وہ اس وقت لیبرری میں بیٹھی نوٹس بنا رہی تھی حیا تمسے کوئی ملنے آیا ہے باہر پارک میں ویٹ کر رہا ہے ہانیہ نے اسکو اطلاح دی حیا نے کتاب بند کرکے سوالیہ نظروں سے ہانیہ کی طرف دیکھا مجھ سے؟؟ آر یو شیور حیا نے کتابیں سمیٹتے ہوے کہا ہاں تمہارا شاید کوئی جاننے والا ہے اوکے وہ پارک میں پوھنچی اسلام علیکم جی کہئے
ارحم کی حیا کی طرف پشت تھی جب اسکے عقب میں سے کسی کی نسوانی آواز آئ وہ اس وقت بلیک جینس پر بلیک ہی شرٹ پہنے حیا کی طرف پشت کیے کھڑا تھا اسلام علیکم حیا نے اسکو ہنوز بنا پایا تو زور دے کے سلام کیا ارحم نے اپنا رخ حیا کی طرف موڑا جیسے ہی وہ مڑا حیا کی آنکھیں پھیل گئیں وہ یک ٹک اس شخص کو دیکھ رہی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کیا ریایکٹ کرے حیران ہو غصّہ ہو یا پھر خوش ہو اسلام السلام عليكم ارحم نے اسکو یک ٹک دیکھتے پایا تو سلام کیا حیا کا سکتا ٹوٹا وہ ہوش میں آ گئی آپ آپ یہاں کیا کررہے ہیں اب کیا رہ گیا ہے جو آپ یہاں دوبارہ تشریف لاے ہیں اب کس کی زندگی کو برباد کرنے کا ارادہ ہے آپکا ہاں سب کچھ تو نسطو نابود کر چکے آپ اب بھی کوئی کسر رہتی ہے کیا جو آپ وہ کسر پوری کرنے اے ہیں حیا کا پارا ارحم کو دیکھ کے ہائے ہوگیا ارحم اسکی بات سر جھکاے سن رہا تھا مانو اپنا پشتاوا ظاہر کر رہا ہو حیا کو اسکی اس حرکت پے بے حد غصہ آیا اب یہ خاموش رہ کے کیا ظاہر کرنا ہے آپ کو بولیں کیوں اے ہیں یہاں حیا نے سخت لہجے میں پوچھا
آپ کا غصہ کرنا جائز ہے آپ جو کہ رہی ہیں وہ بہ بلکل ٹھیک ہے اس کے باوجود بھی میں آپسے اپنی غلطی کی معافی چاہتا ہوں غلطیاں انسان سے ہی ہوتی ہیں اگر انسان سے غلطیاں نا ہوں تو انسان یا تو نبی بن جاۓ یا پھر فرشتہ حیا مینے جو کیا وہ معافی کے قابل نہیں ہے لیکن میں پھر بھی آپ سے ریکویسٹ کرتا ہوں کے آپ مجھ معاف کردیں ارحم نے حیا کے سامنے ہاتھ جوڑ دئے حیا اسکی باتیں اسکا ریایکشن دیکھ کے حیران ہوکے ارحم کی طرف دیکھنے لگی مینے جو کیا وہ میرا ماضی تھا آج جو میں کر رہا ہوں وہ آپ کے سامنے ہے میں آج پورے ہوش و حواس میں اس بات کا اطراف کرتا ہوں کے میں مہر سے دل و جان سے شدید محبت کرتا ہوں اور اسی کو اپنا سب کچھ تسلیم کرتا ہوں میں نہیں جانتا لیکن ایک بار صرف ایک بار مجھ اپنی غلطی سدھارنے کا موقع دے دیں مجھ مہر سے ملا دیں ارحم کی آواز رندہ گئی حیا کی آنکھیں اسکی باتیں سن کے آبدیدہ ہوگئیں ارحم بھائی حیا صرف اتنا ہی کہ پائی کے اسکی گلے میں آنسو کا ایک گولہ پھنس گیا ارحم نے بےبسی سے اسکی طرف دیکھا پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا آئ ام سوری حیا پلیز معاف کردو میں اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں پلیز معاف کرکے میرے دل کا بوجھ حلقہ کردو ایک آنسوں ٹوٹ کے ارحم کے گال پر بھ گیا مہر آپ کے بنا ادھوری ہے ارحم بھائی پلیز اسکو مکمل کردیں اسے اسکے حصے کی خوشیاں دے دیں مجھ اور کچھ نہیں چاہیے میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کے اپنے مہر کو قبول کر لیا ہے کل میں لاہور جا رہی ہیں مہر کے پاس اپنا لاسٹ یر میں وہی کمپلیٹ کرونگی میں پوری کوشش کرونگی کے مہر آپ سے ملاءون میری دعا ہے کے اب اسکی سزا ختم ہوجائے اور آپ اور وہ ایک خوش ازواجی زندگی گزاریں
حیا نے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوے کھا حیا اف یو ڈونٹ مائنڈ کیا آپ مجھ اپنا فون نمبر دے سکتی ہیں ارحم نے آس بھری نظروں سے حیا کی طرف دیکھا حیا دھیرے سے مسکرائی شیور حیا نے نرم لہجے میں کھا ابھی چلتی ہوں امید کرتی ہوں اگلی بار آپ کو اور مہر کو ساتھ میں دیکھوں انشااللہ ارحم نے دل سے کہا
❤❤❤❤❤ ❤❤❤❤❤
جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ بانو کتنا سستی سے ہاتھ چلا رہی ہو رات کا کھانا کب بنےگا پھر؟؟ خدیجہ بیگم نے چبریانی کو دم دیتے ہوے کہا بس بیگم صاحبہ ہوگیا ہے سب جلدی کرو فہد بس پوھنچنے ہی والا ہے کچن میں آتی مہر کے قدم وہی جامد ہو گئے فہد آرہا ہے کتنا وقت ہوگیا اسے دیکھ ہوۓ بچپن میں اور اب میں کتنا فرق ہے ہم دونو میں بچپن میں ہم کتنا لڑتے تھے ایک ہی چیز کے پیچھے بھاگتے تھے دونو کی پسند بلکل ایک تھی پتا نہیں اب تک وہ وہی فہد ہوگا یا مختلف مہر نے سرد اہ بھری پھوپھو حیا کچھ دیر میں پوھنچ جاۓگی لائین یہ سالن میں پکا دیتی ہوں آپ تب تک فریش ہوجائیں ورنہ اگر آپ کے بیٹے نے آپ کو اس حلیے میں دیکھا تو کیا سوچے گا مہر نے خدیجہ بیگم سے چمچ لیتے ہوۓ انھیں فہد کا غصہ باور کروایا اللہ تمہیں خوش کرے میری بچی خدیجہ بیگم نے مہر کا ماتھا چوما اور کچن سے باہر نکل گئیں کیا کیا بنا ہے بانو کھانے میں مہر نے سالن میں مسالا ڈالتے ہوۓ مصروف سے انداز میں پوچھا ؟؟؟؟ بی بی جی بریانی کورما کباب چکن سب بن گیا ہے بس کوفتے سلاد اور رائتا رہ گیا ہے بانو (ملازمہ) نے سلاد کاٹتے ہوۓ جواب دیا اور کھیر کھیر نہیں بنائی تمنے مہر نے کوفتوں کی آنچ کم کرتے ہوۓ پوچھا نہیں جی کھیر تو نہیں بنی ٹھیک ہے میں بنا دیتی ہوں مہر نے ہاتھ جھاڑتے ہوۓ کھا اسے اپنے بچپن والا قصہ یاد آگیا جب وہ اور فہد ایک بار کھیر پر خوب لڑے تھے اور مہر کی جیت ہونے پر فہد نے کھیر مہر کے سر پر الٹ دی تھی مہر دھیرے سے ہنس دی ملازمہ نے مڑ کے مہر کو دیکھا دو سالوں میں پہلی بار اسنے مہر کو ہنستے دیکھا تھا بی بی جی ہنستے رہا کریں بہت اچھی لگتی ہیں ہنستے ہوۓ آپ ملازمہ نے سچے دل سے مہر کی تعریف کی ملازمہ کی بات پر مہر اسکو دیکھنے لگی ہنسنا یا رونا کسی کے بس میں نہیں ہوتا بانو مہر نے درد سے کہا اور کھیر بنانے میں مصروف ہوگئی ایک گھنٹے بعد وہ فریش ہوکے واشروم سے باہر آئ اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بال بنائے پھر کاجل لگا کے باہر لان میں بیٹھ گئی جہاں پر خدیجہ بیگم پہلے سے برجمان تھیں کھانا دیکھ لیا اپنے پھوپھو ہاں بیٹا دیکھ لیا بس جس کے لیے بنا ہے وہ آجائیں خدیجہ بیگم نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا اتنے میں ڈور بیل بجنے کی آواز آئ لیجئے آپ کا انتظار ختم ہوا پھوپھو مہر نے مسکراتے ہوۓ کہا ملازما نے دروازہ کھولا دروازے کی چوکھٹ پر فہد کھڑا مسکرا رہا تھا بلیک شرٹ پر وائٹ جینس اس پر وائٹ ہی رنگ کا جیکٹ پہنے جیل سے سیٹ کیے ہوۓ بال سرخ سفید رنگت چوڑی چھاتی چھ فٹ لمبا قد بلا شبہ وہ ایک وجیح شخصیت کا شہکار تھا خدیجہ بیگم بہت دیر تک اسے گلے لگا کر روتی رہیں بہت ٹائم بعد لوٹا تھا فہد مہر انکا پیار دیکھ کے اپسیٹ ہوگئی اسے بھی سب ایسے ہی چاہتے تھے یہ کون ہے امی فہد نے مہر کو کسی سوچ میں غم پایا تو پوچھا ارے یہ مہر ہے تمہارے حسین مامو کی بیٹی تمہاری بچپن کی دوست خدیجہ بیگم نے خوش باش لہجے میں کہا مہر نے چوںک کے پھوپھو کو دیکھا جو اپنے بیٹے کے بازو سے لگی آنسوں صاف کر رہی تھیں اسلام علیکم مہر فہد کو سلام کرکے اپنے کمرے میں چلی گئی فہد نے عجیب نظروں نے مہر کو جاتے ہوۓ دیکھا یہ مہر کو کیا ہوا میں دیکھوں تب تک تم فریش ہوکے آجاؤ ٹھیک ہے خدیجہ بیگم فہد سے الگ ہوکے بولیں وہ آنکھوں پر بازو دئے لیٹی تھی جب خدیجہ بیگم اس کے پاس آکے بیٹھ گئیں مہر بچے کیا ہوا آپ کیوں چلی آئین ایسے وہ مہر کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگیں یوں ہی پھوپھو مہر نے آنکھوں سے بازو ہٹائے بنا کہا ایسے اداس نا ہوا کرو بیٹا ہمیں دکھ ہوتا ہے آپ کو ایسے دیکھ کر خوش رہیں کوشش ہی کرلیں خوش رہنے کی اب نا خوش رہنے کی کوئی تک ہی نہیں بنتی پھوپھو دروازے کی چوکھٹ پر حیا مسکرا رہی تھی مہر نے جھٹ سے آنکھوں سے بازو ہٹائے حیا ……..
مہر بھاگ کے حیا کے گلے لگ گئی مینے تمہیں بہت مس کیا حیا وہ اسے لگی بولنے لگی بہت وقت ہوگیا تھا ان کو الگ ہوۓ مینے بھی تمہیں بہت مس کیا خدیجہ بیگم اسے خفا ہوتے ہوۓ بولیں اسلام علیکم پھوپھو حیا انکے گلے لگتے ملنے لگی وعلیکم سلام میری بچی کسی ہو اور سفر کیسا رہا تمہارا میں ہمیشہ کی طرح بہت پیاری اور سفر بھی میری طرح بہت ہی پیارا حیا بیڈ پر ٹانگیں پھیلاتے ہوۓ بولی ہاں بہی ہماری بچی تو ہے ہی بہت پیاری چلو فریش ہوکے آؤ کھانا لگاتی ہوں تب تک میں خدیجہ بیگم اٹھتے ہوۓ بولیں حیا نے تائید سے سر ہلایا گھر میں سب کیسے ہیں گھر میں سب ٹھیک ہیں۔ بس ماما بہت مس کرتی ہیں تمہیں آ خر کب تک تم ہم سب سے یوں دور رہو گی حیا نے اسکے ہاتھ تھام لیے مہر لب کاٹنے لگی بہت گہرا کاجل لگانے لگی ہو آج کل حیا نے جانچتی نظروں سے مہر کی طرف دیکھا مہر نے سر جھکا لیا کیا چھپانا چاہتی ہو اپنے آنسوں یا آنسوں دینے والا شخص ؟؟؟
حیا میں کوشش کرتی ہوں سب کچھ بھلانے کی پر جتنا بھلانے لگتی ہیں وہ اتنا ہی یاد آتا ہے مہر نے بھیگی آواز میں کہا …..
یادیں بہت تکلیف دیتی ہیں حیا انسان چلا جاتا ہے اپنی یادیں چھوڑ جاتا ہے
محبت میں اگر یادیں نا ہوں تو محبت صرف نام کی رہ جاتی ہے مہر تمہارے لہجے سے تمہاری باتوں سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کے تم آج بھی ارحم بھائی کو نہیں بھلا پائی ہو اور تم بھولنا انھیں اس لیے نہیں چاہتی کیوں کے آج بھی تمہارے دل میں انکے لیے سوفٹ کارنر ہے اور یہ بات تم کتنا بھی چاہو نہیں چھپا سکتی ….
تم فریش ہوجاؤ میں پھوپھو کی ہیلپ کرتی ہوں فہد بھائی آ ئے ہوۓ ہیں مہر نے دوپٹہ درست کرتے ہوۓ حیا کو فہد کی آمد کا بتایا
کیا فہد بھائی ائے ہوۓ ہیں اور تم مجھ ابھی بتا رہی ہو حیا نے کمر پر ہاتھ رکھ کے پوچھا
ابھی کچھ دیر پہلے ائے ہیں تم آجاؤ
فہد بھائی اپنے اتنا ٹائم باہر گزار کے بلکل غلط کیا مطلب بندا اپنے ملک میں رہے تو ہی اچھا ہوتا ہے حیا نے بریانی کا چمچ منہ میں ڈالتے ہوۓ کہا فہد اسکی بات پر مسکرا دیا یہ بات تو تمنے بلکل ٹھیک کہی چھوٹی حیا کے آنے سے گھر میں رونق لگ گئی تھی اسکی باتوں سے سبھی کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تھی مہر اس پوری گفتگو میں خموش تھی اسنے مسکرانے پر بھی گریز کیا فہد گاہے بہگاہے اسے دیکھ رہا تھا وہ پہلے والی مہر کہیں سے نہیں لگ رہی تھی اسنے کھانا بھی بہت تھوڑا لیا تھا جب کے وہ تو سب سے زیادہ بریانی کی شوکین تھی فہد کو اسکا یہ انداز بہت کھٹکا تھا کھانا کھانے کے بعد فہد خدیجہ بیگم کے ساتھ بیٹھ گیا تھکن کے باعث حیا جلدی سو گئی تھی مہر کھیر لیکے خدیجہ بیگم کے کمرے میں لے گئی جہاں پر دونو ماں بیٹے محو گفتگو تھے مہر نے دروازہ نوک کیا آؤ بیٹا بیٹھو خدیجہ بیگم نے محبت سے کہا
نہیں پھوپھو میں سونے جارہی تھی بس یہ کھیر بنائی تھی آپ کے لیے مہر کھیر انکی طرف بڑھا کے کمرے سے باہر نکل گئی فہد اسکی پشت کو دیکھتا رہ گیا ….
امی کیا ہوا ہے مہر کو اور مہر تو اسلام آباد میں سٹڈی کرتی تھی پھر یہاں پر کیسے فہد نے نا سمجھی سے خدیجہ بیگم کی طرف دیکھا خدیجہ بیگم نے مہر کی ساری آب بیتی فہد کو سنادی فہد کا دل جیسے پھٹنے لگا مہر کی تکلیفیں سن کر وہ اٹھ کے روم میں آگیا
بے قراری سے وہ کمرے میں ٹہلنےلگا
یہ کیا ہوگیا کاش اس وقت میں پاکستان میں ہوتا تو مہر کو یہ سب نہیں جھیلنا پڑتا کیا کروں ایسا کے وہ پھر سے اپنی زندگی میں لوٹ ائے فہد کو پریشانی لاحق ہوگئی
میں کیسے کہوں اللہ پاک کے مجھ وہ شخص یاد نہیں آتا جب کے صرف وہی ہے جو مجھ یاد آتا ہے مہر نے تاروں سے بھرے آسمان کی طرف سر اٹھا کے دیکھا
کیسے بھلا دوں میں تمہیں ارحم میں آج بھی تمہاری ہی ہوں بس تم ہی میرے نہ ہوۓ …..مجھ صبر دیں اللہ پاک میں مزید درد سہنے کے قابل نہیں ہوں ….
مہر وہاں پر کیسے ہونگے سب ٹیچرس حیا بیگ میں بکس رکھتے ہوۓ بولی
کیا مطلب کیسے ہونگے مہر نے حجاب سیٹ کرتے ہوۓ پوچھا
مطلب اچھے تو ہیں نا ہینڈسم ٹائپ حیا نے ابرو اچکائے ؟؟؟
دفع ہوجاؤ میں کیا وہاں ہینڈسم ٹیچرس کے لیے جاتی ہوں مہر نے سینے پر ہاتھ باندھے
میری بلا سے سے بھلے جاؤ مجھ کیا حیا نے لا پرواہی سے شانے اچکائے😌
مہر نے سر جہٹکا تم نہیں بدلی نا حیا آج بھی
تمہارا بدلنا ہی کافی ہے مہر حیا نے اس پر چوٹ کی
میں خود کو سمبھال چکی ہوں حیا بہتر ہے تم اس بارے میں اب بات مت کرو
اب چلو پہلے ہی دن لیٹ کرنے کا ارادہ ہے کیا ہونہ حیا پیر پٹختے ہوۓ کمرے سے باہر نکل گئی …فہد بھائی آپ چل رہے ہیں کیا ہمیں یونی ڈراپ کرنے ؟؟؟حیا نے فرنٹ سیٹ پر فہد کو بیٹھے دیکھا تو پوچھا
جی آج میں آپ کو ڈراپ کرنے چل رہا ہوں چلیں فہد bنے ٹائم دیکھتے ہوۓ پوچھا؟ ؟
آپ زحمت نا کریں ہم خود چلے جائیں گے مہر نے ہاتھون کی انگلیاں مروڑین ہوۓ کھا
اف مہر کیا مسلہ ہے اب چلو پہلے ہی لیٹ ہورہی ہے مہر سر جھٹک کے بیٹھ گئی
ہائے اللہ اتنی بڑی یونی اف بڑا مزہ آتا ہوگا تمہیں تو یہاں پر مہر؟؟حیا نے یونی کو دیکھتے ہوۓ حیرت ظاہر کی
اب تم آ گئی ہو تو مزہ بھی آ جاۓ گا
وہ دونو باتیں کرتی کلاس روم میں داخل ہوئیں کتنی دیر ہے کلاس سٹارٹ ہونے میں مہر حیا نے جمائی روکتے ہوۓ پوچھا بس ابھی سر آتے ہونگے مہر اس وقت بائیو فزکس کی بک پڑھ رہی تھی
گڈ مارننگ سٹوڈنٹس
رائل بلیو شرٹ پر وائٹ جینس پہنے ماتھے پر بکھرے بال حلقی بڑھی ہوئی شیو چمکتی سرخ سفید رنگت دائیں گال پر پڑتا ڈمپل اور دلکش مسکراہٹ چہرے پر سجائے ارحم کلاس روم میں داخل ہوا مہر نے جھکا سر اٹھایا اسکی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اسکی مانو کسی نے سانس روک لی ہو وقت پھر سے پیچھے چلا گیا ہو وہ ساری تکلیفیں درد اذیتیں تذلیل ارحم کی بے وفائی الزامات مہر کے آنکھوں کے سامنے پھر سے بیتے لمحے گردش کرنے لگے اسکی رنگت فک ہوگئی تھی سردی میں بھی اسکو پسینہ آگیا تھا اسکا جسم لرز نے لگا اسنے سختی سے حیا کا ہاتھ تھام لیا حیا بھی شاک کی حالت میں ارحم کو دیکھ رہی تھی کیوں آیا ہے وہ یہاں اب کونسا امتحان مجھ دینا ہوگا ابھی تو سمبھلی تھی میں یا اللہ یہ کونسی آزمائش ہے اب مہر بے سدہ ہوکے بیٹھ گئی اسے وحشت ہورہی تھی دل بے ترتیبی سے دھڑک رہا تھا وہ بنا آس پاس دیکھ اکسکیوز کرکے کلاس روم سے باہر نکل آئ
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...