(جسے تمنّائے وصلِ معنا)
ہمارے اعضا جو آسماں کی طرف دعا کے لیے اُٹھے ہیں،
(تم آسماں کی طرف نہ دیکھو!)
مقامِ نازک پہ ضربِ کاری سے جاں بچانے کا ہے وسیلہ
کہ اپنی محرومیوں سے چھپنے کا ایک حیلہ؟
بزرگ و بر تر خدا کبھی تو (بہشت بر حق)
ہمیں خدا سے نجات دے گا
کہ ہم ہیں اِس سر زمیں پہ جیسے وہ حرفِ تنہا،
(مگر وہ ایسا جہاں نہ ہوگا) خموش و گویا،
جو آرزوئے وصالِ معنی میں جی رہا ہو
جو حرف و معنی کی یک دلی کو ترس گیا ہو!
ہمیں معرّی کے خواب دے دو
(کہ سب کو بخشیں بقدرِ ذوقِ نگہ تبسّم)
ہمیں معرّی کی روح کا اضطراب دے دو
(جہاں گناہوں کے حوصلے سے ملے تقدّس کے دکھ کا مرہم)
کہ اُس کی بے نور و تار آنکھیں
درونِ آدم کی تیرہ راتوں
کو چھیدتی تھیں
اُسی جہاں میں فراقِ جاں کاہ حرف و معنی
کو دیکھتی تھیں
بہشت اُس کے لیے وہ معصوم سادہ لوحوں کی عافیت تھا
جہاں وہ ننگے بدن پہ جابر کے تازیانوں سے بچ کے
راہ فرار پائیں
وہ کفشِ پا تھا، کہ جس سے غربت کی ریگِ ہزیاں
سے روزِ فرصت قرار پائیں
کہ صُلبِ آدم کی، رحمِ حوّا کی عزلتوں میں
نہایتِ انتظار پائیں!
(بہشت صفرِ عظیم، لیکن ہمیں وہ گم گشتہ ہندسے ہیں
بغیر جن کے کوئی مساوات کیا بنے گی
وصالِ معنی سے حرف کی بات کیا بنے گی؟)
ہم اِس زمیں پر ازل سے پیرانہ سر ہیں، مانا
مگر ابھی تک ہیں دل توانا
اور اپنی ژولیدہ کاریوں کے طفیل دانا
ہمیں معرّی کے خواب دے دو
(بہشت میں بھی نشاط، یک رنگ ہو تو، غم ہے
ہو ایک سا جامِ شہد سب کے لیے تو سم ہے)
کہ ہم ابھی تک ہیں اِس جہاں میں وہ حرفِ تنہا
(بہشت رکھ لو، ہمیں خود اپنا جواب دے دو!)
جسے تمنّائے وصلِ معنا..۔