آج ان کی شادی کو چوتھا دن تھا ۔۔۔۔ زجاجہ بہت خوش تھی ۔۔۔۔ اس کی طبیعت کچھ خاص ٹھیک نہیں تھی ۔۔۔۔ ان چار دنوں میں ولید ایک پل کے
لئے بھی اس سے الگ نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔ وہ جب بھی اس کے پاس ہوتا وہ بولتی رہتی ۔۔۔۔ حالانکہ اسے بولنے میں تکلیف ہوتی تھی ۔۔۔پھر بھی وہ ولی سے باتیں کرتی ۔۔۔۔ ولید اس کا سر اپنے سینے سے لگائے اس کو سہارا دیے بیٹھا تھا ۔۔۔۔ وہ اس کے موبائل میں اپنی تصویریں دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
“یہ تصویر آپ نے کب لی ” وہ حیرت سے ایک تصویر پر رک گئی ۔۔
“اسلام آباد پہنچ کر جب تم سورج کو قید کر رہی تھی تب ” ولید نے اس کے ماتھے سے بال ہٹاتے ہوۓ جواب دیا
“مجھے پتا ہی نہیں چلا تھا ” وہ جھینپی
“تمہیں اور بھی بہت کچھ نہیں پتا جان ولی ” ولید نے اس کے کان میں سر گوشی کی
“مثلا کیا ” زجاجہ نے ولید کی طرف مڑتے ہوئے کہا
“مثلا تمہیں نہیں پتا مجھے کتنی شدید محبت ہے تم سے ۔۔۔ تمہیں نہیں پتا کہ میں ایک پل۔نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر ۔۔۔۔ تمہیں یہ بھی نہیں پتا کہ تم نے مجھے کتنا پریشان کیا پچھلے دنوں ”
“ہممم ۔۔۔۔ مجھے سب پتا ہے جناب ۔۔۔۔ اچھا ولی ۔۔۔ یہ دیکھیں ” وہ اسے اپنے موبائل سے کچھ دکھاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ ولید حسن پوری طرح متوجہ ہو گیا ۔۔۔
“ترکی جب قدموں تلے ہوتا ہے نا ۔۔تو ایسا دکھتا ہے ۔۔۔۔ آپ میرے ساتھ ترکی دیکھیں گے نا ؟؟؟ ” اس نے ولید کو ترکی کی تصویر دکھاتے ہوئے پوچھا جس میں ترکی کا ایئر ٹیل ویو دکھایا گیا تھا ۔۔۔
“ضرور دیکھوں گا ۔۔۔۔ بس تم جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ ” ولید نے اس کا سر پھر سینے سے لگا لیا اور آہستہ آہستہ تھپکنے لگا ۔۔۔
سکول سے بھی پورا سٹاف اسے دیکھنے آیا تھا ۔۔۔۔ سب نے اسے مبارک بھی دی اور ٹریٹ بھی مانگی تھی ۔۔۔۔ وہ صرف مسکراتی رہی ۔۔۔۔ بیا اور ثنا کئی گھنٹے اس کے پاس رہتیں ۔۔۔۔۔ رضا بھی شام کو آ جاتا ۔۔۔۔ لیکن ڈاکٹر اسے زیادہ بات چیت نہیں کرنے دیتے تھے ۔۔۔۔۔ وہ زیادہ وقت سکون آور ادویات کے زیر اثر رہتی ۔۔۔۔ مسز یزدانی بھی روز اسے دیکھنے آتیں ۔۔۔۔ ماما چپ چاپ اسے دیکھتی رہتیں اور دعائیں مانگتی رہتیں ۔۔۔۔ سکندر صاحب اس کا ماتھا چومتے تو وہ مسکرا دیتی ۔۔۔
“اب تو وہ بلکل ٹھیک ہے نا ” ولید ڈاکٹر فیصل کے سامنے بیٹھا تھا
“نہیں ۔۔۔ اس کا بی پی اب بھی کنٹرول میں نہیں ہے ولید ۔۔۔۔ جب تک ہم بی پی کو انڈر کنٹرول نہیں کر لیتے ۔۔۔۔ تب تک کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا ” ڈاکٹر فیصل نے اسے مزید خوف زدہ کردیا … وہ اٹھ کر باہر آ گیا ۔۔۔۔
رات کو وہ زجاجہ کا ہاتھ پکڑے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ وہ سو رہی تھی ۔۔۔۔ زجاجہ کے ہاتھ بلکل زرد پڑ گئے تھے ۔۔۔۔ جیسے خون کا ایک قطرہ نہ ہو اس کے جسم میں ۔۔۔۔۔ ولید کئی نظر اس کے چہرے پر پڑی ۔۔۔۔۔ وہ بہت کمزور ہو گئی تھی ۔۔۔۔ وہ بےاختیار اس کو دیکھے گیا ۔۔۔۔ زجاجہ کئی آنکھ کھلی تو وہ اسے اس قدر محو پا کر مسکرا دی ۔۔۔
“وہ موم میرے عشق کی تاثیر سے ہوا
مگر یہ واقعہ بہت تاخیر سے ہوا ”
زجاجہ نے ہولے سے شعر پڑھا ۔۔۔
“تاخیر کیوں زجاجہ ۔۔۔۔ تم نے یہ کیوں بولا ” ولید کو لفظ “تاخیر ” اچھا نہیں لگا ” زندگی پڑی ہے ابھی ”
“کون جانے کتنا وقت ہے ۔۔۔ ایک بات کہوں ولی ۔۔۔۔ میں اس حالت میں بھی جب سانس لے رہی ہوں اور اس حالت میں بھی جب سانس کی ڈوری ٹوٹ جائے گی ۔۔۔۔ آپ کو چاہوں گی ۔۔۔ میرا ایمان ہیں آپ ۔۔۔ ایمان مرنے کے بعد بھی قائم رہتا ہے ” وہ ٹھہر ٹھہر کر بول رہی تھی ۔۔
“ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو زجی ۔۔۔۔ تم میرے ساتھ رہو گی ہمیشہ ۔۔۔۔ میں کچھ نہیں۔ہونے دوں گا تمہیں ” وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے یقین دلا رہا تھا ۔۔۔
زجاجہ کی سانس اچانک تیز ہو گئی ۔۔۔۔ اسے سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی ۔۔۔
“ولی ۔۔۔۔۔ول۔۔۔ی ۔۔۔۔ آپ ۔۔۔مم ۔۔مجھ سے ۔۔۔ محبت کک۔۔۔۔کرتے ہیں نا ” اس نے ولید کا ہاتھ زور سے پکڑ رکھا تھا ۔۔۔۔اس کے جملے ٹوٹ رہے تھے ۔۔۔۔
“زجی کیا ہو رہا تمہیں ۔۔۔۔ ڈاکٹر ۔۔۔۔ نرس ۔۔۔ جلدی آئیں ” وہ چلا رہا تھا ۔۔۔۔ نرس بھاگی آئی ۔۔۔
“او مائی گاڈ ۔۔۔۔ میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں ” وہ کہتی ہوئی کمرے سے نکل گئی ۔۔
“زجی میں تمہارے ساتھ ہوں ۔۔۔۔کچھ نہیں ہو گا تمہیں ۔۔۔۔ کچھ نہیں ہو گا ” وہ اس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھے اسیے حوصلہ دے رہا تھا ۔۔۔۔ اتنے میں دو ڈاکٹرز کمرے میں داخل ہوۓ ۔۔۔
“مسٹر ولید آپ باہر جائیں ۔۔۔۔ نرس فورا انجکشن لے کر آئیں ۔۔۔” انہوں نے زجاجہ کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ولید باہر آ گیا ۔۔۔۔ ڈاکٹر فیصل کو بھی دوسری وارڈ سے بلا لیا گیا ۔۔۔۔ کمرے کے باہر بےصبری سے ٹہلتے ہوئے ولید حسن کو پہلی بار احساس ہوا کہ اذیت کیا ہوتی ہے ۔۔۔۔ تکلیف کس چیز کو کہا جاتا ہے ۔۔۔۔ وہ پھر بےبس ہو کر اوپر چھت کئی جانب دیکھتا اور زبان سے ایک لفظ نہ نکلتا ۔۔۔۔اس نے نقاش کو کال کر دی تھی ۔۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور تینوں ڈاکٹرز باہر آ گئے ۔۔۔۔ اسی وقت نقاش نے بھی قدم رکھا ۔۔۔۔ ولید ڈاکٹرز کی طرف لپکا ۔۔۔
“زجاجہ کیسی ہے اب “اس نے انتہائی بےصبری سے پوچھا
“سوری مسٹر ولید ۔۔۔۔ یور مسز از نو مور ” ڈاکٹر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکال لی تھی ۔۔۔۔ اسے لگا اس کی دھڑکن رک جائے گی ۔۔۔
“وہاٹ ۔۔۔۔ وہاٹ یو سیڈ ۔۔۔۔ آر یو ان یور سینسز ” ولید پوری طاقت سے چلایا ۔۔۔۔ فیصل اور نقاش نے آگے بڑھ کر اسے سنبھالنے کی کوشش کی ۔۔۔
“تمہارے پاس علاج نہیں تھا تو تم نے بتایا کیوں نہیں مجھے ۔۔۔ کہا تھا نا میں نے مجھے بتاؤ دنیا کے جس کونے سے بھی علاج ہو سکا میں کرواؤں گا ۔۔۔۔ ” وہ اب فیصل پہ چیخ رہا تھا ۔۔۔۔ دوسرے کمروں سے بھی لوگ نکل آئے تھے ۔۔۔۔
“ولید سنبھالو خود کو پلیز ۔۔۔ اس کا اتنا ہی علاج ممکن تھا ” ڈاکٹر فیصل نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
“اوکے ۔۔۔۔ میں نے مان لیا ۔۔۔ اتنا ہی علاج ممکن تھا ۔۔۔ میں جیسی لے کر آیا تھا نا ۔۔۔ویسی زجاجہ واپس کرو مجھے ۔۔۔۔ میں زندہ لے کر آیا تھا نا اس کو ۔۔۔ مجھے زندہ دو ۔۔۔۔ میں اسے لے جاؤں گا یہاں سے ۔۔۔ تم میری زجی زندہ واپس کرو مجھے ” وہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ ڈاکٹر فیصل نے کرب سے آنکھیں میچ لیں ۔۔۔۔ نقاش کے آنسو بےاختیار بہہ رہے تھے ۔۔۔
“ولید ایسا نہیں کہتے ۔۔۔ کوئی انسان کسی کو نہ مار سکتا ہے نہ زندہ کر سکتا ہے ۔۔۔ پلیز کنٹرول یور سیلف ” نقاش نے اسے گلے لگایا ۔۔۔۔ اور اندر لے گیا ۔۔۔۔ جہاں زجاجہ ولید حسن سر سے پاؤں تک سفید چادر اوڑھے ہمیشہ کے لئے سو گئی تھی ۔۔۔۔ ولید پاگلوں کی طرح بھاگتا ہوا بیڈ کے پاس آیا اور اس کے چہرے سے چادر ہٹا دی ۔۔۔۔
“زجی ۔۔۔۔زجی آنکھیں کھولو ۔۔۔ ہم کسی اور ہاسپٹل میں چلیں گے ۔۔۔۔ تم ٹھیک ہو۔جاؤ گی۔۔۔ اٹھو زجی ۔۔۔۔ ” وہ اس کا چہرہ تھپک رہا تھا ۔۔۔۔ اس کے گال تھپتھپا رہا تھا ۔۔۔ نقاش سے یہ سب دیکھنا محال ہو گیا تھا ۔۔۔۔ اس نے آگے بڑھ کر ولید کو جھٹکے سے پیچھے کیا اور دونوں کندھوں سے پکڑ کر زور سے بولا
“زجی مر گئی ھے ولید ۔۔۔۔ شی از نو مور ۔۔۔ مان لو۔اس بات کو ۔۔۔ وہ نہیں رہی اب ۔۔۔ یہ سامنے لاش ھے اس کی ”
ولید کو جیسے کسی نے نیند سے جگایا ۔۔۔۔ “شی از نو مور ” وہ زیر لب بڑبڑایا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا بیڈ کی طرف چلا گیا ۔۔۔ اس نے زجاجہ کے بال ماتھے سے ہٹائے اور اسے بہت پیار سے دیکھا ۔۔۔
“تم چلو نقاش ۔۔۔۔ میں آ رہا ہوں ” ولید نے نقاش سے کہا تو نقاش گھر کا نمبر ڈائل کرتا باہر نکل گیا ۔۔۔
“زجی ۔۔۔۔ تم جا رہی ہو ۔۔۔۔ تم نے وفا نبھا دی۔۔۔۔ میں نے بےبسی کی انتہا آج دیکھی ہے زجی ۔۔۔۔ آج تمہارا ولی بےبس ہوا ہے ۔۔۔ تقدیر کے آگے ۔۔۔ تمہاری جگہ کوئی کبھی نہیں لے سکے گا ۔۔۔۔ اور تم پوچھ رہی تھی نا کہ مجھے تم سے محبت ہے یا نہیں ۔۔۔۔ تو سنو زجی مجھے عشق ہے تم سے ۔۔۔ تب سے جب سے تم میری زندگی میں آئی تھی ۔۔۔۔ آئی لو یو زجاجہ ولید حسن ۔۔۔ آئی ایم پراؤد اف یو ” اس نے پوری شدت سے زجاجہ کا ماتھا چوما ۔۔۔ دو آنسو ولید کئی آنکھوں سے نکل کر زجاجہ کئی پلکوں میں جذب ہو گئے ۔
میرے ساتھی !
میری یہ روح میرے جسم سے پرواز کر جائے
تو لوٹ آنا
میرے بے خواب راتوں کے عذابوں پر
سسکتے شہر میں تم بھی
زرا سی دیر کو رکنا
میرے بے نور ہونٹوں کی دعاؤں پر
تم اپنی سرد پیشانی کا پتھر رکھ کے رو دینا
بس اتنی بات کہ دینا
“مجھے تم سے محبت ہے”…
ولید نے پوری وارفتگی سے زجاجہ کے ایک ایک نقش کو دیکھا اور اس کے چہرے پر چادر ڈال کر باہر آ گیا ۔۔۔۔ نقاش سب کو کال کر چکا تھا ۔۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد ہسپتال میں کہرام مچ چکا تھا ۔۔۔۔ ولید اب بہت صبر کا مظاہرہ کر رہا تھا مگر مما کے پہنچتے ہی وہ پاگلوں کی طرح رو پڑا ۔۔۔ ۔ مسز یزدانی کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے ۔۔۔ ہسپتال سے نکلتے ہوئے نقاش سے ایک لڑکی نے ولید ک طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا
“ایکسکیوزمی ۔۔۔ ان کا کون فوت ہوا ہے ”
“یہ خود ” نقاش نے بغیر اس ک طرف دیکھے جواب دیا اور اس لڑکی کو الجھن میں ڈال کر باہر آ گیا ۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زجاجہ مر چکی تھی ۔۔۔۔
یہ حقیقت ولید حسن آج پانچ سال بعد بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا ۔۔۔۔۔ وہ آج بھی اس کی باتیں اس انداز میں کرتا جیسے وہ ابھی ابھی کہیں گئی ہو اور تھوڑی دیر میں واپس آ جائے گی ۔۔۔۔ وہ بلکل خاموش ہو گیا تھا ۔۔۔۔ سکول بھی ویسا ہی چل رہا تھا ۔۔۔۔ ہوٹلز بھی بہت ترقی کر رہے تھے ۔۔۔۔ وہ بہت توجہ دے رہا تھا بزنس کو ۔۔۔۔ اس کا زیادہ وقت اب UK میں ہی گزرتا تھا ۔۔۔۔
پانچ سالوں میں بہت کچھ بدل چکا تھا ۔۔۔۔ سکندر صاحب یہاں سے سب کچھ بیچ کر ہمیشہ کے لئے اپنے بھائی کے پاس کینیڈا شفٹ ہو گئے تھے ۔۔۔ حیدر اور بیا ک شادی ہو گئی تھی ۔۔۔۔ اور ان کا ایک بیٹا تھا ۔۔۔۔ ثنا کی شادی بھی رضا سے ہو گئی تھی ۔۔۔ رضا نے اپنی بیٹی کا نام زجاجہ رکھا تھا ۔۔۔۔ سکول کے سٹاف میں بھی بہت تبدیلی آ چکی تھی ۔۔۔۔ ثمر حیات بھی آسٹریلیا چلا گیا تھا ۔۔۔۔ جانے سے پہلے وہ زجاجہ ک قبر پر آیا تھا
“زجاجہ سکندر تم واقعی اس دنیا کے لئے نہیں تھی ۔۔۔۔ دل کے ایک حصے میں ہمیشہ آباد رہو گی ۔۔۔ کیونکہ یہ میرے اختیار سے باہر ہے ۔۔۔۔ کبھی واپس آیا تو تمہارے اس شہر خموشاں میں حاضری دوں گا ۔۔۔۔ الله حافظ ” وہ آنسو صاف کر کے مڑا ہی تھا کہ ولید کو دیکھ کر رک گیا
“آپ دنیا کے سب سے خوش قسمت انسان ہیں مسٹر ولید ۔۔۔ آپ کسی رشتے سے اس پر فخر کرتے ہوں گے نا ۔۔۔۔ میں بغیر کسی تعلق کے آخری سانس تک اس پر فخر کروں گا ۔۔۔الله حافظ ” وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا قبرستان سے نکل گیا تھا اور ولید زجاجہ کے سرہانے بیٹھ گیا ۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ولید کچھ دنوں سے بہت پریشان تھا ۔۔۔۔۔ وہ اکثر زجاجہ کو خواب میں دیکھتا اور ہمیشہ پریشان دیکھتا ۔۔۔۔ وہ ان دنوں UK گیا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ مدیحہ آپی جو اس کے تایا ک بیٹی اور فاران ک بڑی بہن تھیں ۔۔۔ ۔ شروع سے ولید سے بہت قریب تھیں ۔۔۔۔ اب بھی وہ ان کے گھر ہی بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔
“کیا بات ہے ولید ۔۔۔۔ کچھ بولا کرو ۔۔۔۔ کیوں اتنا چپ رہتے ہو ” آپی نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے اس سے پوچھا
“میری زجی مجھ سے ناراض ہے آپی ” وہ کہیں بہت دور سے بولا تھا
“ناراض ہے مطلب ۔۔۔۔ میں سمجھی نہیں ”
“میں اس کے نام کا صدقہ دیتا ہوں ۔۔۔۔ خیرات کرتا ہوں ۔۔۔۔ میں نے اس کے نام کے حج کئے آپی ۔۔۔ عمرے کئے ۔۔۔۔ ہر وہ کام کیا جو اسے خوش کر سکے ۔۔۔۔ مگر وہ پھر بھی ناراض ہے ۔۔۔ جب بھی خواب میں آتی ہے اداس ہوتی ہے ۔۔۔ایسا کیوں ہے آپی ” وہ رو پڑا
مدیحہ آپی کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں ۔۔۔۔۔ انہوں نے ولید کا ہاتھ پکڑ کر اسے تسلی دی ۔۔۔
“تم نے جتنا بھی کیا اپنی سوچ کے مطابق کیا نا ۔۔۔۔ یہ سوچ کر کہ اس سے وہ خوش ہو گی ۔۔۔ بلاشبہ وہ اس سب سے بہت خوش ہوتی ہو گی ۔۔۔۔ لیکن کبھی تم نے وہ کرنے کی کوشش کی ولید جو وہ چاہتی تھی ” مدیحہ کی بات پر وہ حیران ہو کر انہیں دیکھنے لگا
“کیا مطلب ۔۔۔۔ کیا چاہتی تھی وہ ”
“وہ تم سے محبت کرتی تھی نا ؟؟” آپی نے جواب دینے کی بجائے سوال کر دیا
“محبت ۔۔۔۔۔۔ یہ تو بہت چھوٹا لفظ ہے ۔۔۔۔ وہ تو جھلی تھی میری ” ولید مسکرایا
“تو ہم جس سے محبت کرتے ہیں نا اسے خوش دیکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔ ہم تب خوش ہوتے ہیں جب وہ خوش ہوتا ہے ۔۔۔۔ زجاجہ بھی اس وقت خوش ہو گی ولید جب تم نارمل ہو گے ۔۔۔۔ پلیز زندگی کی طرف لوٹ آؤ ۔۔۔ اپنے لئے نہ سہی۔۔۔۔آنی کے لئے ۔۔۔۔ ہمارے لئے اور اپنی جھلی کے لئے۔۔۔” ان کے لہجے میں التجا تھی ۔۔۔۔ ولید کے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔۔۔۔وہ بغیر کچھ کہے وہاں سے نکل آیا ۔۔۔۔ آپی اسے جاتا دیکھتی رہیں ۔۔۔۔
وہ روز شام کو قریبی پارک میں چلا جاتا ۔۔۔۔ انگلینڈ میں ان دنوں شدید سردی پڑ رہی تھی ۔۔۔۔ برف نے ہر چیز پر سفید چادر چڑھا دی تھی ۔۔۔۔ پارک میں چند گنتی کے لوگ تھے ۔۔۔۔ ہر طرف دھند کا راج تھا ۔۔۔۔ پارک میں لگی بتیاں بھی دھند کی لپیٹ میں تھی اور ان کی روشنی بھی دھندلائی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ وہ چلتا ہوا ٹک شاپ تک آ گیا ۔۔۔۔
“واٹر پلیز ” وہ والٹ نکالتے ہوئے شاپ کیپر سے بولا ۔۔۔
“سوری سر ۔۔۔۔ یو ول ہیو ٹو ویٹ پلیز ” شاپ کیپر معذرت کرتے ہوئے بولا
اس سے پہلے کہ ولید کوئی جواب دیتا ۔۔۔۔ اس کے سامنے پانی کی بوتل رکھتے ہوۓ کسی نے کہا “واٹر پلیز ”
ولید نے گردن موڑ کر اپنی دائیں جانب دیکھا ۔۔۔۔ وہ کوئی لڑکی تھی ۔۔۔۔ جو اسے پانی دے رہی تھی ۔۔۔۔ ولید نے ایک نظر اسے اور ایک نظر پانی کی بوتل کو دیکھا اور “تھینکس ” کہہ کر آگے بڑھ گیا ۔۔۔۔ وہ بھی ساتھ ساتھ چلنے لگی ۔۔۔۔
“ویسے سوچنے کی بات ہے اتنی شدید سردی میں آپ پانی کیوں لے رہے تھے ” تیز چلنے کی وجہ سے اس کا سانس پھول رہا تھا ۔۔۔ ولید نے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔۔ اور ایک بنچ پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ وہ بھی کچھ فاصلے پر بیٹھ گئی
“آپ کہاں سے بیلانگ کرتے ہیں ” وہ بہت شائستہ انگریزی بول رہی تھی ۔۔۔
“پاکستان ” ولید نے سگریٹ سلگاتے ہوئے مختصر جواب دیا ۔۔۔
“اوہ رئیلی ۔۔۔۔ میں بھی ” وہ خوش ہوتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ ولید نے ایک نظر اس پر ڈالی اور دوبارہ سامنے کے منظر میں گم ہو گیا جہاں دیکھنے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔ لڑکی اس کےرویے سے بیزار ہو کر جانے کے لئے اٹھ گئی اور جاتے جاتے رک کر بولی
“میرا نام زرتاشہ کمال ہے ۔۔۔۔ آپ کو ہر روز ادھر دیکھتی ہوں لیکن آپ ہوتے کہیں اور ہیں ۔۔۔۔ مے الله پاک گرانٹ یو ود پیس ا آف مائنڈ ۔۔۔ بائے ” وہ کہہ کر چلی گئی۔۔۔۔۔ ولید اس کو جاتا دیکھتا رہا ۔۔۔۔
وہ واقعی سچ کہہ کر گئی تھی کہ اتنی شدید سردی میں وہ ہر روز پانی ہی لیتا تھا ۔۔۔۔ وجہ اس کی پیاس نہیں بلکہ زجاجہ تھی ۔۔۔ وہ اکثر اسے پانی زیادہ پینے کی نصیحت کرتی اور وہ اکثر بھول جاتا ۔۔۔۔
“پتا نہیں کب آپ کو پانی پینے کی عادت ہو گی ۔۔۔ شاید جب میں دنیا سے چلی جاؤں گی تب ” وہ تپ کر بولی تھی
“ہاہاہا ۔۔۔ ویری رائٹ ۔۔۔ لوگ محبوب کی جدائی میں شراب پیتے ہیں ۔۔۔میں پانی پیا کروں گا ” وہ دل کھول کے ہنسا تھا۔۔۔ وہ مزید تپ گئی تھی ۔۔۔ جب وہ UK آیا ہوا تھا تب زجاجہ کی پانی زیادہ پینے کی نصیحت پر اس نے کہا تھا
“او میری جھلی ۔۔۔۔ بہت سردی ہے یہاں ۔۔۔۔ کون پانی پیتا ہے بھلا اتنی سردی میں ” ۔۔۔۔ وہ بہت دور نکل گیا تھا ۔۔۔۔ جب سیلز بوائے کی آواز اسے حال میں لے آئی۔۔۔۔
“سوری فور یور ویٹ سر ۔۔۔۔ یور واٹر پلیز ” وہ اسے پانی کی بوتل پکڑا رہا تھا ۔۔۔ ولید نے مسکرا کر بوتل پکڑی اور پیسے بغیر گنے اسے پکڑا دئے۔۔۔۔ اس نے واپس کرنا چاہے تو ولید “اٹس فار یو ینگ مین ” کہہ کر وہاں سے اٹھ گیا ۔۔۔ سیلز بوائے اپنے اس واٹر کسٹمر کو کبھی نہیں سمجھ سکا تھا ۔۔۔
“لو زجاجہ بی بی میں اس شدید سردی میں بھی پانی ہی پی رہا ہوں ۔۔۔۔ ” وہ پانی کی بوتل کھولتے ہوئے دکھ سے مسکرایا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نہیں آپی ۔۔۔۔ وہ کوئی مسٹری ہے ۔۔۔صرف مسٹر نہیں ” زرتاشہ مدیحہ کو ولید کے بارے مین بتا رہی تھی ۔۔۔۔ ” بلا کا ہینڈسم اور اتنا ہی سڑیل ۔۔۔۔ ” اس کے منہ بنانے پر مدیحہ ہنس پڑی ۔۔۔
“تو تم کیوں پیچھے پڑی ہو بیچارے کے ”
“پیچھے نہیں پڑی ۔۔۔۔ میں بس یہ جاننا چاہتی ہوں کہ وہ ہر روز صرف پانی ہی کیوں لیتا ہے ۔۔۔۔ اینڈ یو نو آپی میں اسے پہلے سے جانتی ہوں ۔۔۔۔پاکستان سے ۔۔۔ آئی مین دیکھا ہوا ہے میں نے اس کو ” وہ پر جوش ہوئی
“کہاں دیکھا تھا ” آپی نے سلاد بناتے ہوئے پوچھا
“ہاسپٹل میں ۔۔۔۔ اس کے کسی کی ڈیتھ ہوئی تھی ۔۔۔۔ میں نے ایک بندے سے پوچھا ان کا کون فوت ہوا ہے ۔۔۔۔ ہی سیڈ یہ خود ۔۔۔۔ میں بہت حیران ہوئی ” وہ گاجر کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے بولی “پتا نہیں کس کی ڈیتھ ہوئی تھی ۔۔۔۔ یہ پاگلوں کی طرح رو رہا تھا ۔۔۔ اور نام لے رہا تھا ۔۔۔۔ ہممم۔۔۔ زجاجہ ۔۔۔یس یہی نام لیا تھا اس نے ”
“زجاجہ ” مدیحہ کے ہاتھ رک گئے ” تم ولید کی بات کر رہی ہو زر ”
“آئ ڈونٹ نو ہز نیم ۔۔۔۔بٹ ولید کون ہے اور آپ کیسے جانتی ہیں ” وہ ان کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی
“ولید کزن ہے میرا ۔۔۔۔ بھائی ہی کہہ لو ۔۔۔۔ زجاجہ اس کی بیوی تھی ۔۔۔۔ شادی کے صرف چار دن بعد اس کی ڈیتھ ہو گئی تھی ” مدیحہ کی بات پر وہ ساکن ہو گئی ۔۔۔
“کیسے ڈیتھ ہوئی تھی ان کی ”
“برین ہیمرج سے ۔۔۔” پھر مدیحہ آپی نے اسے پوری کہانی سنائی ۔۔۔ وہ چپ کر کے اٹھی اور اپنے گھر چلی گئی ۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ پاکستان واپس آ گیا تھا ۔۔۔۔ مما اس کی شادی کرنے پر زور دے رہی تھیں ۔۔۔۔ لیکن وہ نہیں مانتا تھا ۔۔۔۔ نقاش بھی اسے بہت دفعہ بات کر چکا تھا ۔۔۔ نقاش اور فاطمہ کی شادی کو بھی دو سال گزر چکے تھے ۔۔۔۔اس بار بھی ولید ان سب باتوں سے جان چھڑا کر اسلام آباد آ گیا تھا ۔۔۔ وہ ہر دسمبر میں ادھر آتا تھا ۔۔۔۔ اسی ریسٹ ہاؤس میں رکتا اور ہر اس جگہ جاتا جہاں وہ زجاجہ کے ساتھ گیا تھا ۔۔۔۔
“میرے بچے کے پاس کپڑے نہیں ہیں بابو ۔۔۔۔ الله تم کو خوش رکھے گا ۔۔۔۔ کپڑے لے دو بابو ”
وہ اپنی دھن مین چلا جا رہا تھا جب ایک عورت نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ۔۔۔ وہ ایک نوجوان سی لڑکی تھی ۔۔۔ اس کی گود میں چھ ماہ کا بچہ تھا ۔۔۔۔ جو اس شدید سردی کے موسم میں بھی کپڑوں کے نام پر چیتھڑوں میں لپٹا ہوا تھا ۔۔۔۔ ولید کا دل دکھ سے بھر گیا ۔۔۔۔ جتنے پیسے ہاتھ میں آئے ولید نے اس عورت کو پکڑا دیے ۔۔۔۔ وہ حیرت سے دیکھنا شروع ہو گئی ۔۔۔۔
“کوئی ولی معلوم ہوتے ہو ” پاس سے گزرتے ایک درویش منش بزرگ نے کہا
“بہت گنہگار ہوں بابا ۔۔۔۔ ولیوں کے پاؤں کی دھول بھی نہیں ہوں ”
“جانتے ہو ولی کون ہوتا ہے ؟؟؟ وہ جو اس کی مخلوق کو عزیز رکھتا ہے ۔۔۔ جو فرش والوں پر رحم کرتا ہے ۔۔۔ وہ عرش والے کا دوست ہوتا ہے بیٹا ۔۔۔ وہ ولی ہوتا ہے ۔۔۔۔ تم بھی ولی ہو ۔۔۔ تم بھی ولی ہو ” وہ بزرگ کہتے کہتے آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ۔۔۔ ولید ریسٹ ہاؤس کی سیڑھیوں کے پاس کھڑا تھا ۔۔جہاں زجی نے اس سے اپنے اور اس کے ملنے کی وجہ پوچھی تھی ۔۔۔۔ آج اسے وجہ سمجھ آئ تھی
“میں نے ولی ہونا تھا زجاجہ اس لئے ہم ملے تھے “۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مدیحہ آپی بھی لاہور آ گئی تھیں ۔۔۔۔ انہیں بھی ولید کی شادی کی جلدی تھی ۔۔۔ وہ زرتاشہ کی آنکھوں مین ولید کے لئے پسندیدگی دیکھ چکی تھیں ۔۔۔ آنی سے فون پر بات کرنے کے بعد وہ زرتاشہ کی فیملی سے بھی بات کر آئی تھیں ۔۔۔ اب ولید سے بات کرنا باقی تھا جو سب سے مشکل مرحلہ تھا ۔۔۔۔ فاران بھائی بھی آ چکے تھے ۔۔۔۔ ان دونوں بہن بھائی کے علاوہ نقاش اور فاطمہ بھی میدان مین اتر آئے تھے ۔۔۔۔ بہت سی مخالفت کرنے کے بعد ولید کو سب کی بات ماننا ہی پڑی ۔۔۔ اس کے کمرے سے جاتے ہوۓ آپی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔۔۔ وہ اس کا دکھ سمجھ سکتی تھیں ۔۔۔ ولید نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا ۔۔۔ اس کی آنکھیں ضبط کی شدت سے سرخ ہو چکی تھیں
“نہ میرا بھائی ۔۔۔۔ رونا نہیں ہے ” وہ اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولیں “مجھے یقین ہے زجاجہ کی روح خوش ہو گی اس سے ”
وہ کہہ کر باہر نکل گئیں ۔۔۔۔ ولید نے زجاجہ کی دیوار پر لگی قد آدم تصویر پر نظر جما دی ۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آج مسز یزدانی کے خوبرو بیٹے ۔۔۔۔ حسن چین آف ہوٹلز کے قابل اونر اور جھلی زجاجہ کے ہینڈسم آفیسر ولید حسن یزدانی کی شادی تھی ۔۔۔۔۔
پورا “حسن ولا” دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔۔۔۔۔ ہر چہرے پر خوشی رقصاں تھی ۔۔۔۔ مسز یزدانی بار بار اپنے بیٹے کی نظر اتار رہی تھیں ۔۔۔۔ سکندر صاحب اور حفصہ بیگم بھی آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔ ان سے مل کر ولید کی آنکھیں جھلملا گئی تھیں ۔۔۔
“نہیں بیٹا ۔۔۔۔ میری بیٹی کی اپنی قسمت تھی ۔۔۔۔ خدا تمہیں خوشیاں نصیب کرے ” سکندر صاحب نے اسے گلے لگا لیا ۔۔۔
زرتاشہ دلہن بنی کوئی خوبصورت پری لگ رہی تھی ۔۔۔۔ وہ بہت خوش تھی ۔۔۔۔ اس نے جس انسان کی خواہش کی تھی وہ آج اسے مل گیا تھا ۔۔۔۔ اسے ولید کے کمرے مین پہنچا دیا گیا ۔۔۔۔ پورا کمرہ تازہ پھولوں سے سجایا گیا تھا ۔۔۔۔ وہ دل ہی دل میں داد دیے بنا نہ رہ سکی ۔۔۔۔ دروازہ کھلنے کی آواز نے اسے سمٹ جانے پر مجبور کر دیا ۔۔۔۔ ولید آہستہ قدموں سے چلتا بیڈ کے پاس آ کر رک گیا ۔۔۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس کی گمبھیر آواز کمرے مین گونجی ۔۔۔
“زرتاشہ میں الله اور رسول کو گواہ بنا کر آپ کو اپنے نکاح میں لایا ہوں ۔۔۔۔ آپ سے بےایمانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔۔ آپ کے حقوق مجھ پر فرض بھی ہیں اور قرض بھی ۔۔۔۔ جو مین ہر حال میں ادا کروں گا ۔۔۔ لیکن ” وہ بولتے بولتے رکا ۔۔۔۔” وہ ہمیشہ میرے دل کی سب سے اونچی مسند پر قابض رہے گی ۔۔۔ وہ پانچ سالوں سے ایک پل کے لئے بھی الگ نہیں ہوئی مجھ سے ۔۔۔۔ کوئی نہیں سمجھ سکتا وہ کیا تھی ” کہتے کہتے ولید کی آواز بھاری ہو گئی ۔۔۔وہ بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ زرتاشہ اٹھ کر زمین پر اس کے پاؤں مین۔بیٹھ گئی ۔۔۔
“مجھے بتائیں وہ کیا تھیں ۔۔۔۔ میں سمجھوں گی ولید ۔۔۔۔ میں جانوں گی ان کو ” وہ ولید کے ہاتھ پکڑ کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی
“وہ دیوانی تھی میری ۔۔۔۔ اس کا ایمان تھا میں ۔۔۔۔ میری جھلی تھی وہ ۔۔۔۔ بہت تکلیف دیکھی اس نے زر تاشہ بہت زیادہ تکلیف دیکھی اس نے آخری دنوں میں ” وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا ۔۔۔۔
زرتاشہ کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ نکلے ۔۔۔۔ اس نے اٹھ کر ولید کا سر خود سے لگا لیا اور اپنے سامنے لگی زجاجہ کی تصویر دیکھ کر سوچا ۔۔۔
“تمہارا شوہر میرے پاس تمہاری امانت ہے زجاجہ ۔۔۔۔ قیامت کے روز لینے ضرور آنا ” اور بہت سے آنسو اس کی آنکھوں سے گر کر ولید کے بالوں میں گم ہو گئے ۔۔۔۔
کون جانے اس سمے دور کہیں نیلے آسمان کے اس پار کوئی معصوم سی روح بہت خوش ہوئی تھی…..
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...