وہ جب ہوش میں آئی تو گھر کے تقریباً سبھی افراد اس کے کمرے میں جمع تھے… منہ لٹکاۓ, پریشان سے… ہانیہ قدرے حیران ہوئ… یوں سب کی یہاں موجودگی پر… پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن ایک دم دائیں ہاتھ میں شدید درد کا احساس جاگا… کراہتے ہوۓ اس نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا جہاں بینڈیج کی گئ تھی… ناسمجھی سے ہاتھ کو چند پل تکنے کے بعد اس نے الجھ کر اپنی ٹانگوں کی طرف بیٹھی مہرالنساء کی جانب دیکھا…
اس کے کراہنے کی آواز پر سب اس کی جانب متوجہ ہوۓ… یوں جیسے ان سب کے وجود میں جان آ گئ ہو…
“ہانیہ…میری بچی… اب کیسی طبیعت ہے تمہاری…؟؟” سب سے پہلے مہرالنساء ہی تڑپ کر اس کی جانب آئیں… ہاتھوں کے پیالے میں اس کا چہرہ تھام کر سوال کیا…
“مم…میں ٹھیک ہوں مما… لیکن آپ سب یہاں…؟؟ سب خیریت ہے نا…؟؟ اور یہ میرے ہاتھ پر کیا ہوا…؟؟ بینڈیج کیوں کی گئ میرے ہاتھ پر…؟؟” وہ الجھے سے انداز میں سب کو دیکھتی پریشانی سے پوچھ رہی تھی جبکہ اس کی بات پر وہاں موجود سب افراد کو شدید حیرت کا جھٹکا لگا… وہ سب تو یہ سوچے بیٹھے تھے کہ ہانیہ کے ہوش میں آنے پر اس سے اس حرکت کی وجہ پوچھیں گے کہ وہ کیوں خود کو زخمی کر رہی تھی…لیکن یہان تو معاملہ ہی الٹ تھا… وہ خود بے خبری کے عالم میں ان سے یہ سوال پوچھ رہی تھی…
“کچھ نہیں ہانیہ بیٹا… بس معمولی سی چوٹ لگ گئ تھی تمہیں… اور کوئ بات نہیں…تم بتاؤ… کیسا محسوس کر رہی ہو اب… کمزوری تو نہیں فیل نہیں ہو رہی نا…؟؟” دادا جی وہیل چئیر کو گھسیٹتے ہوۓ اس کے بستر تک آۓ… اور اس کے سر پر ہاتھ رکھا… ساتھ ہی باقی سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا…
“میں ٹھیک ہوں دادا جی…” وہ نقاہت محسوس کر رہی تھی لیکن انہیں بتا کر پرشان کرنا مناسب نہ سمجھا… البتہ یہ بات وہ ابھی تک سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اگر اسے چوٹ لگی بھی تھی ہاتھ پر تو اسے کیوں یاد نہیں یہ بات… اور پھر اتنی معمولی سی چوٹ پر یوں سب گھر والوں کے چہروں پر بارہ کیوں بجے تھے آخر… یقیناً کچھ تو تھا جو اس سے چھپایا جا رہا تھا…
“رضا… تم شفیق کے ساتھ جاؤ… شادی کے جو انتظامات رہتے ہیں وہ سب دیکھو… ہانیہ اب ٹھیک ہے… اسے آرام کی ضرورت ہے بس… بشریٰ تم بھی جاؤ… مہمانوں کو دیکھ لو ذرا… مہرالنساء تم سوپ بنا کر لاؤ ہانیہ کے لیے… چلو چلو شاباش… سب اپنے اپنے کام کرو… وقت بہت کم ہے… نکاح تو سادگی سے کر لیا… لیکن رخصتی بہت دھوم دھام سے کرنی ہے ہمیں…کوئ کمی نہیں رہنی چاہیے ہمارے بچوں کی شادی میں… ” دادا جی نے اپنے لہجے کو ہشاش بشاش بنانے کی کوشش کرتے ہوۓ سب کو ان کے کاموں کے لیے بھیج دیا… کمرے میں صرف حسن, محسن اور دادا جی رہ گۓ تھے…
“حسن… بیٹا تم بھی آرام کر لو… کل سے تیاریوں میں لگے تھے… اوپر سے ہانیہ کی فکر… ان سب چیزوں نے تھکا دیا ہو گا تمہیں… جاؤ سو جاؤ جا کر… محسن جاؤ تم بھی… ” دادا جان کے کہنے پر محسن سر ہلاتا کمرے سے نکل گیا… جبکہ حسن جھجھکتا ہوا وہیں رکا رہا…
“وہ… دادا جان… ہانی سے کچھ بات کرنی تھی… اگر آپ کی اجازت ہو تو…” دادا جان کی سوالیہ نگاہوں سے گھبرا کر وہ بمشکل اپنی بات مکمل کر پایا… دادا جان کے چہرے پر مشفقانہ مسکراہٹ نے اپنی جھلک دکھائ…
“میاں تمہاری منکوحہ ہے وہ… اس سے بات کرنے کے لیے ہمارے اجازت کی ضرورت نہیں ہے اب تمہیں… کر لو بات… لیکن جلدی آ جانا… اور ہانیہ! مہرالنساء سوپ لے کر آتی ہے تو اسے ختم کرنا ہے تمہیں… اور اس کے بعد صرف اور صرف آرام کرو گی تم… سمجھ گئ…؟؟” دادا جان ہانیہ کو تنبیہہ کرتے وہیل چئیر گھسیٹتے کمرے سے باہر نکل گۓ… دروازہ بند ہوتے ہی حسن نے ہانیہ کی طرف دیکھا جو پزل سی بیٹھی تھی… صرف ایک نظر حسن پر ڈال کر وہ سر جھکا گئ تھی…
حسن بغیر کوئ آہٹ کیے چلتا ہوا اس تک آیا… بیڈ کے ایک طرف ٹک کر بیٹھا… پھر ہانیہ کے پٹی میں بندھے ہاتھ کو دیکھا… وہ سارا منظر ایک بار پھر نگاہوں میں لہرا گیا… جس نے تب حسن کو لرزا کر رکھ دیا تھا…
“تم ٹھیک ہو اب ہانی…؟؟” اس کے جھکے سر کو دیکھتے ہوۓ نرمی سے پوچھا… ہانیہ نے قدرے حیرت سے سر اٹھایا… وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ ایسا کیا ہوا تھا اس کے ساتھ جو سب اس قدر پریشان تھے…
“ہاں… میں ٹھیک ہوں… بس ذرا سی نقاہت محسوس ہو رہی ہے… یا شاید سستی… پتا نہیں کتنی دیر سوتی رہی ہوں میں… اور شاید میرے زیادہ سونے پر ہی تم سب پریشان ہو گۓ تھے… ہے نا…؟؟” اس نے کمرے کے بوجھل سے ماحول کو نارمل کرنا چاہا…
حسن نے بے بسی سے اسے دیکھا پھر اثبات میں سر ہلا دیا… عجیب بات تھی …وہ خود بھول چکی تھی کہ اپنے ہاتھ پر کس وحشت کے عالم میں اس نے پے در پے وار کیے تھے… تو کوئ دوسرا اس سے کیا سوال کرتا… اس سب کی کیا وجہ پوچھتا…
“ہانیہ… ایک بات پوچھوں… سچ سچ بتانا…” حسن نے جھجھک کر بات کا آغاز کیا…
ہانیہ نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھے… جیسے یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہو کہ وہ کیا پوچھنا چاہ رہا ہے… پھر ہلکے سے اثبات میں سر ہلا دیا…
“تمہیں کوئ ٹینشن ہے کیا…؟؟ کوئ ذہنی پریشانی…؟؟ دیکھو پلیز… مجھ سے چھپانا مت کچھ بھی… یقین رکھو مجھ پر… تمہارا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ شوہر بھی ہوں اب… تمہارے مسائل اب میرے مسائل ہیں… تمہاری پریشانیاں میری پریشانیاں ہیں… یوں اندر ہی اندر خود کو ختم مت کرو یار… شئیر کرو مجھ سے… ” وہ اس کا بایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوۓ گویا ہوا… ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں جھانکا…
حسن کی بات پر ہانیہ کے چہرے پر اضطراب کی جھلک دکھائ دی… چہرے پر تذبذب کے تاثرات تھے… جیسے وہ سمجھ نہ پا رہی ہو کہ حسن کے اس سوال کا کیا جواب دے…
“بولو ہانی… کیا وجہ ہے آخر کہ تم نے ہنسنا بولنا چھوڑ دیا ہے… ورنہ تم تو اتنی ذندہ دل لڑکی تھی… ہر پل باہر جانے کو تیار رہتی تھی…لیکن اب کتنی بار تم سے باہر چلنے کو کہہ چکا ہوں اور تم ہر بار انکار کر دیتی ہو… دوسروں کے ساتھ مل کر بیٹھتی نہیں ہو… یوں گم صم سی اپنے ہی کمرے میں قید ہو کر کیوں رہ گئ ہو… کتنے دن ہو گۓ تمہارے چہرے پر مسکراہٹ کی ایک ہلکی سی جھلک تک نہیں دیکھی کسی نے…” وہ جیسے آج سب کچھ جان لینے کا تہیہ کر کے آیا تھا… ہانیہ کی اس حالت نے اسے بھی شدید پریشان کر رکھا تھا…
ہانیہ نے اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ نکالا… پھر نگاہیں چرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی…
“ہانی… میں تم سے مخاطب ہوں یار… فار گاڈ سیک… جواب دو مجھے….” وہ جھنجھلا کر رہ گیا اس کی اس خاموشی پر… ہانیہ نے آنکھوں میں ہلکی سی نمی لیے اس کی جانب دیکھا… پھر جیسے ہمت مجتمع کرتے ہوۓ اسے سب بتانے کی ٹھان لی…
“حسن… میں جس دن سے اس پرانی عمارت سے واپس آئ ہوں نا… یاد ہے جہاں سے تم لے کر آۓ تھے مجھے اور ربیعہ کو… لاسٹ ایگزام کے دن… اس دن سے بہت عجیب سی کیفیت ہو گئ ہے میری… اس عمارت میں میرے ساتھ کیا ہوا یہ تو مجھے یاد نہیں… لیکن اس دن کے بعد سے بہت… بہت عجیب و غریب خواب آ رہے ہیں مجھے… خود اپنی حالت پر پریشان ہو کر رہ گئ ہوں میں… بعض اوقات ایسی حرکتیں کرتی ہوں کہ جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں… اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کچھ ہی دیر بعد سب بھول جاتا ہے مجھے… میں نارمل لائف جینا چاہتی ہوں حسن… سب کے ساتھ ہنسنا کھیلنا چاہتی ہوں… مل جل کر رہنا چاہتی ہوں… تمہارے ساتھ باہر جانا, لائف انجواۓ کرنا چاہتی ہوں…. ان خوبصورت لمحوں سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہوں….اپنے اس نۓ بننے والے رشتے کا لطف اٹھانا چاہتی ہوں… لیکن میں ایسا کچھ نہیں کر پا رہی… خود کو بے بس محسوس کرتی ہوں میں… ایسا لگتا ہے جیسے کوئ ان دیکھی قوت مجھے روک رہی ہے… مجھے سب سے الگ تھلگ کر کے رکھنا چاہتی ہے… مجھے کسی سحر میں جکڑ لیتی ہے وہ قوت… کہ خود پر میرا بس نہیں چلتا… میں جانتی ہوں سب بہت پریشان ہیں میرے لیے… لیکن میں کیا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی… تمہیں پتا ہے بہت عجیب اور خوفناک خواب آتے ہیں مجھے رات کو… یوں لگتا ہے جیسے میرا دم گھٹ رہا ہو… لیکن میں چاہ کر بھی چلا نہیں پاتی… پتا نہیں یہ خواب ہوتا ہے یا حقیقت…لیکن ایسا کئ بار ہو چکا ہے میرے ساتھ… اور وہ خواب جاگنے کے بعد صرف چند لمحے یاد رہتے ہیں… اس کے بعد لاکھ کوشش کر لوں یاد کرنے کی, اپنی یادداشت ٹٹولنے کی… لیکن اس خواب سے متعلق کوئ بھی بات ذہن میں نہیں آتی… میں بہت ڈر جاتی ہوں حسن… کہ کہیں تم لوگ یہ سب جاننے کے بعد مجھے پاگل نہ سمجھنے لگ جاؤ… کہیں مجھ سے کنارہ نہ کر لو… بس اسی لیے کچھ نہیں بتاتی کسی کو… ” وہ جیسے خود پر جبر کیے آج اسے اپنے دل کی باتیں بتلا رہی تھی… جس نے حسن کی پریشانی کو اور زیادہ بڑھا دیا تھا… بہت دیر تک وہ پرسوچ انداز میں اسے دیکھتا رہا… ہانیہ سر جھکاۓ چہرے پر پھسلتے آنسو صاف کر رہی تھی…
کچھ دیر بعد حسن گہری سانس لیتا سیدھا ہوا…
“تم ٹینشن مت لو… سب ٹھیک ہو جاۓ گا… یہ سب تمہارا وہم بھی تو ہو سکتا ہے ہانیہ… یہ ڈائجسٹ, ناولز کی کہانیوں کو تم نے سر پر سوار کر رکھا تھا… اب کوئ تو نتیجہ نکلنا تھا ان کا… بہر حال تم بے فکر ہو جاؤ… ان سب باتوں کو, ہر ڈر اور خوف کو ذہن سے نکال دو… ہماری آنے والی ذندگی کے حوالے سے خوبصورت خواب دیکھو… باہر نکلو… شادی کی شاپنگ کرو… تمہارا دھیان بٹ جاۓ گا تو حالت بھی بہتر ہو جاۓ گی… رات میں سوتے وقت قرآن پاک کی تلاوت کر کے سویا کرو… سورۃ الناس اور آیت الکرسی پڑھا کرو… برے خوابوں سے چھٹکارا ملے گا… اور ہاں….فی الحال اپنی اس حالت کا ذکر کسی اور سے مت کرنا… میری اماں تمہاری حالت دیکھ کر پہلے ہی ہمارے اس رشتے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں… تم جانتی تو ہو انہیں… یہ نہ ہو شادی پر کوئ نیا مسئلہ ہی کھڑا کر دیں… شادی کے بعد میں خود تمہیں کسی اچھے سے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گا… تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی… میری محبت میں تمہیں ٹھیک ہونا ہی پڑے گا ہانی…” وہ لہجے میں گہرے جذبات لیے اسے تسلی دینے کی کوشش کر رہا تھا… ہانیہ شکر گزار نگاہوں سے اسے دیکھا… ورنہ وہ تو اسی ڈر سے اب تک خاموش تھی کہ کہیں حسن اسے چھوڑنے کا فیصلہ نہ کر لے…
چند لمحے سرکنے کے بعد حسن نے اپنے کوٹ کی جیب سے کچھ برآمد کیا… چھوٹی سی ڈبیا تھی وہ… کچھ دیر اسے ہاتھ میں لیے وہ تکتا گیا… جبکہ ہانیہ کی بھی سوالیہ نگاہیں ڈبیا پر جمی تھیں…
حسن نے ہانیہ کو دیکھا… پھر مسکرا دیا…
“میری پہلی محنت کی کمائ سے تمہارے لیے یہ گولڈ کی رِنگ خریدی تھی… سوچا تھا نکاح کے بعد تمہیں منہ دکھائ کے طور پر یہ رِنگ دوں گا… لیکن جب تمہارے کمرے میں آیا تو یہاں کی صورتحال کو دیکھ کر خود دنگ رہ گیا… خیر جو ہوا سو ہوا… کیا اب اجازت ہے…؟؟” سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا… ہانیہ کا ہاتھ ابھی تک حسن کی گرفت میں تھا… ہانیہ نے جھینپتے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا… حسن نے اجازت ملتے ہی وہ نازک سی رِنگ اس کی انگلی میں ڈال دی…
“یہ صرف نکاح کے بعد کی منہ دکھائ ہے… رخصتی کے وقت بھی منہ دکھائ ملے گی تمہیں… کہیں یہ سوچ سوچ کر رنگ کالا نہ کر لینا کہ منہ دکھائ میں فقط ایک رِنگ ہی ملی ہے…” حسن نے شرارتی لہجہ اختیار کیا… جس پر ہانیہ کھلکھلا کر ہنس دی… حسن کو لگا جیسے ٹھنڈے پانی کی پھوار اس کے دل پر پڑی ہو… ہانیہ کے گالوں میں پڑتے ڈمپلز میں کہیں حسن کا دل الجھنے لگا تھا… نگاہیں بھی بے اختیار ہونے لگیں…
وہ کچھ کہنے ہی لگا تھا جب دروازے پر دستک ہوئ… ساتھ ہی محسن کی آواز سنائ دی…
“جسن بھائ… اماں بلا رہی ہیں آپ کو…” حسن نے ایک نظر بند دروازے کو دیکھا…
“اچھا… آ رہا ہوں…” اونچی آواز میں بتایا… دروازے سے قدموں کی آہٹ دور جاتی سنائ دی…
حسن ہانیہ کی طرف متوجہ ہوا جو محبت بھری نگاہوں سے ہاتھ کی تیسری انگلی میں موجود رِنگ کو دیکھ رہی تھی…
“میں چلتا ہوں ہانی… تم بھی آرام کرو… اور ہاں… کوشش کرنا کہ زیادہ دیر اکیلی نہ رہو….مہمان وغیرہ آۓ ہیں… ان کے ساتھ بیٹھ جایا کرو… اور شادی کی تیاریوں میں بھرپور شرکت کرو… کیونکہ یہ دن دوبارہ نہیں آنے ہماری ذندگی میں… اب کسی بھی چیز کی ٹینشن نہیں لینی… خوش خوش رہا کرو… اگلے ہفتے مجھے میرے روم میں فریش اور خوش باش ہانی چاہیے… سمجھ گئ…؟؟” پیار بھری دھونس لہجے میں بھرتے ہوۓ وہ کہہ رہا تھا… ہانیہ نے بچوں کی سی معصومیت آنکھوں میں سموتے ہوۓ سر اثبات میں ہلایا…
“گڈ گرل…چلو اب آرام کو… میں ذرا اماں کی بات سن لوں…” اس کے گال کو نرمی سی سہلا کر حسن اٹھ گیا… کوٹ جھٹک کر سیدھا کرتے ہوۓ وہ کمرے سے نکل گیا جبکہ ہانیہ پھر سے حسن کی دی گئ رِنگ کو دیکھے جا رہی تھی…
💝💝💝💝💝💝
حسن دروازے پر دستک دیتا اماں جان کے کمرے میں داخل ہوا… بشریٰ بیگم جو جلے پیر کی بلی کی طرح ادھر سے ادھر چکر لگا رہی تھیں حسن کو سامنے دیکھ کر ان کے قدم تھمے…
“اماں… آپ نے بلایا تھا…؟؟” حسن نے ماں کے چہرے کو دیکھا جہاں پریشانی کے تاثرات تھے…
“ہان حسن… ادھر بیٹھ… تجھ سے ضروری بات کرنی ہے…” بشریٰ بیگم نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے بیڈ پر بٹھایا… پھر اس کے مقابل خود بھی بیٹھ گئیں… وہ چونکہ پنجابی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اس لیے رضا صاحب سے بیاہنے کے بعد بھی ان کی اردو میں کہیں کہیں پنجابی کے الفاظ اور لہجے کی جھلک نظر آتی تھی…
“خیریت ہے اماں… آپ کچھ پریشان سی لگ رہی ہیں…” حسن نے تذبذب کے عالم میں ان سے پوچھا…
“ارے خیریت ہی تو نہیں ہے حسن… میں کچھ نہیں بلکہ بہت زیادہ پریشان ہوں پتر… تیرے مستقبل کے حوالے سے بہت ٹینشن میں ہوں…” بشریٰ بیگم سمجھ نہیں پا رہی تھیں کہ کیسے بات شروع کریں… حسن ان کے انداز پر ٹھٹھکا…
“کیا مطلب ہے اماں… کیا کہنا چاہ رہی ہیں آپ…؟؟” اگرچہ حسن کو اماں کے دماغ میں پکتی کھچڑی کی کچھ حد تک سن گن مل گئ تھی جس نے اسے شدید دکھ میں مبتلا کیا تھا لیکن ابھی تک اماں نے کھل کر اس سے بات نہیں کی تھی اس بارے میں… حسن آج کچھ حد تک ان کی بات کا موضوع سمجھ گیا تھا…
“دیکھ پتر… جو کچھ میں تجھ سے آج کہنے والی ہوں نا.. غور سے سننا… اور میری بات کو غلط رنگ میں نہ لینا…بس یہ یقین رکھ کہ میں جو بھی کروں یا جو بھی کہوں گی سب تیری ہی بھلائ کے لیے ہو گا… ایک ماں کبھی بھی اپنے بچوں کا برا نہیں چاہ سکتی… ” بشریٰ بیگم نے تمہید باندھنے کی کوشش کی…
“اماں… آپ کو جو کہنا ہے صاف صاف کہیں…یوں پہیلیاں مت بجھوائیں…” حسن اکتانے لگا تھا اب… لہجے میں ہلکی سی کڑواہٹ نے بھی جھلک دکھلائ…
“حسن… میں چاہتی ہوں کہ تو اس شادی سے انکار کر دے… وہ لڑکی تیرے قابل نہیں رہی اب… ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا پتر… طلاق دے دے اسے اور…” بشریٰ بیگم کی بات ابھی منہ میں ہی تھی جب حسن ایک دم اٹھ کھڑا ہوا…
“اماں…” وہ طیش اور صدمے سے بھری آواز میں چلّایا… شکر تھا کہ دروازہ بند تھا اس لیے باہر آواز نہیں گئ… بشریٰ بیگم تو ہکّا بکّا اس کا ردِعمل دیکھتی رہ گئیں…
“آپ جانتی بھی ہیں کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں… جسے آپ ‘وہ لڑکی’ کہہ کر مخاطب کر رہی ہیں وہ بیوی ہے میری… ابھی کل ہی نکاح ہوا ہے اس سے میرا…” وہ صدمے سے چور آواز میں گویا ہوا… بے تحاشا دکھ ہوا تھا اسے ماں کے منہ سے یہ بات سن کر…
“یہی تو میں تجھے سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں حسن… کہ ابھی صرف نکاح ہوا ہے… رخصتی نہیں… تیری عقل پر پتھر تو نہیں پڑ گۓ…؟؟ حسن تُو سب کچھ سنوار سکتا ہے ابھی… اس کی حالت دیکھی ہے تو نے… وہ لڑکی جسے خود اپنا ہوش نہیں وہ اس گھر کو اور تجھے کیا خاک سنبھالے گی…دیکھا تھا کیسے اس نے خود کو یوں چھریاں مار مار کر زخمی کر لیا… کل کو تیرے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ کر دے گی تو…؟؟ عقل کے ناخن لے حسن… ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی طبیعت بگڑتی جا رہی ہے… اور ایسی پاگل لڑکی سے میں تیری شادی ہرگز نہیں کروں گی… چاہے پورے خاندان کے خلاف ہی کیوں نہ جانا پڑے مجھے… کل کو دوسروں کی باتیں نہیں سننی مجھے.. کیا کہیں گے تمہارے ننھیال والے کہ اپنے اتنے خوبرو بیٹے کے لیے یہی بیمار اور پاگل لڑکی ملی تھی مجھے… ” اماں کے لہجے میں ہانیہ کے لیے زہر ہی زہر تھا… حسن دنگ رہ گیا تھا کہ کل تک جو اماں ہانیہ پر جان چھڑکتی تھیں آج اس کے اتنے خلاف کیسے ہو گئیں…
بشریٰ بیگم کی باتوں پر حسن لب بھینچے چند لمحے خود پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا…
“کل تک ہانیہ کے آگے پیچھے پھرنے والی بھی آپ ہی تھیں اماں… اسے میری بیٹی, میری بیٹی کہتے منہ نہ تھکتا تھا آپ کا… تو وہ ساری محبت ایک دم کہاں جا سوئ ہے آج جو اتنا زہر اگل رہی ہیں آپ اس کے خلاف…؟؟” حسن نے بالوں میں ہاتھ پھیرا… خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کی اور طنزیہ انداز میں ان سے مخاطب ہوا…
“تب بات اور تھی حسن… تب وہ بالکل ٹھیک تھی… اور تب میری بھی دلی خواہش تھی اسے اپنی بہو بنانا.. لیکن آج…” وہ خودغرض لہجے میں کہہ رہی تھیں جب حسن نے ان کی بات اچکی…
“لیکن آج اس کی طبیعت خراب ہو گئ, ذرا سا مسئلہ ہو گیا اس کے ساتھ تو آپ کو اس میں سو کیڑے نظر آنے لگے… خدا کا کچھ تو خوف کریں اماں… چچا جان اس کا علاج کروا رہے ہیں… اور شادی کے بعد میں خود علاج کروا لوں گا اس کا… آج نہیں تو کل وہ ٹھیک ہو جاۓ گی.. اتنی خود غرضی کا مظاہرہ کیسے کر سکتی ہیں آپ… اچھے وقت میں تو سب ساتھ دیتے ہیں اماں.. مخلص تو وہ ہوتے ہیں جو برے وقت میں بھی آپ کے ساتھ رہیں… اور میں ہانیہ کے ساتھ مخلص ہوں… مرتے دم تک اس کا ساتھ دوں گا… یہ رشتہ صرف ہم دونوں کی ہی نہیں پورے خاندان کی مرضی سے جڑا تھا… چار سال ہم دونوں نے اس رشتے کے حوالے سے خوبصورت خواب سجاۓ ہیں… ہمسفر کے طور پر ایک دوسرے کو ہی دیکھا ہے… آپ ہم سے ہمارے خواب نہیں چھین سکتیں…اس سے نکاح ہوا ہے میرا… اور میں کسی قیمت پر اس نکاح کو ختم نہیں کروں گا… جو ڈیٹ فکس ہوئ ہے اسی ڈیٹ کو شادی بھی ہو گی ہماری… اور یاد رکھیے گا اماں… اگر آپ نے دوبارہ ایسی کوئ بات کہی یا شادی میں کسی قسم کی کوئ رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور اپنی ضد نہ چھوڑی تو سمجھ لیجیے گا کہ حسن آپ کے لیے مر گیا… کیونکہ ہانی کے بغیر جینے کا کوئ تصور ہی نہیں میرے پاس…” آخر میں حسن کی آواز میں ہلکی سی نمی کی آمیزش تھی جبکہ بشریٰ بیگم تو حیران پریشان اس کا چہرہ ہی دیکھتی جا رہی تھیں… انہیں لگا تھا کہ حسن فوراً ان کی بات مان جاۓ گا… نہ بھی مانے تو ڈرا دھمکا کر, ضد کر کے اس سے منوا لیں گی… لیکن یہاں تو پانی سر سے گزر چکا تھا… وہ تو گویا پاگل ہو چکا تھا ہانیہ کے عشق میں…
“دماغ خراب ہو گیا اس لڑکے کا… کیا ملے گا اس سے شادی کر کے… مفت کی مصیبت سر ڈال لے گا بس…” حسن کے جانے کے بعد وہ غصے سے بڑبڑا کر رہ گئیں… البتہ اس کے اس شدید ردِعمل کے بعد ان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ کسی اور سے اس بات کا تذکرہ کر سکتیں… یا دوبارہ حسن سے ہی اس بارے میں کچھ کہہ سکتیں… اب مصلحت یہی تھی کہ خاموش ہی رہا جاۓ….
💝💝💝💝💝
گھر کی خواتین شادی کی شاپنگ کے سلسلے میں مارکیٹ گئ تھیں… جبکہ تایا جی اور بابا ہال وغیرہ کی بکنگ کے سلسلے میں مصروف تھے… کچھ مہمان گھر میں موجود تھے… ہانیہ کچھ دیر باہر ان کے پاس بیٹھی رہی… لیکن شدید بوریت کا احساس ہو رہا تھا اسے… پچھلے دو دن سے اس میں کافی چینج آیا تھا… باہر نکل کر بیٹھنے لگی تھی وہ سب کے ساتھ…. حالت بھی قدرے بہتر تھی اس کی… کومل کے ساتھ ہنسی مذاق بھی چلتا رہتا تھا… لیکن آج کومل بھی بازار جا چکی تھی اپنی ضرورت کی چند اشیاء کی خریداری کے لیے… اور وہ کومل کے بغیر خود کو اداس سا محسوس کر رہی تھی… ویسے تو وہ بھی شاپنگ کے لیے جا رہی تھی…لیکن آج چونکہ اسے پارلر جانا تھا اس لیے وہ گھر ہی رک گئ… محسن کی ذمہ داری لگائ گئ تھی اسے پارلر ڈراپ کرنے کی… جبکہ حسن سے مکمل پردہ کروا دیا گیا تھا اس کا… وہ بہانے بہانے سے ان کے گھر آتا لیکن کومل اور دوسری لڑکیاں ہر بار اس کی چوری پکڑ لیتیں اور ہانیہ کو ایک نظر دیکھنے کی خواہش دل میں دباۓ اسے واپس لوٹنا پڑتا… ہانیہ بھی انجواۓ کر رہی تھی اس سچویشن کو, ان دنوں کو…
حسن کا خیال آتے ہی اس کے لبوں پر دلفریب سی مسکراہٹ نے اپنا ڈیرہ جمایا… پارلر کے لیے نکلنے میں ابھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا… وہ کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے اپنے کمرے میں آئ… ڈریسنگ کے سامنے جا کر دوپٹا کندھوں سے اتار کر بیڈ پر پھینکا.. بالوں کو کیچر سے آزاد کرتے ہوۓ ان میں برش پھیرنے لگی… ساتھ ہی ساتھ ہلکی سی آواز میں وہ کچھ گنگنا بھی رہی تھی….چہرے پر دلفریب اور خوشنما رنگ موجود تھے… جو اس بات کے ضامن تھے کہ اس کے خیالوں میں فی الوقت حسن کا بسیرہ ہے…
بالوں کو ڈھیلے سے جوڑے میں مقید کر کے مسکراتے ہوۓ وہ کھڑکیوں کے پردے برابر کرتی لائٹ بند کرنے کو سوئچ کی جانب بڑھی کہ اسے روشنی میں نیند نہیں آتی تھی… ابھی بٹن آف کیا ہی تھا جب اسے عجیب سا احساس ہوا…
ایک دم کسی غیر مرئ طاقت کے زیرِ اثر وہ دیوار سے جا لگی… شدید خوف کی ایک تیز لہر اس کے پورے وجود میں سرایت کر گئ… آنکھوں سے وحشت چھلکنے لگی تھی…اس نے اپنے وجود کو حرکت دینے کی کوشش کی…لیکن اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہل پائ… ہاتھ یوں دیوار سے لگے تھے جیسے ہتھکڑیاں ڈال دی گئ ہوں… مسلسل خود کو اس ان دیکھی قید سے چھڑانے کی کوشش کرتے ہوۓ اچانک اسے ٹھٹک جانا پڑا… اپنے قریب, بہت قریب کسی اور وجود کی موجودگی کا احساس ہوا تھا اسے… سانسوں کی تپش اپنے رخسار پر محسوس ہوئ تھی… اس نے دہشت سے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا… پردوں کی اوٹ سے اندر داخل ہوتی ہلکی ہلکی سی روشی میں اسے وہاں کوئ بھی دکھائ نہ دیا… جس پر وہ ٹھٹھر کر رہ گئ…. اس نے چینخنے کی کوشش کی لیکن کسی نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ خاموش کروا دیا…
“شششش…” ساتھ ہی پراسرار سی مردانہ آواز بہت نزدیک سے سنائ دی تھی…جیسے کوئ اس کے کان کے قریب سرگوشی میں بول رہا ہو… ہانیہ کی تو گویا سانسیں ہی رک گئیں… خوف سے پھٹتی نگاہوں میں اب آنسو جمع ہونے لگے تھے… بدن پر لرزش سی طاری ہو گئ…
چند لمحوں بعد اس نظر نہ آنے والے وجود کی انگلی کا لمس اس نے اپنی کنپٹی پر محسوس کیا… اور اس جادوئ طاقت نے جیسے اس کے دل کے سارے ڈر, خوف اور وحشت کو کہیں دور بھگا دیا تھا… وہ خود کو کسی طلسم میں جکڑا ہوا محسوس کرنے لگی… آنکھیں خود بخود بند ہونے لگیں… ایک سرور کی سی کیفیت تھی… جو پہلے کبھی محسوس نہ ہوئ تھی… دل عجب لذت کے عالم میں اس لمس کو محسوس کر رہا تھا… وہ انگلی کنپٹی سے رینگتی ہوئ اب دائیں رخسار پر آ رکی تھی… ٹھیک اس جگہ جہاں اس کا ڈمپل تھا… ہانیہ کے لب خودبخود مسکرا اٹھے… گالوں کے گڑھے مزید واضح ہوۓ… انگلی اب دھیرے دھیرے حرکت کرتی اس کی ٹھوڑی تک پہنچی تھی… اور پھر انگلی اس کے چہرے سے ہٹا لی گئ…
“بیوٹی فُل…” کان کے قریب ایک بار پھر سرگوشی کی گئ تھی… لیکن اس بار اس سرگوشی نے اسے خوف میں مبتلا نہیں کیا تھا… اس کا دل اسی سرگوشی نما آواز کو بار بار سننے کے لیے مچلنے لگا… اس کی آنکھیں ہنوز بند تھیں…جیسے وہ نیند کے عالم میں ہو… کوئ خوبصورت, حسین ترین خواب دیکھ رہی ہو…
چند ساعتیں گزری تھیں جب اس نے اپنا وجود ہوا میں معلق ہوتا محسوس کیا… کسی نے بہت نرمی سے اس کے نازک وجود کو اپنے بازوؤں میں اٹھایا تھا… وہ ان بازوؤں کی گرفت اپنے وجود کے گرد محسوس کر سکتی تھی… وہ جو بھی تھا اسے لیے بیڈ کی جانب بڑھ گیا تھا… نرمی اور احتیاط سے اسے بیڈ پر لٹایا گیا تھا… پھر بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ اس کے دائیں ہاتھ کی پشت پر ہونٹوں کا لمس چھوڑا گیا… ہانیہ کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کا دل اسی ہاتھ میں دھڑکنے لگا ہو… دھڑکنوں کا شور واضح سنائ دے رہا تھا…
چند پل مزید گزرے تھے جب وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی… گہرے گہرے سانس بھرتے ہوۓ اس نے اپنی گردن کو چھوا تو احساس ہوا کہ پورا وجود پسینے سے بھیگا ہوا تھا… جبکہ سردیوں کا موسم تھا… ایسے موسم میں اتنا پسینہ… ایک دم بے تحاشا خوف نے اسے کپکپانے پر مجبور کر دیا… کچھ دیر پہلے کے سارے مناظر یاد کر کے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی کی ایک لہر سی دوڑ گئ… ذہن سمجھنے سے قاصر تھا کہ ابھی چند منٹ پہلے جو کچھ ہوا وہ سب صرف اس کا خواب تھا یا اس کا حقیقت سے بھی کوئ تعلق تھا… اس نے بے ساختہ اپنے گال کو چھوا… جہاں وہ لمس ابھی بھی محسوس ہو رہا تھا… پھر اپنے ہاتھ کو دیکھا… بظاہر ایسا کچھ بھی نہ تھا جو یہ احساس دلاتا کہ جو کچھ ہوا وہ حقیقت ہے… لیکن اندر کہیں کوئ بار بار اسے یہ یقین دہانی کروانے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ سب فقط اس کا خواب نہیں تھا…
💝💝💝💝💝💝
شادی میں فقط دو دن باقی تھے… پرسوں مہندی کی تقریب تھی… اور اس سے اگلے دن بارات… گھر میں ہر فرد مصروف تھا… کسی نہ کسی کام میں… ایک وہی تھی جسے آج کل اپنا آپ فارغ ترین لگ رہا تھا… کبھی ادھر بیٹھتی کبھی ادھر… کسی کام کو بھی ہاتھ نہ لگانے دیا جا رہا تھا اسے… اب اکتانے لگی تھی وہ فارغ رہ رہ کر… پہلے ناول یا ڈائجسٹ پڑھ کر وقت گزار لیتی یا کوئ ہارر مووی دیکھ لیتی… لیکن اب حسن کے سختی سے منع کرنے پر وہ خود کو اس کام سے بھی روکے ہوۓ تھی… کتنے دن ہوۓ اس نے حسن کی ایک جھلک تک نہ دیکھی تھی… کچھ اس لیے بھی وہ اداس ہو رہی تھی… سیل فون آج کل کومل کے قبضے میں تھا جسے یہ کہہ کر اس سے لے لیا گیا تھا کہ وہ حسن سے بالکل بات نہیں کرے گی کال یا میسیجز پر… اور یوں ان دونوں کی بے قراریاں اور جذبات کہ شدتوں میں مزید اضافہ ہوا تھا… وہ احتجاج کرتی رہ گئ لیکن اس کی ایک نہ سنی گئ… اب یہ چند دن حسن سے اس کا رابطہ بالکل منقطع کروا دیا گیا تھا… اور کومل اور اس کی باقی کزنز ان دونوں کی حالت دیکھ دیکھ کر ہنستی رہتیں…
رات کا وقت تھا… ڈنر کے بعد سب خواتین اپنی اپنی شاپنگ ایک دوسرے کو دکھا رہی تھیں… ہانیہ بھی وہیں ان کے قریب بیٹھی تھی… کبھی لب کچلنے لگتی… کبھی دانتوں سے ناخن کاٹنے لگتی… نہ جانے کیوں عجب بے قراری سی بے قراری تھی… کہیں سکون ہی میسر نہ تھا…
“لگتا ہے ہانیہ مس کر رہی ہے حسن بھائ کو… کیوں ہانی…؟؟” کومل نے لب دانتوں تلے دباتے ہوۓ شرارت بھرے لہجے میں اسے مخاطب کیا… ہانیہ فقط مسکرا کر رہ گئ کہ اب اتنی خواتین کے درمیان بیٹھ کر وہ کیا کہتی… اگر اقرار کر لیتی تو اس کا ریکارڈ لگ جاتا…
“کیا بات ہے ہانیہ… بڑی خاموش سی ہو… ” بشریٰ بیگم نے اسے مخاطب کیا… ہانیہ کی اب بہتر ہوتی حالت پر ان کے دل کا میل بھی ذرا کم ہوا تھا… اور اپنی سوچ پر وہ خود بھی شرمندہ سی ہو کر رہ گئیں تھیں…
“تھک گئ ہو گی نا… آج بازار میں خوار بھی تو بہت ہوۓ ہیں… ” مہرالنساء نے محبت سے ہانیہ کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر واقعی تھکن کے آثار تھے….
“ارے اتنی جلدی کیسے تھک گئ… ابھی تو ڈھولک رکھنی ہے ہمیں… یہ تھکاوٹ وغیرہ کا کوئ بہانہ نہیں چلے گا… ” کومل تو فوراً بول اٹھی… باقی لڑکیوں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائ…
“لڑکیو! مت تنگ کرو میری بہو کو… آج وہ واقعی بہت تھک گئ ہے… آرام کرنے دو اسے… پھر مہندی, بارات اور ولیمہ کے دن بھی تو اسی نے تھکنا ہے… اس سے پہلے تو سکون کا سانس لینے دو بے چاری کو… ہانیہ… پتر تم جاؤ اپنے کمرے میں… جاؤ شاباش… آرام کرو جا کر… کل پھر پارلر جانا ہے تم نے… اب تمہارے بازار کے چکر ختم… ہمیں اپنی بہو کو بیمار نہیں کرنا شادی پر…” بشریٰ بیگم اس سے مخاطب تھیں… ہانیہ تو جیسے پہلے ہی اجازت ملنے کے انتظار میں تھی… سر ہلاتی اٹھی… کمر گویا اکڑ سی گئ تھی… گردن کے قریب کندھوں میں بھی درد ہو رہا تھا… بالوں میں ہاتھ چلا کر انہیں درست کرتی وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئ…
کمرے میں آ کر سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا… تین سانس میں پانی ختم کر کے گلاس واپس رکھا… لائٹ آف کر کے زیرو پاور بلب آن کیا اور بالوں کو کیچر سے آزاد کرتے ہوۓ وہ آڑھی ترچھی بیڈ پر گر سی گئ… آنکھیں بند کیں تو چھم سے حسن کا سراپا آنکھوں میں لہرا گیا.. ساتھ ہی چند دن پہلے کا وہ واقعہ… جو جانے خواب تھا یا حقیقت… ایک دم خوف نے اسے اپنے حصار میں لیا تھا… زیر لب آیت الکرسی کا ورد کرتے کرتے وہ کب غنودگی میں گئ خبر ہی نہ ہوئ…
نہ جانے کتنی دیر گزری تھی جب یوں ہی اچانک اس کی آنکھ کھلی…شاید خنکی کا احساس ہوا تھا تبھی نیند ٹوٹ گئ تھی…..البتہ ذہن ابھی بھی غنودگی کی کیفیت میں تھا… آنکھیں کھولنے پر بھی کچھ دکھائ نہ دیا… شاید لائٹ چلی گئ تھی… وہ بیڈ سے اتری… چپل پہنے بغیر اندازے سے ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھی جس کے ایک دراز میں ٹارچ رکھی تھی…
باہر بھی صرف خاموشی چھائ تھی… غالباً سب سو چکے تھے… تبھی کسی قسم کی کوئ آواز سنائ نہ دے رہی تھی…
وہ ادھر ادھر ہاتھ مارتی ڈریسنگ تک پہنچی… دراز کو کھول کر ہاتھ سے ٹتولتے ہوۓ ٹارچ تلاش کرنے کی کوشش کی… چند ہی لمحوں میں ٹارچ اس کے ہاتھ میں تھی… اس نے ٹارچ آن کی… لیکن وہ آن ہی نہیں ہوئ… بار بار بٹن آن آف کرنے کے باوجود بھی کامیابی نہ ہوئ تو وہ جھنجھلا سی گئ…
“کیا مصیبت ہے…” انداز میں غصے کی جھلک تھی… پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوۓ اس نے غصے کو کم کرنا چاہا… سیل بھی پاس نہ تھا کہ اس کی ہی روشنی کر لیتی… طیش میں ہانیہ نے ٹارچ کو دوسرے ہاتھ پر مارا… اور حیرت انگیز طور پر ٹارچ آن ہو گئ… ہانیہ نے حیران ہو کر ٹارچ کی جانب دیکھا جس کا بٹن تو آف تھا… پھر ٹارچ خود بخود کیسے جل اٹھی… ابھی وہ اسی بات پر الجھ رہی تھی جب اس کی نگاہ ڈریسنگ مرر پر پڑی اور خوف کی ایک شدید لہر اس کے پورے وجود میں سرایت کر گئ… بے ساختہ منہ پر ہاتھ رکھ کر اس نے اپنی چینخ کو روکا تھا… دو قدم لڑکھڑا کر پیچھے ہوئ… اس سرد موسم پیشانی پر آئ پسینے کی بوندوں کو ہاتھ سے صاف کیا…پھر پھٹی پھٹی نگاہوں سے دوبارہ ڈریسنگ مرر کو دیکھا جہاں تازہ خون سے چند الفاظ لکھے تھے…
“Hania!
Come To SP Fort,
On 17 Dec,
At 2:30 Am”
اس کے ہاتھ سے ٹارچ چھوٹ کر زمین پر جا گری… 17 دسمبر کی رات اڑھائ بجے اسے اس جگہ بلایا جا رہا تھا… اور آج… آج 16 دسمبر کی رات تھی… یعنی… کل… لیکن کیوں…؟؟ اور… بلانے والا تھا کون… کیا مقصد تھا اس کا… کیوں وہ ہانیہ کے پیچھے پڑا تھا… کیوں ہر وقت اسے خوف کے حصار میں قید رہنے پر مجبور کر رہا تھا… بہت سے سوال اٹھ رہے تھے اس کے دماغ میں… لیکن وہ بے یقینی سے شیشے کو دیکھتی جا رہی تھی تبھی لائٹ آنے سے پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا… ہانیہ نے آئینے کی جانب دیکھا… وہ الفاظ آج غائب نہیں ہوۓ تھے… تازہ خون بہتا ہوا نیچے تک آتا ڈریسنگ ٹیبل کو رنگین کرتا جا رہا تھا… مطلب… یہ سب جسے وہ اب تک خواب سمجھتی رہی تھی وہ خواب نہیں تھا… مجسم حقیقت تھا… اور آج کے اس واقعے کے بعد وہ اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتی تھی…