بلیک میلر ہے بڈھا! دیکھو کس طرح اپنی بیماری کو ہتھیار کی طرح استعمال کیا ہے۔‘‘ نبیلہ نے شکیلہ کے سامنے دل کے پھپولے پھوڑے ۔
’’تم بھی پرلے درجے کی بے وقوف ہو۔ جو کام کل سوچا تھا کرنے کے لیے‘ اسے کل ہی کرلیتیں تو آج یہ نوبت ہی نہ آتی۔ ریحان کے نکاح کے فوراً بعد کینیڈا سیٹل ہوجاتیں اور بہانہ کردیتیں کہ ریحان کی پڑھائی اور افتخار کے بزنس کی وجہ سے وہاں سیٹل ہورہے ہیں تو ان کے منہ خود ہی سل جاتے اور آج وہ تمہارے محتاج ہوتے کہ تم کب انہیں رخصتی کی تاریخ دیتی ہو۔ اِدھر تم نے کینیڈا جانے کا سوچا ہے اُدھر انہوں نے رخصتی کی تاریخ طے کردی‘ اب بھگتو!‘‘ شکیلہ تو اس سے بھی زیادہ چڑی بیٹھی تھی اور چڑتی کیوں نہیں آخر اس نے اپنی بیٹی حنا کا رشتہ طے کرنے کا سوچاتھا ریحان سے اور شادی کینیڈا میں ہونا طے پائی تھی دونوں بہنوں میں اور یہ رشتہ حنا کی پسندیدگی کو دیکھتے ہوئے طے کیا گیا تھا مگر اب اس کے دور دور تک آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے‘ وہ تو یہ سوچ سوچ کرپریشان ہوگئی تھی کہ اب یہ شاکنگ نیوز حنا کو کیسے سنائے۔
’’اب مجھے کیا پتا تھا کہ وہ بڈھا اس طرح بیمار ہوجائے گا اور اس طرح چالاکی سے اپنی بیماری کا استعمال کرے گا۔ اگر مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا تو یہ کام میں پہلے ہی کردیتی۔ میں نے تو کہا بھی تھا کہ رخصتی ریحان کے ایم بی اے فنانس اور مشعل کی بی ایس سی کے بعد ہی کریں گے مگر ان مگر مچھوں نے تو وقت سے پہلے ہی مجھے ثابت نگل لیا۔ اب کیا کروں‘ کوئی راستہ بھی تو نہیں نکل رہا‘ اللہ کرے وہ بڈھا ہی مرجائے۔‘‘ تلخی سے بولتے بولتے نبیلہ نے آخر میں بددعا دی۔
’’ہاں اللہ کرے کہ وہ بڈھا ہی مرجائے تاکہ یہ رخصتی ٹل جائے‘ اب تو یہی ایک آخری راستہ بچا ہے۔‘‘ شکیلہ نے نبیلہ کی بات کی تائید کی۔
’’اچھا میں اب چلتی ہوں کافی دیر ہوگئی۔‘‘ وہ شکیلہ کو خدا حافظ کہہ کر باہر نکل آئیں۔ جب ان کی گاڑی باہر نکلی تو حنا کی گاڑی کے قریب سے گزری اور ان کی نگاہیں حنا کے وجود سے ٹکرائیں‘ گاڑی اس کا کوئی دوست ڈرائیو کررہا تھا۔ شکیلہ اپنی بیٹی کے تمام کرتوتوں سے واقف تھیںمگر چشم پوشی سے کام کرتی تھیں یوں بھی ان کی سوسائٹی میں اس قسم کی دوستیاں معیوب نہیں سمجھی جاتی تھیں۔ سو شکیلہ کے لیے بھی یہ بات معیوب نہیں تھی۔
…٭٭٭…
’’چاند نظر آگیا…‘‘ ماہ رخ چیخ کر قریب کھڑی مشعل سے لپٹ گئی۔ ’’کل عید ہوگی‘‘ اس نے مزید کہا۔
’’آج کا چاند اور کل کی عید بہت بہت مبارک ہو۔‘‘ مشعل نے کہا۔
’’آپی! چاند بہت بہت مبارک ہو۔‘‘ پاس ہی کھڑے علی عون نے کہا تو وہ دونوں بھی اسے مبارک باد دینے لگیں۔ وہ تینوں ہی نماز کے بعد چھت پر آگئے تھے۔
’’سب سے پہلے میں جاکر مبارک باد دوں گی دادا ابو کو ابو جان کو اور امی کو۔‘‘ ماہ رخ نیچے لپکی‘ علی عون اس کے پیچھے تھا۔ مشعل وہیں کھڑی ان دونوں کا جو ش دیکھ رہی تھی کہ اس نے ریحان کو اوپر آتے دیکھا۔
’’چاند رات بہت بہت مبارک ہو۔‘‘ اس نے سفید گلاب کی ادھ کھلی کلی اس کی جانب بڑھائی جسے اس نے ہاتھ بڑھا کر تھام لیا۔
’’بہت بہت شکریہ‘ تمہیں بھی مبارک ہو۔‘‘
’’کبھی تم بھی بھولے سے ایک عدد پھول‘ چلو گلاب کا نہ سہی موتیے‘ چنبیلی کا ہی دے کر چاند مبارک کہہ دیا کرو۔ ہمیشہ یونہی مجھ سے پھول لے کر چاند رات مبارک کہہ دیتی ہو۔‘‘
’’میری تو باتوں ہی سے پھول جھڑتے ہیں پھر خالی خولی پھول دینے کا تردد کیوں کروں؟‘‘ اس نے سفید گلاب کے پھول پر اپنی مخروطی انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔ جواباً ریحان کا قہقہہ بے ساختہ تھا پھر وہ بولا۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے!!
تو اپنے آپ کو برباد کرکے دیکھتے ہیں!!
وہ سر جھکائے اسے سُن رہی تھی عین اسی وقت اس کی سماعت سے رونے کی آوازیں ٹکرائیں۔ اس نے سرعت سے گردن اٹھا کر ریحان کی طرف دیکھا‘ اس کی پریشان نگاہوںمیں سوال تھا گویا وہ اس سے پوچھ رہی ہو کہ کیا تم نے بھی کچھ سنایا یہ میرا وہم ہے؟ اس کی نگاہوں میں بھی ایسے ہی احساسات تھے پھر وہ ایک ساتھ نیچے کی جانب لپکے تھے۔ رونے کی آوازیں دادا ابو
کے کمرے سے بلند ہورہی تھیں ۔ وہ دونوں دھڑکتے دل اور لرزتے قدموں کے ساتھ وہیں چلے آئے اور سب کو روتا دیکھ کر ساکت ہوگئے۔ دادا ابو اب اس دنیا میں نہیں رہے تھے۔ یہ جان لیوا انکشاف ان کی سانسیں بے ربط کرگیا۔ اشک بے ساختہ ان دونوں کی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔ اتنی اچانک وہ ان سب کو چھوڑ کر چلے جائیں گے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی سوائے نبیلہ کے!
شاید اس کے منہ سے نکلی بددعا کسی قبولیت کے لمحے کی زد میں آگئی تھی۔
…٭٭٭…
’’کیا کررہی ہو مشعل!‘‘ ماہ رخ نے کچن کے دروازے میں سے جھانک کر چولہے کے پاس کھڑی مشعل سے پوچھا۔
’’پکوڑے بنارہی ہوں۔‘‘
’’ریحان بھائی کے لیے؟‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’ہمیںبھی ملیں گے؟‘‘
’’ہاں کیوںنہیں‘ سب کے لیے بنارہی ہوں۔‘‘ ماہ رخ اندر آگئی اور اس نے پلیٹ میں سے ایک پکوڑا اٹھا کرمنہ میں رکھ لیا۔
’’تم پکوڑے بناتی کم کم ہو مگر بناتی اچھے ہو‘ تبھی تو ریحان بھائی تم سے ہمیشہ پکوڑوں پر ہی شرط لگاتے ہیں۔‘‘ماہ رخ نے تبصرہ کیا۔
’’تعریف کا شکریہ! یہ تم اندر لے جائو اور یہ میں ریحان کے لیے لے کر جارہی ہوں۔‘‘ پکوڑے اور چٹنی کی پیالی کی جانب اس نے اشارہ کرکے بتایا تو ماہ رخ کہے بنا نہ رہ سکی۔
’’ان کی طرف لے کر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اِدھر تم لان میں قدم رکھو گی اُدھر وہ دروازے سے نمودار ہوں گے۔‘‘ اور اس کے لبوں پر مسکراہٹ کھل گئی۔ تھوڑے عرصہ پہلے ہی کی بات ہے وہ پکوڑے ٹرے میں سجائے اس کی طرف جارہی تھی کہ وہ سامنے دروازے سے نمودار ہوتا دکھائی دیا تھا وہ ان کی طرف جانے کا پروگرام ملتوی کرتے ہوئے بولی۔
’’میں ابھی تمہاری طرف ہی آرہی تھی۔‘‘
’’دیکھ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے اِدھر تم نے یاد کیا اُدھر ہم حاضر!‘‘ وہ بھی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔
’’ہاں شیطان کو یاد کیامشعل نے کہا تو اس کا منہ بن گیا۔
’’تم بھی نا! پل میں انسان کو عرش پر بٹھا دیتی ہو اور پل میں فرش پر پٹخ دیتی ہو۔‘‘ اس نے دہائی دینے والے انداز میں کہا تو وہ اس کا گلہ دور کرتے ہوئے بولی۔
’’چلو شیطان ہٹا کر فرشتہ لگا دیتے ہیں‘ اب خوش؟‘‘
’’ہاں! یہ ٹھیک ہے‘ جو میرے ساتھ بیٹھی ہے وہ خود شیطان سے کافی ملتی جلتی ہے۔‘‘ اس نے پکوڑا کھاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ظاہر سی بات ہے اب فرشتے توشیطان سے دوستی کرنے سے رہے۔‘‘ وہ دوبدو بولی تو اس نے بے ساختہ قہقہہ لگایا۔
’’شیطان نے پکوڑے تو بہت اچھے بنائے ہیں۔‘‘
’’شیطان خود کھارہا ہے تبھی اسے اتنے مزے کے لگ رہے ہیں۔‘‘ اس نے منہ پھلا کر کہا۔
وہ بیتے لمحوں کے سحر سے نکل کرباہر لان میں آگئی اور اس کی نگاہیں سامنے دروازے پر جم گئیں۔ وہ اکثر اس دروازے سے نمودار ہوتا تھا مگر نجانے کیوں اس کا دل گواہی نہیں دے رہا تھا کہ وہ آج دروازے سے نمودار ہوگا۔ ایک ایک بڑھتے قدم کے ساتھ ’’ہاں‘‘ اور ’’نہیں‘‘ کی تکرار بڑھتی جارہی تھی۔ وہ دروازے پرپہنچ چکی تھی اور وہ نمودار نہیں ہوا تھا۔ اس کا دل ڈوب سا گیا۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے برآمدے کی جانب آگئی۔لائونج میں کھلنے والا داخلی دروازہ بھی بند تھا۔ ٹرے پر اس کی گرفت غیر ارادی طور پر مضبوط ہوگئی۔ برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ کر اس نے ٹرے ایک ہاتھ میں کی اور پھر دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھا اور کھولنے کے لیے گھمایا لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ اس نے ناب کو دوبارہ گھمایا لیکن دروازہ ٹس سے مس نہیں ہوا‘ اس کا ہاتھ کانپنے لگا تھا اور دھڑکن تیز ہوگئی تھی۔
اس نے تیسری مرتبہ ناب گھمائی کہ شاید کھل جائے پھر وہ چوتھی بار بھی گھماتی اگر گھر کے مالی کی آواز اس کے کانوں سے نہ ٹکراتی۔
’’یہ دروازہ بند ہے بی بی! یہاں پر کوئی بھی نہیں ہے‘ وہ سب چلے گئے ہیں ابھی تھوڑی دیر پہلے کینیڈا! میں بھی جا ہی رہا تھا آپ کو دروازے سے الجھتے دیکھا تو رک گیا۔ خداحافظ بی بی جی!‘‘ وہ اس کے سر پر بم پھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔
اور وہ تو جیسے پاتال میں جاگِری تھی۔ اسے اپنے گرد گہرے اندھیرے پھیلتے محسوس ہورہے تھے۔ ٹرے اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر زمین بوس ہوچکی تھی اور وہ خود بھی نیچے گِرنے والے انداز میں بیٹھتی چلی گئی۔
’’ریحان مجھے چھوڑ کر چلا گیا وہ بھی کچھ بتائے بغیر؟‘‘ سوچتے ہوئے اس کی گیلی نگاہوں کی زد میں سب سے اوپر والی سفید سیڑھی پہ دھرا ادھ کھلا گلاب آگیا۔ وہ اس کی برتھ ڈے پر ہمیشہ سرخ گلاب دیا کرتا تھا اور آج جاتے ہوئے وہ یہ پھول شاید اس کے لیے رکھ گیا تھا۔ اس نے بے جان ہاتھوں کو آگے بڑھا کر وہ پھول اٹھالیا‘ آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں نے جل تھل مچادیا تھا اور اس کی آنکھوں نے بھی جل تھل مچادیا تھا تب بھی وہ بے تحاشا روئی تھی اور آج چار سال بعد بھی وہ بے تحاشا رو رہی تھی۔
وہ کیا عجیب شخص تھا کہ جس کی ذات پر
جب اعتبار بڑھ گیا تو اختیار نہ رہا!
چار سال پہلے بھی وہ ریحان سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ اسے چھوڑ کر کیوں چلا گیا اور آج چار سال بعد بھی وہ اس سے یہی پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ اسے محبتوں کے بندھن میںباندھ کر کیوں منجدھار میں چھوڑ کر چلا گیا… کیوں؟ وہ یہ سارے سوال وقتاً فوقتاً خود سے کرتی مگر اپنی سالگرہ کے دن وہ یہ سوال خود سے نہیں کرتی تھی کیونکہ اس دن وہ بہت خوش ہوتی تھی۔ وہ سارا سارا دن گیٹ پر نگاہیں جمائے بیٹھے رہتی کہ کب بیل بجے وہ بھاگ کر گیٹ پر جائے اور کینیڈا سے بھیجا گیا ادھ کھلا سرخ گلاب وصول کرے۔ سارے سال کے انتظار کا پھل اسے ایک پل میں حاصل ہوجاتا تھا‘ وہ خوش ہوکر خود سے کہتی ’’بس اس نے مجھے بُھلایا نہیں ہے‘ میں اسے یاد ہوں‘ وہ آج بھی مجھ سے محبت کرتا ہے تبھی تو اسے میرا جنم دن یاد ہے۔‘‘ وہ پھر سے جی اٹھتی تھی اور وہ جیتی رہتی تھی تب تک جب تک اسے اپنی سالگرہ پر پھول ملتا رہا تھا اور یہ پھول اس کے جانے کے تین سال تک اسے ملتا رہا تھا۔ چوتھے سال اسے وہ پھول نہیں ملا تھا اس کی شادی کا کارڈ ملا تھا جو بڑے اہتمام سے اس کے لیے کینیڈا سے بھیجا گیا تھا۔ اس کی شادی حنا سے ہورہی تھی اور وہ اس دن دوبارہ مرگئی تھی۔
آخر کب تک ہماری بیٹی اس کے نام پر بیٹھی رہے گی؟ کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گانا۔‘‘ ثمینہ نے سونے سے پہلے لیٹے ہوئے ذوالفقار سے کہا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔
’’ہاں اب کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا‘ افتخار بھی یہاں سے جاتے ہی ہمیں بھول گیا۔ میں کئی مرتبہ اس سے بات کرچکا ہوں مگر اس نے ہر بار یہی کہا کہ وہ جلد ہی کوئی جواب دے گا مگر اس جلدی کو تین سال بیت گئے۔ اس نے اپنے بیٹے کی شادی بھی کروادی اور ہماری بیٹی کو آج تک سولی پر چڑھا رکھا ہے۔ پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے‘ اب کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ آپ آخری بار افتخار بھائی سے فیصلہ کن بات کرکے دیکھیں‘ اس کے بعد ہی کوئی انتہائی قدم اٹھائیے گا۔ آپ ان سے دو ٹوک بات کریں رخصتی کی تاریخ دیں یا پھر…‘‘ وہ پل بھر کو تھمی تھیں۔ ’’یا پھر… مشعل کو طلاق بھجوادیں۔ اگر اس مسئلے میں بھی وہ اسی چلن سے کام لیں تو کورٹ میں خلع کا کیس دائر کروادیں‘ آپ ان سے بالکل نپے تلے انداز میں باتیں کریں‘ بہت ہوگیا یہ چوہے بلی کا کھیل… ہماری بچی بھی انسان ہے کوئی بے جان گڑیا نہیں۔ آخر کب تک ہم اس پر ظلم ہوتا دیکھتے رہیں؟‘‘ ثمینہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
’’ہاں میں بھی یہی سوچ رہا تھا اب ان سے فیصلہ کن بات کرنی ہی پڑے گی۔‘‘ مشعل کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا دوبھر ہوگیا تھا۔ وہ ان کے کمرے کے پاس سے گزر رہی تھی کہ ان کی گفتگو سُن کر اس کے قدم تھم گئے تھے۔
آتا ہی نہیں دل میں رہائی کا تصور
دلچسپ بہت جرم محبت کی سزا ہے
اس نے ریحان سے خلع لینے کا سوچنا تو کیا کبھی تصور تک نہیں کیا تھا‘ یہ سننا بھی اس کے لیے سوہان روح تھا۔ وہ مردہ جسم اور بے جان پیروں کے ساتھ اپنے کمرے میں آگئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ وہ اس سے جدا ہونا نہیں چاہتی تھی نہ اس سے طلاق لینا چاہتی تھی نہ خلع لیکن وہ اپنے والدین کو یہ قدم اٹھانے سے منع نہیں کرسکتی تھی۔ اس نے پہلی بار خود کو بے بسی کی انتہا پر محسوس کیا‘ پہلی بار اسے سارے راستے بند محسوس ہوئے۔ اسے اپنے چاروں طرف اندھیرے چھاتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔
’’یااللہ! تُو غفور الرحیم ہے‘ تُو ہی بخشنے والا ہے‘ تُو مجھے بخش دے‘ اپنے پیارے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے مجھ پر اپنا کرم کر‘ تُو ہی مجھے اس امتحان سے نکالنے والا ہے۔ تُو
ہی بند راستے کھولنے والا ہے‘ تُو ہی اندھیروں کو روشنی دینے والا ہے۔ تُوہی مجھے ریحان سے ملاسکتا ہے‘ میرے اللہ مجھے ریحان سے ملادے‘ میں اس سے بہت محبت کرتی ہوں‘ میں اس سے جدا ہوکے اب مزید نہیں جی سکتی۔ میرے اللہ مجھے اس کے نام سے الگ مت کرنا‘ میرے اللہ مجھے اس سے جدا مت کرنا‘ مجھے اس سے ملادے۔ میرے اللہ مجھے اس سے ملادے۔‘‘ وہ روتے روتے سجدے میں چلی گئی تھی اور سجدے میں بھی اللہ تعالیٰ سے اسے ہی مانگ رہی تھی۔
کچھ رات کی آنکھیں بھیگی تھیں
اور چاند بھی روٹھا روٹھا تھا
کچھ یادیں اس کی باقی تھیں
اور دل بھی ٹوٹا ٹوٹا تھا
کس موڑ پہ بچھڑے یاد نہیں
ہونٹوں پہ کوئی فریاد نہیں
اس وعدے کی بھی خبر نہیں
وہ سچا تھا یا جھوٹا تھا
ہر لمحہ آہیں بھرتے ہیں
نہ جیتے ہیں
نہ مرتے ہیں
بس ایک دعا یہ کرتے ہیں
وہ لوٹ کے واپس آجائے!!
وہ لوٹ کے واپس آجائے!!
…٭٭٭…
’’آپ کی بات ہوئی افتخار بھائی سے…؟‘‘ ثمینہ نے چند دنوں بعد پوچھا۔
’’بات تو ہوئی تھی مگر افتخار سے نہیں نبیلہ بھابی سے‘ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ریحان نہ تو مشعل کو طلاق دے گا اور نہ رخصت کروا کے اپنے ساتھ لے جائے گا جو کرنا ہے کرلو۔ بس یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کردیا۔‘‘ ذوالفقار بہت تھکے تھکے سے لگ رہے تھے پل بھر کے لیے تو ثمینہ کو چپ سی لگ گئی۔
’’تو پھر کیا سوچا ہے آپ نے؟‘‘ انہوں نے سوال کیا تھا۔
’’سوچنا کیا تھا؟ میں نے انہیں کورٹ کا نوٹس بھجوادیا ہے۔ آج سارا دن اسی کام میں لگارہا انہوں نے میری صابر بچی کے صبر کو خوب آزمالیا مگر اب نہیں… ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔‘‘
کچن میں کھڑی پکوڑوں کا بیسن گھولتی ہوئی مشعل کی آنکھیں تیزی سے گیلی ہورہی تھیں۔ اس نے ماہ رخ سے اپنے آنسو چھپانے کے لیے اپنا رخ موڑ لیا۔ ہال میں سے ثمینہ اور ذوالفقار کے بولنے کی آوازیں صاف آرہی تھیں اور اس نے ان کی گفتگو کو حرف بہ حرف سنا تھا۔
…٭٭٭…
پاکستان سے آئی ہوئی رجسٹری ریحان نے خود وصول کی تھی۔ وہ کورٹ کی طرف سے بھیجا گیا خلع کا نوٹس تھا۔ وہ رجسٹری ہاتھ میں لیے اندر آگیا اور رجسٹری میز پر پھینک کر خود صوفے پر بیٹھ گیا۔ اسے دیکھ کر نبیلہ سیدھی ہوکر بیٹھ گئیں۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے دریافت کیا۔
’’کورٹ نوٹس!‘‘
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...