(Last Updated On: )
وہ حسن سراپا ہے، وہ مصدرِ رعنائی
میں عشقِ مجسم ہوں، میں چشمِ تماشائی
یہ قوتِ گویائی، یہ سوچ کی گہرائی
انساں کو ملی کیسی، دانائی و بینائی
جو چیز بھی پائی ہے، وہ در سے ترے پائی
لاریب تو آقائی، لاریب تو مولائی
ہیں مہر بہ لب کلیاں، ہیں پھول بھی افسردہ
غل ہے کہ بہار آئی، کیا خاک بہار آئی
اقرب ہے رگِ جاں سے وہ نورِ ازل لیکن
محرومِ تماشہ ہے ہر چشمِ تماشائی
کیا تجھ کو تامل ہے، ہو چہرہ نما اس میں
دل آئینۂ صافی اور گوشۂ تنہائی
محرومِ بصارت ہے، محرومِ بصیرت ہے
انسان کہ کرتا ہے، انسانوں پہ آقائی
جاں سوز ہے زخمِ دل، جینا بھی ہوا مشکل
کب کام مرے آئے گی تیری مسیحائی
محبوبِ نظرؔ ہو کر محجوب نظر ہے وہ
اے کاش ان آنکھوں کی کرتا وہ پذیرائی
٭٭٭