وہ دونوں اس وقت فوڈ ایریا کے گوشے میں بیٹھے تھے ۔سروس بوائے کافی رکھ کر جا چکا تھا ۔تھرماکول کے کپ سے اٹھتی گرم کافی کی بھاپ فضا میں مدغم ہو رہی تھی ۔سفید شرٹ کے اوپر گرے ٹی شرٹ پہنے حسن مجتبٰی کے سامنے ایک کاغد رکھا ہوا تھا ۔وہ ہاتھ میں پین تھامے اس پر مختلف جگہوں پر نشان لگا رہا تھا ۔
“مس انابہ! آپ نے صرف یہ کام کرنا ہے کہ ڈی ڈی کمپنی کی سیکیورٹی ٹیم میں سے کسی آسان ہدف کی نشاندہی کرنی ہے ۔ایک ایسے شخص کی نشاندہی جسکا استعمال کر کے ہم کمپنی کے ڈیٹا بیس میں نقب لگا سکتے ہیں ۔سمجھ رہی ہیں نا آپ؟” اسنے کہتے ہوئے انابہ کی جانب دیکھا جو قدرے اکتائے انداز میں اسکی جانب متوجہ تھی۔
” میں واقعی یہ نہیں سمجھ پا رہی ہوں کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اس طرح غیر قانونی طور پر ہیکنگ کرنا… نو وے… اگر میں پکڑی گئی تو… “اسنے اپنے دونوں ہاتھ کھڑے کئے۔
وہ بے اختیار گہری سانس لے کر رہ گیا۔”مس سلمان! میں یہ سب اسلئے نہیں کر رہا کہ کمپنی کے راز چرا کر میں انہیں بلیک میل کروں یا اونچی قیمت پر کسی دوسری کمپنی کو فروخت کر دوں ۔آپ جانتی ہیں میں حسن مجتبٰی ہوں ۔اس طرح کے کام نہیں کر سکتا ۔اور آپ کے اوپر کوئی آنچ نہیں آئیگی۔آپ کو پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے ۔میں ہوں نا آپ کہ حفاظت کے لئے ۔”اسنے بالکل عام سے لہجے میں اسے دلاسہ دیا مگر انابہ سلمان کی ساری کائنات اسکے اس جملے کے گرد ٹھہر گئی تھی ۔وہ دھیمے سے مسکرائی اور گرم کافی کا کپ اپبے سرد ہاتھوں سے تھاما۔
” اوکے! مگر مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ یہ سب رپورٹر ہونے کی حیثیت سے نہیں کر رہے بلکہ وجہ کچھ اور ہے یا شاید آپ کا مقصد محض ڈی ڈی کمپنی کو برباد کرنا ہے ۔”
حسن مجتبٰی کی گرفت کپ پر سخت ہوئی اور اسنے اپنے ازلی تیکھے انداز میں اسے دیکھا۔نہ جانے کیوں اسکی پیشانی پر ننھی بوندیں پھوٹ آئی تھیں ۔اگلے لمحے اس نے اپنی کیفیت پر قابو پایا ۔
” مجھے آپ کی ذہانت کا اعتراف ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ چیزوں کو بہت اچھی طرح جج کر سکتی ہیں ۔مگر پھر بھی میں آپ کو بتا دوں کہ میرا مقصد ڈی ڈی کمپنی کی حقیقت کا پتہ لگانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔مجھے کئی دنوں پہلے وہاں کے ایک ورکر نے بتایا تھا کہ وہاں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔کیا اب آپ مطمئن ہیں؟ “اس نے پوچھا ۔
” ہاں یہ ایک قابل یقین وجہ ہے ۔لیکن کیا آپ کو معلوم ہے؟”وہ میز پر دونوں بازو رکھے ذرا آگے کو ہوئی۔” ڈی ڈی کمپنی کے چیئرمین کریم یزدانی میرے ڈیڈ کے بھائی ہیں ۔مطلب جس کمپنی تک آپ رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ میرے بی لَوڈ انکل کی ہے ۔”وہ ذرا سا مسکرائی۔اسکی مسکراہٹ میں وہی تاثر تھا جو اپنے مقابل کو چاروں شانے چت کر دینے کے بعد ہوتا ہے ۔
حسن مجتبٰی یکدم بیچین ہوا اور اضطراری ردعمل کے طور پر کھڑا ہو گیا ۔چند لمحے بالوں پر ہاتھ پھیر کر خود کو پر سکون کرنے میں صرف کئے اور بیٹھ گیا ۔
” تم سلمان یزدانی کی بیٹی ہو مطلب ‘انابہ فیشنز’ کی انابہ تم ہی ہو؟” وہ سارے تکلفات کو نظر انداز کرتا ہوا بولا۔سامنے بیٹھی لڑکی نے صحیح معنوں میں اسکے پیروں تلے زمین کھینچ لی تھی۔اگر وقت سے پہلے کریم یزدانی آگاہ ہو جاتا تو وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔
“کیا میں بھی آپ کو تم بلا سکتی ہوں؟ “اسنے معصومیت سے کہا ۔اگر وہ سارے تکلفات کو برطرف کر سکتا ہے تو وہ کیوں پیچھے رہے۔
“انابہ آر یو شیور کہ تمہارا یہاں آنا، میرے آفس میں کام کرنا اور میرے پلانز جاننا یہ سب قصداً نہیں تھا؟” اسنے اسکی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ۔
انابہ نے اسے دیکھا ۔وہ واقعی بہت پریشان لگ رہا تھا ۔اسنے اسے مزید پریشان کرنے کا ارادہ ملتوی کیا. “آپ کو اندازہ ہے کہ میں نے آپ کو یہ کیوں بتایا؟ اسلئے نہیں کہ یہ کسی قسم کی دھمکی تھی یا میں آپ کو پریشان کرنا چاہتی تھی۔میرا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا۔میں محض آپ کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ میں آپ پر اعتبار کرتی ہوں اسلئے آپ بھی مجھ پر اعتبار کریں ۔اور میں یہاں کی کوئی بات وہاں نہیں بتانے جا رہی۔آف کورس یہ میرا کام ہے ۔میں نے کنٹریکٹ پر سائن کیا ہے کہ میں ٹرتھ مرر میں آنے کے بعد صرف حق کا ساتھ دونگی۔اسلئے یقین کریں کہ کم از کم میری وجہ سے آپ کو یا آپ کے کام کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوگا۔”وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں اسکی گہری بھوری آنکھوں میں اپنا عکس ڈھونڈتی کہہ رہی تھی ۔ایک لمحے کو حسن اسکی آنکھوں کی گہرائی میں ڈوبنے لگا۔اسکا ٹھہرا ہوا لہجہ اسے مجبور کر رہا تھا کہ وہ انابہ سے اعتبار کا تعلق استوار کر لے۔اسکی گہری بھوری آنکھوں میں انابہ کا مدھم سا عکس اترا اور اگلے ہی لمحے اسنے اپنا سر جھٹک دیا۔
“آپ مجھ پر اعتبار تو کرتے ہیں نا؟” اسے خاموش دیکھ کر وہ پوچھ بیٹھی۔
“میں اپنے علاوہ کسی دوسرے پر اعتبار نہیں کرتا۔” ٹھک سے اسکے منہ پر جواب مارا گیا ۔
“فائن! میں اب جاؤں؟” وہ خفگی سے کہتی کھڑی ہوئی۔اپنی لمبی چوڑی وضاحت کا ٹکا سا جواب سن کر اسے غصہ آ گیا تھا ۔
” شیور! میں نے ایک دفعہ بھی نہیں روکا۔” اسنے لاپروائی سے کہا۔
انابہ نے گہری سانس لے کر اپنے غصے پر قابو پایا ۔کیا فائدہ تھا اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کا جبکہ سامنے بیٹھے اس شخص پر کوئی اثر نہیں ہونا تھا۔بغیر اسے دیکھے اسنے میز پر رکھا اپنا ہینڈ بیگ اٹھا کر کوہنی پر ڈالا اور باہر نکل گئی۔
اسکے نکلتے ہی کرسی پر پیچھے ہو کر بیٹھے حسن کے لبوں پر ایک بے ساختہ سی مسکراہٹ ابھری جسے اسنے فوراً ہی دبا لیا تھا ۔
– – – – – – – – – –
اس کشادہ میدان میں لگے بک فئیر میں آبش کریم ایک اسٹال کے پاس کھڑی تھی ۔اسکے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔اسی وقت کسی نے اسے عقب سے مخاطب کیا تو اسکے کتاب کی ورق گردانی کرتے ہاتھ تھمے۔کتاب کو کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے وہ چہرے پر خوشگوار حیرت لئے پلٹی۔
“آپ؟” اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اسکا رواں رواں مسکرا اٹھا۔
“آپ مجھے دیکھ کر اتنی حیران کیوں ہیں؟” وہ جیسے اسکی حیرانی پر حیران ہوا۔
“مجھے یقین نہیں تھا کہ اتنی مصروفیت کے باوجود آپ یہاں آئینگے۔” اسنے کہا۔اسکے چہرے پر موجود چمک دیکھ کر کوئی بھی اندازہ کر سکتا تھا کہ نووارد اسکے لئے کس اہمیت کا حامل ہے ۔
“آبش! کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ مجھے بلائیں اور میں نا آؤں؟” اسکے جملے سے آبش کے چہرے پر ہلکی سی سرخی پھیلی اور عنابی لب مسکرا اٹھے۔
” آپ کو کتابیں اچھی لگتی ہیں؟” آبش نے پوچھا ۔
“ہاں کیوں نہیں؟ ویسے کس کتاب کو آپ اتنے انہماک سے دیکھ رہی تھیں کہ میری موجودگی کا احساس بھی نہیں ہوا۔”وہ جیسے جیلس ہوا تو وہ دھیرے سے ہنسی۔
“مجھے اگاتھا کرسٹی کے ناول پسند ہیں ۔” اسنے کہتے ہوئے ایک کتاب اٹھا کر اسے دکھائی ۔
” مجھے آٹو بایو گرافی اچھی لگتی ہے ۔”وہ جھک کر دوسری کتاب اٹھاتا ہوا بولا۔آبش نے مسکرا کر جیسے اسکے ذوق کو سراہا۔
” یہ دونوں کتابیں پیک کر دیں ۔” وہ اب دکاندار کو ہدایت دے رہا تھا ۔
بل پے کر کے وہ اسکی جانب متوجہ ہوا۔”یہ میری طرف سے آپکے لئے چھوٹا سا تحفہ. “اسنے پیکٹ اسکی جانب بڑھاتے ہوئے کہا ۔
“مگر میں تو بایوگرافی نہیں پڑھتی۔”
“اٹس اوکے! بس اپنے پاس رکھ لیں ۔” اسنے اصرار کیا تو اسنے پیکٹ تھام لیا تھا۔
– – – – – – – – – –
گرمیوں کی دوپہر ڈھل کر شام میں تبدیل ہو چکی تھی ۔دن بھر چمکنے والے سورج کی تمازت اب قدرے مدھم تھی ۔فٹبال گراؤنڈ کی سیڑھیوں پر دو کم عمر لڑکے بیٹھے تھے۔ان دونوں نے اپنے آگے ٹفن باکس کھولے ہوئے تھے۔انکی عمر بارہ تیرہ برس سے زیادہ نہیں تھی۔اسکول یونیفارم میں ملبوس لڑکوں میں سے ایک کی آنکھ گہری بھوری تھی اور دوسرے کی آنکھوں میں معصومانہ تاثر تھا۔
“وکی! تمہاری ممی کا بنایا مٹر قیمہ بہت لاجواب ہوتا ہے ۔” آنکھوں میں معصومانہ تاثر والے لڑکے نے آخری لقمہ کھاتے ہوئے کہا ۔
“اسی لئے تو میں انٹرول میں لنچ نہیں کرتا۔بلکہ تمہارے ساتھ کرتا ہوں ۔” وکی نے مسکرا کر کہا تھا ۔ان دونوں کے اسکول الگ الگ تھے۔مگر پھر بھی انکا معمول تھا کہ چھٹی کے بعد اس فٹبال گراؤنڈ میں روز ملتے تھے۔
“تھینک یو وکی۔” وہ اب انگلیوں سے ٹفن کو صاف کر رہا تھا ۔” اور ایک ماموں کے گھر کھانا پکتا ہے ۔اس میں وہ ذائقہ ہی نہیں ہوتا جو تمہاری ممی کے کھانوں میں ہوتا ہے ۔”
“ہاں میری ممی دنیا کی بیسٹ کک ہیں۔” اسنے فخر سے کہا ۔
“میری مما دنیا کی بیسٹ تو نہیں مگر ایک اچھی کک تھیں ۔کیونکہ وہ میرے لئے جو پکاتی تھیں مجھے اچھا لگتا تھا ۔پاپا تو انکی بریانی کے فین تھے۔”افہام کہتے کہتے کہیں کھو گیا تھا ۔جب پرانی باتوں نے ذہن پر تیزی سے دستک دینا شروع کیا تو اسکی آنکھیں نم ہونے لگیں ۔وکی نے ہاتھ بڑھا کر اسکا کندھا تھپکا اور اپنے ہونے کا احساس دلایا۔افہام نے گیلی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا اور دھیمے سے مسکرانے کی کوشش کی۔
” افہام حیدر! ہمارے آنسو ہماری سب سے بڑی کمزوری ہوتے ہیں.” اسنے دو تین سال پہلے کا پڑھا سبق دہرایا۔یہ اسکی فیورٹ لائن تھی. اسکی زندگی اسی سطر کے مدار میں گردش کرتی تھی۔
اثبات میں سر ہلا کر افہام نے پہلے نیپکن سے اپنے ہاتھ صاف کئے اور پانی کی بوتل لبوں سے لگاتے ہوئے گھونٹ گھونٹ پانی پینے لگا۔
” تو میں کیا کروں؟ ماموں نے پاپا کی دو ملیں، فیکٹری، پلاٹ غرض ہر چیز اپنے نام کر لی ہے ۔ اپنا سب کچھ ہوتے ہوئے مجھے بھکاریوں کی طرح زندگی گزارنی پڑ رہی ہے ۔اُس گھر میں مجھے ہر لمحہ ٹارچر لگتا ہے ۔تو تم بتاؤ کہ میں کس طرح مضبوط بنوں؟” اسنے بے بس لہجے میں کہا ۔
” تم انتظار کرو افہام…. انتظار کرو۔اس وقت کا انتظار کرو جب ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائینگے۔اور پھر میں اپنے پپّا کے قاتل کو ڈھونڈ کر اسے اسی طرح تباہ کرونگا جس طرح اسنے میری فیملی برباد کر دی۔اور تم…. “اسنے رک کر اپنی انتقام کی آگ سے سرخ ہوتی آنکھوں سے افہام کو دیکھا۔” اور تم افہام اپنا حق واپس لوگے۔چاہے اسکے لئے تمہیں کچھ بھی کرنا پڑے تم پیچھے نہیں ہٹوگے۔تمہیں مضبوط بننا ہوگا۔تمہیں لڑنا ہوگا۔”تیرہ سالہ وکی کے لہجے میں آگ بھری ہوئی تھی ۔
” تم میرے ساتھ ہو تو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں ۔” اس دفعہ اسکا لہجہ مضبوط تھا۔
وکی نے ایک طویل سانس لے کر اپنے جذبات پر قابو پایا ۔
” خیر! کل ممی سے میں نے آلو کے پراٹھے پکانے کو کہا ہے ۔اسلئے ورلڈس بیسٹ پراٹھا کھانے کے لئے تیار رہنا۔” اسکا لہجہ نارمل ہو گیا تھا ۔
” یہ کیا بات ہوئی؟ اب میں کل کا انتظار کس طرح….” وہ کچھ کہہ رہا تھا کہ اسکے پیروں کے پاس فٹبال آکر گری ۔
“اوئے! بال ادھر پھینک۔”نیچے کھڑے لمبے لڑکے نے اسے آواز دی۔
افہام نے بیٹھے ہی بیٹھے فٹبال اٹھا کر نیچے پھینکی۔لمبے لڑکے نے بال نیچے آتے ہی اس پر ایک زور کی کک لگائی تھی۔بال اڑتی ہوئی افہام کے چہرے پر لگی۔وہ اپنی ناک دبائے نیچے جھک گیا ۔
“افہام! تم ٹھیک ہو؟” وکی نے پریشانی سے کہتے ہوئے اسکے چہرے سے اسکا ہاتھ ہٹایا۔اسکی ناک سے خون بہہ رہا تھا.
“او! بال اپنے پاس کیا رکھ لی ہے؟ ادھر دے۔” لمبے لڑکے نے غصے سے کہا ۔
وکی نے اسے دیکھا اور بال اٹھا کر زور سے ان لڑکوں کی طرف دے ماری۔گیند اس لڑکے کے سینے پر لگی تھی اور وہ زرا سا پیچھے لڑکھڑایا۔
“اٹھو افہام!” وکی نے اسکا اور اپنا بیگ اٹھایا۔افہام بھی شرٹ کی آستین سے خون صاف کرتا کھڑا ہو گیا ۔
” او ہیرو! جا کہاں رہے ہو؟” نیچے کھڑے لڑکے کے للکارنے پر وہ دونوں رک گئے۔
“ہاں تم سے ہی کہہ رہا ہوں ۔تمہاری ہمت کس طرح ہوئی کہ مجھ پر بال پھینکو۔”
لمبا لڑکا تندی سے کہتا ہوا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔اسکے ساتھ کھڑے لڑکے بھی اسکے پیچھے تھے۔
“شروعات تم نے کی تھی ۔تمہاری وجہ سے میرے دوست کو چوٹ لگی ہے ۔” وہ بے خوف لہجے میں بولا۔
“وکی چھوڑ یار! انکے منہ لگنا صحیح نہیں ہے ۔”افہام بے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
لیکن تب تک لمبا لڑکا وہاں پہنچ چکا تھا ۔اسنے وکی کا کالر پکڑ کر ایک بھر پور تھپڑ اسکے چہرے پر مارا۔وہ لڑکھڑا گیا۔اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا ۔افہام نے اپنے کندھے پر ٹنگا بیگ گھما کر لڑکے کے چہرے کی طرف چلایا تھا جو اسکے منہ پر لگا۔
لمبے لڑکے کے ساتھ کھڑے اسکے دوست تیزی سے افہام کی جانب جھپٹے۔پھر ان چاروں لڑکوں نے مل کر افہام اور وکی پر لاتوں اور گھونسوں کی برسات کر دی تھی۔ان میں سے ایک لڑکے نے وکی کو دھکا دیا ۔وہ سیڑھیوں سے لڑھکتا ہوا نیچے گراؤنڈ میں جا گرا۔پورے جسم میں اٹھتی ہوئی تیز ٹیسوں اور ہونٹ سے رستے خون نے اسکی حالت مخدوش کر دی تھی۔زمین پر گرے ہوئے اسنے اوپر دیکھا ۔وہاں اب بھی ایک لڑکا افہام کو مارے جا رہا تھا ۔اس نے گھٹنے کے بل جھکے ہوئے ہاتھ میں تین چار پتھر اٹھائے اور کھڑا ہو گیا ۔نشانہ لگاتے ہوئے اسنے تاک کر ایک ایک پتھر ان لڑکوں پر چلایا. پتھر پوری قوت سے پھینکا گیا تھا اسلئے وہ چاروں بلبلا اٹھے۔اتنا موقع افہام اور وکی کے لئے کافی تھا۔دونوں بھاگتے ہوئے سڑک پر نکل آئے اور ہانپتے ہوئے فٹ پاتھ پر ہی بیٹھ گئے ۔اتنے لوگوں کے سامنے وہ لڑکے انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے ۔
“کوئی گھر پر پوچھیگا تو کیا کہوگے؟” وکی نے اپنی سانسیں درست کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔
ان دونوں کے چہرے بری طرح سوج چکے تھے۔
وکی کی بات سن کر وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا۔”کسی کو کوئی پروا نہیں ہوگی۔اگر کسی دن میں گھر واپس نہیں بھی پہنچا تو کسی کو یاد بھی نہیں رہیگا کہ وہاں کوئی افہام بھی رہا کرتا تھا ۔” اسکے لہجے میں اداسی اتری۔
“جو تمہاری پروا نہیں کرتے ان کے لئے اداس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔”وکی نے لاپروائی سے کہا۔وہ اپنے رومال سے اسکے چہرے پر لگے خون کو صاف کر رہا تھا۔
” اور تم اپنی ممی سے کیا کہوگے؟ ”
” بتاؤ گا کہ جھگڑا ہوا تھا ۔وہ مجھے دو تھپڑ اور لگائینگی اور کہینگی کہ وکی تمہارا باپ نہیں ہے جو زمانے کے سرد و گرم سے تمہاری حفاظت کر سکے۔اسلئے خود کو مشکل میں ڈال کر مجھے تکلیف میں دیا کرو۔” اسنے مسکراتے ہوئے اپنی ماں کے لہجے کی نقل کی ۔
” تمہاری ممی صحیح کہتی ہیں ۔ہمارے سر پر کسی کا محفوظ سائبان نہیں ہے ۔ہم ان بچوں میں سے نہیں ہیں جو گھر کے باہر کچھ بھی کر لیتے ہیں کہ اگر کوئی پریشانی ہوئی تو کوئی ہے جو اسے سنبھال لیگا۔ہمیں محتاط رہنا چاہیے ۔” اسنے کہا۔
“یار! اب تم تو ممی نا بنو۔” وہ اکتایا۔” ابھی گھر جا کر مجھے انکی دو گھنٹے کی ڈانٹ ہضم کرنی ہے ۔”
” اچھا اب میں نہیں بولتا۔لیکن کل آلو کے پراٹھے لے کر ضرور آنا۔”
وہ دونوں کھڑے ہو گئے تھے ۔
– – – – – – – – –