وہ اس محل کے دروازے پر کھڑی تھی جس کے دونوں اطراف بڑے بڑے ستون تھے ، پورا محل سفید ماربل کا تھا جس پہ گولڈن لائٹس کے فانوس جگمگا رہے تھے، رات کی خنکی میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا تھا، اس محل کے اور آس پاس کہ گھروں میں سے آنیوالی کتوں کی آوازیں اسکا دل دہلا رہی تھیں، اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ اس مرض کے جیسی تھی جیسے بڑھاپے میں تاری ہوتی ہے، اسے اپنے ناک کی بھاری سی نتھ چبھ رہی تھی کانوں کے بھاری آویزوں سے خون رسنا شروع ہو چکا تھا،
مگر وہ برداشت کر رہی تھی اسکو یہاں تک لانے والے لوگ اسے وہیں چھوڑ اندر جا چکے تھے، وہ سمجھی شاید کوئی استقبال کے انتظامات کے لیے اندر گئے ہوں گے مگر کافی دیر انتظار کرتے رہنے کے بعد بھی کوئی نہیں آیا تھا اسکے پاؤں بھی سن ہوتے جا رہے تھے تبھی اس نے ایک باوردی ملازم کو لکڑی کا بڑا سا دروازہ کھول کر اپنی طرف آتے دیکھا، ایک گھنٹہ ۔۔۔ دو پھر تین ۔۔۔۔ پھر چار ۔۔۔ پیچھلے چار گھنٹوں سے وہ بت کی طرح اس محل کے بند دروازے کے سامنے ایستادہ تھی، اب جا کر کسی کو خیال آیا تھا۔۔۔
مادام ۔۔۔۔ مائے نیم از رچرڈ ایم ہیڈ آف سٹاف ہیر۔۔۔ ول یو پلیز کم ود می وہ سیڑھیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آگے کو جھکا،
اس نے سفید گلوز پہنے ہوا ہاتھ اسکے آگے کیا آسکے سامنے چار سٹیپس تھے، صامن شاہ کی آنکھوں کا پانی یک لخت بند توڑ کر نکلا تھا۔۔۔
بھاری لہنگے کو وہ ہولے سے سنبھالے اس کے پیچھے چل پڑی تھی ۔۔۔۔
یہ لمبی سی راہداری تھی جس کے دونوں اطراف بڑی تعداد میں پینٹنگز لگی ہوئی تھیں، تمام راہداری میں فانوس کی روشنی اتنی ذیادہ تھی کہ سوئی بھی گرتی تو نظر آتی یا چیونٹی کی ٹانگیں گنی جا سکتیں، راہداری کے اختتام پر بڑا سا ہال تھا جس میں لکڑی کا قیمتی فرنیچر پڑا تھا اور بڑی شاہی کرسی جس کے بلکل سامنے ایک چھوٹی سی میز تھی جس پہ پاؤں رکھا جاتا ہو گا، قد آور کھڑکیوں پر بے تحاشہ خوبصورت پردے پڑے ہوئے تھے جن پر ریشم کی گرہ لگا کر انہیں باندھا گیا تھا، وہ بنا پلک جھپکاءے محل کو دیکھ رہی تھی ،
دس وے مادام وہ اسے لیے ہوئے اوپن کچن کے سامنے سے گزر رہا تھا جہاں بلیک اینڈ کنٹراسٹ کا بنا ہوا تھا ، ہلکی سرخ روشنیاں کالے ماربل پر پڑنے سے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بھٹی میں سونا پگھلا رہا ہو۔۔۔۔
وہ اسے لیے ہوئے ایک بڑی گول سیڑھی کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا ،
مادام ۔۔۔ پلیز کم وہ جو کچن کو دیکھنے میں مگن تھی چونک کر اسکی جانب دیکھا ۔۔۔۔ شاید وہ اسکی حیرانی بھانپ گیا تھا،
وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھی، اتنا بھاری بھرکم لہنگا اور اس پر بے تحاشہ زیورات سے وہ ہولے سے ہی چل سکتی تھی، وہ تھوڑی سی ہی سیڑھیاں تھیں آس پاس کمرے ہی کمرے بنے ہوئے تھے ، جن میں سے آخری کو اسنے کھولا اور اندر جانے کا اشارہ کر وہ خود سائیڈ پر ہو گیا، صامن شاہ دھڑکتے دل کے ساتھ اندر داخل ہوئی، کمرہ ہیٹر کی وجہ سے پر حدت تھا اسے کپکپی محسوس ہوئی ، سامنے ہی بہت بڑا سا بیڈ تھا اس نے اطراف میں دیکھا یہ کمرہ میرون اور وائٹ امتزاج کا تھا ، روم کے بیچوں بیچ صوفے اور سینٹر ٹیبل پڑا ہوا تھا، وہ چلتے ہوئے بیڈ کی جانب آئی اور ہلکا سا اس پر ٹک گئی رات کے گیارہ بج رہے تھے، اسکے بلکل سامنے ہی دروازہ تھا جیسے کچھ بھی ہوا تو بھاگ سکے۔۔ ۔۔۔۔۔۔ تبھی اسے بیٹھے ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے جب دروازے کی ناب ہلتی ہوئی محسوس ہوئی، کوئی اندر آ رہا تھا،
وہ وہی تھا جس نے اسے اس رات فون کیا تھا
اسلام و علیکم
ویلکم ٹو مائے لائف مسز شیر دل خان کیسی ہیں آپ، امید کرتا ہوں کہ آپ ٹھیک ہی ہوں گی،
وہ آواز سن جھٹکے سے بیڈ پر سے اٹھی تھی، ہاتھوں میں پڑے کنگن چھنک سے گئے تھے وہ تحیر زدہ اسکی جانب دیکھ رہی تھی شیر دل خان کڈنیپر اوراب اسکا شوہر گھنی مونچھیں جنہیں سلیقے سے سنوارا گیا تھا کہ ہونٹ ان سے ڈھکے ہوئے تھے وہ بلیک سلوا ر سوٹ پہ ہلکی سی مسکراہٹ سجائے ہوئے کھڑا تھا وہ دھیرے سے چلتا ہوا کمرے میں پڑے موتیے رنگ کے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا تھا،
مم۔۔۔ میرا بھائی کہاں ہے، آپ نے جو کہا جیسا کہا ویسا ہی کیا ہے، وہ ایک سانس میں بولی تھی مگر کافی دیر چپ رہنے کی وجہ سے ہلک سوکھ گیا تھا کہ آواز دھیمی ہی نکلی اب تو ارصم کو چھوڑ دیں، وہ منمنائی ۔۔۔ صامن نے اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو معافی کے انداز میں جوڑا،
سرخ اور گولڈن کنٹراسٹ لہنگے میں سر سے پیر تک سونے میں لدی ہوئی مو می گڑیا لگ رہی تھی
اسکے دل میں یک گونہ سکون اترا
ہاں ، ہاں کیوں نہیں۔۔۔۔
بلکل ابھی چھوڑ دیتے ہیں،
مگر ایک وعدے پر۔۔۔۔ یا یوں سمجھ لیں کہ اس شرط پر کہ آپکو ساری زندگی میری غلامی کرنی پڑے گی،
نہیں تو آپکے بھائی کی گردن مجھ سے دور نہیں ہوگی ابھی جو چوٹ اسے دی ہے وہ میری تکلیف کا ایک پرسنٹ بھی نہیں ہے، باقی کا غمیازہ آپ بھگتیں گی۔۔۔
جب جب وہ آپکو دیکھ کر تڑپے گا تب مجھے سکون ملے گا اب اسے سمجھ آئے گی کسی کی عزت سے کھیلنے کا کیا مطلب ہوتا
میرا بھائی ایسا نہیں ہے
اچھا ۔۔۔۔ بہت یقین ہے وہ استہزایہ مسکرایا
غیر مجھے اب کوئی فرق نہیں پڑتا، فرق اب اسے پڑے گا جس نے میری عزت سے کھیلنے کی جرات کی وہ اپنے لیے موت مانگے گا جب وہ تمہیں جیتے جی دوزخ میں جلتے ہوئے دیکھے گا اس نے غصے سے صامن شاہ کو گھورا ۔۔۔۔
وہ سگار کے کش لے کر دھواں ہوا میں چھو ڑ رہا تھا مگر چہرے کے پتھریلے تاثرات سے صامن شاہ کا پورا وجود پتھر میں تبدیل ہو رہا تھا ۔۔۔
اور دل کی دھڑکن مدھم
اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا رہا تھا، اس نے اندھیرے کو ہٹانے کے لیے ہوا میں ہاتھ مارا مگر لگتا تھا ساری روشنیاں بند ہو گئی ہوں، یا اسکی بینائی چلی گئی تھی ، تبھی اس نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکل سکا ۔۔۔
وہ بہت مطمئن سا صوفے پر بیٹھا تھا ارصم شاہ کو ایسی چوٹ لگا چکا تھا کہ جسکا کوئی مرہم نہی تھا۔۔۔ اس کے دل پر ٹھنڈی پھوار سی پڑی اسکی بہن کو ہاتھ باندھے دیکھ کر تبھی وہ لہرا کر زمین پر گری ، اسکی پہلی رات کی دلہن زمین پر اوندھے منہ گری ہوئی تھی ، اسکی شب زفاف ایسی ہو گی کبھی سوچا بھی نہیں تھا
۔۔۔۔۔
قراۃالعین جیسے ہی منہ ہاتھ دھونے کو واش روم میں آئی یہ اٹالین طرز کا باتھ روم تھا، جس پہ ایمپورٹڈ ایکسیسریز لگی ہوئی تھیں، اسکا گھر بھی تو ایسا ہی تھا، اور اسکا روم جہاں وہ شہزادیوں کی طرح رہتی تھی، وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی شیشے کے سامنے آئی اسکے سامنے کھڑے ہوئے اپنے خوبصورت چہرے کو دیکھا جو سوکھے پتے کی طرح زرد اور بے رونق تھا، اسکا روپ گہنا گیا تھا، اور پرانا گھسا پٹا ہوا بے رنگ کپڑے اسے مزید ہیبت زدہ بنا رہے تھے اور خود کو جیسے دیکھ اس کے اندر اطمینان سا اترا تھا وہ منہ پہ چھپاکے مار رہی تھی مگر آگ بجھ ہی نہیں رہی تھی ، اسے اپنا منہ جلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ہاتھ اور منہ رگڑ کر دھونے کے بعد بھی اسکا دل پھوٹ پھوٹ کر رونے کا کر رہا تھا ، مگر اب وہ رونا نہیں چاہتی تھی ، کہ وہ جس کے ساتھ تھی وہ اس کا دل نہیں دکھانا چاہتی تھی کہ وہ اب تو خوش ہو رہا تھا
عینی آ بھی جاؤ یار
منہ دھو کر سیدھی ہوئی
اسے شاہ میر کی کھنکتی ہوئی آواز سنائی دی وہ بات ہے بات ہنس رہا تھا ، وہ دھیرے سے دروازہ کھول کر باہر آئی ،
آگئی ۔۔۔۔ اس نے ٹاول سٹینڈ سے ٹاول پکڑا اور منہ تھپتھپانے لگی ، کھانا لے آیا ہوں ، ٹھنڈا ہو جائے گا ، اسے چھوڑ بھی دو، شاہ میر نے اسکے ہاتھ سے تولیہ کھینچ کر سیٹنڈ پر پھینکا اور اسکا نازک سا ہاتھ تھامے وہ ٹیبل کی طرف آیا، دیکھو کیا لایا ہوں
ہم دونوں کا فیورٹ چاومن ۔۔۔ چائنیز ۔وہ ڈسپوزبل برتنوں سے چیزیں نکال نکا ل کر سامنے رکھ رہا تھا۔۔۔ واو مجھے یہ کھائے ہوئے بھی کتنا عرصہ ہو گیا، چلو جلدی کرو پھر کافی پئیں گے ۔۔۔۔ تمہارے ہاتھ کی بناؤ کی نا۔۔۔
ہاں وہ بمشکل مسکراءی تھی وہ اسکی آنکھوں کی چمک دیکھ بھجتی جا رہی تھی ، اسے اپنی آنکھیں جلتی ہوئی سی لگی مگر وہ کھارا پانی اندر اتار گئی کہ وہ اس پیارے انسان کی مسکراہٹ نہیں چھین سکتی تھی
اس کے بعد میرے پاس تمہارے لئے سرپرائز ہے مجھے پورا یقین ہے کہ تمہیں بہت پسند آئے گا وہ چمچ میں نوڈلز لپیٹ رہا تھا ، تم اتنا سارا کھانا لے آۓ ہو تو کھآئے گا کون ، میں اور تم سونے سے پہلے پھر سے کھائیں گے پتہ ہے آج کتنے دن بعد میں خوشی سے کھا رہا ہوں پہلے تو صرف زندہ رہنے کو ہی کھاتا تھا مگر آج دل کرتا زور زور سے ہنسوں کبھی دل کر رہا رونے کو مگر طے نہیں کر پا رہا کہ میں خوش زیادہ ہوں کہ دکھی اسکی آنکھوں کے جھلملاتے پانی کو دیکھ اسکا بھی دل بھر آیا وہ رو بھی رہا تھا اور مسکرا بھی ۔۔۔۔
ساتھ ہی وہ چمچ پلیٹ میں پھینک اسکے پاس ہی بیٹھی عینی کے گلے لگ زور زورسے رونے لگا وہ اسے کیا تسلی دیتی اپنی بربادیوں پہ وہ دونوں ہی غم ہلکا کرنے لگے تھے اس پانی کے ساتھ ان کے غم بھی بہتے جا رہے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں۔۔۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھا تھا
ہاں میرے بچے ، تو کہاں چلا گیا تھا ارصم ، کہاں چلا گیا تھا ہمیں چھوڑ کر بچے ، تجھے زرا خیال نہیں آیا اپنے بوڑھے ماں باپ کا، وہ رو رو کر اسکے چوم رہی تھیں میرے بچے ۔۔۔
اماں ۔۔۔۔ اس نے دونوں بازؤں سے رابعہ شاہ کو تھاما تھا
اماں میں یہاں کیسے آیا۔۔۔۔
پرسوں شام کو کوئی گاڑی تجھے ارقم کے دروازے پر پھینک گئی تھی تب سے تو بے ہوش تھا۔۔۔۔
اس نے ایک لمحے کو سوچا شاید شیر دل خان کو اسکی بے گناہی کا یقین آگیا ہے ، وہ بہت تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا ، تبھی اس نے تکیے پر سر رکھ کر آنکھیں موند لی۔۔۔
اماں ہم ارسم بھا کو آپی کا کیا بتائیں گے
آمن شاہ نے بھائی کے کمزور سے چہرے پہ نظر ڈالی
کچھ نہیں ، بول دیں گے کہ سیلاب میں بہہ گئ بھول کر بھی کوئی اس منہوس کا زکر نہیں کرے گا وہ ہمارے لیے مر گئی ہے ، سنا تم نے رابعہ شاہ نے منصور شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔
میرے بیٹے پر اسکا سایہ بھی پڑنے دونگی کہ وہ اس کے گندے وجود سے اپنے ہاتھ رنگے مجھے بہت مشکل سے اپنا بیٹا ملا ہے میں اسے کھو نہیں سکتی ۔۔۔
آج سے اسکی ایک ہی بہن ہے ۔۔۔
تم بس ۔۔۔۔ صامن شاہ مر چکی ۔۔۔۔
وہ ارصم کے سوئے ہوئے وجود پر نظر ڈال کر وارڈ سے باہر آئیں اور باقی سب کو بھی اپنے فیصلے میں شامل کیا وہ سب اسی بات پہ متفق تھے سوائے ارغم شاہ کہ اسکی نظر میں پسند کی شادی اتنا بڑا جرم نہیں تھی جبکہ وہ خود بھی اسی بیماری کا شکار تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے اس نے آنکھیں کھولی خود پر ڈاکٹر کو جھکا ہوا دیکھا ، جو اسکا چہرہ تھپتھپا رہا تھا مسز شیر دل آر یو آل رائٹ؟؟؟
واٹ آر یو فیلنگ ناؤ؟؟؟ وہ ششستہ انگریزی میں پوچھ رہا تھا
مم۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں، اس نے ڈاکٹر کے پیچھے کھڑے شیر دل خان کو دیکھتے ہوئے بولا،
جسکی آآنکھوں کی لالی اسکا دل دہلا رہی تھی ،
تبھی ڈاکٹر نے اس کے بازو پر سوئی چبھائی
سی ۔۔۔۔ کی آواز اسکے منہ سے نکلتے نکلتے دب گئی تھی۔۔۔۔
ڈاکٹر اسے ٹریٹ کر شیر دل خان کے سامنے ہلکا ساجھک کر سلام کر باہرنکل گیا
ہمم ۔۔۔۔ وہ اس پر ایک قہر آلود ڈال کر روم میں ہی موجود ایک دروازے کے پیچھے گم ہو گیا ، وہ خود کو سنبھالتی ہوئی اٹھی اور چینجنگ روم میں آئی تھی جہاں اسکا چھوٹا سا بیگ ایک کونے میں دھرا ہوا تھا چاروں طرف دیوار گیر آئینے لگے ہوئے تھے اسکا سجا سجایا روپ ابھی بھی تازہ تھا، اسکی آنکھوں کا کھارا پانی بند توڑ کر بہہ نکلا تھا
کافی دیر تک وہ آنسو بہاتی رہی جب دل کچھ ہلکا ہوا تو اپنا بیگ کھولا ایک سادہ سا سوٹ نکال وہ باتھ روم کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
آج کتنے دن بعد وہ واپس کلاس میں آیا تھا جہاں سے وہ اس سے تیسری رو میں بیٹھی ہوئی تھی کالی چادر میں صرف نیلی آنکھیں ہی نظر آتی تھیں، وہ ان آآنکھوں کا کئی سال سے اسیر تھا
ہائے ارغم کیسے ہو یارا سمران اسکیطرف ہاتھ بڑھایا یار اور گھر میں سب کیسے ہیں ارصم بھاء اب کیسے ہیں ٹھیک ہیں؟؟
ہاں سب ٹھیک ہے ، اس نے لمحے کے ہزارویں حصے میں نطر کا رخ بدلہ تھا کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسکی نظروں کی چوری کوئی پکڑے کہ اس پری پیکر کی عزت و احترام میں کوئی کمی آۓ ، ہاں سب ٹھیک ہے وہاں رہا نہیں گیا تو یہاں چلا آیا، شکر ہے کہ وہ صحیح سلامت واپس آگۓ
ہاں بلکل ، سمران نے سر جھٹکا
اور باسکٹ بال کی تیاری کیسی ہے وہ دھم سے بینچ پر گرا۔۔۔
کچھ تیاری کی بھی کہ کوئی نہیں ؟؟؟ دیکھ یار اگر تو یہ میچ جیت گیا تو تجھے آسٹریلیا کی سکالر شپ مل سکتی تو میرا مان اور جی جان لگ دے کہ تو وہاں ہوا تو میرا بھی کچھ چانس بن جائے گا کہ میرا باپ تیری طرح امیر نہیں اور نا ہی تیرے بھائیوں کی طرح اعلی عہدوں پر ہیں میں اکیلا ہوں تو سارا بوجھ مجھ نا توواں کے کندھوں پر ہے
ویسے بھی اس ملک میں رکھا کیا ہے وہ گھوم پھر کر واپس اپنے ٹاپک پہ آگیا تھا، کہ پاکستان اسے بہت برا لگتا تھا ، اور لگتا بھی کیوں نہیں کہ حالات کی چکی نے اسے پیس کر رکھ دیا تھا ،
فرسٹ ٹائم کالاسسز لیتا اور شام کو کال سینٹر پر جاب کرتا تین بہنوں کا بوجھ سینہ بھاری کیے ہوئے تھا، وہ پیچھلے دو سال سے اسکے ساتھ تھا اب پراجیکٹ ٹیم کا بھی حصہ تھا، سو وہ ایک ہی ڈیسک شئیر کرتے تھے
ارغم۔نے نظر بچا کر اس جانب دیکھا جہاں اب کوئی بھی نہیں تھا، شاید وہ پریڈ کے نا ہونے کا سن۔کر نکل۔گئی تھی وہ۔بلا ضرورت کلاس میں یا یونیورسٹی میں وقت ضائع کرنے والوں میں سے نہیں تھی۔۔۔
چل کنٹین چلتے ہیں
یار تیرے بناء تو یونیورسٹی ہی سونی ہو گئی تھی وہ۔اپنی بولے جا رہا تھا جبکہ وہ حسب معمول اسے سننے پہ اکتفا کیا ہوے تھا،
وہ بہت۔کم۔گو اور ریزرو سا تھا پہلے دن۔جب ارغم۔نے سمران کے ساتھ ڈیسک شئیر کیا تھا اب دو سال بعد بھی وہ اسی کے ساتھ تھا
اسکا ذہن۔بھٹک رہا تھا
وہ بے شک گھر میں ذیادہ نہیں رہا تھا کہ بھائی نے بہت چھوٹی عمر میں ہی۔بورڈنگ بھیج دیا ہوا تھا ، اور اب وہ یہاں ہاسٹل۔میں تھا مگر اسے یاد تھا، صامن اسکی آپی اسکا کتنا۔خیال رکھتی تھی جب بھی وہ گھر میں ہوتا وہی اسکا خیال رکھتی تھی، اور بے تحاشہ محبت نے اسے مغموم کر دیا تھا کہ وہ یہ زخم کسی کو دیکھا بھی نہیں سکتا تھا اسکی جان سے پیاری آپی اسکے علاوہ سب کے۔لئے مر گئی ہے ، اسکی آنکھوں میں مرچیاں سی بھر گئیں مگر وہ کمال سے ضبط کر گیا تھا اس عہد کے ساتھ کہ وہ آپی سے ضرور ملے گا اور وجہ پوچھے گا وہ کولڈنک کے سپ لیے ہوئے غیر مرئی نقطے کو گھور رہا تھا جب سمران نے اسکی توجہ اپنی جانب کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اسے یہاں آۓ ہوئے تیسرا دن تھتا اس دن کے۔بعد شیر دل خان۔کبھی۔کمرے۔میں۔نہیں آیا اسکا کھانا پینا روم۔میں ہی مل۔جاتا اس لئے وتہ بھی کمرے سے نہیں نکلی کہ کتنے۔دن کی شادی تھی یہ۔۔۔۔
وہ کھڑکی کے سامنے پڑے صوفے پر۔سمٹی ہوئی تھی اگر یہ نکال دیں گے تو کہاں جاؤں گی وہ رو۔پڑی سبکی بہت یاد آتی تھی کہ وہ۔کبھی ان سے دور بھی نہیں ہوئی تھی مگر اب اسکا کوئی پرسان حال نہیں تھا کہ وہ تنہا تو کبھی رہی ہی۔نہیں تھی گڈ ایوننگ
مادام وہ ہیڈ سرونٹ ہاتھ باندھے اسکے سامنے ہینگر میں ڈیزائنر لہنگا اور ڈھیر ساری جیولری کے باکسز لیے کھڑا تھا جبکہ اسکے پیچھے ایک مادام ٹو نائیٹ اتس یور ریسپشن پلیز گٹ ریڈی فار دیٹ انیڈ شی ول ہلیپ یو ٹو گیٹ ریڈی مادام اس نے پیچھے کھڑی لڑکی کو تمام۔چیزیں پکڑائی اور خود باہر نکل۔گیا
لڑکی اسکی۔طرف آئی اور اسے۔شاور لینے کا بول اپنا۔بیگ کھولنے لگی۔
وہ جیسے ہی باتھ روم میں داخل ہوئی رکے ہوئے آنسو بند توڑ کر بہہ نکلے تھے اسے ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کے بھائی کو چھوڑ دیا گیا ہے کہ نہیں، اسکی قربانی کا کیا نیتجہ نکلا ہے، مگر وہ شیر دل خان سے دھوکے کی امید نہیں کرتی تھی ، شاور لینے کے بعد بھی اسکی آنکھوں سے سوجھن کم نہیں ہوئی تھی ، اور اس نے کوشش بھی نہیں کی ، بار بار اسکی آنکھوں کے بھر آنے سے میک اپ خراب ہو رہا تھا ، بیوٹیشن نے اپنی تمام مہارت اس پہ استعمال کی تھی کہ وہ شیر دل خان کی بیوی کی حیثیت سے فنکشن میں شریک ہونے والی تھی، ہلکے فیروزی اور گرین کلر کے کمبی نیشن کی چھب ہی نرالی تھی، ہیڈ سٹاف ہی اسے کمرے سے لے کر گارڈن کی طرف گیا تھا جہاں ہر طرف برقی قمقمے سجائےہوئے تھے، پودوں اور درختوں کی کٹی ہوئی ساخت کو لائٹس سے واضح کیا گیا تھا، نرم نرم سی گھاس پر وہ جیسے ہی پاؤں رکھا ، پاؤں اندر تک دھنس گیا اور وہ لڑ کھڑا گئی تبھی اس نے اپنا آپ بچانے کے لیے اس ساتھ چلتے راجر کو پکڑنا چاہا اس سے پہلے ہی ایک مضبوط ہاتھ نے اسے تھام لیا، صامن شاہ نے پلٹ کر اسے دیکھا شیر دل خان منہ پہ ہلکی مسکراہٹ لیے سامنے دیکھ کر سب کے ہیلو ہائے کا جواب سر ہلا کر دے رہا تھا
یہ کب آۓ میرے ساتھ تو وہ ۔۔۔۔
وہ اسے لیے ہوئے سامنے بنے پھولوں کے بنے ہوئے سٹیج کی جانب بڑھا تھا،
راستے میں ہر کسی نے ان کی جوڑی کہ خوبصورتی کو سراہا تھا،
تبھی سامنے سے ایک انتہائی خوبصورت عورت نے آکر پہلے شیر دل خان کو گلے لگایا اور پھر اسے اور بولی۔تھیں بہت قسمت والا ہے جو اتنی پیاری ووہٹی ملی تجھے، وہ ان دونوں کے ماتھے پر باری باری پیار کر دعائیں دے رہی تھیں، صامن شاہ نے خود کو بہت کنٹرول کیا کہ وہ اماں کی یاد اور لمس تازہ ہو گیا تھا، تبھی شیر دل خان اسے سٹیج پر بٹھانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا جسے صامن شاہ نے ڈرتے ہوئے تھام لیا، وہ صوفے پر بیٹھا کر خود کوٹ کے نیچلے بٹن کھول اسکے بلکل ساتھ ٹک گیا اور صامن شاہ کی سانس بھی رک گئی کہ وہ بلکل ساتھ چپک کر بیٹھا تھا اور پوز بنا بنا کر تصاویر بنوا رہا تھا کبھی کندھے پر ہاتھ رکھتا تو کبھی خود اپنے ساتھ لگا کر کھڑا ہو جاتا جو کوئی بھی سٹیج پر انہیں ملنے آتا وہ دونوں کھڑے ہو کر ملتے تصاویر بنواتے، کھانا لگ چکا تھا اب وہاں اکا دکا ہی لوگ تھے باقی جہاں کھانے کا انتظام تھا وہاں جا چکے تھے،
میرا بھائی کہاں ہے؟؟؟
اس نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا تھا
شیر دل نے جن نظروں سے اسے دیکھا تھا کہ وہ نظر اسکی روح تک میں کھب گئی تھی، اور خاصی تنزیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا
چھوڑ دیا
وہ سر جھکا کر سکون کا سانس لیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج گھر آیا تھا
اماں صامن کہاں ہے مجھے۔لگا۔گھر ہو گی۔مگر وہ تو۔یہاں۔بھی نہیں ہے ،
کہاں ہے صامن
و۔۔۔۔ وہ بیٹا جس دن تم غائب ہو گئے تھے اس دن گاؤں میں سیلاب آگیا تھا تو وہ پانی کے ساتھ بہہ گئی ہم اسے۔بچا نہیں۔سکے
رابعہ شاہ نے جھوٹ ہی پلو۔سے آآنکھوں کے سوتے خشک کیے
جبکہ ارصم شاہ کے تو۔زمین۔آسمان۔گھوم گئے تھے نہیں۔یہ نہیں ہو سکتا۔
صامن مر نہیں سکتی وہ نہیں۔مر سکتی وہ اپنے ہوش کھو رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
گڈ مارننگ ۔۔۔۔ مائے لو
وہ ونڈوز کے پردے سرکا رہا تھا
جلدی اٹھو کتنا سوتی ہو
ابھی تک عادت نہیں گئی تمہای وہ اسکے ماتھے پر آۓ بال ہٹا کر اسے نرمی سے سہلا رہا تھا
ناشتہ آ گیا ہے
اب پیٹ میں چوہے ناچنے لگے ہیں یار
میں تو بہت صبح ناشتہ کرنے کا عادی ہوں
وہ اٹھ کر اپنے کھلے بال سمیٹنے کے لیے کیچر اٹھا کر لگانے لگی تھی کہ امیر شاہ کی آنکھوں میں دھنک کے سب رنگ اتر آئے تھے ،
اس نے لمبی سانس لی اور ناشتہ ڈبوں میں سے پلیٹس میں ڈال آسکا ویٹ کرنے لگا تھا
اوہ یار آج بھی تم اتنا ٹائم لگاتی ہو مانتا ہوں کہ باتھ روم تمہیں بہت پسند ہے کہ جنابہ کو تنہائی مل جاتی اپنے حسن کو مزید نکھارنے میں مگر میرے جیسے کمزور دل تو آپ کے پہلے سے ہی گھائیل ہیں اب کیا بچے کی جان لو گی
وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھے کراہا تھا
اور قراۃالعین کی ہنسی چھوٹ گئی
تم بھی بس ۔۔۔۔ وہ بلش کر گئی تھی ۔۔۔۔ اب تم شرمانا شروع کر دو ۔۔۔۔ افف اس نازک سے دل پر اتنے تیر مت چلاو اور ناشتہ شروع کر لو کہ تمہارا عاشق مجنوں خالی پیٹ اوپر نہیں جانا چاہتا کہ فرشتے ٹائم سے کھانا دیتے بھی ہیں کہ نہیں ، اس لئے جلدی کرو
وہ ناشتے پر جھپٹ پڑا تھا
جبکہ قراۃالعین اسے دیکھتے ہوئے مسکرا رہی تھی ، تم کبھی نہیں سدھرو گے میر
افف میر ایک بار پھر سے کہو نا
کیا میر۔۔۔۔ تمہارے منہ سے اپنا نام سن کر لگتا ہے کہ جیسے میں کوئی شاعر ہوں ، افف
اللہ بس کرو میر
اوکے جیسے تمہاری مرضی لیکن تمہارا سرپرائز تیار ہے ، اچھا کیا ہےکدھر ہے ، وہ بے صبری ہوئی تھی
ہاں ۔۔۔ ہاں دیکھاتا ہوں
وہ اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے لاؤنج میں لایا تھا جہاں میز پر پڑے جھلملاتے سرخ جوڑے کو دیکھ وہ۔دنگ رہ گئی تھی اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی
وہ منہ۔پہ ہاتھ رکھے باتھ روم کی جانب بھاگی۔تھی
شاہ میر دنگ رہ گیا تھا اسے کیا ہوا
اور وہ ہی ہوا تھا جسکی۔وجہ سے وہ گھر سے بھاگی تھی