وہ کوئ حویلی تھی غالباً… کوئ بہت بڑا گھر… راہداریاں ہی راہداریاں تھیں وہاں… جیسے بہت سے گھروں کی چھتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں ویسے ہی اس حویلی کی چھت تھی… جہاں چار سو پتے ہی پتے بکھرے تھے… خشک پتے… جیسے خزاں کے موسم میں درختوں کے تمام پتے جھڑ کر زمین کو اپنی چادر میں چھپا لیتے ہیں… ویسے ہی اس حویلی کی چھت بھی خشک اور زرد پتوں میں چھپی تھی… وہ اکیلی اس حویلی کی چھت پر ننگے پیر ادھر سے ادھر بھاگتی پھر رہی تھی… جیسے کسی کو تلاش کر رہی ہو… زرد پتے اس کے قدموں تلے آکر چرمرا رہے تھے… آواز پیدا کر رہے تھے… لیکن وہ ان پتوں کی آواز سے بے نیاز تھی… اس کے انداز میں اضطراب تھا, بے چینی تھی…
وہ ایک وسیع چھت سے گزر کر اگلی چھت پر آئ… وہاں سیڑھیاں بنی تھیں… وہ تیزی سے سیڑھیاں اتری… نگاہیں کچھ تلاش کر رہی تھیں… لیکن پھر مایوس لوٹ آئیں…سیڑھیاں اتر کر سامنے پھر ایک وسیع و عریض چھت تھی… جو ویسے ہی خشک پتوں سے ڈھکی تھی… وہ ان پتوں پر چلتی ہوئ پھر آگے بڑھی… آگے پھر سیڑھیاں تھیں… وہ ان سیڑھیوں پر چڑھتی چلی گئ… سامنے بہت سی راہداریاں بنی تھیں… جہاں ایک راہداری میں سرخ گلاب کے پھول ہی پھول بکھرے تھے… اس راہداری کی دونوں اطراف بہت سی مشعلیں روشن کر کے رکھی گئ تھیں… جیسے کسی نے اس راہ کو فقط اس کے لیے سجایا ہو… ان پھولوں کو اور اس سجاوٹ کو دیکھ کر اس کے لبوں پر بہت خوبصورت مسکان ابھری… چہرہ چمک اٹھا تھا… وہ مسرور سی اپنے ننگے پیر نرمی سے ان پھولوں پر رکھتی آگے بڑھنے لگی… جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہی تھی ویسے ویسے سامنے سجی مشعلیں خودبخود روشن ہوتی جا رہی تھیں… اور اس کی خوشی کو مزید بڑھا رہی تھیں…
اس لمبی راہداری کا اختتام ایک بڑے سے دروازے پر ہوا… دروازے پر چند الفاظ لکھے تھے… اس نے آنکھیں سیکڑ کر ان الفاظ کو پڑھنے کی کوشش کی…
“WeLComE To My WorLd Hania”
وہ الفاظ تھے یا کوئ جادو… جو ہانیہ کے پورے وجود پر ایک سحر سا طاری کر گۓ… اس نے دروازہ کھولا… گمان تھا کہ دروازے کے اس پار کوئ کمرہ ہو گا… لیکن اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں… سامنے انتہائ خوبصورت منظر تھا… رات کا وقت… سامنے آسمان پر چاند کا بڑا سا تھال تھا… جس نے اپنی دودھیا روشنی سے ہر چیز کو روشن کر رکھا تھا… کافی دور ایک جھیل تھی جس میں چاند کا عکس نظر آ رہا تھا اور یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے زمین پر دو چاند اتر آۓ ہوں… اس جھیل کے درمیان ایک بہت خوبصورت پلرز پر کھڑی چوکور چھت تھی جس سے سفید رنگ کی روشنیاں سی پھوٹ رہی تھیں… اس جگہ سے دروازے تک ایک لمبی اور پتلی سی سڑک بنی تھی… جس کی چوڑائ اتنی تھی کہ اس پر بیک وقت فقط دو لوگ گزر سکتے تھے… اس سڑک کے دونوں اطراف بھی روشنیاں تھیں جیسے بہت سے جگنو ترتیب سے وہاں ڈیرہ جماۓ بیٹھے ہوں… وہ کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں چلتی ہوئ آگے بڑھنے لگی…. دروازہ پار کرتے ہی اس کا لباس بدل چکا تھا… سفید پریوں کے سے لباس میں وہ کوئ شہزادی معلوم ہو رہی تھی… اوپر سے چہرے کی الوہی مسکان اس کے حسن کو مزید بڑھا رہی تھی… وہ جگنو اڑ کر اب اس کے گرد منڈلانے لگے… لیکن وہ سیدھ میں دیکھتی آگے بڑھتی گئ…
جھیل کے اطراف میں درخت ہی درخت تھے جو اس نیم اندھیرے اور چاند کی چاندنی میں خاصے ہیبت ناک محسوس ہو رہے تھے… لیکن آج اسے بالکل خوف محسوس نہ ہو رہا تھا… یونہی چلتے چلتے وہ اس چھت کے قریب آن رکی… وہاں ایک بینچ موجود تھا… جس پر کوئ وجود بڑی شان سے براجمان تھا… اس کی ہانیہ کی جانب پشت تھی… ہانیہ چمکتا چہرہ لیے اس کی پشت کو دیکھے گئ…
“میں آ گئ…” خوشی سے بھرپور لہجے میں بتایا گیا تھا…
اس کی بات سن کر چند پل کے توقف کے بعد وہ وجود اٹھا…
“تمہیں آنا ہی تھا ہانیہ… میں نے کہا تھا نا… کہ تم ایک دن ساری دنیا کو چھوڑ کر میرے پاس آؤ گی… خود اپنی مرضی سے…” وہ طلسماتی آواز گونجی تھی… جس نے ہانیہ کے دل کو اپنے سحر میں جکڑا تھا… ہانیہ چونکی تھی اس آواز پر…
“تت… تم…” وہ ایک دم خوف سے لرز کر رہ گئ… دو قدم پیچھے لیے تھے… تبھی وہ وجود اس کی جانب مڑا… ہانیہ کے منہ سے چینخ نکلی…
وہ ایک دم اٹھ کر بیٹھی… سانس انتہائ تیز چل رہا تھا… پورا وجود پسینے سے شرابور تھا… اس نے خوفزدہ نگاہوں سے اردگرد دیکھا… وہ سارا منظر غائب ہو چکا تھا… وہ چاند, وہ جگنو, وہ طلسماتی ماحول… کچھ بھی تو نہ تھا… وہ اپنے کمرے میں موجود تھی… اس سے کچھ ہی فاصلے پر حسن گہری نیند سو رہا تھا… ہانیہ نے گہرا سانس لیا… پھر سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے گلاس میں پانی انڈیلا اور ایک ہی سانس میں سارا پانی ختم کر گئ…
نیند خراب ہو چکی تھی… اب سو پانا مشکل تھا… ایک نظر حسن پر ڈال کر وہ کمبل ہٹاتی اٹھی اور کھڑکی میں جا کھڑی ہوئ… بکھرے بال تھے اور پریشان صورت… بار بار لب کاٹتی وہ اپنے اضطراب کو کم کرنے کی کوشش کر رہی تھی…
چھ ماہ ہو چکے تھے ان کی شادی کو… اور پچھلے دو ماہ میں دس سے پندرہ بار وہ یہ خواب دیکھ چکی تھی… ہر بار ایک ہی منظر… ایک ہی حویلی… وہی وسیع و عریض چھتیں, وہی راہداریاں… کچھ بھی تو نہ بدلہ تھا… ہاں لیکن آج خواب کا زیادہ حصہ نظر آیا تھا اسے… پہلے وہ صرف دروازے تک پہنچتی اور خواب ٹوٹ جاتا… لیکن آج… آج اس نے دروازے کے پار کا وہ منظر بھی دیکھ لیا… خواب میں وہ اس بڑے سے گھر کے مختلف پورشنز سے گزرتی ہوئ نہایت مطمئین تھی… یوں جیسے اس کا اپنا گھر ہو… جیسے اس کی ملکیت ہو وہ گھر… جبکہ آج تک ہانیہ نے وہ گھر, وہ حویلی اصل میں نہ دیکھی تھی… اور جو چیز, جو جگہ اصل میں دیکھی ہی نہی بھلا وہ خواب میں کیوں نظر آتی تھی… اور ایک بار نہیں بار بار ہانیہ نے یہ گھر خواب میں دیکھا… کیا تعلق تھا اس حویلی کا ہانیہ کی ذات سے… وہ الجھ رہی تھی…
ان چھ ماہ میں وہ کافی بدل چکی تھی… اور بھی بہت سے الٹے سیدھے خواب نظر آتے تھے اسے… لیکن وہ اب حسن کو کچھ نہیں بتاتی تھی… جانتی تھی وہ کبھی یقین نہیں کرے گا… تبھی ہر بات اپنے تک محدود رکھنے لگی… پہلے کی نسبت کافی خاموش بھی ہو گئ… اکثر رات میں وہ ڈر جاتی… کبھی کبھار دن میں بھی اپنے کمرے میں آنے سے خوفزدہ ہو جاتی… لیکن اس بارے میں بھی گھر میں کسی سے کبھی ذکر نہ کیا… حسن مطمئین ہو چکا تھا کہ ہانیہ کی حالت میں بہتری آ چکی ہے… لیکن اس بات سے بے خبر تھا کہ اس کی حالت سنبھلنے کی بجاۓ آہستہ آہستہ بگاڑ کی طرف جا رہی ہے… تائ جی کا رویہ بھی کافی بہتر ہو چکا تھا ہانیہ سے… جب ہانیہ نے پورے گھر کا انتظام سنبھال لیا تو تائ جی کو بھی اپنے دل کا میل صاف کرنا ہی پڑا… بظاہر ان کی زندگی مطمئین تھی… لیکن اندر ہی اندر ہانیہ کا دل ہر وقت ڈرتا رہتا… کسی انہونی کے خیال سے… آج بھی اس کے ساتھ کچھ عجیب و غریب واقعات ہوتے تھے… لیکن وہ خود ہی ڈرتی رہتی… اپنے آپ کو تسلیاں دیتی رہتی… خود کو مضبوط بنانے کے جتن کرتی… لیکن حسن یا باقی سب گھر والوں کے سامنے لب سئیے رکھتی… کہ کہیں سب اسے پاگل ہی نہ سمجھنے لگ جائیں…
💝💝💝💝💝
وہ سب ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھے ڈنر کر رہے تھے… حسن اور ہانیہ ٹیبل کی دائیں سائیڈ پر تھے جبکہ بشریٰ بیگم, رضا صاحب اور محسن بائیں جانب بیٹھے تھے… کھانا کھاتے کھاتے حسن نے نگاہ اٹھا کر سب کے چہروں سے ان کے مزاج کا اندازہ لگانا چاہا… خوشگوار ماحول تھا… اور سب کے موڈ بھی کافی بہتر تھے…
“آہم آہم…” اس نے کھنکار کر سب کو اپنی جانب متوجہ کیا…
“بابا… ایک ضروری بات کرنی تھی آپ سے…” وہ رضا صاحب سے مخاطب ہوا… رضا صاحب جو محسن سے اس کی یونیورسٹی اور پڑھائ کے بارے میں کچھ پوچھ رہے تھے چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوۓ..
“ہاں کہو بیٹا… کیا بات ہے…؟؟” انہوں نے سر ہلاتے ہوۓ اجازت دی… حسن نے ایک نظر برابر میں بیٹھی ہانیہ پر ڈالی جو سر جھکاۓ پلیٹ میں چمچ سے چاول ادھر ادھر پلٹ رہی تھی…
“بابا… وہ… ایکچوئلی… میری کمپنی مجھے کراچی شفٹ کر رہی ہے… بس اسی بابت بات کرنی تھی آپ سے…” اس نے دھیمے سے لہجے میں کہا… مبادہ کہیں ڈانٹ ہی نہ پڑ جاۓ…
“کراچی شفٹ کر رہی ہے… مگر کیوں…؟؟ یہاں کام کرنے میں کیا قباحت ہے…” رضا صاحب نے بغور اس کا چہرہ دیکھا… باقی سب بھی حسن کی جانب متوجہ ہو چکے تھے…
“بابا… اصل میں کمپنی کراچی میں ایک نیا پراجیکٹ شروع کر رہی ہے…. تو وہاں کے آفس میں انہیں کسی قابل بندے کی ضرورت ہے… میری صلاحیتوں کو دیکھتے ہوۓ انہوں نے مجھے وہاں بھیجنے کے بارے میں سوچا ہے… صرف دو سال کی بات ہے بابا… وہاں مجھے رہائش بھی مل رہی ہے… کمپنی کی طرف سے گاڑی بھی… اور میری انکم میں بھی اضافہ ہو گا… صرف اتنا ہی نہیں بلکہ میری پرموشن بھی ہو گی… یہ ایک گولڈن آفر ہے میرے لیے… آپ جانتے ہیں نا کہ میرے کیرئیر کا آغاز ہے یہ… اور میں بہت آگے تک جانا چاہتا ہوں… تو یہ موقع مجھے بہترین لگ رہا ہے اپنے کیرئیر کے لیے… اسی لیے سوچا آپ سب سے مشورہ کر لوں… اگر آپ کی اجازت ہو تو پھر ہی کمپنی سے کوئ بات کروں…” وہ خاصا پرجوش لگ رہا تھا… رضا صاحب اس کی بات پر سوچ میں پڑ گۓ…
“ہرگز نہیں… ارے دو ہی تو پتر ہیں میرے… تم بیاہ کر یوں میلوں دور جا کر بیٹھ جاؤ ہم سے… نہ ہم تمہیں دیکھ سکیں نہ تم ہمیں… بالکل نہیں… صاف انکار کر دو حسن…. کام کرنا ہے تو یہیں کرو لاہور میں رہ کر… بس… ” بشریٰ بیگم نے صفا چٹ انکار کر دیا اس بات پر… حسن انہیں دیکھ کر رہ گیا…
“ارے چپ کرو بشریٰ… اب وہ کوئ ٹین ایج لڑکا نہیں ہے… ماشاءاللّہ سے شادی شدہ ہے… کل کو اولاد بھی ہو جاۓ گی… اسے اپنی ذمہ داریاں سمجھنے دو…. اس قابل ہو لینے دو کہ وہ اپنی زندگی کے اہم فیصلے خود لے سکے…” رضا صاحب نے قدرے سخت انداز اختیار کیا…
“لیکن رضا صاحب… ایسے کیسے میں اپنے بچے کو خود سے جدا کر کے اتنی دور…” بشریٰ بیگم منمنا کر رہ گئیں جب رضا صاحب نے ہاتھ اٹھا کر انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا…
“مجھے بات کرنے دو پہلے حسن سے…” ان کے کہنے پر بشریٰ بیگم منہ کے زاویے بگاڑتیں خاموش ہو گئیں…
“ہاں تو برخوردار… تم بتاؤ… تم کیا چاہتے ہو…؟؟ میرا مطلب… تم راضی ہو جانے کے لیے…؟؟” رضا صاحب نے اس کی خواہش جاننی چاہی…
“بابا… سچ پوچھیں تو آپ لوگوں سے دور تو میں بھی نہیں جانا چاہتا… لیکن اگر اپنے مستقبل کے بارے میں سوچوں تو یہ موقع مجھے بہترین لگ رہا ہے… مجھ سے سینئیرز بھی موجود ہیں آفس میں… لیکن باس نے ان کی بجاۓ مجھے چنا ہے اس پروجیکٹ کے لیے… ہو سکتا ہے یہ موقع میری قسمت کا ستارہ چمکا دے… ” حسن نے سر جھکاتے ہوۓ جواب دیا…
“ہممم…” رضا صاحب ہنکارا بھر کر خاموش ہو گۓ…
پھر چند لمحے کچھ سوچا… اور ہانیہ کی طرف دیکھا…
“ہانیہ کے بارے میں کیا سوچا ہے تم نے…؟؟” ہانیہ کے دل کی بات انہوں نے پوچھ ڈالی تھی…
“مجھے فیملی ساتھ لے جانے کی آفر بھی ہوئ ہے… وہاں مجھے اور میری فیملی کو رہنے کے لیے ایک گھر دیا جاۓ گا… تمام بنیادی سہولیات بھی ملیں گی… اب یہ ہانیہ کی اور آپ لوگوں کی مرضی ہے… جیسے آپ سب کہیں گے ویسے ہی کر لوں گا… اگر یہ میرے ساتھ جانا چاہے تب بھی ٹھیک… اگر یہیں آپ لوگوں کے ساتھ رہ سکتی ہے تو بھی بہتر… ” حسن نے فقط ان کا دل رکھنے کی خاطر یہ سب کہا تھا ورنہ اس کا دل تھا کہ ہانیہ بھی اس کے ساتھ ہی جاۓ…
“دیکھو بیٹا… تم سمجھدار ہو… اور اب شادی شدہ بھی… ہم لوگوں نے کبھی بھی تم پر یا محسن پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی… شادی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے… جس کے بعد انسان کو چونچلے چھوڑ کر پریکٹیکل لائف میں سنجیدہ ہونا پڑتا ہے… مجھے خوشی ہے کہ تم ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہو… اگر یہی موقع تمہاری ترقی کی سیڑھی بنتا ہے تو ہم کبھی بھی تمہاری ترقی کی اس راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے… باقی رہی بات ہانیہ کی… تو ابھی تم دونوں کی نئ نئ شادی ہے… بمشکل چھ ماہ ہوۓ ہیں شادی کو… ایسے میں تم وہاں رہو یہ یہاں… یوں الگ الگ رہنا کچھ مناسب نہیں لگتا… تو بہتر ہے کہ تم ہانیہ کو بھی ساتھ ہی لے جاؤ… فقط دو سالوں کی بات ہے… ان دو سالوں میں کبھی تم اور ہانیہ یہاں کا چکر لگا لینا… کبھی ہم وہاں آ جائیں گے… دو سال بھی آخر گزر ہی جائیں گے… ہم بس اپنے بچوں کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں… اور اس خوشی کے لیے اگر کچھ عرصہ کی دوری برداشت کرنا بھی پڑے تو میرے خیال میں یہ گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں ہے… کیوں بشریٰ بیگم…” رضا صاحب نے نرمی سے کہتے ہوۓ آخر میں بشریٰ بیگم کو دیکھا.. . جنہوں نے فقط ایک خفا سی نظر ان پر ڈالنے پر ہی اکتفا کیا تھا…
“بہت شکریہ بابا… آپ نے بہت بڑا بوجھ ہلکا کر دیا میرے سر سے… ورنہ میں کل سے اس بارے میں سوچ سوچ کر پریشان تھا کہ آپ کو اور اماں کو کیسے مناؤں گا… تھینک یو سو مچ…” حسن کے ایکسائیٹڈ ہونے پر رضا صاحب مسکرا دئیے…
💝💝💝💝💝💝
وہ دروازہ ناک کرتا باس کی اجازت سے ان کے کیبن میں داخل ہوا… وہاں اس کے باس اسد بیگ کے علاوہ ایک اور شخصیت بھی موجود تھی… حسن نے زیادہ دھیان نہیں دیا اس کی طرف…
“سر… کچھ بات کرنی تھی آپ سے… اگر آپ فری ہیں اس وقت تو…” حسن نے ایک نگاہ اسد بیگ کے سامنے بیٹھے اس شخص پر ڈالی… اور اسے اعتراف کرنا پڑا تھا کہ وہ جو بھی تھا انتہائ خوبرو اور دلکش شخصیت کا مالک تھا… رنگت انتہائ سفید تھی… سبز رنگ آنکھیں جن میں ایک خاص چمک آنکھوں کو مزید دلکشی عطا کر رہی تھی… بھورے بال جیل سے سیٹ کیے گۓ تھے… تھری پیس سوٹ میں ملبوس وہ شخص شاہانہ انداز میں بیٹھا تھا… اس کے ہر ہر انداز سے اس کی امارت ظاہر ہو رہی تھی… ایک عجیب سی کشش تھی اس کے وجود میں…کہ حسن بھی متاثر ہو کر رہ گیا…
“ہاں کہو حسن…” اسد بیگ کے مخاطب کرنے پر حسن ان کی جانب متوجہ ہوا…
“سر… آپ نے ٹرانسفر کی بات کی تھی مجھ سے… تو میں راضی ہوں کراچی جانے کے لیے… آپ مجھے بتا دیجیے گا کہ کب جانا ہے…” حسن نے جواب دیا… اس کے ساتھ ہی اس نے واضح محسوس کیا تھا کہ اس کی بات پر پہلے بے نیاز سا بیٹھا وہ خوبرو شخص ایک دم چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا تھا… پھر اس کے لبوں پر بڑی پراسرار سی مسکراہٹ نے اپنی جھلک دکھائ… چہرے کی چمک میں بھی اضافہ ہوا تھا…
“بہت خوب حسن… مجھے تم سے یہی امید تھی… اگلے ہفتے تمہیں جانا ہے کراچی… باۓ دا وے… فیملی بھی ساتھ لے کر جا رہے ہو…؟؟ یا اکیلے…؟؟ ہمیں ابھی بتا دو تاکہ اسی حساب سے ہم تمہاری رہائش کا بندوبست بھی کر سکیں…” اس کی بات پر اسد بیگ بھی ایک دم بے تحاشا خوش ہوۓ…. حسن الجھ سا گیا… کہ اتنا خوش ہونے والی کونسی بات ہے اس میں…
“سر میں اور میری وائف ہوں گے… ہم دونوں ہی جائیں گے بس…” سوچوں کو جھٹکتے ہوۓ حسن نے انہیں جواب دیا… اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھے اس شخص کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئ… وہ پین ہاتھ میں پکڑے انگلیوں کی مدد سے اسے گھما رہا تھا…
“اوکے… ایک دو دن میں تمہیں فائنل ڈیٹ بتا دی جاۓ گی… اور بکنگ بھی ہو جاۓ گی… تب تک یہاں کے جو چند کام ہیں تمہارے ذمے انہیں مکمل کر لو تم…” اسد بیگ کے کہنے پر وہ سر ہلاتا ان کے کیبن سے نکل آیا…
اس کے جانے کے بعد اسد بیگ نے فاتحانہ نگاہوں سے سامنے بیٹھے اس شخص کی جانب دیکھا… جو آنکھوں میں جنون خیز چمک لیے اسد بیگ کی طرف ہی دیکھ رہا تھا… لبوں کی پراسرار مسکراہٹ بدستور قائم تھی…
“لیجیے اشھب ہمدانی صاحب… آپ کا کام تو ہو گیا… وہ جانے کے لیے راضی بھی ہو چکا ہے… اور اس کی وائف بھی اس کے ساتھ ہی ہو گی… رہائش ان کی وہیں ہو گی جہاں آپ نے کہا…” اسد بیگ نے اشھب ہمدانی کو مخاطب کیا… لہجے میں بے تحاشا خوشی کی جھلک تھی…
“آپ نے ہمارا کام کیا ہے تو آپ کا کام بھی جلد ہو جاۓ گا… آپ کی رقم آپ کے اکاؤنٹ میں پہنچ جاۓ گی… اگلے ہفتے وہ دونوں کراچی پہنچ جانے چاہئیں…” اشھب ہمدانی کی آواز کیبن میں گونجی… انتہائ خوبصورت مردانہ آواز… اور آواز سے جھلکتا رعب… اسد بیگ جیسا خرانٹ اور تیز طرار آدمی بھی اس کے سامنے دبتا ہوا سا محسوس ہو رہا تھا…
“اب تک آپ کی مانی ہے… تو آئندہ بھی مانیں گے… ویسے ایک بات مجھے سمجھ میں نہیں آئ کہ ہماری کمپنی میں اتنے قابل لوگ موجود ہیں… پھر آپ نے حسن رضا کو ہی کیوں چنا… اور ان کی رہائش کے لیے وہی حویلی کیوں…؟؟ کراچی میں اور بھی تو بہت سی جگہیں ہیں رہنے کے لیے…اور اس کے کراچی جانے میں بھلا آپ کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے جو اتنی خطءر رقم کے بدلے آپ یہ کام کروا رہے ہیں مجھ سے…” اسد بیگ نے آنکھیں سیکڑ کر اشھب ہمدانی کو دیکھا…
“جب کسی انسان کو مفت میں آم مل رہے ہوں تو اسے صرف آم کھانے سے مطلب ہونا چاہیے… گٹھلیاں گننے میں اپنا وقت اور انرجی کیوں ضائع کر رہے ہیں آپ…؟؟” اشھب ہمدانی کی بات پر اسد بیگ گڑبڑا کر رہ گۓ… اس کا لہجہ صاف صاف یہ بات جتا رہا تھا کہ یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے… اور اسد بیگ اس معاملے میں مداخلت نہ ہی کرے تو بہتر ہے…
“خیر… میں چلتا ہوں اب… آپ کی اور میری کمٹمنٹ بس یہیں تک تھی… شام تک آپ کی رقم آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو جاۓ گی…” اشھب ہمدانی اٹھا… اسد بیگ نے بھی کھڑی ہو کر الوداعی مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا… اشھب نے فقط ایک نگاہ اس کے بڑھے ہوۓ ہاتھ پر ڈالی… پھر ہاتھ ملاۓ بغیر کوٹ جھٹک کر سیدھا کرتے ہوۓ کیبن سے نکل گیا جبکہ اسد بیگ بڑبڑاتے ہوۓ کرسی پر بیٹھ گۓ…
وہ اسد بیگ کے کیبن سے نکل رہا تھا جب نظر سامنے ٹیبل کے پیچھے بیٹھے حسن پر پڑی… ایک طنزیہ مسکراہٹ نے اشھب ہمدانی کے لبوں کو چھوا… آنکھوں میں استھزاء کا رنگ غالب تھا… بے نیازی سے متوازن چال چلتا ہوا وہ لفٹ کا بٹن پریس کرتا اندر داخل ہوا… لفٹ بالکل خالی تھی… دروازہ بند ہوتے ہی اس نے لفٹ کی دیواروں کی جانب دیکھا… اگر کوئ عام انسان لفٹ میں موجود ہو تو دیواروں میں اس کا عکس نظر آتا ہے… کہ لفٹ کی دیواریں کسی آئینے کی مانند نظر آتی ہیں… لیکن اس وقت وہاں اشھب کا عکس نظر نہیں آ رہا تھا… جس جگہ وہ کھڑا تھا عکس میں وہ جگہ خالی دکھائ دے رہی تھی…
لبوں پر مسرور سی مسکراہٹ سجاۓ اس نے دیوار پر انگلی سے ٹچ کیا… اگلے ہی لمحے وہاں ہانیہ کی خوبصورت تصویر جگمگا رہی تھی… تصویر میں اس کے چہرے پر بھی مسکراہٹ تھی…
“بہت کم وقت رہ گیا ہے تمہاری اور میری روبرو ملاقات ہونے میں… بس کچھ دن اور… میرا انتظار ختم ہونے کو ہے…” دلچسپی سے اس تصویر کو دیکھتے ہوۓ اس نے سرگوشی کی تھی… اس کی آنکھوں کا سبز رنگ تبدیل ہو کر سرخی میں ڈھلنے لگا…. پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ تصویر مٹ گئ… لفٹ بھی رک چکی تھی… وہ آنکھوں پر گاگلز چڑھاتا مضبوط قدموں سے چلتا لفٹ سے نکل کر ایک جانب بڑھ گیا…
💝💝💝💝💝💝
“اداس ہو…؟؟” وہ ٹرین میں بیٹھے کراچی کی جانب محوِ سفر تھے جب حسن نے اپنے کندھے پر سر رکھ کر بیٹھی ہانیہ سے پوچھا… رات کا تیسرا پہر چل رہا تھا لیکن دونوں کو ہی نیند نہ آ رہی تھی… ہانیہ نے ایک نظر اس کی جانب دیکھا… پھر نفی میں سر ہلاتی سیدھی ہو بیٹھی…
“نہیں… اداس تو نہیں ہوں… بس یونہی… بے چینی سی محسوس ہو رہی ہے… پہلے کبھی گھر والوں سے اتنی دور نہیں گئ نا… شاید اسی لیے… دل گھبرا رہا ہے یہ سوچ سوچ کر کہ دو سال کیسے رہوں گی سب کے بنا…” وہ دھیمی سی آواز میں بول رہی تھی…
“میں تو تمہارے ساتھ ہوں نا… اور پھر ذندگی میں کچھ پانے کے لیے قربانی تو دینی ہی پڑتی ہے… صرف دو سال کی بات ہے… اس کے بعد ہم سب اکٹھے ہی رہیں گے… ” حسن نے اس کے کندھے کے گرد بازو حمائل کرتے ہوۓ اسے اپنے ساتھ لگایا… اسے بھی کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا یوں گھر والوں سے اتنی دور رہنا… لیکن فقط اپنے اچھے مستقبل کے لیے وہ جانے پر تیار ہوا تھا…
دوپہر دو بجے کے قریب وہ لوگ کراچی میں اپنی مطلوبہ جگہ پہنچے تھے… سامنے حویلی کا بڑا سا آہنی گیٹ دکھائ دے رہا تھا…
“آؤ… ” حسن کے کہنے پر وہ بھی اپنا بریف کیس گھسیٹتی ہوئ اندر داخل ہوئ… وہ حویلی اب ان دونوں کے سامنے تھی… دونوں طائرانہ جائزہ لے رہے تھے اس جگہ کا…
سامنے کا پورشن جدید انداز میں تعمیر کروایا گیا تھا… جہاں حسن اور ہانیہ کو قیام پذیر ہونا تھا… تھوڑا سا آگے بڑھنے پر حویلی کا وہ حصہ نظر آنے لگا جو کھنڈر کی سی شکل اختیار کر چکا تھا… حویلی تاحد نگاہ پھیلی ہوئ تھی… ہانیہ ٹھٹھک سی گئ اس حویلی کو دیکھ کر… کچھ عجیب سا احساس ہوا تھا اسے… وہ کراچی پہلی بار آئ تھی… لیکن یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس حویلی سے, اس گھر سے اس کا بہت پرانا اور پکا رشتہ ہو… جیسے وہ پہلے بھی اس حویلی کے درو دیوار سے واقفیت رکھتی ہو… وہ اس حویلی کو پہلے بھی کہیں دیکھ چکی تھی… لیکن کہاں… یہ ذہن میں نہیں آ رہا تھا… وہ اپنے ہی خیالوں میں الجھی ہوئ حویلی کے پرانے حصے کو دیکھے جا رہی تھی جب اسے تپش کا احساس ہوا… اس نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا… تبھی کسی نے اس کے کان کے قریب سرگوشی کی…
“WeLCoMe To My HoMeLanD…”
ہانیہ خوف سے سرد پڑنے لگی… یہ آواز وہ پہچانتی تھی… یہ آواز, یہ لہجہ اس کے لیے اجنبی ہرگز نہ تھا… تو کیا… وہ یہاں بھی آن پہنچا تھا… اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی خیز لہر دوڑ گئ… تپش کا احساس ختم ہو چکا تھا… وہ آنکھوں میں ہراس لیے کھڑی تھی جب حسن نے اس کے شانوں کو تھاما…
“کہاں کھوئ ہو یار… کب سے بلا رہا ہوں… چلو… اندر چلیں…” حسن کے کہنے پر اس نے خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھا.. پھر ایک نظر حویلی کے پرانے حصے پر ڈالی جس کے بڑے سے داخلی دروازے پر ایک بڑا اور وزنی تالا ڈالا گیا تھا… گھر دیکھ کر حسن کا موڈ فریش ہو چکا تھا تبھی وہ ہانیہ کو ساتھ لیے اندر کی جانب بڑھ گیا… جبکہ ہانیہ کی نگاہیں حویلی کے پرانے حصے پر ہی جمی تھیں…