(Last Updated On: )
” وہ اک شخص کہ جس سے محبتیں تھیں بہت “
” خفا ہوئے تو اسی سے تھیں شکایتیں بہت “
” بہت پیار_ے تھے اپنے اصول اس کو بھی “
” ہمیں بھی اپنی انا کی تھیں ضرورتیں بہت “
ر_نگ و بو کا طوفان امنڈ آیا تھا’ آثیر علوی کزنز اور دوستوں کے ساتھ اس رنگین و شوخ ہنگامے سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہا تھا۔ فرحان جس کی مہندی تھی آثیر کا کزن اور جگری دوست تھا’ فرحان نے اپنی پسند سے لڑکی چنی تھی جس کے ساتھ اب اس کی شادی ہونے جا رہی تھی۔ وہ بے پناہ خوش تھا۔ فرحان کا نکاح دوپہر میں ہو چکا تھا۔
فرحان کی خواہش تھی کہ مہندی کا یہ فنکشن مشترکہ ہو مگر رمنا کے گھر والے نہیں مانے اور پھر رمنا کے گھر سے مہندی آگئی تھی ۔ آثیر کے دو چار منچلے دوست لڑکیوں پر تبصرے کر رہے تھے آثیر بھی پاس کھڑا تھا۔
فرحان کی بہنیں اور کزن اسے سرخ دوپٹے کی چھاؤں میں مہندی کے لیے سجائے گئے اسٹیج تک لا رہی تھیں۔ اب بار بار آثیر کے نام کی پکار پڑ رہی تھی اویس اور احسان بھی فرحان کے دوست تھے تینوں اس کی طرف بڑھنے لگے۔
” آمنہ! کہاں ہو جلدی کرو فرحان بھائی کو مہندی لگاؤ۔” آثیر کے پیچھے سے آواز آئی تھی۔
جب ہی وہ پر وقار قدموں سے چلتی فرحان کے پاس آئی۔
السلام علیکم فرحان بھائی! کیسے ہیں آپ ؟ میری طرف سے بہت بہت مبارک ہو آپ کو ۔” لڑکی کا لہجہ بہت نرم اور سلجھا ہوا تھا۔
” آمنہ ! بہت بہت شکریہ یہاں آنے کا ۔ آنٹی کی طبیعت کی خرابی کے باوجود آپ مہندی میں شریک ہوئیں۔”
فرحان کا لہجہ سامنے والی لڑکی کے لیے احترام اور عزت سے بھرا ہوا تھا جس پر آثیر جی بھر کے حیران ہوا۔
” فرحان بھائی اس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں ہے اب تو آپ ہمارے فیملی ممبر بن گئے ہیں۔” ایک ہلکی سی مسکان اس کے لبوں پر سجی ہوئی تھی۔
” میں نے جلدی واپس جانا ہے کیونکہ بھابی’ امی جان’ کے پاس اکیلی ہیں۔”
” آمنہ ! مجھے آپ کی مجبوری کا پتا ہے اس لیے اصرار نہیں کروں گا مگر بارات اور ولیمے پر آپ لازمی شریک ہوں گی۔” فرحان کے لہجے میں پیار بھرا تحکم تھا۔
” او کے فرحان بھائی ! میں ضرور آؤں گی۔”
آثیر اس مختصر سی گفتگو کے دوران پوری طرح فرحان اور اس لڑکی کی طرف متوجہ رہا جو یقینا فرحان کی سسرالیوں میں سے تھی کیونکہ اس کا اندازہ ان دونوں کی گفتگو سے ہو رہا تھا۔
” بہت نائس لڑکی ہے رمنا کی کزن ہے۔” فرحان نے اس کے جانے کے بعد آثیر سے کہا ۔
فرحان کے لہجے کا احترام بتا رہا تھا کہ وہ لڑکی خاص ہی ہے حالانکہ پہلی نگاہ میں وہ اتنی خاص ہر گز نہیں لگی تھی۔ کپڑے بھی کوئی خاص چمک دمک والے نہیں تھے سر پر اسکارف اور شانے پر دوپٹہ تھا جو بڑے سلیقے سے اوڑھا گیا تھا۔
بارات کسی دوسرے شہر تو جانی نہیں تھی اس لیے آرام سے تیاری کی گئی ۔ وہاں پہنچ کر آثیر کی متلاشی نگاہیں ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں اویس نے نوٹ کر لیا ویسے بھی وہ اس سے مزاج آشنا تھا۔
” یار کیا بات ہے کس کو ڈھونڈ رہے ہو؟”
” کسی کو بھی نہیں۔” اس نے اویس کو ٹالا ۔ فرحان نے آثیر سمیت اویس اور حسان کو بھی ساتھ ساتھ رہنے کو کہا تھا۔
” یار ! دلہا بن کے تم بالکل ہو نق لگ رہے ہو۔” آثیر نے چوٹ کی۔
” تمہیں رمنا کی کزنز کا پتا نہیں ہے آفت ہیں پوری ایک ایک سے شرارت کرتی ہیں اور نیگ دودھ پلائی جوتا چھپائی کے دوران جو میری درگت بننے والی ہے سوچ سوچ کر ہول اٹھ رہے ہیں۔” بے چارہ فرحان سچ مچ بہت گھبرایا ہوا تھا۔
” ہمارے ہوتے پریشان مت ہو۔” اویس نے پیٹھ ٹھونکی۔
” تمہارے ہونے کی وجہ سے ہی تو پریشان ہوں ایسا نہ ہو تم لڑکی والوں کی طرف ہو جاؤ۔” فرحان اس کی عادت سے آگاہ تھا۔جبکہ وہ شرمندہ سا ہو گیا۔
رمنا کی کزنز مٹھائی اور دودھ لے کر آئیں رمنا کی کوئی بہن نہیں تھی اس لیے بہنوں کا رول کزنز ادا کر رہی تھیں۔
ان سب میں وہ نظر نہیں آ رہی تھی جس کی فرحان نے تعریف کی تھی کھانے کے بعد رمنا کو بھی اسٹیج پر فرحان کے ساتھ بٹھایا جانا تھا۔
جب ہی وہ نظر آئی وہ رمنا کو تھام کر اندر سے لائی تھی اب وہ رمنا کے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔ آثیر نے کھل کر جائزہ لیا وہ فرحان کے دائیں جانب بیٹھا تھا اچانک آمنہ کی نگاہ اس کی طرف اٹھی اسے غصہ آ گیا۔ رمنا اسے پاس سے اٹھنے ہی نہیں دے رہی تھی امی جان کی طبیعت خاصی بہتر تھی اس لیے وہ پر سکون تھی پر فرحان بھائی کے ساتھ بیٹھے نوجوان کی نگاہوں نے اسے ڈسٹرب سا کر دیا تھا۔
آج وہ بلیک کلر کے سوٹ میں ملبوس تھی اسکارف اسی طرف بالوں کو چھپائے ہوئے تھا۔ آنکھوں میں کاجل کی شوخ سی تحریر اور لبوں کی کٹاؤ میں نیچرل سی لپ اسٹک کی ہلکی سی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے بائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی میں نازک سی انگوٹھی چمک رہی تھی جس میں سرخ ننھا سا نگ بڑا واضح تھا۔
بارات کی واپسی پر وہ رمنا کے ساتھ پچھلی سیٹ پر اس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔ آثیر ڈرائیونگ کر رہا تھا ساتھ فرحان تھا۔ وہ وقفے وقفے سے آمنہ کو مخاطب کر رہا تھا اب تو آثیر کو اس کا نام ازبر ہو چکا تھا اسی کی شخصیت کی مانند منفرد اور پروقار۔
فرحان کے گھر میں رمنا کو پہلے تو مختلف رسموں سے گزارا گیا پھر اندر لے جایا گیا اب آثیر اویس اور حسان کے گھیرے میں تھا۔
” تم تو آج ایک ہی لڑکی کو گھور گھور کر دیکھتے رہے۔ خیر تو تھی۔”
” پتا نہیں۔” وہ بے نیازی سے کندھے اچکا کر دوستوں کے پاس سے ہٹ گیا۔
آثیر کے لیے شاید عام اور معمولی سی بات تھی مگر دیکھنے والوں نے بہت سی باتیں خود سے اخذ کر لی تھیں جہاں اویس و حسان نے اس کی نگاہوں کی چوری پکڑی تھی۔ وہاں آمنہ کی کزنز نے بھی آثیر کی نگاہوں کی بے باکی اور بے خوفی ملاحظہ کی تھی اور پھر سب نے ایک دوسرے کو بات بتائی تھی۔ آثیر کی نگاہ وقتا فوقتا اسے چھو کر پلٹ آتی ۔ آمنہ کی کزن سماویہ نے یہ منظر پوری جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ یاد کر لیا۔
سماویہ ویسے آمنہ سے خارکھانے لگی تھی آمنہ سماویہ کے چچا کی بیٹی تھی پورے گھر کی لاڈلی چچا جان کو اپنی اس چھوٹی بیٹی پر بے پناہ فکر تھا۔ سماویہ کے ماموں کی فیملی کینیڈا میں رہائش پذیر تھی۔ وہ چھٹیوں میں پاکستان آتے جاتے رہتے تھے سماویہ کی ممانی زہرا کو ایک القاتی ملاقات میں آمنہ بھا گئی۔ وہ کسی کو بتائے اور مشورہ کیے بغیر سیدھی سماویہ کے چچا عباس کے گھر پہنچ گئی اس بات کی خبر جب سماویہ اینڈ فیملی کو ہوئی تو جھگڑا ہوا تو آس لگائے بیٹھے تھے کہ سماویہ سے بڑی بیٹی ہادیہ کا رشتہ ماموں کے بیٹے کو دیں گے اور ادھر اور ہی کہانی چل رہی تھی۔ عباس چچا تک بھی یہ قصہ مبالغہ آمیزی اور افسانہ طرازی کے ساتھ پہنچا تو انہوں نے نرمی سے سماویہ کے ماموں ممانی کو انکار کر دیا اور پھر بالا ہی بالا زہرا ممانی نے اپنی بہن کی بیٹی سے لاڈلے سپوت کی نسبت طے کر دی۔ اس کا ذمہ دار بھی آمنہ کو ٹھہرایا گیا نہ وہ ہوتی اور نہ یہ رشتہ ہاتھ سے نکلتا۔ تب سے سماویہ نے تو اس سے ضد ہی باندھ لی تھی آمنہ اسے بہت بری لگنے لگی تھی۔ پورے خاندان کی عورتیں آمنہ کی مثالیں دیتی کہ لڑکیوں کو ایسا ہونا چاہیے ۔ بلا ضرورت وہ بولتی نہیں تھی اپنے کام سے کام رکھتی فضول کی شوخی اور دکھاوا اس کے مزاج سے کوسوں دور تھا۔ وہ سنجیدہ باوقار اور رکھ رکھاؤ والی تھی اسے دیکھتے ہی ذہن میں احترام کا تصور ابھرتا تھا۔ بلا ضرورت وہ کزنز سے فری نہیں ہوتی تھی سلیقے اور ڈھنگ کے کپڑے پہنتی فیشن کرتی تو ایک حد میں رہ کر۔ بہت سی ماؤں کے لیے وہ ایک آئیڈیل بچی تھی ان سب باتوں سے قطع نظر پیٹھ پیچھے آمنہ کا مزاق اڑایا جاتا اس کی ڈریسنگ اور حلیے پر طنز کیے جاتے اور یہ اعتراض اور طنز کرنے میں لڑکیاں پیش پیش ہوتیں۔ اس وقت حد ہو گئی جب حافظ اسرار کا رشتہ آمنہ کے لیے آیا ۔
حافظ اسرار سلجھا ہوا معزز خاندان کا نوجوان تھا۔ پیشے کے لحاظ سے وہ انجینئر تھا اور اچھا خاصا خوش شکل اور سمارٹ تھا۔ ابھی آمنہ کے گھر والوں نے سوچنے کے لیے ٹائم مانگا تھا حتمی طور پر رضا مندی یا انکار نہیں ہوا تھا پر لڑکیوں کے ہاتھ مزاق آ گیاتھا۔ پھوپو کی بیٹی سدرہ نے تو اپنی ماں سے صاف کہہ دیا تھا ۔
” ہمیں آمنہ کی مثالیں مت دیا کریں ہم اس کی طرح بن گئے تو پھر حافظ اسرار جیسے مولویوں کے رشتے ہی ملیں گے اور مجھے مولوی پسند نہیں۔” اس لطیفے نے سارے خاندان میں گردش کی تھی۔