وہ لڑکی جو مجھ سے واٹس ایپ پر بات کرتی ہے ایک شادی شدہ عورت ہے۔
میں اسے لڑکی اس لیے کہتا ہوں تاکہ مجھ میں موجود اس لڑکے کو کچھ نہ کچھ تسکین حاصل ہو جائے جو بچپن سے ہی کسی لڑکی سے خفیہ تعلقات کا متمنی تھا مگر کامیاب نہ ہو سکا یہاں تک کہ اس کی شادی اور بعد ازاں بچے بھی ہو گئے۔۔
تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اس لڑکی نے آج ایک بات لکھ کر بھیجی ہے اور جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں اس بات پر بہت غور سے غور کر رہا ہوں۔
اس نے کہا۔۔۔ سوری لکھا کہ۔۔ ایک پٹھان لڑکا ہے۔
کوئی بائس برس کا۔
ہمارے گھر کے سامنے اس کا مکان زیر تعمیر ہے۔
وہ اپنے مکان کی چابی رات کو ہمارے یہاں رکھوا کر صبح لینے آ جاتا ہے روز۔۔
تو میں نے لاپرواہی سے جواب میں لکھا۔۔ ٹھیک ہے اس میں کیا برائی ہے۔
اس نے ٹائپ کیا۔۔ وہ بہت ہینڈسم ہے۔۔۔ مجھے اچھا لگ گیا ہے۔۔
جواب میں میں کچھ لکھنے ہی لگا تھا کہ اچانک میرے اپنے دماغ کے کچھ طبق روشن ہو گئے۔۔
میں نے واٹس ایپ کو موبائل سمیت اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔۔
اس کے لکھے ہوئے الفاظ دل و دماغ میں بار بار گونجنے لگے۔
وہ مجھے اچھا لگ گیا ہے۔۔۔
وہ بہت ہینڈسم ہے۔۔۔
مجھے لگا۔ یوں تو کتنے ہی لوگ ہمیں اچھے لگ جاتے ہیں۔
مثلاً
جب میں صبح دفتر کے لیے نکلتا ہوں تو سامنے والے گھر کی ایک بہو کبھی کبھی دروازے پر جھاڑو دیتے ہوئے نظر آ جاتی ہے۔ وہ اتنی خوبصورت اتنی خوبصورت ہے کہ اگر میرے گھر میں ہوتی تو شہزادیوں کی طرح رکھتا۔۔ ملکہ عالیہ بنا کر اس کے چرن چھوتا۔ دیوی بنا کر اس کی پوجا کرتا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتا مگر افسوس وہ ایک ایسے گھر میں آئی جہاں اسے نوکرانی بنا کر رکھ دیا گیا۔۔
جب میں دفتر پہنچتا ہوں تو وہاں میرے ماتحت کام کرنے والی ایک لڑکی مجھے اچھی لگ جاتی ہے، اپنی شکل صورت کی وجہ سے نہیں بلکہ کام کی وجہ سے۔ وہ اتنی محنت، اتنی توجہ اور اتنا کام میں ڈوب کر کام کرتی ہے کہ مجھے اس پر بے اختیار پیار آ جاتا ہے۔ اور میں اس کا موازنہ اپنی بیوی سے کرنے لگتا ہوں جسے گھر کے روزمرہ کے معمولی کام بھی پہاڑ لگتے ہیں۔۔
دفتر سے واپسی پر گھر کا سودا سلف خریدنے کے لیے جب میں قریبی شاپنگ مال کا رخ کرتا ہوں تو وہاں کاونٹر پر بیٹھی دبلی پتلی لڑکی کی مستعدی پر حیران رہ جاتا ہوں۔ ادھر آپ نے اپنے سامان کی باسکٹ اس کی طرف بڑھائی ادھر اس نے کھٹ کھٹ بارکوڈ اسکین کرنا شروع کر دیے۔ اور ابھی آپ اس کی نازک انگلیوں اور نیل پالش کی چمک کا ملاحظہ کرنا شروع ہی کریں گے کہ آواز آئے گی۔ سر بائس سو دس روپے ہو گئے اور آپ ایک دم سے بوکھلا کر اپنا بٹوہ نکالنے لگیں گے۔
کوئی دن ایسا نہیں جب وہ مجھے پیاری نہ لگی ہو۔ اس کی آواز اتنی ملائم اتنی میٹھی ہوتی ہے کہ بس آپ سنتے ہی رہو۔۔ مگر افسوس سامان کی قیمت بتانے سے زیادہ وہ کچھ نہیں بولتی۔ میں سوچتا ہوں یہ بھی کیسا عجیب ظلم ہے جسے اپنی آواز کا جادو جگانا چاہیئے ایف ایم ریڈیو وغیرہ پر اسے بارکوڈ میں الجھا دیا گیا ہے، اگر وہ لڑکی بالی ووڈ کی فلم۔ tumhari sullu کی طرح ڈی جے ہوتی اور لائیو کالز لیا کرتی تو میں اسے ضرور فون کر کے کہتا کہ جو تم ہو وہ بس تم ہی ہو۔ تمہارے جیسا دوسرا کوئی نہیں۔۔
اب آگے میں اور کس کس کا ذکر کروں۔۔۔ اس طرح کے بہت سے لوگ ہیں جنہیں میں بس دور سے ہی خراج تحسین پیش کر دیا کرتا ہوں ان کی خوبصورتی کے عوض دعا کر دیا کرتا ہوں کہ اے اللہ اسے خوش رکھنا۔۔۔
کل یہی سب باتیں میں واٹس ایپ پر ٹائپ کرنے والا ہوں۔
کل، وہ لڑکی جو ایک شادی شدہ عورت ہے جب آن لائن آئے گی اور بتائے گی کہ وہ (بائس سالہ نوجوان) آج بھی چابی رکھوانے آیا تھا تو میں اس سے کہوں گا۔ دیکھو! اس کے لیے کبھی بھی پاگل مت ہونا، خدا کی زمین بہت بڑی ہے اور اس زمین پر ایسے ہزاروں لاکھوں اچھے انسان ہیں۔ مگر انہیں ان کے نصیب پر چلنے دو اور تم اپنے نصیب پر ہی چلتی رہو۔۔ کہ بس اسی میں بھلائی ہے۔
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...