وہ سگریٹ ہونٹوں میں دبائے جانے کیا کیا سوچے جارہا تھا۔ بار بار سمل کا معصوم چہرہ اسکی نگاہوں کے سامنے آکر اسے شرمندہ کررہا تھا۔ وہ اسکی محبت تھی اور وہ اسکےلیے کچھ نہیں کرپایا۔ اسے کال کرنا بھی ممکن نہ تھا۔
”اب وہ کیا کرے؟؟” ٹینشن سے ساری رات اسنے سلگتے ہوئے گزاری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”سمل” دروازہ کھلا۔اندر آنے والی غزالہ مامی تھیں۔
”سمل” انہوں نے نزدیک جا کر اسکا کندھا ہلایا۔
”جی مامی جان” ان کے ہلانے پر وہ جیسے ہوش میں آئی۔
“بیٹا ساری رات بیٹھے بیٹھے گزاردی”۔ انہوں نے تاسف سے اسے دیکھا۔
”رات؟؟ رات نہیں تھی یہ مامی جان! یہ قیامت تھی جو آئی اور میری زندگی تباہ کر گئی۔ رات نہیں تھی یہ۔” اسنے نفی میں سر ہلاتے ہوئے ٹوٹے لہجے میں کہا۔
”لیکن بیٹا غلطی تمہاری بھی ہے۔ لڑکیوں کو محتاط ہونا چاہییے۔” انکا لہجہ سپاٹ تھا۔
”پر مامی! صفیہ مامی جان بوجھ کر الزام لگا رہی ہیں مجھ پر”۔ اس نے وضاحت دی۔
”یہ کیسی باتیں کر رہی ہو تم؟؟ بھابھی بھلا ایسا کیوں کریں گی؟ اپنے غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنے بڑوں پر الزام لگاو گی تم؟ ”
انکا لہجہ پل بھر میں بدل گیا۔
”خیر میں تمہیں یہ بتانے آئی تھی کی آج شام تمہارا نکاح ہے فواد احمد کے ساتھ۔”
”مامی! یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟؟ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جسکی مجھے یہ سزا دی جائے۔”
”میں خود اباجان سے بات کروں گی۔”
وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
”رکو بی بی! ابا جان رات سے کمرے میں بند ہیں۔ نہیں سنیں گے وہ تمہاری۔ بہتر ہوگا خود کو آنے والے وقت کےلیے تیار کرلو۔ شام تک کا وقت ہے تمہارے پاس۔”
دوٹوک لہجے میں اسے باور کرواتیں وہ کمرے سے باہر چلی گیئں۔
وہ جہاں کی تہاں کھڑی رہ گئی۔ چند گھنٹوں میں اسکی ذات اتنی بے اعتبار ہوگئی کہ اسکی وضاحت سننا بھی گوارا نہ کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام سات بجے اسکا نکاح فواد سے ہوگیا۔ وہ سمل اشعر سے سمل فواد بنادی گئی۔ اس کےروم روم میں مایوسی اور شکستگی کے ڈیرے تھے۔سوچ سوچ کر دماغ شل ہوا جارہا تھا۔
”جن لڑکیوں کے سر پر ماں باپ کا سایہ نہ ہو انکے کردار کو بد گمانی کی ذراسی تیز ہوا راکھ کا ڈھیر بنا دیتی ہے۔”
یہ سچ آج جانا تھا اس نے۔ آج سمجھا تھا کہ جنم دینے والوں کی محبت کی کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا۔ ثانیہ اور رانیہ نے اسے سہارا دے کر گاڑی میں بٹھایا۔ ان کے علاوہ گھر کا کوئی فرد اس کے نزدیک نہیں آیا ۔ اسکی آنکھوں سے سیل رواں جاری ہوگیا۔ بہتے اشکوں اور بے اعتباری کے ساتھ وہ اس گھر سے رخصت ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”سمل باہر آجائیں۔” اسے فواد کی آواز سنائی دی۔ اپنے خیالات میں ڈوبے اسے پتا ہی نہ چلا گاڑی کب ایک شاندار سے بنگلے کے سامنے رک چکی تھی۔
وہ دھڑکتے دل کے ساتھ گاڑی سے اتری اور فواد کے پیچھے چلتے ہوئے اندر آگئی۔
”سمل! آپ سامنے والے کمرے میں چلی جائیں” میں آپ کےلیے کچھ کھانے کو بجھواتا ہوں۔” ہاتھ سے کمرے کی جانب اشارہ کیا اور ایک جانب کو مڑگیا۔
سمل آہستگی سے چلتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔ سفید اور کالے امتزاج سے سجا ہوا کمرہ سادگی کا تاثر پیش کر رہا تھا۔ وہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔ نظر اٹھائی تو آئینے میں گہرے سبز رنگ کے ریشمی سوٹ میں ملبوس اپنا سراپا نظر آیا۔ کافی دیر وہ خود کو دیکھتی رہی۔ رو رو کر سوجی ہوئی آنکھیں،غمزدہ اور اداس چہرہ وہ کہیں سے بھی پراعتماد اور شوخ سمل نہیں لگ رہی تھی۔ ایک ہی دن میں اسکا اپنی ذات سے بھی اعتبار اٹھ گیا تھا۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ ہوش میں آئی۔
اندر آنے والا فواد تھا۔ کالے کرتا شلوار میں ملبوس اسکا قداور بھی نمایاں ہورہاتھا۔ ہاتھ میں کھانے کی ٹرے پکڑے ہوئے وہ چلتاہوا اسکے پاس آکھڑا ہوا۔
”سمل” نرمی سے پکارنے جانے پر اس نے سر اٹھایا۔ سرخ وسپید چہرے پر آنسووُں کے نشانات تھے۔
”کھانا کھالیں” ٹرے اسکے پاس رکھتے ہوئے فواد نے اشارہ کیا۔
”مجھے نہیں کھانا۔”
”سمل پلیز کھانا کھالیں”۔وہ نرمی سے بولتا ہوابیٹھا۔
”میں جانتا ہوں کہ آپ پریشان ہیں مگر یقین مانیں جوکچھ ہوا اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔”
”تمہاراکوئی قصور نہیں؟؟” وہ غصے سے پھٹ پڑی ”کوئی قصور نہیں تمہارا تو پھر کس کا قصور ہے؟؟ کس سے میں حساب لوں اپنے بے اعتبار کیے جانے کا؟؟
اسکا گریبان جھنجھوڑتے ہوئے اسنے سوال کیا۔
وہ شرمندہ سا نظر چراگیا۔ اسکے ہاتھوں سے نرمی سے اپنا گریبان چھڑاتے ہوئے بولا۔
”بھول جائیں جو کچھ ہوا۔ میں یقین کرتاہوں آپ پر۔ نہیں ہیں آپ بےاعتبار میری نظروں میں۔ اور کسی کی پروا نہیں ہونی چاہیئے آپکو۔” سمل نے حیران ہوتے ہوئے نظریں اٹھائیں۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ مجھے کیوں اس بات کی پروا ہونے لگی کہ تم میرا اعتبار کرو یا نہیں؟”
”کیونکہ میں آپکا شوہر ہوں۔” اسکا لہجہ ٹھہرا ہوا تھا۔
سمل شاک زدہ حالت میں پیچھے ہٹی۔
”میں نہیں مانتی اس رشتے کو۔ سناتم نے؟؟ میں نہیں مانتی۔ یہ رشتہ نہیں میری رسوائی کا داغ ہے۔”
وہ چیختے ہوئے بولی۔
”میں مانتا ہوں اور آپکو بھی ماننا ہوگا۔” اسکا لہجہ مضبوط تھا۔
اپنی بات مکمل کر کے وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا باہر نکل گیا۔
جبکہ سمل وہیں بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...