ماضی ۔۔
منشن میں داخل ہوتے ہی ہانیہ اور میلو ڈی مہبوت سے رہ گئے
وجدان نے پیچھے مڑ کے دیکھا
وہ میری روح کی چادر میں آ کے چپ گیا ایسے
کے روح نکلے تو وہ نکلے، جب وہ نکلےتو روح نکلے
ہانیہ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آ ئی تھی
"اب تم لوگ اندر چلو گی یا یہاں ہی منہ کھلے کھڑی رہو گی ”
وجدان ہانیہ کی شکل دیکھ مسکرا تے ہوئے بولا ۔۔ اور ساتھ زیک میلوڈی کی
جس پر ہانیہ نے منہ بنایا ۔۔ پر وجدان کے ساتھ کھرے زیک پرر اس کی نظر گئ تو اس نے اس کی نظر کا طاقب کرتے ہوۓ میلوڈی کی طرف دیکھا اور اپنا گلا ٹھیک کرتے ہوۓ بولی
"اندر چلیں ۔”۔ وو کہتے ہوۓ مسکرائی
"ہاں "۔۔ میلو دی نے کہا ۔۔ جب کے زیک گڑ بڑا گیا
وجدان ان کو کچن میں لے کر چل دیا ۔۔ "یہ آپ کے یہاں گھر میں انے والوں کو سیدھا کچن میں لے جاتے ۔”۔ ہانیہ نے کچن میں داخل ہوتے ہوۓ کہا
"نہیں ہر کسی کو نہیں کچھ خاص لوگوں کو ۔۔” وجدان نے آگے چلتے ہوۓ جواب دیا ۔۔ پر پھر ہانیہ کی طرف سے بلکل خاموشی پر پیچھے مڑ کر دیکھا تو ہانیہ ہر چیز کو گھورنے میں مشغول تھی
وہ ایک بڑے سائز کا کچن تھا جس میں ہر طرح کی مشینری تھی ایکسپریسو (کافی میکر ) کوکنگ رینج، ڈبل ڈور فرج ۔ تھیم بلیک رنگ کا تھا ۔۔ بلیک ووڈ سے بہت سا کام کیا گیا تھا
"کیا ہوا پسند نہیں آیا” ۔۔ وجدان اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر بولا
پھر زیک کی طرف دیکھا جس کا دھیان میلودی کی طرف تھا ۔ میلوڈی کے اپنے تاثراٹ ہانیہ سے مشابہت رکھتے تھے ۔۔
زیک نے وجدان کی طرف دیکھ کر کندھے اچکا ئے ۔۔ جیسے کہ رہا ہو لڑکیوں کی سمجھ نہیں آتی
تب ہی پام (pam) )جس کا اصل نام پامیلا تھا ) کی آواز پر دونو چونکی ۔۔ وہ کافی بڑی عمر کی لگ رہیں تھی ۔درمیا نے سے قد کی تھیں ۔ شائد جوانی میں بال بھورے ہوں پر اب سفید ہو چکے تھے
"ارے ۔۔ کوئی اس گھر میں بھی آیا ہے میں تو انتظار ہی کرتی رہ جاتی ہوں "۔” ہا ئے !۔میں پا میلا ہوں سب مجھے ویسے پام کہتے ہیں ۔۔ پچھلے آٹھ سالوں سے یہاں شف ہوں ۔۔ پر مسٹر وجدان تو کسی کو لے کر ہی نہیں آتے ۔”۔
"پا میلا "۔۔ وجدان نے ان کی باتوں کی ٹرین کو روکتے ہوۓ کہا
"اہ ۔۔ معافی چاہتی ہوں سر ۔۔ میں ہی بولے جا رہی ہوں آپ بھی اپنا تعارف کروائیں ۔۔ کون ہیں یہ خوبصورت لڑکیاں ۔۔”
ان کے بولنے کی عادت پر ہانیہ اور میلوڈی دونوں مسکرائیں
"میرا نام میلوڈی پارکر ہے ۔۔ میں مسٹر وجدان کی اسسٹنٹ میگن کی بیٹی ہوں "۔۔ میلوڈی بولی
"بہت خوبصورت ہو آپ ۔۔ "وہ بھورے بالوں اور سبز آنکھوں والی گڑیا کو دیکھ کر بولی ” بلکے لگ رہا ہے پریآن ہمارے یہاں آ گیئں ہیں ”
"ایک تو باتیں بنانا کوئی پامیلا سے سیکھے ۔۔ "زیک نے مسکراتے ہوۓ وجدان سے کہہ
"میرا نام ہانیہ ریاض ہے میں بز نس مین ریاض ملک کی بیٹی ہوں پاکستان سے آئی ہوں ۔۔ اور میں اور میلوڈی وجدان سے کار ڈرائیونگ سیکھنے آئے ہیں ۔۔۔”۔
جس پر پام کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی ۔۔ میلو ڈی نے وجدان کو مسٹر وجدان کہا تھا جبکہ ہانیہ کے وجدان کہنے پر اس نے وجدان کی طرف دیکھا پھر کچھ سمجھ کر مسکرا دی
"ارے ۔۔ آؤ بیٹھو ۔”۔ وہ سٹول نکلتے ہوۓ بولی
"کیا کھائیں گے ۔۔”
"نہیں ابھی کچھ نہیں کھانا ۔۔ آپ رات کے کھانے کا انتظام کریں۔۔ ساڑھے چھ بجے تک بن جائے پھر ان لوگوں کو واپس بھی چھوڑنا ہے ۔ابھی سب کافی پی لیں گے "۔۔ وجدان نے جواب دیا
"نہیں ۔۔ میں ساڑھے پانچ تک چلی جاؤں گی اور مجھے تو کافی پسند ہی نہیں” ۔۔ ہانیہ نے وجدان کے نا پوچھنے پر بولا ۔۔ یہ سہی ہے ۔۔ ہم سے تو پوچھ لیں زہرپینا چاہتے ہیں یا روح افزا ۔۔ اس نے سوچا
"ٹھیک ہے پا میلا پانچ بجے تک کھانا بنا دے گی ۔۔ تو آپ کیا لیں گی ۔۔مس ہانیہ ۔۔آپ کی خدمت میں کیا پیش کیا جائے ” ۔۔ وجدان کی بات سن کر مسکراہٹ لئے بولا
"میں کوک لوں گی ۔*۔ وجدان کی طرف دیکھ کر بولی
"پر یہاں تو بس شوگر فری کوک ہے ۔وہ سر ہیلتھ کے بارے میں کافی سیریس ہیں تو "۔ پا م نے ہانیہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
"یا اللہ میری مدد فرما ۔۔ میں( health manic )ہیلتھ منیک لوگوں میں کیسے پہنچ گئی ”
"کافی تو شوگر فری نہیں نا ۔۔ پلز فل کریم لے آئیں ۔۔” وہ دعا کرنے کے بعد پام سے مخاطب ہوئی
"جی ٹھیک ہے "۔۔ پام کافی بنانے لگی ۔۔
پھر کافی پینے کے بعد سب نے باہر کی رہ لی ۔۔۔
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال ۔۔ تین سال بعد
عنایا بیٹا میری بات سنانا ۔۔ زرینہ بیگم نے عنایا کو بلایا جو کچن میں کام کرنے میں مشغول تھی
جی ۔۔ امی ۔۔ عنایا کے باہر اتے زرینہ بیگم اس کا ہاتھ پکڑے اندر ڈرائنگ روم میں لے آئین ۔۔
”یہاں بیٹھو ۔۔” انہوں نے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ کہا
” جی ۔۔ جلدی بولیں امی ۔۔ نہیں تو بی جان آ جایئں گی *۔۔ وہ دروازے سے باہر دیکھتے گویا ہوئی ۔۔
"دھیان سے بات سنو میری !تم جانتی ہو عنایا ۔۔ تمہارے بابا کے بعد خود کو سمبھالنا کتنا مشکل تھا میرے لئے ۔۔پر تم لوگوں کے لئے خود کو سمبھال لیا ۔۔ پر اب تم لوگوں کے لئے پریشان ہوں ۔۔ دل تو کرتا ہے تم دونو ں کو پاس ہی رکھ لوں ۔ پر جو اللہ کو منظور ۔۔ اور اللہ بہتر ہی کرتا ہے ۔۔ انسان کے لئے ۔۔”
"یہ کیا بول رہی ہیں امی ۔۔ ہم کہاں جا رہے ہیں ۔”۔ عنایا نے نا سمجی سے ان کی طرف دیکھا
"بیٹا ۔۔تم لوگ میرا مان ہو ۔۔میں نے اور بی جان نے فصیلہ کیا ہے کے ۔۔ تمہارا اور زین کا نکاح کر دیں ۔۔ ”
"میرا نکاح !!!!! دولہا کہاں سے آئے گا ۔اور زین کی دلہن کون ہے ۔” عنایا ان کی طرف آنکھیں بڑی کر کے بولی ۔۔
"کیا مطلب دولہا کون ہے ۔۔ زین ہی تو دولہا ہے ۔”۔ زرینہ بیگم اس لڑکی کی عقل پر شعبہ گزرا
"کیا ۔۔”۔۔۔۔۔۔ وہ اتنا اونچا بولی ۔۔ کے زرینہ بیگم کو پیچھے ہٹنا پڑا ۔۔ اور شائد باہر باغ میں درختوں پر بیٹھے پرندوں کو اڑنا
"آہستہ بولو لڑکی۔”۔ وہ اس کے اتن اونچا بولنے پر تپ گئیں
” ۔۔ آپ نے مجھ سے پوچھا بھی نہیں ۔۔” عنایا نے اپنی اصل حالت میں لاتے ہوے کہا
*اب پوچھ تو رہی ہوں ۔۔ بلکے میں ہیں ہاں کرنے والی ہوں ۔۔ کیا برائی ہے ۔۔ گھر کا بچا ہے ۔۔ اعترا ض کا تو کوئی جواز ہی نہیں ”
"پر امی "۔۔۔ عنایا نے زرینہ بیگم سے کچھ کہنا چاہا
"پر ور کچھ نہیں ۔۔ تمہاری عقل تو گھاس چرنے گئی ہے ۔۔ پر میری نہیں ۔۔ اگر میری سلامتی چاہتی ہو تو چوں چران نا کر نا ۔”۔ زرینہ بیگم غصے سے گویا هوں وہ عنایا کا چہرہ دیکھ کر بتا سکتیں تھیں کے کیا سوچ رہیں ہے صاحبہ ۔۔
یہ تو بلیک میلنگ ہو گئی ۔۔ عنایا اپنی امی کے تیور دیکھ کر بولی
"ہاں ! یہ میں چھ سال بعد پوچھوں گی ۔۔ ”
"اب میں جا رہی ۔۔ کام ہیں مجھے پر تم نے کوئی محاذ نہیں کھڑا کرنا ۔۔” وہ عنایا کو وارننگ دیتے ہوئے بولیں
"جی ۔”۔ عنایا نے مری ہوئی آواز میں کہا ۔
"ٹھیک ہے پھر "۔۔ زرینہ بیگم کمرے سے چلیں گئیں ۔۔
"زین ۔۔ بچ کے دکھاؤ ۔۔” وہ زین کی تلاش میں چل دی جس kی فرشتوں کو بھی خبر نا تھی کے کیا ہونے والا ہے ۔۔۔
.۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
"ارے ۔یار یہ کومل آئی کیوں نہیں آئے ابھی تک ” ۔زمان نو دیوار پر لگے سجاوٹی آئینے میں کوئی گیارہویں دفع بال سٹ کئے
"کومل بھابی کو جن دیکھنے ک شوق نہیں ہو گا ۔اچھا ہی ہو گا نا آئیں ۔”۔ عنایا نے بھائی کو تاپانے کے لئے بولا
"تم !!! لڑکی جا کر کام کرو” ۔ زمان تنک آ کر بولا
"آپ کو زین کےبارے میں پتا ہے کے کہاں پر ۔۔ ہیں ۔ ؟ "عنایا بے زمان سے پوچھا
"نہیں شام سے غائب ہے ۔۔کیوں کوئی۔ کام ہے۔”۔ زمان پیچھے دیکھ کر بولا
” کچھ نہیں وہ پھوپو نے کچھ کام دیا ہے ۔ ویسے آپ کو پتا ہے امبرین بتا رہی تھی کے کومل بھابھی نہیں آئیں ساتھ "۔ عنایا نے آنکھیں پیٹپٹا کر غمگین انداز میں کہا
"کیا ۔۔۔ وہ تو بیہوش ہونے کے در پر پہنچ گیا ۔”جن کے لئے وہ گھنٹے سے تیار ہو رہا تھا وہ تو آیا ہی نہ تھا ۔
"چلو ۔یہ کام بھی ہو گیا” ۔ عنایا ہاتھ جھاڑتے اٹھ کھڑی ہوئی
"کونسا کام "۔زمان نے اس کی طرف دیکھ بولا
"آپ کو پاگل بنانے کا نیچے کومل بھابھی کے چچا آپ کو بولا رہے ہیں ۔”عنایا نے کمرے کے باہر کھڑے ہو کر کہا ..
"عنایا !!!! زمان عنایا کے پیچھے بھا گا "۔۔ لیکن عنایا سیدھا کچن میں گھس گئی ۔۔
"بیٹا ۔بھائی ہوں تمہارا دیکھنا تو سہی ۔”۔ جب زرینہ بیگم کچن سے نمو دار ہوئیں
"جتنے بڑے ہوتے جا رہے ہو تم سب کا دماغ چھوٹا ہوتا جا رہا ہے چھوٹے بڑے کو۔ کوئی تمیز ہی نہیں ” ۔زرینہ بیگم جو پہلے ہی غصّے میں تھیں ان لوگوں کی حرکتوں نے اان کو تپا ہی ڈالا ۔۔
"تم جاؤ ڈرائنگ روم میں اس سے پہلے کے اس کی چچی کو باتیں بنانے کو بہانہ مل جائے ۔”۔ وہ زمان کی طرف دیکھ کر بولیں
"ایسے کیسے ۔”۔ . یہ کہتے ہی اس نے ڈرائنگ روم کا رخ کیا
۔۔۔۔۔۔