اصل تعداد میں وہ چار تھے، لیکن ان میں سے ایک ٹورانٹو کا لاری ڈینس Larry Dennis عمر چونتیس برس جس نے اس عورت کے بیٹے پر گولی چلائی اور زخمی کیا تھا، پچھلے برس ہی عدالت میں پیش کیے جانے پر اپنا جرم قبول کر لیا تھا۔ اور جیل میں سات سال کی سزا کاٹ رہا تھا۔
مسی ساگا سیشن کورٹ کے عین داخلہ گیٹ کے پڑوس میں کھڑا ہوا درخت اپنے آدھے سے زیادہ پتے جھاڑکر نیم برہنہ ہوچکا تھا۔ اندر عدالتی کارروائی معمول کے مطا بق جاری تھی۔
عورت رہائشی مسی ساگا عمر ساٹھ سال باقی کے تین مجرموںسے مخاطب تھی جو اس سے کوئی سات فٹ کے فاصلے پر قیدیوں کے کٹہرے (Prison Box) میں بیٹھے تھے۔ عورت اپنا تحریر کیا ہوا بیان پڑھ رہی تھی۔ عدالت کی زبان میں ایسے بیان کو (Victim Impact Statement) ’’متأثرہ فرد کے تأثرات‘‘ کہا جاتا ہے۔
عورت جس کا نام عدالتی حکم سے خفیہ رکھا گیا تھا، ان تین مجرموں سے براہِ راست مخاطب ہونے سے اپنے آپ کو نہ روک سکی، جب کہ وکیلِ سرکار نے اسے اپنے بیان میں ان سے مخا طب کرنے سے منع کیا تھا۔
۲۴؍ اگست ۲۰۱۱ء کی اس منحوس سہ پہر کو میں کبھی نہ بھول سکوں گی میری بیٹی لیٹ لنچ (Late Lunch) کے لیے آنے والی تھی۔ میں اس کے انتظار میں جذباتی ہو رہی تھی۔ تم سب میرے گھر میں گھس آئے اور سب کچھ ملیا میٹ کر دیا۔ تم نے مجھ کو اور میری زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بگاڑ کر رکھ دیا۔ تمھا رے غیرمتوقع داخل ہونے سے قبل مجھے دنیا کے سارے لوگ پیارے لگتے تھے۔ انسانیت کا چہرہ مجھے خوب صورت اور روشن نظر آتا تھا۔ میں خود بھی خوش تھی۔ خود اعتمادی سے معمور، خوف سے قطعی ناآشنا۔ تم نے میرے سامنے رکھی ہوئی میز پر جو کیش رکھا تھا، انتہائی بھدے اور حشیانہ طریقے سے سمیٹا۔ میز کو لاتوں سے مارا اور مجھ پر آنکھیں نکالیں، اور میرے بدن کو دہشت سے مفلوج کر دیا۔ خوف میری ریڑھ کی ہڈی میں برف کی مانند نیچے سے اوپر کی جا نب سرایت کر گیااور میں جہاں بیٹھی تھی وہیں بے جان بت بنی بیٹھی رہی۔ تم سب یہی چاہتے تھے میں اپنی جگہ سے نہ ہلوں اور تم میرے گھر کو الٹ کر رکھ دو اور تم نے جہاں جہاں کوئی مطلب کی چیز ملی، ہتھیالی۔ نقدی اپنی جیبوں میں اتار لی۔ میں نے اپنے بے جان بدن کے ساتھ بیٹھے ہوئے تم کو اوپر کی منزل پر جاتے ہوئے محسوس کیا۔ مجھے اپنے بیٹے کی فکر لاحق تھی۔ میں نے چلا کر اسے خبردار کرنا چاہا، لیکن تم مجھے دہشت زدہ کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے،میں حلق پھاڑ کر چلائی، مگر آواز میرے حلق میں ہی رہ گئی۔ خوف اور دہشت کو میں نے زندگی میں پہلی مر تبہ اپنے آپ پر قابو پاتے دیکھا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ میں خوف کے تجربے سے گزری۔
اوپر کی منزل پر کیا ہوا میں دیکھ نہ سکی لیکن جو کچھ میں نے سنا میرے لیے ایسا ہی ہے جیسے میرے سامنے گزرا ہو۔ میرا حوصلہ مند اور شیر دل بیٹا تم سب سے گتّھم گتھا ہوگیا۔ تم بھیڑیے اس پر قابو نہ پاسکے۔ تم نے میرے شیر بیٹے کے آ گے اپنے آپ کو عاجز پایا۔ تم نے پستول نکال لیے، تم نے میرے بیٹے کو مار ڈالا ہوتا، لیکن میری دعائیں قبول ہوئیں۔ جیسے ہی تم درندے اوپر چڑھنے لگے میں جو بے جان بت بنی بیٹھی تھی، اندر ہی اندر بیٹے کے لیے دعا کرنے لگی۔ سام 10 (Psalm 10) جو برسوں سے میری روح کے کسی گوشے میں جا گزیں ہے۔ ’’خدا سنتا ہے اور مدد کرتا ہے۔ مالک، آقا آپ مجھ سے دور کیوں ہو، مصیبت کے وقت آپ کہاں چھپے ہو۔ مالک۔‘‘
تم لوگوں نے میرے شیر کو مار ڈالا ہوتا اگر مالک نے اسے عین وقت پر چھلانگ لگانے کے لیے نہ سجھایا ہوتا۔ گولی اس کی ٹانگ میں لگی۔ میرے نہ دکھائی دینے والے اور فریادی کی التجا سننے والے مالک نے میری خاموش التجا سن لی اور میرے بیٹے کو نئی زندگی بخش دی۔ بے شک وہ سننے والا اور مدد کرنے والا ہے۔ وہ دور ہو کر بھی نزدیک ہے۔ چھپا ہوا ہوکر بھی ظا ہر ہے۔ تم لوگ بھگو ڑے گیدڑوں کی مانند میرے گھر سے فرار ہوگئے۔ اب جو تم میرے سامنے ہو، مجھ سے چند فٹ دور، قیدیوں کے بکس میں بیٹھے ہو۔ کیا تم اپنے خوف ناک کھیلوں سے باز آجانے کا فیصلہ کرنے والے ہو۔ تم نے یہ بتایا تھا کہ تم میرے گھر میں منشیات کی تلاش میں گھس آئے تھے۔ مسی ساگا کا کوئی بچہ یا بڑا میرے گھر کو منشیات سے نہیں جوڑتا۔ ہم مسی ساگا کے قدیم رہائشی ہیں۔ یہ مکان میرے خاوند نے خریدا تھا۔ میرے دونوں بیٹوں میں سے کوئی بھی منشیات کے دھندے میں ملوث نہیں ہے۔ خاندان کا کو ئی فرد منشیات کا عادی نہیں۔ یہ کہہ کر کہ تم لوگ منشیات کی ٹوہ میں میرے گھر میں داخل ہوئے۔ جیوری کے اراکین کے ذہنو ں میں تم نے ہمارے خلاف تعصب ڈالنا اور اپنے لیے ترحم پیدا کرنا چاہا ہوگا۔ سب ہی جانتے ہیں منشیات کے عادی کو وقت پر خوراک نہ ملے تو وہ بھوکے بھیڑیے کی طرح انسانیت سے عاری ہو جاتا ہے۔ تمھاری یہ افترا پردازی اور بہتان طرازی بے کار گئی۔ جیوری نے ایک آواز ہو کر تمھیں مجرم قرار دے دیا۔ تم لٹیرے، ڈاکو اور پستول چلانے والے لوگ ہو۔ ’’تم سلف جسٹی فائیڈ‘‘ (Self Justified) لوگ اپنے آپ کو بدل سکوگے؟ یا اپنے کرتوت کو درست سمجھتے رہو گے؟ میں نہیں جانتی۔ میں عورت ہوں۔ مامتا سے بھری ہوئی عورت۔ میں جب تمھیں دیکھتی ہو ں تو تم تینوں شیطانوں کے لیے بھی میری مامتا جاگ جاتی ہے لیکن تم شاید کچھ محسوس نہیں کرتے۔ ’’میں، مجھ کو، اور میرا‘‘ (I, Me, and Mine) کے ماسوا تم نے مثبت زندگی کے اس نظریے کو منفی انداز میں اپنایا۔ بہت برا کیا۔ تمھارے چہرے لوٹ مار، شور پکار، خون خرابے، لاتوں، مکّوں، لاٹھیوں، چھریوں، پستولوں، بندو قوں کی زبان بولتے ہیں۔ تم نے ٹھوکر مار رکھی ہے محبت کے رشتوں کو، محبت کو، زندگی کو، انسانیت کو، شاید جیسس کو، اور خدا کو بھی۔ تم جوان لڑکوں نے مجھ بڑی عمر کی عورت کو خوف زدہ کیا۔ بہت برا کیا۔ میرے مرحوم خاوند نے، خدا اور جیسس اس کو جنت میں داخل کریں، مجھ کو خوف آشنا نہیں کیا۔ بڑھاپا میرے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ وقت تیزی سے گزرتا ہے، بہت جلد تم سب بھی بڑھاپے کی دستک سنو گے۔ کیا تم گولیاں چلا کر اس کا استقبال کرو گے؟
کورٹ کے گیٹ سے لگا ہوا د رخت مسلسل پتے جھاڑ رہا تھا۔
عورت کے بیٹے نے اپنے بیان میں لکھا تھا:
’’ان مجرموں نے ہماری ملکیت میں دخل اندازی کے ساتھ ہماری زندگی میں دخل اندازی کی ہے۔ میری زندگی یکسر تبدیل کر دی ہے۔ اب میں اپنا بیڈ روم اندر سے بولٹ اور لاک کرکے سوتا ہوں۔ اپنی بیوی کو منع کر دیا ہے کہ وہ ہمارے دونوں بچوں کو اس گھر میں نہ بھجوائے، ان کی حفاظت کی ذمے داری نہیں دی جاسکتی۔ ہم میاں بیوی میں علاحدگی ہوچکی ہے۔ میں نے بچوں کی سپردگی (Custody) کے لیے کیس کیا اور ہارا۔ تاہم فیملی کورٹ کے جج نے ہفتے میں ایک دن اور رات بچوں کو میرے گھر میں میرے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی تھی، لیکن اب اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کی سہولت سے محروم ہوگیا ہوں۔ جہاں تک مجرموں کی جانب سے ’’اپالوجی‘‘ معذرت کاتعلق ہے میں یہ نہیں قبول کرسکتا۔ ان کے چہروں پر مجھے پچھتاوے کا شائبہ بھی نہیں ملا ۔
کرائون پروسیکیوٹر (وکیلِ سرکار) ڈیوڈ ڈ‘ لوریو ( David D’ Lorio)نے جج سے تینوں میں سے دو، ہائیلن اور ڈینس کے لیے 12 سال جیل اور تیسرے مجرم ملس (Mills) کے لیے 8 سال کی سزا مانگی۔ اوّل الذکر مجرموں کے خلاف ڈاکے کا اصل دماغ (Master mind) ہو نے کا الزام ثابت ہو ا تھا۔ جج نے ہائیلن اور ڈینس کے لیے دس سال اور ملس کے لیے آٹھ برس قید کی سزائیں دیتے ہوئے فیصلہ سنا دیا۔
کورٹ کے باہر کے پیڑ نے یک لخت پتے جھاڑ دیے۔ فال کا موسم زوروں پر تھا۔
ایک مجرم جس نے عورت کے بیٹے پر گولی چلائی تھی، پہلے ہی جیل میں اپنی سزا بھگت رہا تھا اور باقی تینوں کو بھی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا تھا، لیکن اس گھر کے حالات بہتر ہونے کے امکا نات نظر نہیں آتے تھے۔ عو رت کی ذہنی حالت بگڑتی ہی جا رہی تھی، ابھی وہ ریٹائر نہیں ہوئی تھی، لیکن جاب پر بھی روز مرہ کے فرا ئض کی انجام دہی اس کے بس کا روگ نہیں رہی تھی۔ ڈاکٹروں کے خیال کے مطابق وہ دیوانگی کے راستے پر رواں تھی۔ اس کے ذہن میں مزید ایک خوف کا اضافہ ہوگیا تھا کہ وہ چاروں مجرم سزا کی معیاد پو ری کرکے اس سے اور اس کے بیٹے سے انتقام لیں گے۔ مجرموں کا اپنے جرائم کی سزا بھگتنے کے بعد جیل سے با ہر آکر متأثرہ لو گوں سے انتقام لینا ان ملکوں کی روایت میں داخل تھا۔
آخرکار اس عورت نے بیٹے کو راضی کرلیا کہ وہ سب اپنے نام بدل کر کسی اور ملک میں ہجرت کر جائیں گے تاکہ ان چاروں کے انتقام سے محفوظ ہو سکیں۔
موسم بدل چکا تھا۔ برف نے ما حول پر تسلط جما لیا تھا۔ پرندے اپنی اپنی پناہ گاہوں میں روپوش ہوچکے تھے۔ آ دمی برف سے دست وگریبان تھا اور زندگی کے معلومات نمٹائے جا رہا تھا۔
بیٹے نے ماں کی بگڑتی ہوئی حالتِ خوف کے پیشِ نظر اپنی بیوی سے بات کی اور دو چار ملاقاتوں کے بعد اس کی بیوی بچوں کو ساتھ لے کر ان سب کے ساتھ ہجرت کرنے پر تیار ہوگئی۔ وہ اپنے شوہر سے ناراض تھی اور ایک دن بھی اس کے ساتھ گزارنے کے حق میں نہیں تھی۔ بلکہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن ان چاروں نے حا لات کا رخ ہی پلٹ دیاتھا۔ بیوی کو ایک مر تبہ پھر نئے سرے سے زندگی کا آغاز کر نا ہی تھا۔ اس نے اپنے شوہر کو ایک اورموقع دینے کا فیصلہ کیا اور اس خاندان کے لیے ایک بار پھر متحد ہوگئی۔ عورت نے اپنے عورت ہونے— ماں ہونے — کا ثبوت دیا اور شوہر اور بچوں کے ساتھ اس جبری ہجرت کے لیے راضی ہوگئی۔ بیٹا اسٹیون (Steven) جس کی عمر پانچ برس اور بیٹی شینن (Shannon) جس کی عمر تین برس جو اپنے ماں باپ کے درمیان علاحدگی کے عذاب کو اندر ہی اندرجانے انجانے سہ رہے تھے، اس ہجرت سے بے حد جذباتی ہو رہے تھے۔ ڈیڈی، ممی اور گرینڈما کے ساتھ ایک نئی زندگی کی جانب روانگی کسی سہانے سپنے سے کم نہیں تھی۔ خوشیوں سے بھرپور اور غیر متوقع ۔
برف رخصت ہونے لگی تھی۔برف کے نیچے دبا ہو ا سبزہ ہرا بھرا ہوکر ابھر رہا تھا، پرندے اپنی پناہ گا ہوں سے برآمد ہو رہے تھے۔ درختوں نے کپڑے پہننے شروع کر دیے تھے۔
کبھی کبھی میرے ذہن میں یہ سوال کلبلانے لگتا ہے، کہ وہ چاروں اس عورت کے گھر میں ڈاکے کی غرض سے گھس آئے تھے یا اس ٹوٹے ہوئے خاندان کو جوڑنے اور دو چھوٹے چھوٹے بچوں کو ان کے ماں باپ کی رفاقت واپس دلا نے کے لیے دخل انداز ہوئے تھے۔
آج جب میں یہ الفاظ لکھ رہی ہو ں یہ خاندان اپنا پتا نشان پیچھے چھوڑے بغیر کسی اور ملک، کسی اور شہر میں روانہ ہو چکا ہے۔