رات کے وقت وہ کھانا بنا کر اداس سی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی تھی… جب باہر گیٹ کے کھلنے کی آواز سنائ دی… وہ تیزی سے اٹھ کر عمارت کے داخلی دروازے تک آئ تو نظر گیٹ سے اندر داخل ہوتی حسن کی گاڑی پر پڑی… وہ لب کاٹ کر رہ گئ… حسن کی ناراضگی شاید ابھی تک برقرار تھی تبھی تو آج ہارن نہیں دیا اور خود گاڑی سے اتر کر گیٹ کھولا اس نے… وہ ہانیہ کے ہاتھ سے اپنا کوئ کام نہیں کروانا چاہ رہا تھا…
ہانیہ وہیں کھڑی تھی… منتظر سی… حسن بریف کیس تھامے دروازے کے قریب آیا… اس کی طرف دیکھے بغیر اور سلام کیے بغیر خاموشی سے اس کے قریب سے گزر کر اندر چلا گیا… چہرے پر اسے دیکھتے ہی بے انتہا سختی آ چکی تھی… وہ آنسو ضبط کرنے کی کوشش میں کچھ دیر وہیں کھڑی رہی… پھر مضمحل قدموں سے چلتی کمرے کی جانب بڑھی… حسن ٹائ کی ناٹ ڈھیلی کرتا بیڈ پر گرا ہوا تھا… ٹانگیں نیچے لٹکی ہوئ تھیں… آنکھیں بند تھیں جبکہ بائیں شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے پیشانی مسل رہا تھا… دائیں ہاتھ پر پٹی بندھی تھی…
ہانیہ چپ چاپ اس کی طرف بڑھی… اس کے قریب بیٹھ کر اس کے شوز اتارنے چاہے تھے جب وہ ایک جھٹکے سے اٹھا…
“تم سے کہا تھا نا… کہ میرے قریب مت آنا اب تم… میرے ہاتھ سلامت ہیں… اپنے سب کام خود کر سکتا ہوں میں…” درشتی سے کہتے ہوۓ وہ ایک طرف سے گزرتا صوفے پر جا بیٹھا… ساتھ ہی شوز اتارنے شروع کیے…
ہانیہ خاموشی سے اٹھ گئ… ایک بے بس سی نگاہ اس پر ڈالی… جانے کیوں اس کی یہ بے رخی تکلیف دے رہی تھی… اس کے اور اپنے درمیان موجود رشتے کا احساس بھی ہو رہا تھا… اماوس کی رات اس جن ذادے نے ہانیہ کو اپنا اسیر کیا تھا… کیونکہ اماوس کی راتوں میں غیر انسانی مخلوقات کی طاقت عروج پر ہوتی ہے… لیکن اب جیسے جیسے چاند کی تاریخیں بڑھ رہی تھیں ویسے ویسے اس جن ذادے کے سحر کا اثر بھی کم پڑتا جا رہا تھا…
“کھانا لاؤں آپ کے لیے…؟؟” ایک اور کوشش کی تھی حسن کی ناراضگی کو کم کرنے کی… بدلے میں حسن نے فقط ایک تلخ نگاہ اس کے وجود پر ڈالی… اور الماری سے اپنا ٹراؤزر لیتا اٹیچ باتھ کی جانب بڑھ گیا… البتہ باتھ روم کے قریب ایک لمحے کو رکا تھا وہ…
“جب تک میں نہا کر نکلوں کوشش کرنا کہ اپنی شکل گم کر لو اس کمرے سے… تمہیں دیکھتا ہوں تو خون کھولتا ہے میرا… ” سپاٹ لہجے میں کہہ کر وہ دروازہ بند کر گیا… تحقیر کے احساس سے ہانیہ کی آنکھیں بھر آئیں… آنسو صاف کرتی وہ کمرے سے نکل گئ… برتن یونہی ڈائیننگ ٹیبل پر پڑے تھے… وہ لاؤنج میں آ کر صوفے پر بیٹھ گئ… روتے روتے کب آنکھ لگی پتا ہی نہ چلا…
“ہانیہ…” نیند کے عالم میں ہی اسے اپنے بہت قریب کسی سرگوشی کا احساس ہوا… وہ جھٹکے سے آنکھیں کھولتی اٹھ کھڑی ہوئ…
“تت… تم…” سامنے اشھب کو کھڑے دیکھ کر وہ خوفزدہ ہوئ…
“ہاں میں… تم پر ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتا… آج اس نے تم پر ہاتھ اٹھایا… میں نے اسے اس کی سزا دے دی… لیکن اس کا آج ہاتھ اٹھا ہے… آئندہ بھی وہ ایسا ہی کرے گا… اور یہ سب میں برداشت نہیں کر سکتا… تم بہت انمول ہو ہانیہ… میری نظر سے دیکھو تو تمہیں پتا چلے کیا اہمیت ہے تمہاری… چلو میرے ساتھ… میری دنیا میں چلتے ہیں… وہاں یہ سب نہیں ہو گا… بس میں اور تم ہوں گے… اور سکون ہی سکون ہو گا…” وہ نرم لہجے میں کہتا اس کا گال چھونے کو آگے بڑھا جب ہانیہ ڈر کر فوراً دو قدم پیچھے ہٹی…
“مم… مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ کہیں بھی… میں اپنے شوہر کے ساتھ خوش ہوں… پپ…پلیز…. جان چھوڑ دو میری…” وہ ہاتھ جوڑتے ہوۓ گڑگڑائ…
اس کی بات پر اشھب کی آنکھوں کا رنگ ایک دم بدلنے لگا… آنکھیں سرخ رنگ ہونے لگی تھیں… غصے کے عالم میں وہ اپنے اصل روپ میں آنے لگا تھا…
“میرے ساتھ تو آج تمہیں جانا ہی ہو گا… اپنی مرضی سے یا زبردستی… یہ تم پہ منحصر ہے…” آواز کی دلکشی بھی کہیں کھو گئ تھی… عجیب سی آواز تھی اس کی…
“نن.. نہیں…” وہ پیچھے ہٹی… تبھی اشھب نے اس کا ہاتھ تھاما تھا… ہانیہ کو اپنے بازو پر شدید تپش کا احساس ہونے لگا…
“چھوڑو مجھے… مجھے کہیں نہیں جانا… لیو می پلیز…” وہ چینخنے لگی تھی… اونچی آواز میں روتے ہوۓ چلا رہی تھی… ساتھ ہی اپنا بازو بھی اس کی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کر رہی تھی… اشھب کی انگلیوں کے لمس سے اسے لگ رہا تھا جیسے اس کی جلد جھلس رہی ہو…
حسن جو کمرے میں سو رہا تھا باہر سے چینخوں کی آواز پر بیدار ہوا… چند لمحے لگے تھے اس کے حواس بیدار ہونے میں… یہ ہانیہ کی آواز تھی… اور اس کی آواز میں دل چیرنے والی اذیت پنہاں تھی… وہ ساری ناراضگی, غصہ اور خفگی بھلاۓ بغیر سلیپرز پہنے تیزی سے باہر آیا… سامنے عجیب منظر تھا… ہانیہ کے ساتھ کوئ بھی موجود نہ تھا… لیکن اس کے باوجود وہ رو رہی تھی… چلا رہی تھی… کسی کے ساتھ جانے سے انکار کر رہی تھی… اور اپنا بازو بھی کھینچ رہی تھی… جبکہ اس کے مقابل کوئ بھی نہ تھا… حسن تیز قدموں سے اس کی جانب بڑھا…
“ہانی… کیا ہوا…؟؟ تم ٹھیک ہو…؟؟” شدید پریشانی کے عالم میں حسن نے اسے کندھے سے تھام کر اس کا رخ اپنی جانب کیا… حسن کے چھوتے ہی اس جن ذادے اشھب کو کرنٹ سا لگا.. ہانیہ کی کلائ اس کی گرفت سے آزاد ہوئ… ہانیہ حسن کے سینے سے لگی بلک رہی تھی…
“ہانی… میری جان… کیا ہوا ہے…؟؟ کچھ بتاؤ تو… یوں رو کیوں رہی ہو… چپ ہو جاؤ… ” حسن نرمی سے اس کے آنسو صاف کر رہا تھا…
“حسن… وہ… وہ مجھے لے جاۓ گا… مم… مجھے اس کے ساتھ نہیں جانا پلیز… مجھے کہیں چھپا لیں… مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے… صرف آپ کے ساتھ… مم… مجھے چھپا لیں… اس کی نظروں سے دور… اس کی پہنچ سے دور…” وہ سسکتے ہوۓ فریاد کر رہی تھی… اس کی بات پر جن زادے نے سلگتی سرخ نگاہوں سے اسے دیکھا… پھر اس سے پہلے کہ اس کا اصل روپ اور اصل چہرہ ہانیہ کے سامنے آتا وہ چھپاک سے غائب ہو گیا… حسن نے ادھر ادھر دیکھا… لیکن وہاں کوئ موجود نہ تھا… ہانیہ کی اس حالت کی وجہ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا….
“ہانی… ادھر کوئ نہیں ہے یار… ریلیکس ہو جاؤ… یہاں بیٹھو… میں پانی لاتا ہوں تمہارے لیے…” اس کی ٹوٹی بکھری حالت پر حسن خود تشویش کا شکار ہو گیا تھا..
“مجھے نہیں بیٹھنا ادھر… مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے حسن… ” وہ سسکتے ہوۓ بولی…
“اچھا ٹھیک ہے… تم میرے ساتھ ہی آ جاؤ… لیکن یوں رونا تو بند کرو پلیز…” اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر اس کے بال چہرے سے ہٹاۓ تھے… آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کی لڑیاں صاف کیں… اور اسے شانوں سے تھام کر سہارا دیتا کچن میں لے آیا… کرسی گھسیٹ کر اسے بٹھایا… پھر کانچ کے صاف شفاف گلاس میں پانی لا کر اسے تھمایا…
دو گھونٹ لینے کے بعد ہانیہ نے گلاس ٹیبل پر رکھ دیا… حالت قدرے بہتر ہوئ تھی… وہ خود پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی… اپنی کلائ کو دیکھا جہاں بظاہر کوئ نشان نہ تھا… لیکن یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اندر سے جلد جل گئ ہو…
“ادھر دیکھو میری طرف…” ٹیبل سے ٹیک لگا کر حسن نے اس کا رخ اپنی جانب کیا جس کا چہرہ رونے کے باعث سرخ ہو رہا تھا… آنکھیں بھی متورم تھیں… ایک نظر اس کی طرف دیکھ کر وہ نگاہیں جھکا گئ تھی…
“کیا ہوا ہے…؟؟ کوئ ڈراؤنا خواب دیکھا ہے کیا…؟؟” وہ نرمی سے استفسار کر رہا تھا…
“وہ میرا خواب نہیں ہے حسن… وہ سچ میں ہے… یقین کریں میرا.. میں نے اسے حقیقت میں دیکھا ہے… وہ مجھے آپ سے چھین لینا چاہتا ہے… ” وہ چلا ہی تو اٹھی تھی اس کی بات پر… حسن حیران سا اس کا ردعمل دیکھے گیا…
“اچھا ٹھیک ہے… ریلیکس ہو جاؤ… اور مجھے بتاؤ… کیا کہتا ہے وہ… ” صرف اسے تسلی دینے کی خاطر وہ مان گیا تھا… ہانیہ نے سسکیوں کے درمیان اسے اب تک کے تمام واقعات بتا دئیے… حسن پریشان سا اسے دیکھے گیا… وہ جو یہ سمجھ رہا تھا کہ شادی کے بعد ہانیہ کی حالت بہتر ہو چکی ہے تو وہ غلط تھا… اس کی حالت اب بھی پہلے جیسی ہی تھی… فرق صرف اتنا تھا کہ وہ اب کچھ بھی حسن کو بتاتی نہ تھی… اور جب آج اس نے تمام رازوں سے پردہ ہٹایا تو حسن گہری سانس بھر کر رہ گیا…
“میں نے آپ سے کہا تھا نا حسن… وہ بہت برا ہے… کسی عامل سے رجوع کریں… لیکن آپ نے میری بات نہیں سنی… وہ میرے اور آپ کے درمیان دوریاں پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے… وہ ہمارے درمیان موجود اس رشتے کو ختم کروانا چاہتا ہے… کیونکہ جب تک میں آپ کے نکاح میں ہوں وہ نہ تو آپ کا کچھ بگاڑ سکتا ہے نہ میرا… تبھی ہمارے درمیان لڑائیاں کروائیں اس نے… ہمارے درمیان اتنے فاصلے پیدا کر دئیے… وہ کہتا ہے آپ سے چٹکارا دلانے کے بعد وہ مجھے اپنی دنیا میں لے جاۓ گا… میں نہیں جانتی کہ اس نے کیا جادو کیا تھا مجھ پر… لیکن میں اس کی اسیر ہو گئ… شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ اپنے کام میں مصروف رہ کر مجھے فراموش کرتے جا رہے تھے… اور میں تنہا سے تنہا ہوتی جا رہی تھی… شاید اسی چیز کا فائدہ اٹھایا اس نے… مجھے اتنی اہمیت کا احساس دلایا, ایک ایسی خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں لے گیا کہ میں اس کے سحر میں گرفتار ہوتی چلی گئ… میرے اور آپ کے درمیان موجود یہ رشتہ کمزور ہوتا جا رہا تھا اور وہ مجھے اپنے ساتھ کسی پکی اور مضبوط ڈور میں باندھتا جا رہا تھا… میں خود اپنے دل و دماغ پر قابو نہیں رکھ پائ حسن… آپ میں اور آپ سے جڑے اس رشتے میں میری دلچسپی کم سے کم ہوتی چلی گئ… لیکن آج… آج آپ کے غصے, آپ کی شدید ناراضگی نے جیسے مجھے کسی ٹرانس کی سی کیفیت سے باہر نکالا… اس کے ساتھ میرا رشتہ کتنا بھی مضبوط ہو جاۓ لیکن آپ سے زیادہ مضبوط نہیں ہو سکتا… میرا نکاح آپ سے ہوا ہے… اور مجھے اس کے شر سے بچانے اور آپ کے اور اپنے رشتے کی حقیقت پہچاننے کی طاقت اللّہ نے دی ہے… آپ کی محبت کا احساس ہوتے ہی اس کا سحر میرے وجود پر سے, میرے دل و دماغ پر سے چھٹنے لگا تھا… اور آج… ابھی جب آپ نے مجھے چھوا تو اس نے فوراً میری کلائ آزاد کر دی… اسے کرنی پڑی تھی حسن… کیونکہ آپ میرے محرم ہیں… مجھے چھونے کا حق اللّہ نے فقط آپ کو تفویض کیا ہے… اسے نہیں… ” وہ روتے ہوۓ جانے کیا سے کیا کہے جا رہی تھی…
حسن بس اسے دیکھے گیا… اس کے لہجے سے, اس کی آنکھوں سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہی… لیکن… ان سب باتوں کو حقیقت تسلیم کرنے سے عقل انکاری ہو رہی تھی… ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ جنات انسانوں کی دنیا میں گھس آئیں… جب کہ اللّہ نے دونوں دنیاؤں کی ایک سرحد مقرر کر رکھی ہے… اس سرحد کو کوئ کیونکر پار کر سکتا ہے…
“آپ… آپ میرا یقین کر رہے ہیں نا حسن… ؟؟” وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی… حسن سمجھ نہیں پایا کہ کیا جواب دے اسے…
“اچھا ٹھیک ہے… صبح دیکھتے ہیں کیا حل نکلتا ہے اس سب کا… چلو ابھی کمرے میں چل کر سو جاؤ… ورنہ طبیعت زیادہ خراب ہو جاۓ گی تمہاری…” نرمی سے کہتے ہوۓ حسن نے اسے ہاتھ پکڑ کر اٹھایا… اور کمرے میں لے گیا… پانی کے ساتھ اسے چند ٹیبلٹس دیں جن میں نیند کی گولی بھی شامل تھی… کچھ ہی دیر بعد ہانیہ گہری نیند سو چکی تھی جبکہ حسن پریشان سا اسے دیکھتے ہوۓ ساری رات سوچتا رہا کہ کیا کرے… کیا اسے واقعی کسی عامل سے رجوع کرنا چاہیے… اگر ہانیہ اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ کوئ عامل اس مسئلے کو حل کر سکتا ہے تو عامل کو بلانے میں کوئ حرج تو نہ تھا… لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ آجکل اس طرح کے لوگ صرف فراڈ کرتے ہیں… پیسے کمانے کا ذریعہ بنا رکھا ہے لوگوں نے اس کام کو…. ایسے میں کوئ صحیح بندہ کیسے مل سکتا ہے اسے… جو اس سب میں واقعی ماہر ہو… وہ ساری رات اس نے آنکھوں میں کاٹی تھی… ایک بات تو وہ مان چکا تھا کہ ہانیہ پر شک کر کے اس نے غلط کیا… یقیناً وہ اس کی غلط فہمی تھی… اور اس غلط فہمی کی بنا پر ہی وہ اس پر ہاتھ اٹھا گیا…
💝💝💝💝💝
صبح جب وہ آفس کے لیے تیار ہونے لگا تب بھی ہانیہ بے حد سہمی ہوئ تھی…
“حسن پلیز مجھے گھر میں اکیلی چھوڑ کر مت جائیں… مجھے خوف آتا ہے…” وہ رونے والی ہو گئ تھی… حسن جو ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑا کف لنکس بند کر رہا تھا… ہانیہ کی تیسری بار دہرائ گئ اس بات پر مڑ کر اسے دیکھنے لگا… پھر چلتا ہوا اس کی طرف آیا جو بیڈ کی پائینتی کی جانب بیٹھی آنکھوں میں آس و امید کا جہاں آباد کیے اسے تک رہی تھی…
“یار… بتایا تو ہے… آج جانا ضروری ہے… بہت اہم میٹنگ ہے میری… ٹائم ٹو ٹائم فون پہ باس کو انکار بھی نہیں کر سکتا کہ میں ساری تیاری کر چکا ہوں… کوشش کروں گا جلدی آنے کی… کہیں باہر چلیں گے پھر… ڈنر باہر کریں گے… تم پریشان مت ہو… کچھ نہیں ہو گا… دروازہ اچھی طرح بند رکھنا… اگر کسی قسم کا کوئ مسئلہ ہو تو مجھے کال کر لینا… میں بھی وقتاً فوقتاً کال کرتا رہوں گا…” اس کے قریب نیچے بیٹھ کر اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا… ہانیہ کے وجود پر لرزش سی طاری تھی… ہاتھوں میں بھی کپکپاہٹ تھی…
“حسن… اگر… اگر وہ پھر آ گیا تو… یہ کھڑکیاں دروازے اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے… ” وہ ہراساں نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوۓ بولی… لہجہ بھی بھیگا ہوا سا تھا…
“ہانی بہادر بنو یار… کیا ہو گیا ہے تمہیں… تم تو کسی چیز سے خوفزدہ نہیں ہوتی تھیں… میں تو تمہاری بہادری سے بہت متاثر تھا… لگتا ہی نہیں کہ تم وہی ہانیہ ہو… ایسی ڈرپوک ہانیہ کو تو نہیں اپنا بنایا تھا میں نے… میں تمہارے ساتھ ہوں نا… مانا کہ کچھ عرصہ کام کی دھن خود پر سوار کر کے تمہیں فراموش کر دیا تھا… تمہاری طرف سے غفلت برتی تھی لیکن اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں… یقین کرو اب ایسا کچھ نہیں ہو گا… ہم ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں تبھی تو ہمارے رب نے ہمیں ملایا… کوئ دوسرا ہمیں جدا نہیں کر سکتا… ہمارے درمیان فاصلے پیدا نہیں کر سکتا… جب تک ہمارا رب نہ چاہے… اللّہ پر بھروسہ رکھو بس… اللّہ نے انسانوں کو انسانوں کے لیے ہی تخلیق کیا ہے…اور اس کی مخلوق میں سے کوئ کسی کو الگ نہیں کر سکتا… اس کی قسمت کا فیصلہ نہیں کر سکتا… قدرت کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت کسی میں نہیں… اللّہ کی بنائ حدود کو پار کرنا ناممکن ہے… تم سمجھ رہی ہو نا میری بات… ؟؟” وہ اس کی آنکھوں سے بہتے اشکوں کو اپنی انگلی کی پوروں سے صاف کر رہا تھا… اسے امید دلا رہا تھا… تسلی دے رہا تھا… ہانیہ نے دل میں دبے خوف کے باوجود اس کی باتوں پر اثبات میں سر ہلایا… اس کا شوہر اس کے ساتھ تھا… تو وہ کسی کا بھی مقابلہ کر سکتی تھی… یہ حسن کا بخشا مان ہی تھا کہ وہ روتے روتے مسکرا دی تھی… صرف اس لیے کہ حسن پریشان ہو کر آفس نہ جاۓ…
“میں کچھ دیر رک جاتا ہوں… ملازمہ آنے ہی والی ہے… اس سے بات کروں گا… فل ڈے کے لیے ہائیر کر لیتے ہیں اسے… اگر تو مان گئ تو ٹھیک… ورنہ ایک دو دن میں کسی اور ملازمہ کو رکھ لیتے ہیں جو میرے آنے تک تمہارے ساتھ رہے… یوں تم سارا دن اکیلی نہیں ہو گی… وہ تمہارے ساتھ ہو گی تو تمہارا خوف بھی کم ہو جاۓ گا… باقی اس سارے مسئلے کا بھی کوئ حل نکالتا ہوں میں… تم ٹینشن مت لو… ” محبت بھرے لہجے میں کہتے ہوۓ حسن نے اس کے لبوں پر دھیمی سی مسکان دیکھی تو آہستہ سے اس کے سر سے سر ٹکرایا…. اس کی نم پلکوں اور ہونٹوں کی مسکان دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے دھوپ میں برسات ہو رہی ہو…
وہ تیاری کر کے کچن میں آیا تو ہانیہ ناشتہ بنانے لگی تھی… حسن نے اسے جا کر کندھوں سے تھام کر ایک جانب بٹھایا…
“تم یہاں بیٹھو… آج ناشتہ میں تیار کرتا ہوں… ” اس کے نا نا کرنے کے باوجود وہ خود سینڈوچز بنانے لگا تھا… ساتھ ایک چولہے پر چاۓ کا پانی بھی چڑھا دیا… ہانیہ شادی کے بعد پہلی بار اسے کچن میں کام کرتے دیکھ رہی تھی تبھی شرمندگی نے اسے آن گھیرا…
“حسن پلیز رہنے دیں آپ…. میں کر لیتی ہوں…” وہ پھر سے منمنائ…
“چپ… بالکل چپ ہو جاؤ… لڑکی… پیار کی بات سمجھ نہیں آتی تمہیں…؟؟ میں شادی سے پہلے اپنا ناشتہ خود ہی بنایا کرتا تھا… یہ تو تم نے شادی کے بعد مجھے ہڈ حرام بنا دیا… کیا ہو جاۓ گا اگر کبھی کبھار میں خود اپنے ہاتھوں سے ناشتہ بنا کر اپنی بیوی کو کھلاؤں… آفٹر آل… تم میری اکلوتی بیوی ہو…” محبت بھری دھونس سے لبریز لہجہ آخر میں قدرے شرارتی ہوا… وہ فقط ہانیہ کا دھیان بٹانا چاہ رہا تھا اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہا تھا…
اپنے ہاتھوں سے ہانیہ کو ناشتہ کروانے کے ساتھ ساتھ اس نے خود بھی ناشتہ کیا… پھر برتن اٹھا کر سنک میں رکھتے ہوۓ وقت دیکھا… ملازمہ کے آنے کا وقت ہو چکا تھا… ہانیہ کے ساتھ کمرے میں آتے ہوۓ اس نے کولیگ کو کال کر کے لیٹ آنے کا بتایا… بریف کیس کھول کر تمام ضروری ڈاکیومینٹس چیک کیے… لیب ٹاپ پر کچھ ضروری میلز چیک کیں… باہر سے کھٹ پٹ کی آوازیں سنائ دینے لگی تھیں… غالباً ملازمہ آ چکی تھی… ہانیہ جو آوازیں سن کر باہر جانے کے لیے دروازے کی جانب بڑھی تھی حسن کی آواز پر رکی…
“بیوی… کوٹ تو پہنا دو یار…” نہ جانے کتنے ماہ بعد حسن نے اسے یوں بلایا تھا… محبت سے,لگاوٹ سے… اور اسے کوٹ پہنانے کا کہا تھا… ورنہ ہر روز صبح کچھ نہ کچھ گم جانے پر اس کا موڈ خراب ہو جاتا اور غصے میں ہی گھر سے جاتا تھا وہ… ہانیہ نے ہینگر میں لٹکا اس کا کوٹ اتارا… اور اسے پہنانے لگی…
“میری گھڑی…” وہ اپنا والٹ دراز سے نکال رہا تھا جب ہانیہ سے پوچھا…
“میں نے صبح تکیے کے نیچے سے اٹھا کر یہیں رکھی تھی دراز میں والٹ کے ساتھ…” ہانیہ جلدی سے آگے بڑھی کہ کہیں پھر حسن کا موڈ نہ بگڑ جاۓ…
“لیکن یہاں نہیں ہے اب…” حسن نے چیزیں الٹ پلٹ کیں…
“مم… میں نے یہیں رکھی تھی حسن… پتا نہیں کہاں گئ…” وہ ایک دم ڈر گئ تھی… شاید اس خوف میں مبتلا ہو گئ تھی کہ اب پھر اس کا اور حسن کا جھگڑا ہو گا…حسن نے اس کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں ہوائیاں اڑ رہی تھیں… اسے ترس آیا تھا ہانیہ پر… خود پر شرمندگی بھی ہوئ کہ وہ غصے میں کتنا برا رویہ اختیار کر جاتا تھا ہانیہ کے ساتھ… تبھی تو وہ اتنی ہراساں ہو گئ تھی ایک معمولی سی گھڑی کے نہ ملنے پر…
“ریلیکس ہو جاؤ یار… اتنا ڈر کیوں رہی ہو… ایک گھڑی ہی تو ہے… ابھی نہیں مل رہی تو کوئ بات نہیں… یہیں کہیں ہو گی… مل جاۓ گی… ” نرم لہجے میں کہتے ہوۓ اس کا گال تھپتھپایا تھا… ہانیہ پہلے بے یقینی سے اسے دیکھتی رہی… پھر اس کی آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی… وہ تو ترس کر رہ گئ تھی حسن کے اس لہجے کے لیے… اس نرمی کے لیے… اس توجہ اور محبت کے لیے… یقین ہی نہ آ رہا تھا کہ حسن پہلے کی طرح ہو گیا ہے…
ملازمہ سے بات کرنے اور اسے فل ٹائم ڈیوٹی کا کہنے کے بعد وہ ہانیہ کے ساتھ چلتا لاؤنج کے دروازے تک آیا…
“پریشان مت ہونا… میں آفس جا کر کال کروں گا… ٹھیک ہے…؟؟” اس کا خود بھی دل نہیں چاہ رہا تھا ہانیہ کو چھوڑ کر جانے کو کہ رات اس کی حالت دیکھ کر اور اسے کھونے کے احساس سے ہی وہ ڈر گیا تھا… اس کے سامنے خود کو نارمل ظاہر کر رہا تھا لیکن وہ ہی جانتا تھا کہ اندر سے خود کتنا پریشان ہے… ہانیہ کے اثبات میں سر ہلانے پر اس کی پیشانی کو لبوں سے چھوتا وہ گاڑی کی جانب بڑھ گیا…
💝💝💝💝💝💝
“کیا بات ہے… کچھ پریشان سے لگ رہے ہو…” میٹنگ کے بعد وہ اپنے کیبن میں بیٹھا تھا… لنچ ٹائم تھا اور اس کا دوست اور کولیگ احمد اس کے کیبن میں ہی بیٹھا تھا جب حسن کی خاموشی اور اداسی کو محسوس کر کے پوچھے بنا نہ رہ سکا…
“ہاں… نہیں یار… کچھ نہیں…. بس گھر کا کچھ مسئلہ ہے…” حسن نے اسے ٹالنا چاہا تھا… لیکن درحقیقت اسے خود کسی ایسے بندے کی ضرورت تھی جس سے بات کر کے وہ اس مسئلے کا کوئ حل نکال سکتا…
“کیا ہوا ہے…؟؟ اگر تم مناسب سمجھو تو مجھ سے ڈسکس کر سکتے ہو… ہو سکتا ہے میں تمہاری مدد کر سکوں… میرا مطلب اگر کوئ فنانشل پرابلم ہے تو بلا جھجھک مجھ سے کہو… دوست صرف کہا ہی نہیں دل سے مانا بھی ہے تمہیں…” احمد ایک مخلص انسان تھا… اس پراۓ شہر میں جہاں حسن خود کو بالکل تنہا تصور کرتا تھا وہاں اسے احمد جیسا مخلص دوست ملا تھا جو ہر وقت دوسروں کی مدد کرنے کو تیار رہتا… وہ کراچی کا ہی رہائشی تھا اور قابل اعتماد بھی تھا…
حسن نے سوچا کہ وہ کراچی کا ہے تو یقیناً یہاں کسی عامل وغیرہ کو جانتا ہو گا… ہو سکتا ہے اس سے بات کر کے کچھ حل نکل آۓ… بس یہی سوچ کر مناسب لفظوں میں اسے ساری صورتحال بتا دی… ہانیہ کی ذہنی حالت, اس کی کیفیت, اس کے خوف اور ڈر… احمد مٹھی لبوں پر جماۓ خاموشی اور توجہ سے اس کی ساری بات سنتا رہا…
“بس یار… میں نے اس کی باتوں کو کافی عرصہ اگنور کیا… غلطی کی… وہ ٹھیک ہی کہتی ہے شاید… کسی عامل سے رجوع کرنا چاہیے ہمیں… اگر تم کسی ایسے قابل بھروسہ آدمی کو جانتے ہو جو ہمارا مسئلہ حل کر سکے تو مجھے اس کا بتا دو پلیز… بہت پریشانی پھیلی ہوئ ہے ہمارے گھر… ” حسن ہاتھوں میں سر گراۓ بیٹھا تھا… اس کے لہجے سے ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ ہانیہ کی حالت پر وہ کس قدر اپ سیٹ ہے…
احمد بہت دیر تک کسی گہری سوچ میں ڈوبا رہا… پھر سر اٹھا کر حسن کی طرف دیکھا…
“دیکھو یار… مسئلہ واقعی گھمبیر ہے… لیکن میری مانو یہ پیروں فقیروں اور عاملوں کے چکر میں نہ ہی پڑو تو اچھا ہے… یہ سب ایک ڈھونگ ہے… چال سازی ہے اور کچھ نہیں… آج کل ہر دوسرا بندہ پیسہ کمانے کی خاطر لوگوں کو بیوقوف بنا رہا ہے… بھیس بدل کر خود کو بابے ظاہر کرتے ہیں… رقم لیتے ہیں اور رفو چکر ہو جاتے ہیں… اور پھر یہ بھوت پریت… جنات… ان سب پر تم کب سے یقین کرنے لگ گۓ… ایسا کچھ نہیں ہوتا… تم نے بتایا نا کہ بھابھی کو بھوت دیکھنے کا شوق تھا… جنات کی کہانیاں اور ناولز پڑھتی تھیں وہ… تو میرے خیال میں یہی سب ان کے دماغ میں بیٹھ چکا ہے… اگر جن یا بھوت کا کوئ وجود ہوتا تو تمہیں بھی محسوس ہوتا… اس گھر میں اس کی موجودگی کا تمہیں بھی احساس ہوتا… میرے خیال میں بھابھی کو کسی عامل کی بجاۓ ایک اچھے سائیکاٹرسٹ کی ضرورت ہے جو ان کی ذہنی الجھنوں کو سلجھا سکے… اگر تم چاہو تو میں ایک اچھی سائیکاٹرسٹ کا پتا بتا سکتا ہوں تمہیں… مسز نادیہ اجمل کے نام سے مشہور ہیں وہ… کراچی کی سب سے بہترین سائیکاٹرسٹ ہیں… بڑے بڑے لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس آتے ہیں… ان سے اپائنٹمنٹ ملنے میں ہی ہفتوں گزر جاتے ہیں… لیکن تمہیں ایک فیور مل سکتی ہے کہ ایک سے دو ہفتوں تک کی اپائنٹمنٹ مل سکتی ہے… کیونکہ میری بہن بھی ہیں وہ… ان سے بھابھی کا سارا کیس ڈسکس کروں گا میں… اگر تم کہو تو… تین سے چار سیشنز میں ہی بھابھی کی طبیعت سنبھلنے لگے گی… یہ یقین دلاتا ہوں میں تمہیں… باقی جیسے تم مناسب سمجھو ویسا کر لو…” احمد کی باتوں پر وہ سوچ میں ڈوب گیا… وہ خود بھی عاملوں کے چکر میں پڑنا نہیں چاہتا تھا کہ دنیا کی دھوکہ دہی سے خوب واقف تھا…
کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے بالآخر ہامی بھر ہی لی… اگر احمد اتنا یقین دلا رہا تھا تو ایک بار سائیکاٹرسٹ سے بات کرنے میں کیا حرج تھا… کیا معلوم اسی کے پاس ان کے مسئلے کا حل ہو… اور اگر پھر بھی کوئ حل نہ نکل سکا تو پھر کسی عامل کا پتا کروا لیں گے وہ…
💝💝💝💝💝💝
احمد نے مسز نادیہ اجمل سے بات کی تھی… حسن بھی خود ان سے جا کر مل چکا تھا… کافی نائس اور شفیق سی خاتون تھیں… خاص طور پر ان کے لہجے کی چاشنی دل موہ لیتی تھی… سارا کیس سننے کے بعد انہوں نے کافی امید دلائ تھی ہانیہ کے حوالے سے… دو ہفتے بعد کی اپائنٹمنٹ ملی تھی انہیں… حسن ایک امید کا دیا لیے ان کے آفس سے نکلا تھا… ہانیہ کو فی الوقت اس نے اس سائیکاٹرسٹ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا… پچھلے چند دن سے گھر میں سکون تھا… کوئ واقعہ بھی نہ ہوا تھا… شاید اس لیے کہ حسن کی توجہ اور محبت پا کر ہانیہ کا دھیان ان سب باتوں سے ہٹ گیا تھا… حسن اپنی موجودگی میں اسے کچھ اور سوچنے کا موقع ہی نہ دیتا تھا…
💝💝💝💝💝💝
پچھلے چند دنوں سے گھر میں سکون تھا… لیکن جانے کیوں ہانیہ کا دل سہما سہما سا رہتا… اسے لگتا تھا کہ اس جن ذادے اشھب کی طرف سے یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو گی… حسن کا رویہ کافی بہتر ہو چکا تھا اس کے ساتھ… وہی پہلے والا حسن بن چکا تھا وہ… لونگ, کئیرنگ… محبت کرنے والا شوہر…
وہ کچن میں موجود تھی… پانی کا گلاس بھرتے ہوۓ وہ کرسی پر بیٹھی پانی پی رہی تھی… نظریں باہر کھڑکی کے پار نظر آتے لان میں تھیں… ملازمہ باہر گئ تھی… سبزی اور گھر کا کچھ سامان لینے… ہانیہ نے خود ہی اسے بھیجا تھا… ملازمہ ڈر رہی تھی کہ کہیں کسی کوتاہی کے باعث حسن سے ڈانٹ نہ پڑ جاۓ لیکن ہانیہ کے تسلی دینے پر چلی گئ…
پانی پیتے پیتے ایک دم ہانیہ کو کمر میں شدید تکلیف کا احساس ہوا… گلاس کو میز پر رکھتے ہوۓ وہ کراہتی ہوئ کمر کو مسلنے لگی… اس کی طبیعت اچانک خراب ہونے لگی تھی… دل گھبرانے لگا… سانس لینے میں دشواری ہونے لگی… پورا جسم شدید درد کی لپیٹ میں آ گیا… اس کی آنکھیں باہر کو ابلنے لگی تھیں… وہ چینخنے لگی… درد کی شدت برداشت سے باہر ہو رہی تھی… کچھ دیر درد سے تڑپنے کے بعد اس کا جسم ایک دم تھم گیا… بال چہرے پر بکھر گۓ تھے… جب اس نے سر اٹھایا تو اس کا چہرہ خطرناک حد تک بگڑ چکا تھا… آنکھیں لہو رنگ ہو رہی تھیں…پتلیاں اوپر کی جانب چڑھ چکی تھیں جبکہ لبوں پر عجیب سے مسکراہٹ تھی…
“تم میرے ساتھ نہیں جاؤ گی…؟؟ میری محبت دیکھی ہے تم نے… میرا غصہ نہیں.. تمہیں پانے کے لیے بہت کچھ کیا ہے میں نے… بہت انتظار کیا ہے… تمہیں اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش بھی کی… لیکن اس حسن نام کا طلسم تمارے سر سے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا… مجھے کمزور کر دیا تم نے… لیکن چین سے رہنے نہیں دوں گا تم دونوں کو… چاہے تمہیں ہی تکلیف کیوں نہ دینی پڑے… تمہیں حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں میں… میرے پاس آنا ہی پڑے گا تمہیں… ہر قیمت پر…” اس کے منہ سے مردانہ آواز سنائ دی تھی… ساتھ ہی سرخ رنگ آنکھوں سے سامنے پڑے کانچ کے گلاس کو دیکھا… پانی نیچے فرش پر گراتے ہوۓ سلیب سے ٹکرا کر گلاس کو توڑا… اور ہاتھ میں رہ جانے والے ٹکڑے کو چمکتی نگاہوں سے دیکھا… اگلے ہی لمحے اس کانچ کو اپنی کلائ پر چلا دیا تھا اس نے… بار بار اپنے بازو پر بے دردی سے وار کرتے ہوۓ اس کے منہ سے مردانہ ہنسی کی آواز برآمد ہو رہی تھی… ساتھ ہی ساتھ ہانیہ کی آواز میں سسکیاں اور چینخیں بھی نکل رہی تھیں… لیکن ہنسی کی آواز غالب تھی… جبکہ بازو سے خون نکلتا فرش کو رنگین کر رہا تھا…
ملازمہ جو سامان لے کر گھر آئ تھی… اس نے ہانیہ کو یوں اپنے ہی بازو پر وار کرتے دیکھا تو سامان اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گرا…
“بی بی جی… یہ کیا کر رہی ہیں آپ…” وہ حیران پیریشان سی کھڑی تھی… صورتحال دیکھ کر اس کا دماغ ہی گھوم کر رہ گیا تھا… وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیا کرے…
جب حواس ٹھکانے آۓ تو ملازمہ تیزی سے آگے بڑھی… تب تک ہانیہ کے وجود کو جن ذادے نے آزاد کر دیا تھا…
“بی بی جی.. کیا ہو گیا ہے آپ کو… خود کو کیوں زخمی کر دیا آپ نے… ابھی کچھ دیر پہلے تو آپ بالکل ٹھیک تھیں…” وہ روہانسی ہوتی ہانیہ کے سامنے آئ جس کے چہرے پر اب شدید تکلیف کے آثار تھے… وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنی کلائ کو دیکھ رہی تھی…
منہ سے سسکاریاں بلند ہو رہی تھیں… نقاہت کے باعث کھڑے ہونا مشکل ہونے لگا… سر چکرا رہا تھا… اگلے ہی لمحے وہ ہوش کھوتے ہوۓ لہرا کر زمین بوس ہوئ… ملازمہ کے ہاتھ پیر پھول کر رہ گۓ… اپنے دوپٹے کا کونہ پھاڑ کر ہانیہ کی کلائ پر باندھ کر خون روکنے کی کوشش کی… پھر تیزی سے لینڈ لائن کی جانب آتے ہوۓ اس نے حسن کو کال ملائ…
💝💝💝💝💝💝
وہ لوگ اس وقت ہاسپٹل میں تھے… ملازمہ نے حسن کو تفصیلاً ہر بات سے آگاہ کر دیا تھا… وہ یہ تو نہ جانتی تھی کہ ہانیہ پر کسی چیز کا سایہ ہے یا کسی انجانی طاقت نے اس پر وار کیا… البتہ یہ معلوم تھا اسے کہ ہانیہ نے خود اپنے آپ کو زخمی کیا تھا… خون زیادہ بہہ جانے کے باعث ڈاکٹرز نے ابھی تک اسے انتہائ نگہداشت میں رکھا تھا…
تقریباً دو سے تین گھنٹے کے بعد اسے ایمرجنسی وارڈ میں شفٹ کیا گیا…
حسن کو اپنے سامنے دیکھتے ہی وہ رو دی…
“میں نے کہا تھا نا حسن… مجھے اکیلی مت چھوڑیں… اس نے… اس نے مارنے کی کوشش کی مجھے… دیکھیں میرا حال… میری تکلیف, میری اذیت کا اندازہ نہیں لگا سکتے آپ… ” وہ سسک رہی تھی… اس کی حالت دیکھ کر ضبط کے باعث حسن کی آنکھوں میں گلابی پن سا در آیا…… اس کے ساتھ بیٹھتے ہوۓ حسن نے اس کا سر اپنے کندھے سے لگایا…
“فکر مت کرو ہانی…. سب ٹھیک ہو جاۓ گا… ” وہ فقط اتنا ہی کہہ پایا تھا… اسے یہ نہیں کہہ سکا کہ خود کو زخمی کرنے والی بھی وہ ہی تھی… کسی اور نے ذخمی نہ کیا تھا اسے… ملازمہ نے بھی اس بات کی گواہی دی تھی… کوئ تیسرا اس وقت وہاں موجود نہ تھا جب یہ واقعہ پیش آیا… پھر یہ سب کوئ اور کیسے کر سکتا تھا…
💝💝💝💝💝
ان دو ہفتوں میں کافی عجیب واقعات ہوۓ… ہانیہ اکثر رات کو کمرے سے غائب ہوتی… حسن اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاگل ہونے لگتا… ایک رات باہر روڈ پر چلتی جا رہی تھی وہ… یوں جیسے اپنے ہوش میں نہ ہو… حسن نے وقت پر پہنچ کر اسے بچایا تھا ورنہ ایک سیکنڈ کی تاخیر پر سامنے سے آتی گاڑی اسے کچل کر آگے بڑھ چکی ہوتی… کبھی کبھار وہ باہر لاؤنج میں ہوتی… گہرا میک اپ کیا ہوتا اور لاؤنج سے اس کے باتیں کرنے کی آوازیں سنائ دیتیں… حسن کو اس کی بات کی کچھ سمجھ نہ آتی… اس کے لاؤنج میں آتے ہی وہ بالکل خاموش ہو جاتی… ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی طبیعت بگڑتی جا رہی تھی…
حسن کے کہنے پر احمد نے بات کر کے اپائنٹمنٹ کی تاریخ پہلے کی رکھوا لی… اور بالآخر وہ دن آ ہی گیا جب پہلی بار ہانیہ کو لے کر حسن ڈاکٹر نادیہ اجمل کی کیبن میں داخل ہوا…
💝💝💝💝💝
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...