(Last Updated On: )
وہ ہدف ہے کہ زد تیر سے باہر ہی رہے
جب بھی کھینچوں اسے، تصویر سے باہر ہی رہے
رشتۂ موجد و ایجاد کی منطق سمجھو
یہ جہاں دست جہاں گیر سے باہر ہی رہے
جبر مجبور ہے، چھپ کر بھی نہیں چھپ سکتا
شور زنجیر کا زنجیر سے باہر ہی رہے
یوں کہ کچھ عکس نمائی کا ہمیں شوق نہ تھا
چشمِ آئینہ ٔ تشہیر سے باہر ہی رہے
وہ ارادہ مجھے دے، اے مری ترکیب وجود!
جو عمل داریِ تقدیر سے باہر ہی رہے
المیے میرے زمانے کے مجھے سہنے پڑے
چشم غالب سے، دل میر سے باہر ہی رہے
٭٭٭