا۔صبح سے ہی اسکا دل بے چین تھا ۔جیسے کچھ ہونے والا تھا مگر وہ مطمئن تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ ظہر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔۔۔۔۔
اس نے فون اٹھایا دوسری ہطرف سے اسے کچھ کہا گیا جس کو سن کر فون اسکے ہاتھ سے گرگیا۔
الحمداللّٰه۔اس نے آنکھیں بند کر کے ایک عقیدت سے کہا۔۔
امان کے خواب کی تکمیل ہوچکی تھی اور وہ شہیدوں میں شامل ہوچکا تھا۔
جس نے اپنے دین کے سربلندی کے لیے موت کو گلے لگالیا۔اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ اس کے بعد اس کے بیوی بچے کا کیا ہوگا۔اسے اپنے رب پر یقین تھا۔۔۔۔
**********************************************
حال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بیڈ پر لیٹا تھا۔اس کا بازو اسکی آنکھوں پر تھا ۔
دروازے کی چرچڑاہٹ نے کمرے کا سکوت توڑا ۔
وہ جانتا تھا کون ہوگالیکن وہ اٹھا نہیں اسی حالت میں تھا۔
علیزے اسکے پاس آکر بیٹھ گئی اسے دیکھا اور پھر مسکراکر بولی۔
عائذ بہت پیارا بچہ ہے اسکی پر کشس آنکھیں ہر کسی کو اس سے محبت کرنے پر مجبور کردیتی ہے اتنا معصوم بچہ لگتا ہے مگر ہے نہیں عائشہ بتارہیں تھیں کہ ہر شرارت کے بعد اپنی آنکھوں جھپکا کر معصوم بننے کی کوشس کرتا ہے۔۔وہ ہنس کر بولی مقصد صرف اسکا موڈ اچھا کرنا تھا۔
اسکی بات سن کر اسے امان یاد آیا وہ بھی تو ایسے ہی کرتا تھا۔
علیزے ۔امان کیوں چلا گیا ۔ابھی تو اس نےدنیا کی رونقیں بھی نہیں دیکھی تھیں ۔علیزے مجھے ہمیشہ ایک امید رہی کہ کاش امان ملے اور مجھے اس طرح دیکھے کتنا خوش ہوتا نہ وہ مجھے یوں دیکھ کر۔وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا آنکھہں مکمل لال تھی شاید بہت رویا تھا وہ۔
علیزے کے دل کو کچھ ہوا اسے اس طرح دیکھ کر۔
یوسف دنیا کی رونقیں، انسان سب کچھ ہی تو وقتی ہے بلکہ یہ دنیا بھی وقتی ہے پھر آپ ایسے کیوں سوچتے ہیں کہ انھوں نے دنیا کی رونقیں نہیں دیکھیں وہ تو شہید ہوئے ہیں اپنے رب کے لیے اور اس کے بدلےمیں بڑا انعام پانے والے ہیں وہ۔بہت خوش نصیب ہیں آپکو تو خوش ہونا چاہیے لیکن آپ تو اپنے رب سے شکوے کررہے ہیں۔۔ وہ بولی۔
وہ بس اسے دیکھ رہا تھا۔
اچھا میں کھانا لاتی۔آپ کھا کر ہوجائیں کیونکہ صبح وانیہ کے سکول جانا ہے اس کا کوئی ایونٹ ہے۔وہ باتوں کو ٹالتے ہوئے بولی اور اٹھ کر جانے لگی۔۔۔
علیزے!
اس نے پکارا ۔
اسکی بات سن کر وہ پلٹی اور اسکی طرف دیکھا ۔
تم میرے لیے خدا کے تخفوں میں سے ایک ہو۔اسکی رحمت ہو۔وہ مسکراکر بولا ۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
سارا ہال طلبہ اور پیرنٹس کے بھرا ہوا تھا۔وہ دونوں ابھی کچھ ہی دیر پہلے ہال میں داخل ہوکر اپنی سیٹوں پر بیٹھے تھے ۔ابھی کچھ ہی دیرمیں پروگرام کا آغاز ہونے والا تھا۔۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں ہوسٹ اسٹیج پر آئی اور تلاوت قرآن سے پروگرام کا آعاز ہوا اس کے بعد نعت خوانی ہوئی۔
اب ہم وانیہ یوسف کو اسٹیج پر دعوت دیں گے ,کہ وہ آئیں اور ایک خوبصورت نظم میں مسلمان کے ماضی اور حالیہ صورتحال کو پیش کریں۔
وانیہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی اسٹیج پر آئی۔
مائک کو اپنے آگے کر کے شبیر احمد مفظفری کے لکھے گۂے خوبصورت کلام کو پڑھنا شروع کیا۔
” وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں
وہ دھوپوں میں تپتی زمینوں پہ سجدے
سفر میں وہ گھوڑوں کی زینوں پہ سجدے
چٹانوں کی اونچی جبینوں پہ سجدے
وہ صحرا بیاباں کے سینوں پر سجدے
علالت میں سجدے مصیبت میں سجدے
وہ فاقوں میں حاجت میں غربت میں سجدے
وہ جنگ و جدل میں حراست میں سجدے
لگا تیر زخموں کی حالت میں سجدے
وہ غاروں کی وحشت میں پر نور سجدے
وہ خنجر کے ساۓ میں مسرور سجدے
وہ راتوں میں خلوت سے معمور سجدے
وہ لمبی رکعتوں سے مسحور سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں
وہ سجدے حافظ مدد گار سجدے
غموں کے مقابل عطر دار سجدے
نجات اور بخشش کے سالار سجدے
جھکا سر تو بنتے تھے تلوار سجدے
ہمارے بجھے دل سے بے زار سجدے
خیالوں میں الجھے ہوۓ چار سجدے
مصلے ہیں ریشم کے بیمار سجدے
چمکتی دیواروں میں لاچار سجدے
ریاکار سجدے ہیں نادار سجدے
ہیں بے نور بے ذوق نادار سجدے
سروں کے ستم سے ہیں سنگسار سجدے
دلوں کی نحوست سے مسمار سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں
ہیں مفرور سجدے ہیں مغرور سجدے
ہیں کمزور بے جان معذور سجدے
گناہوں کی چکی میں ہیں چور سجدے
گھسیٹے غلاموں سے مجبور سجدے
کہ سجدوں میں سر ہے بھٹکتے ہیں سجدے
صرافت سروں پر لٹکتے ہیں سجدے
نگاہ خضوع میں کھٹکتے ہیں سجدے
دعاؤں سے دامن جھٹکتے ہیں سجدے
چلو آؤ کرتے ہیں توبہ کے سجدے
بہت تشنگي سے توجہ کے سجدے
مسیحا کے آگے مداوت کے سجدے
ندامت سے سر خم شکستہ ہیں سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں
رضا والے سجدے وفا والے سجدے
عمل کی طرف رہ نما والے سجدے
سراپا ادب التجا والے سجدے
بہت عاجزی سے حیا والے سجدے
نگاہوں کے دربان رودار سجدے
وہ چہرے کی زہرہ چمکدار سجدے
سراسر بدل دیں جو کردار سجدے
کہ بن جائيں جینے کا اطوار سجدے
خضوع کی قبا میں یقین والے سجدے
رفع عرش پر ہوں زمین والے سجدے
لحد کے مکیں ہم نشیں والے سجدے
وہ شافع محشر جبیں والے سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی خاموش ہوئی پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
****************
“نمازوں میں رویا کرو کیونکہ جو لوگ نمازوں میں روتے ہیں تقدیر ان کو کبھی بھی نہیں رولاتی”!
_______
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...