(Last Updated On: )
وہ گیا، ابرِ رواں ٹھہرا رہا
اس کے جانے کا سماں ٹھہرا رہا
پائوں کے نیچے زمیں چلتی رہی
سر کے اوپر آسماں ٹھہرا رہا
مرحلہ ایسا بھی آیا کوچ کا
ہم چلے اور کارواں ٹھہرا رہا
بعد اپنے یاد باقی رہ گئی
بجھ گیا شعلہ دھواں ٹھہرا رہا
اصل مہماں کے چلے جانے کے بعد
صرف اک خالی مکاں ٹھہرا رہا