پھر وہ دن بھی آ پہنچا جس کا جنت نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا— معیز ایک اچھا انسان تھا مگر وہ اسکا آئیڈیل نہیں تھا وہ بل گیٹس نہیں تھا— صبح سے گھر میں ایک شور مچا ہوا تھا ہر شخص دلہن کے بخار کو لیکر باتیں کررہا تھا— حمنہ نے امی کو پریشان دیکھا تو جنت کے سر پر جا پہنچی— جسے کچھ دیر میں پارلر کیلیے نکلنا تھا اسکی ہر چیز عام تھی— بلکہ اچھی تھی مگر برانڈڈ نہیں تھی “کیا تکلیف ہے تمہیں– دوا کیوں نہیں لے رہی مرنا ہے تو ایک بار ہی کیوں زہر نہیں کھالیتی— باہر رشتے داروں نے سوال کر کے امی کا دم نکال دیا ہے—- تمہیں ذرا بھی احساس ہے” جنت زرد جوڑے میں سرسوں کا پھول ہی لگ رہی تھی مگر اسکی ناک بےتحاشا سرخ ہورہی تھی چہرہ بھی پر حدت تھا “میرا احساس ہے کسی کو— زہر ہی تو پی رہی ہوں تم لوگوں کی خوشی کی خاطر اور کیا چاہتے ہو” نقاہت کے باعث اس سے بولا نہیں جارہا تھا آنکھوں میں لال ڈورے تیر رہے تھے اسکی حالت قابل رحم تھی “جنت میری بہن کیوں اپنی خوشیوں کی دشمن بنی ہوئی ہو” حمنہ نے اسے گلے لگاتے کہا “ہاتھ مت لگاؤ مجھے” جنت نے اسے دور دھکیلا— بخار میں پھنک رہی تھی وہ “بس رخصت کرو مجھے اس کے بعد پلٹ کر نہیں دیکھوں گی تم لوگوں کو— اتنی بھاری تھی میری دو وقت کی روٹی کہ میرے ارمانوں کا قتل کردیا تم سب نے مل کر” اسکی آواز رونے کے باعث بالکل بیٹھ چکی تھی— پارلر جاتے وہ اتنی ٹوٹی ہوئی تھی کہ ستار صاحب نے اسے خود سموتے خوب دل ہلکا کیا اتنا سوگوار اور اداس ماحول بن گیا— تمام رشتےدار, حمنہ ہر شخص کی آنکھ اشکبار تھی اسٹیج پر جب وہ اسکے برابر بیٹھی تو معیز علی نے اپنے دھڑکتے دل کو بمشکل تھاما تھا وہی تو ان حسین و یادگار لمحات کو محسوس کررہا تھا وہی تو جانتا تھا کہ وہ اس پل کیسے اسکے حواسوں پر چھا رہی ہے— اسکی جھکی پلکوں کی لرزش تک وہ جانچ رہا تھا— آخر کار دولہے کی یہ وارفتگیاں سب کی نظروں میں آگئیں “اہوں” حمنہ نے جنت کا درست دوپٹہ پھر سے ٹھیک کیا
“نگاہوں کو ذرا کنٹرول میں رکھیں جی جا جی” اسکا دوپٹہ درست کرنے کے بہانے وہ معیز کی جانب ہلکے سے جھک کر بولی تو وہ خفیف سا ہوگیا—جنت ان دونوں کی گفتگو سے لاتعلق بنی بیٹھی رہی— دودھ پلائی میں حمنہ سے اس نے خوب بحث کی بالاآخر اسے رونے والا کر کے سونے کی چین دی جس پر کچھ کزن خوش ہوئیں اور کچھ حسد کا شکار— رخصتی کے وقت معیز کی والدہ نے بہت شائستگی سے معزرت کرلی تھی کہ دلہا دلہن کے ساتھ گاڑی میں کوئی نہیں بیٹھے گا— ورنہ ساتھ جانے والی خالہ کا ارادہ تھا پیچھے جنت کے ساتھ بیٹھنے کا “دلہا دلہن اکیلیے کیسے جاسکتے ہیں— عجیب لوگ ہیں” سب منہ مروڑنے لگے “عجیب کیا ہے اس میں؟؟؟ جسکی دلہن ہے وہی لے جارہا ہے کوئی غیر تھوڑی ہے” معیز کی والدہ نے ان کا منہ بند کردیا— سب نے محسوس کیا تھا وہ عورت بہت نرم خو تھی مگر جہاں اسکے بیٹے کی خواہش کی بات آتی مقابل کو ٹکے کا جواب دیتی— جنت اور معیز گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے— ڈرائیور آگے بیٹھا گاڑی چلا رہا تھا—- وہ سمٹی سی دروازے سے لگی تھی “ایزی ہوجاؤ جنت” اس وقت بہت چاہنے کے باوجود وہ کسی قسم کے اظہار سے اجتناب کررہا تھا اسکے اوپر حاوی نہیں ہونا چاہتا تھا— اسے اپنے پیار کا اپنے ساتھ کا مان دینا چاہتا تھا— جانتا تھا یہ شادی اسکی رضامندی کے بغیر ہورہی ہے مگر اپنے دل کا کیا کرتا جو اسے کانفرنس والے دن دیکھ کر ہی دغا دے چکا تھا— جنت انگلیاں موڑ کر آنسو صاف کررہی تھی—نیٹ کے دوپٹے کا گھونگٹ کیا ہوا تھا جو آجکل فیشن میں بڑا اِن تھا— معیز نے اپنا رومال نکال کر اسکی جانب بڑھایا— جنت نے اسکے سفید رومال سے آنسو صاف کرنے شروع کردیے
**************
رات کے دو بج چکے تھے—مہمان تھے کہ اس کے سر پر سوار ہو رہے تِھے چھوٹے چھوٹے بچے دلہن دیکھنے کے اشتیاق میں اسکے گرد ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے— جنت کا تھکن سے برا حال تھا بخار کی وجہ سے نقاہت اور سستی الگ ہورہی تھی— اسکی ساس نے بہت مشکل سے سب کو کمرے سے نکالا— گھر ویل فرنشڈ اور نہایت خوبصورت آشیانہ تھا اسکی ساس کہہ رہی تھیں “میری چھوٹی سی جنت ہے یہ اور اپنی پیاری سی جنت کو سونپ رہی ہوں—” جنت کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے کتنی ممتا بھری چاہت سے کہا تھا “اکلوتا بیٹا ہے میرا— میری کل کائنات بہت مشکل ہے آج کے دور میں اکیلی عورت کا بیٹے کی پرورش کرنا— میرا معیز ہر برائی سے پاک ہے— فرشتہ نہیں ہے مگر ایک اچھا اور بہترین انسان ہے مجھے فخر ہے معیز علی کی ماں ہونے پر اور تم بھی فخر محسوس کروگی اُسکی بیوی بن کر” جنت کو ان کے معیز نامے سے چڑ ہورہی تھی مگر برداشت کرگئی (محل کھڑے کر رکھے ہیں نا آپ کے بیٹے نے جو مجھے فخر ہوگا اسکی بیوی بن کر) جنت کے منہ میں کڑوے بادام کا سا ذائقہ گھل گیا— ان کے جاتے ہی جنت بیڈ سے نیچے اُتری— ڈریسنگ کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے دوپٹے سے پنیں نکالنے لگی— گھونگٹ والا دوپٹہ آدھا بیڈ پر تھا اور آدھا نیچے دوسرا اس نے ڈریسنگ کی سیٹ پر رکھ دیا— گَھر کے گراؤنڈ فلور پر دو کمرے, امریکن کچن اور ٹی وی لانج تھا اور دوسرے فلور پر ایک بڑا سا کمرہ اور ٹی وی لانج تھا اوپر والا پورشن ان کا تھا— پورے گھر میں ماربل لگا تھا— فرنیچر بھی خوبصورت تھا— شو پیس, پینٹنگز وہ سچ مچ چھوٹی سی جنت تھی مگر جنت کو تو بڑا محل چاہیے تھا اتنا بڑا کہ اسکی خود کی ذات اُس میں گم جائے معیز ہلکی سی دستک دے کر کمرے میں داخل ہوا—جنت نے ڈریسنگ مرر سے نظر ہٹا کر اسے دیکھا— معیز نے آگے بڑھ کر بیڈ سے لٹکتے اس کے دوپٹے کو اوپر کر کے رکھا— جنت اس سے بےنیاز بنی اپنے زیورات اُتار رہی تھی “کس جنم کا بدلہ لے رہی ہو مجھ سے؟؟؟” معیز نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا— اسے ابھی بھی بخار تھا— معیز کا لہجہ سرگوشیانہ تھا “اتنا بھی حق نہیں بنتا کہ تمہیں جی بھر کر دیکھ سکوں” اس نے جنت کے ہلتے جھمکے کو دو انگلیوں سے پکڑتے پوچھا—وہ نظریں جھکائے کھڑی تھی “میں تمہیں بنگلے گاڑیاں دینے کے وعدے نہیں کرتا مگر کوشش ضرور کروں گا تمہاری ہر خواہش پوری کرنے کی” اس نے جنت کا مہندی سے سجا اور چوڑیوں سے بھرا ہاتھ اپنی گرفت میں لیتے دبایا— اسکے لمس کی حدت جنت کو سہمائے دے رہی تھی وہ ہونٹ تک نہیں ہلا پارہی تھی “ریسیپشن کے ڈریس کیلیے آئی ایم رئیلی سوری شادی کے اخراجات اتنے تھے کہ میری ساری سیونگس ختم ہوگئیں— پھر جو ڈریس مما نے پسند کیا میں نے وہی خرید لیا” وہ بہت دیر تک منتظر ہی رہا کہ وہ کچھ بولے مگر اس نے سر نہ اٹھانے کی قسم کھا رکھی تھی “جنت” معیز نے اسکی ٹھوڑی تھام کر چہرہ اوپر اٹھایا— آنسوؤں سے تر مکھڑا اسکی نظروں کے سامنے تھا “کیوں اتنا ظلم کررہی ہو خود پر؟؟؟” اس نے جنت کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے صاف کیا اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود نیچے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا— اسکے حنائی ہاتھوں کو اپنی مضبوط گرفت میں لیا “کیا چیز رلا رہی ہے تمہیں بتاؤ مجھے” وہ اسکے ہاتھوں پر دباؤ ڈالتا اسرار کررہا تھا “مم— میں” جنت کے ہونٹ پھڑپھڑائے “بولو” معیز نے اسکی ہمت بندھائی “مم— مجھے بھوک لگ رہی ہے” بتاتی ہوئے پھر رونے لگی “اوہ میرے خدا–” معیز نے اپنے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیرا “تو اس میں رونے کی کیا بات ہے” اسکا نرم لہجہ ہوا میں تحلیل ہوگیا—جھنجھلا کر بولا تھا “کمرے میں کوئی فریج بھی نہیں ہے— میں کہاں سے کھاؤں گی” “میرا سر کھالو” معیز کھڑا ہوگیا “مما نے تم سے کھانے کا نہیں پوچھا تھا” معیز ٹہلتے ٹہلتے رُکا “پوچھا تھا” “پھر” “میں نے منع کردیا” جنت معصومیت سے بولی “مگر کیوں؟؟؟” معیز چیخا “مجھے تب بھوک نہیں تھی” جنت بڑے اطمینان سے اسکے سوالوں کے جواب دے رہی تھی “اور میرا رومانوی انداز دیکھ کر تمہیں بھوک لگنے لگ گئی” معیز نے شکی نظروں سے گھورا “پہلے دن ہی آپ مجھے روٹی کیلیے ترسا رہے ہیں ساری زندگی کیا حال کریں گے میرا” جنت نے اسے ایموشنل بلیک میل کیا “اچھا اچھا کچھ کرتا ہوں میں—” جاتے ہوئے پھر پلٹا “خبر دار جو چینج کیا تو” انگلی اٹھا کر وارن کیا— جنت نے سر ہلایا— معیز نے تھوڑا سا سر باہر نکال کر دیکھا لانج کی لائٹ آن تھی— سارے بچے نیچے رضائیاں بچھا کر سورہے تھے— وہ دبے پیر سیڑھیوں سے نیچے اُترا اور کچن کا رُخ کیا ڈر بھی تھا کوئی دیکھ نہ لے— دلہن کے گھر سے آئے کھانے میں سے اس نے بریانی نکالی اور اوون میں گرم کرنے لگا— اپنے پیچھے کھٹکے کی آواز پر چار سو چالیس والٹ کے کرنٹ لگنے والے تاثرات پیش کرتا اُچھلا— پھر حسنہ بیگم کو دیکھ کر لمبی پر سکون سانس خارج کی “معیز تم یہاں کیا کررہے ہو” وہ اسکے پاس آکر بولیں
“معیز تم یہاں کیا کررہے ہو” وہ اسکے پاس آکر بولیں “مما جنت کو بھوک لگ رہی ہے” وہ فریج سے پانی کی بوتل نکالنے لگا “ہٹو میں کرتی ہوں” اسے فریج میں سے کھیر کا باؤل نکالتے دیکھ کر بولیں “نہیں آپ سو جائیں جا کر میں کون سا پہلی بار کررہا ہوں” وہ ہلکا سا مسکرا کر بولا— وہ بھی مسکرانے لگیں “پہلے کی بات اور تھی مگر آج میرا بیٹا دولہا بنا ہے—” “دولہا بنا ہوں تو اب دلہن کے نخرے تو اٹھانے پڑیں گے نا” اس نے ٹرے بنالی تھی— حسنہ بیگم نے بریانی اوون سے نکال کر باؤل میں ڈالی اور ٹرے میں رکھ دی “اب آپ سوجائیں جا کر” معیز نے ان کی پیشانی پر بوسہ دیتے کہا اور ٹرے اٹھالی وہ مسکراتے ہوئے اسکا شانہ تھپکتی چلی گئیں معیز ابھی ٹرے لے کر کمرے میں داخل ہوا تو جنت ٹی وی ٹرالی کے اوپر والے خانے میں سجی اسکی بےشمار ٹرافییز, میڈلز اور سرٹیفکیٹس دیکھ رہی تھی— اسکے کہنے پر جنت نے لباس تبدیل نہیں کیا تھا “اتنی دیر لگادی آپ نے” وہ منہ بسور کر بولی “دولہا ہوں تمہارا ،خادم نہیں” معیز نے بھی منہ بگاڑا “جلدی سے کھاؤ” معیز نے ٹرے بیڈ پر رکھی— کمرے میں ہر طرف گلاب کی پتیاں بکھری تھیں اور بیڈ کے اوپر بھی لمبی لمبی لڑیاں لٹک رہی تھیں مگر دلہن کے تو جذبات ہی مردہ ہوچکے تھے بیچارے دولہے کو بھی اپنی خدمت پر لگادیا— جنت خاموشی سے بیڈ پر آبیٹھی— اسکے چلنے سے چوڑیوں کی جلترنگ سی کمرے میں گونجنے لگتی— اسے کھاتا چھوڑ کر معیز فریش ہونے چلا گیا— تھوڑی دیر بعد سفید ہلکی سی شرٹ اور بلیک ٹراؤزر میں گیلے بال رگڑتا باہر نکلا—منہ میں کھیر کا چمچ ڈالتی جنت نے نظروں کی تپش محسوس کر کے اسکی جانب دیکھا وہ لودیتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا پھر گرنے کے انداز میں اس کے پاس ڈھیر ہوگیا— جنت پہلے ہی کنارے پر بیٹھی تھی مزید دور کیا ہٹتی کھیر پتھر بن کر گلے میں اٹک گئی— کہنی کے بل ترچھا سا لیٹا وہ اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا جنت نے بلا وجہ اپنا لہنگا سمیٹا—- کھیر نگلنا دو بھر ہوگیا “کھاؤ نا” نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر اسکی حالت سے حظ اُٹھاتا بولا “مجھے لگتا ہے تمہارا پیٹ بھر گیا ہے” وہ سیدھا ہو کر اسکے برابر بیٹھ گیا— جنت کا شانہ اسکے کندھے سے ٹکرا رہا تھا “نن—نہیں” اس نے سوچا بھی نہیں تھا کبھی وہ اس شخص سے اتنی نروس ہوگی— اسکی نگاہوں سے پزل ہونے لگے گی— معیز نے ہاتھ لمبا کر کے اسکے دوسرے شانے تک پھیلاتے اسے اپنے قریب کرلیا “تمہیں آج اتنی بھوک کیوں لگ رہی ہے” وہ اس پر طنز کررہا تھا شاید—جنت گومگو کی کیفیت سے دوچار کسی بھی قسم کا اظہار نہیں کرپارہی تھی “بے وقت کھانا اچھا نہیں ہوتا” وہ مزید بولا— پہلی رات ہی ڈسپلن سکھا رہا تھا— “میں یہ رکھ کر آتا ہوں” وہ بیڈ سے نیچے اُترا اور ٹرے اٹھا کر کمرے سے نکل گیا— جب واپس اندر آیا تو جنت اپنا جوڑا کھول چکی تھی— انگلیوں سے انگوٹھیاں اُتار رہی تھی “تمہاری اس حرکت پر دل نہیں چاہ رہا تمہیں رونمائی کا تحفہ دوں” معیز کا دل خراب ہونے لگا اسکی بجھی بجھی صورت دیکھ کر “مانگا کس نے ہے آپ سے رونمائی کا تحفہ؟؟؟ ایک چیز مانگی تھی وہ بھی نہیں لے کر دی” جنت کا اشارہ ولیمے کے سوٹ کی جانب تھا “تم نے تو پہلی رات ہی طعنے دینے شروع کردیے ہیں” معیز کو اسکی ناراضگی بجا لگی تھی تبھی برا مانے بغیر ہنس کر ٹال گیا “مت اُتارو نا اچھی لگ رہی ہیں” چوڑیاں اُتارنے کیلیے اس نے ہاتھ بڑھایا تو وہ اسکی کلائی پکڑ گیا “مگر مجھے اُلجھن ہورہی ہے” جنت نے اس سے کلائی چھڑوانے کی کوشش کی “میں اُتار دوں گا” معیز نے اسے اپنی پناہوں میں لیتے سرگوشی کی
چہرے پہ میرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
رازوں کی طرح اترو میرے دل میں کسی شب
دستک پہ میرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن
پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہالوں
بادل کی طرح جھوم کے گھِر آؤ کسی دن
خوشبو کی طرح گزرو میرے دل کی گلی سے
پھولوں کی طرح مجھ پہ بکھر جاؤ کسی دن
پھر ہاتھ کو خیرات ملے بندِ قبا کی
پھر لطف شب وصل کو دھراؤ کسی دن
گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے
اس طرح میری رات کو چمکاؤ کسی دن
میں اپنی ہر اک سانس اسی رات کو دے دوں
سر رکھ کے میرے سینے پہ سو جاؤ کسی دن
**************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...