عالم کے دروں رحم کی اک طرح ہے ڈالی
وہ حاکمِ عالی
ہر کوئی گواہی دے وہ ہے روحِ معالی
وہ حاکمِ عالی
اوہام کرے دُور کہ ہوں سارے ہی مسرور
اور رحم سے معمور
وہ سامعِ روداد ہے اور دہر سوالی
وہ حاکمِ عالی
وہ راہِ ہدیٰ ہے وہی الحاد مٹائے
دے رحم کے سائے
اِس طرح وہ اکرام کرے دہر کا والی
وہ حاکمِ عالی
معمورہء سرکار ہی مدعس ہے اماں ہے
اور ہر سے کلاں ہے
در اُس کا ہی عالم کے دُروں در گہِ عالی
وہ حاکمِ عالی
سادہ ہے مگر طائرِسدرہ کا ہے اسوار
سرداروں کا سردار
اللہ کا دلدار ہے اور کملی ہے کالی
وہ حاکمِ عالی
سرکار کے در رکھا ہے سر وہ ہے سہارا
مالک ہے ہمارا
ہر درد کی ہر دکھ کی گھڑی رحم سے ٹالی
وہ حاکمِ عالی
وہ ماہ کا اور مہر کا محور ہے مسلسل
مصرع ہے مدلل
وہ عالی عمل ، عالی کرم ، معطیِ عالی
وہ حاکمِ عالی
اِک رحم ہی درکار ہے صلعوک کو مولا
مملوک کو مولا
سائلؔ ہو کہ طاہرؔ ہوکہ سعدیؔ ہو کہ حالیؔ
وہ حاکمِ عالی