اس کے امتحان ہونے والے تھے’ تو اماں نے اس کے سارے کام ختم کروا دیے تھے… بی اے کے بعد اسے کوئی اچھی نوکری مل سکتی ہے… مگر اب اس کا دھیان ہی قائم نہیں رہا
تھا…. ہاتھی….. شیر…… لکھا نظر آتا… وہ ہنس دیتی…
فون آتے رہے’میسج بھی آتے رہے… وہ خاموشی میں ہی اس سے ہم کلام ہوتی رہی… وہ اس کی زندگی کا جز بن گیا… سانس کی طرح جو آتے جاتے دکھائی نہیں دیتی’ لیکن ہوتی ہے اور بہت ضروری ہوتی ہے…
چند دنوں سے نہ فون آ رہے تھے’ چڑچڑی ہو گئی…
“آخری بار اس نے اتنا ہی لکھا تھا کہ وہ مر جائے گا تو ہی جواب آئے گا…
افق کو حیرت ہوتی تھی کہ وہ کتنا مستقل مزاج ہے اور اب یہ مستقل مزاج چپ ہو گیا تھا… مصروف ہو گا’ بیمار ہو گا یا بھول گیا ہو گا…
دو ہفتے گزر گئے’ کیسے گزرے افق ہی جانتی تھی…
“وہ مر ہی گیا ہو گا!” افق کا دل دہل گیا…
“افق پڑھ لو…” اماں نے کہا… پہلے انہیں کہنا نہیں پڑتا
تھا…
رات تک کوئی میسج نہیں آیا تھا…
رات سے صبح ہو گئی… اماں اسکول چلی گئیں… وہ اکیلی رہ گئی…
“کوئی ہے؟” اس نے پہلی بار دیکھا…
رات گئے تک کوئی جواب نہیں آیا…
دو دن گزر گئے… اتنی ہمت کر کے کیے گئے سوال کا کوئی جواب نہیں آیا…
“کہاں گئے سب؟” پھر لکھ کر بھیجا…
جواب پھر بھی نہ آیا’ دو دن اور گزر گئے…
“اب تو وہ مر ہی گیا ہو گا پکا…” فون بھی بند ہو گا… اس نے کال کے بٹن کو دبایا… پہلی ہی بیل پر…
“یہاں ہیں سب… اور تم…” سوال کا جواب اور جواب کے لیے سوال…
“اور تم……” افق کا دل پھڑپھڑانے لگا…
“ارے بھئی……. اور تم….” وہ پوچھ رہا تھا…
اس نے فون بند نہ کیا’ سنتی رہی…
“ڈر رہی ہو کہ کون لفنگا اور بدمعاش ہے… بولتی نہیں ہو’ سانس بھی لیتی ہو کہ نہیں؟ کھاؤں گا نہیں تمہیں… قتل بھی نہیں کروں گا سچ… اب بھی تمہارا فون نہ آتا تو مر جاتا’ اپنی قسم کھاتا ہوں’ مر جاتا’ بولو بھی’ کیا کوئی ہے؟”
“ہاں!” اس نے کہا’ اسے کہنا ہی پڑا’ بچوں سی پیاری لڑکی کو کہنا ہی پڑا’ یقین جانیے کہنا ہی پڑتا ہے’ انسانی فطرت’ عورت اور مرد کہ ازلی جوڑی دار سانجھ اور کشش…… کوئی اس کشش سے کہاں جا چھپے…
“تمہارا نام….” اس نے اتنے پیارے انداز سے پوچھا…
“افق…..”
نام بتاتے ہی بات چل نکلی…
افق کو ایک سہیلی مل گئی… وہ کب روئی’ کب ہنسی… وہ اسے بتانے لگی…
محبت نے عجب ستم ڈھایا اس پر……. وہ اپنی اماں کی’ گھر کی’ کام کی چھوٹی چھوٹی سوچوں سے دور نکل
گئی… اسے اس سے بات کرنا بہت اچھا لگتا تھا… اس نے کہا… اگر وہ اتنی منکسرالمزاج رہی تو فرشتہ بن جائے گی… وہ ہنس دی…
“تمہیں میری ہر بات پر ہنسی آتی ہے؟”
“آپ کی ہر بات ہنسانے والی ہوتی ہے…”
“مجھے جوکر سمجھا ہے؟”
“ہاں سمجھ لیتی ہوں…” کھی کھی کھی…
“ایک دن ایسے ہی ہنستے میں تمہارا گلا دبا دوں گا…”
“ہائے اللہ!” اس کے سنجیدہ انداز پر وہ واقعہ سنجیدہ ہو گئی…
“ہاہاہا!” وہ دل کھول کر ہنسا…
اپنے تعارف میں اس نے اپنا نام امان بتایا تھا… کالج میں وہ اسی نام سے مشہور ہے… دراصل چند ماہ وہ شوق شوق میں وہ ہاسٹل رہا تھا… ہاسٹل میں اندرون خانے انہوں نے بہت سے کارنامے انجام دیے تھے… ان کے گروپ کا نام “ایگل” تھا اور وہ سب ایک دوسرے کو فرضی یا نک نیم سے بلاتے تھے… یہ صرف ایک سیف سائیڈ پلان تھا کہ کوئی گڑبڑ ہو جائے اور بات تفتیش تک جا پہنچے تو کوئی ان تک پہنچ ہی نہ سکے… چوکیداروں کو بھی ان کے اصل نام معلوم نہیں تھے… آئے دن وہ نت نئی شرارتیں کرتے’ ہاسٹل میں رہنے کا شوق پورا ہو گیا… وہ ہاسٹل چھوڑ آئے… نام ساتھ ہی لے آئے… امان نے اسے صاف صاف بتا دیا کہ وہ پچھلے دنوں فون پر لڑکیوں کو تنگ کرتا رہا تھا… ایک نمبر پر وہ ملی تو اس کی آواز’ انداز پر فدا ہو گیا… وہ دوسرے شہر سے یہاں پڑھنے کے لیے آیا تھا… ڈی ایچ اے میں ایک بنگلے میں اپنے چار دوستوں کے ساتھ رہتا ہے…
وہ بات اس انداز سے کرتا کہ پیارا لگتا… اس میں ایک بات تھی کہ وہ سچ بڑے دھڑلے سے بولتا تھا… جب اس نے یہ کہا کہ وہ لڑکیوں کو تنگ کر رہا تھا… افق خاموش ہو گئی…
“کیا ہوا؟” اس نے پوچھا… وہ خاموش ہی رہی…
“اپنے چھوٹے سے ذہن پر زیادہ زور مت ڈالو… چور’ ڈاکو نہیں ہوں میں… قدر کرو میری’ میں کتنا سچ بولتا ہوں… چاہتا تو یہ بات نہ بتاتا’ تم سی بھولی لڑکی سے زیادہ تو بھالو عقل والا ہو گا… نہ بتاتا تو کیا معلوم کر لیتیں تم یہ؟”
اس نے اتنی بڑی دلیل دی کہ افق قائل ہو گئی…
“ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا میرا’ بور ہو رہا تھا میں’ کالج جا نہیں رہا تھا… ایک جگہ پڑے پڑے تھک گیا تھا… ورنہ کالج میں مجھے لڑکیوں کی کمی نہیں… ہر لڑکی میری دوست بننا چاہتی ہے…”
کالج میں لڑکیوں کی کمی نہیں… یہ بات افق کو بری لگی… افق نے فون بند کر دیا… اسے بےعزتی کا احساس ہوا… اس احساس میں بھی اس نے امان کو برا نہ سمجھا… صرف اس کی حرکت کو ہی…
“رونا مت…” میسج آیا’ پھر یہی میسج بار بار آتا رہا… وہ مسکرا ہی دی…
“بہت لڑکیوں سے دوستی ہے… بہت سوں سے بات کرتا ہوں افق…… لیکن….. “میری بیوی بنو گی…” صرف تمہیں کہا’ سمجھیں……. میں تم سے ڈرتا نہیں ہوں… میں نے یہ صرف تمہیں ہی کہا… دوبارہ ایسے فون بند مت کرنا… ورنہ میں تمہارے گھر آ جاؤں گا… تمہیں اٹھا کر لے جاؤں گا…”
افق نے کہا… “سب لڑکیوں سے دوستی چھوڑ دو…”
اس نے قہقہہ لگایا اور کہا… “اچھا جی!”
“ان سے بات نہ کرنا…”
“ٹھیک ہے…”
“ایسا کرنا ٹھیک نہیں…”
“اچھا یار! ٹھیک ہے اور کچھ؟”
“بس اتنا ہی….” وہ فوراً سمجھ کر مان جاتی تھی…
“تم سے ملنا ہے…” اب وہ صرف یہی ایک بات کرتا…
“دیکھتے ہیں…” وہ ہنسی…
“تو پھر ملو نا’ پھر دیکھتے ہیں…” التجا بھی’ فرمائش
بھی…
“یہ بھی دیکھتے ہیں…” وہ کھل کر ہنسی…
……… ……………… ………
اس کا رزلٹ آیا… وہ فیل تھی دو پرچوں میں… امان بہت ہنسا… “یہی ہونا تھا…”
افق کو دلی صدمہ ہوا… اماں کی ساری امیدیں خاک ہو گئیں… وہ دنوں اداس رہی… پھر سوچتیں’ اتنا کام کرتی ہے’ پھر ایسے میں کہاں کی پڑھائی… انہوں نے افق کو سمجھایا کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں ایک وقت کی روٹی بھی کھا سکتے ہیں… اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے… وہ سمجھ گئی… لیکن مسئلہ کچھ اور تھا… کام نہیں تھا… آج کل وہ جو کام کر رہی تھی وہ تو بہت آسان تھا… ریڈی میڈ کپڑوں پر بٹن لگانے کا کام تھا… وہ ہینڈز فری کان میں لگا کر ایک طرف بیٹھی کام کرتی رہتی اور باتیں بھی…
امان بہت مصروف انسان تھا… لیکن وہ ہر روز اس سے بات ضرور کر لیتا تھا…
امان نے کہا کہ اس نے ٹاپ کیا ہے… وہ خوش تو ہوئی… لیکن حیران بھی ہوئی… امان سے بات کر کے وہ فیل ہو گئی… لیکن افق نے فخر ایسے کیا جیسے اس نے خود نے ٹاپ کیا ہو… اتنا دکھ تو اسے اپنے فیل ہونے کا نہیں ہوا تھا… جتنا اس کے ٹاپ کرنے کی خوشی ہوئی تھی…
اب وہ ملنے کی ضد کرنے لگا تھا’ افق میں حوصلہ نہیں
تھا… افق سیکریٹریٹ کی طرف بنی فیکٹری میں کام کرنے لگی تھی… وہاں فرمے اور خاکی لفافوں کی نسبت کام آسان بھی تھا اور پیسے بھی زیادہ تھے… اسے صرف چھ گھنٹے کام کرنا ہوتا… ماہوار چھ ہزار…… تین گھنٹے اور لگانے پر آٹھ ہزار…….. افق آٹھ بجے جاتی’ تین بجے تک واپس آ
جاتی… جمال اور اسد اس کے ساتھ ہوتے تھے… اسے چھوڑ کر وہ اپنے اسکول چلے جاتے… امان کے بار بار کہنے پر اس نے اسے نیشنل کالج آف آرٹس کے آگے کھڑا ہونے کے لیے کہہ دیا… اسے اسی سڑک کے فٹ پاتھ پر سے گزرنا تھا…
جمال آگے آگے چل رہا تھا اور اسد ذرا سا پیچھے چل رہا
تھا… کبھی کبھی اس کے قدم افق کے بالکل برابر آ ملتے…
“افق باجی! تیز چلو…… آج اتنی آہستہ چل رہی ہو…”
اس نے دو قدم تیز اٹھائے… پھر آہستہ ہو گئی… وہ کار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا… اس نے نیلے رنگ کی ٹی شرٹ کے بارے میں افق کو بتایا تھا اور افق نے اسے ہلکے گلابی رنگ کی شلوار قمیض اور کالی سیاہ چادر کے بارے میں بتایا تھا… وہ کار کے بونٹ کی طرف کھڑا تھا…
پہلے امان نے اسے دیکھا… شاہراہ قائداعظم کی پُرشور سڑک پر کشمیری حسن سے مجسمے کو سڑک پر چلتے دیکھا… حیران رہ گیا…
افق فٹ پاتھ پر اس کے قریب سے گزر کر چلی گئی… اس نے ایک بار نظر اٹھا کر نیلی شرٹ والے کو دیکھا… دونوں کی نظریں ملیں…
امان زندگی میں لڑکی نام کی چیز سے متاثر نہیں ہوتا تھا… وہ لڑکیوں کو پسند کر لیتا تھا… دوستی بھی’ فلرٹ بھی’ لیکن متاثر نہیں ہوا تھا… مگر وہ افق سے متاثر ہو گیا… اس کے حسن سے……. اس نے رات کو فون کیا تو بولنا ہی بھول گیا…
“تم اتنی خوب صورت ہو!”
اس نے اسے انداز سے کہا جسے افق نہیں سمجھتی تھی… دنیاوی پیمانوں سے ابھی وہ نہیں گزری تھی… خوب صورتی اگر کوئی فائدہ ہے تو وہ اسے فی الحال کوئی فائدہ نہیں دے رہی تھی اور اگر یہ خوبی ہے تو یہ خوبی ان کے لیے بےکار تھی…
“مجھے نہیں معلوم’ میں کیسی ہوں…” اس نے سچ کہا…
“تمہیں معلوم ہو بھی نہیں سکتا…” امان کا انداز کھو گیا…
“مجھے معلوم کرنا بھی نہیں…” اس بار بھی اس نے سچ ہی کہا…
“اگر تم نے معلوم کرنا چاہا تو غضب ہو گا…”
وہ حیران ہوئی… “کیا مطلب؟”
“ہمارے کالج میں ذرا جو خوب صورت لڑکیاں ہیں نا’ وہ کمال کے ناٹک کرتی ہیں’ پھر تم سی بھی ایسے ہی ناٹک کرتیں…”
“ناٹک…..”
“چھوڑ دو اس بات کو یہیں…”
اس نے چھوڑ دیا… اتنی عقل والی نہیں تھی کہ باتوں سے ہزار ہزار مطلب نکال لیتی…
امان نے کرید کرید کر اس سے بہت سے سوال کیے… ابا اور ان کی موت کے بارے میں…… خاندان کے بارے میں’ یہ سوالات اس نے پہلے نہیں پوچھے تھے… وہ اپنی باتیں کرتا’ اپنی شرارتیں’ تھوڑا بہت وہ جانتا تھا’ جو کچھ پوچھتا’ افق سچ سچ بتا دیتی تھی…
اسے پہلی بار دیکھنے کے بعد اس نے بہت سنجیدہ گفتگو کی تھی اس کے ساتھ… اس کے باتوں سے افق کو اندازہ تھا کہ وہ امیر ہے… لیکن اتنا امیر ہے وہ نہیں جانتی تھی… وہ اسے اپنے خاندان کے بارے میں بتانے لگا…
وہ چاہتا تھا کہ وہ فیکٹری نہ جائے… وہ اسے چھ ہزار دے دیا کرے گا… اس کی یہ بات افق کو اتنی اچھی لگی کہ وہ خوشی سے نہال ہو گئی مگر اس نے انکار کر دیا… وہ اس سے پیسے لے لیتی… فیکٹری نہ جاتی تو اماں کو کیا بہانہ کر کے پیسے دیتی… امان سمجھ کر چپ کر گیا… افق کا انکار کرنا اسے بھی اچھا لگا…
آنے والے دنوں میں وہ کئی کئی بار اس کے راستے میں کار روک کر کھڑا ہوا… چادر کا پلو منہ میں دبائے وہ قریب سے گزرتی رہی… ایک نظر دیکھتا اور اگلی نظر کے لیے بےچین ہو جاتا… اس نے اس سے زیادہ خود ہی اصرار نہیں کیا…
اب امان چاہتا تھا کہ افق اچھے نمبرز سے امتحان پاس کرے تو وہ اسے کسی اچھے کالج میں داخل کروا دے… کم از کم اس کے پاس ایک اچھی ڈگری تو ہو گی… امان کے لیے وہ سب اچھی ڈگریاں حاصل کر سکتی تھی… وہ اس کی ہر بات مان لیتی تھی… ضدی تو وہ تھی ہی نہیں…
……… ……………… ………
وقت اور زمانے نے کچھ چیزوں’ کچھ افکار’ کچھ قدروں کو نادرونایاب بنا دیا ہے… اب چور بازاری اتنی ہے کہ شریف النفسی پر جان دینے کو جی چاہتا ہے… جھوٹ اتنا ہے کہ سچ کو اٹھا کر طاق میں رکھنے کو جی چاہتا ہے… دغا بازی’ فریبی’ چالاکی’ مکاری’ فرعونیت اس حد تک سرایت کر چکی ہے معاشرے میں کہ معصوم اور بھولے بھالے کسی بھولے بھٹکے آدم زاد کو گھر میں تالا بند کرنے کو جی چاہتا ہے… سادگی’ معصومیت’ نیکی’ شرافت’ اعلا کرداری’ یہ نوادرات کی فہرست میں درج ہو گئے ہیں… امیر لوگ لاکھوں’ کروڑوں لٹاتے ہیں ان نوادرات کو اپنے گھروں میں سجانے کے لیے…
سادہ’ معصوم’ بوکھلائی سی افق کے ساتھ بھی یہی ہوا… اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور وہ ہاتھ امان کے تھے…بات محض وقت گزاری’ تفریح اور دل لگی سے شروع ہوئی… اب دل کی طرف جا رہی تھی… امان کے دل کی طرف…
افق کے حسن کا تیر عین نشانے پر لگا… اس کی سادگی نے امان کا دل موہ لیا… کبھی جو اس نے عورت کے لیے ایک معیار بنایا تھا… افق اس معیار پر پوری اتر رہی تھی… وہ اس کی زندگی میں آنے والا پہلا لڑکا ہے… وہ جانتا تھا آخری بھی ہو گا… وہ قسم کھا سکتا تھا… افق سے سادہ طبیعت لوگ نہ منزل بدلتے ہیں’ نہ راستے… لوگ اور محبت تو بدلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا… امان اس کی ہر ہر بات کو بہت پسند کرتا تھا…
اس نے کبھی اس سے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے… وہ اس سے بات کرتا تھا… افق کے لیے یہی محبت تھی… دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک تھے… افق امان تک جانے میں اور امان افق کے پانے میں…
……… ……………… ………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...