(Last Updated On: )
وہ مسافر جو تھک گیا ہو گا
راستے سے بھٹک گیا ہو گا
غنچہ غنچہ چٹک گیا ہو گا
گوشہ گوشہ مہک گیا ہو گا
آہٹیں نرم نرم پتّوں کی
پیڑ پر آم پک گیا ہو گا
ڈال کر پھندا اپنی گردن میں
کوئی چھت سے لٹک گیا ہو گا
مُڑ کے دیکھا جو تُو نے، لوگوں کو
میری نظروں پہ شک گیا ہو گا
نگلی پکڑا کے چلتا تھا اُس کی
ہاتھ میرا جھٹک گیا ہو گا
ارے احساسِ تشنگی توبہ
کوئی ساغر کھنک گیا ہو گا
گرتا پڑتا یہ جادۂ پُر پیچ
اے ضیا، دور تک گیا ہو گا
٭٭٭