"” وہ بلیک شرٹ میں مبلوس شیشے کے سامنے کھڑا گھڑی پہن رہا تھا۔
پرفیوم لگانے کے بعد وہ ابھی اپنے بال سنوار ہی رہا تھا کے سجل اپنا لہراتا آنچل لیے سجھ دھج کر جیک کے کمرے میں داخل ہوئی۔””
” اوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیرو آج تو بہت ہی ہنڈسم لگ رہے ہو۔ چنچلاہٹ سے سجل نے کہا۔
بس آج ہی لگ رہا ہوں۔ ویسے میں ہنڈسم نہیں دکھتا کیا۔؟ پریشانی پے بل ڈالتے جیک نے اپنا رخ سجل کیطرف کیا۔ ”
” میں نے ایسا کب کہا۔ کچھ بھی سوچ لیتے ہو۔ تم تو۔ تمہاری تو بات ہی الگ ہے۔
اپنائیت بھرے انداز میں سجل ،جیک کیطرف بڑھی۔”
” ویسے وہ کیوں ؟ جیک دونوں ہاتھ باندھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا۔”
” کیونکہ کہ تمہارے اندر دونوں قسم کی خاصیت پائی جاتی ہے۔ جیک سجل کی ان باتوں سے مسلسل مسکراتا اسے دیکھ رہا تھا۔”
” خوبصورت تو ہو ہی تم، مگر تمہاری سیرت بھی بہت اچھی ہے۔”
” یہ تم مجھے مکھن لگا رہی ہو؟ جیک نے نفی میں سر ہلایا۔ اور شوز پہننے بیٹھ گیا۔۔”
” نہیں تو ۔ میں کیوں تمہیں مکھن لگاؤنگی۔
مجھے کونسا تم سے کوئی کام ہے۔ سجل نے نظر چراتے ہوئے کہا۔”
” جیک آج میں تم سے کوئی لڑائی کرنے نہیں آئی۔
ویسے ہم دونوں کی زیادہ تر لڑائی ہی ہوتی ہے۔ وہ جا کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔”
” کیا بات ہے عقلمند ہوگئی ہو۔۔۔۔۔۔ جیک نے موبائل چارج سے اتارا۔”
” آج تو بڑی باتیں آرہی ہیں تمہیں ۔ کیا کھایا آج تم نے؟ دوپہر کے کھانے میں؟ جیک نے اسے ستانے والے انداز میں کہا۔”
” وہی کھایا ہے جو تم نے کھایا ہے۔ وہ کھلکھلا کر ہنس رہی تھی… منہ پے ہاتھ رکھے وہ ہنسی کو روکتے ہوئے بولی۔”
—————————— ———————–
” مناہل آپی ! آپ کو جیک کا پتہ ہے،کہ وہ کہاں ہے۔ آیت نے مناہل کو روک کر فکر مند لہجے میں پوچھا۔ مناہل جو سیڑیوں کیطرف بڑھ رہی تھی۔”
” ہاں کچھ دیر پہلے میں نے اسے،اپنے کمرے کیطرف جاتے دیکھا ہے۔
مناہل نے پیچھے مڑ کر بتایا اور جیک کے کمرے کیطرف اسے اشارہ کیا۔”
” آیت مناہل کے کہنے پر جیک کے کمرے کیطرف بڑی رہی تھی ۔ سجل پہلے سے ہی جیک کے کمرے میں اس کے ساتھ موجود تھی۔”
” آیت باہر آؤ اور دیکھو کون ہے ۔۔۔کوئی لڑکی شاید تمہارا اور جیک کا پوچھ رہی ہے۔”
” عائشہ؛؛ ۔۔۔ آیت کو اپنے ساتھ لان میں لے گئ۔۔۔۔۔”
—————————— ————————-
” اچھا سنو سجل۔ جیک نے ٹیبل سے چوڑیاں اٹھائیں۔”
” ہاں بولو! جیک۔۔۔۔ الجھن سے بھرپور نظروں سے ۔اس نے جیک کیطرف دیکھا۔”
” یہ دیکھو جیک نے چوڑیوں کی طرف اشارہ کیا۔”
” ارے واہ ! میرے لیے ہیں یہ۔ وہ حیران ہوکر بولی۔”
” یقین نہ آنے والے انداز میں سجل نے جیک کو کہا۔”
” ہاں تمہارے لیئے۔ جیک مسکرایا۔۔
"چلبلی "زیر لب جیک نے کہا۔”
” کچھ کہا تم نے؟؟
سجل نے مخصوص انداز میں پوچھا۔”
” نہیں، نہیں میں نے کچھ نہیں کہا۔۔ شریر انداز میں وہ جھٹ سے بولا۔”
Thanks you so much Jack.
” سجل نی خوشی کے میرے جیک کے بال بکھیر دیے۔”
” جیک کے فون کی گنٹی بجی ۔ فون یومائلہ کا تھا۔”
” اور کتنا ٹائم لگے گا تمہیں؟ اور کچھ اندازہ بھی ہے کہ نہیں۔ میں کب سے انتظار کر رہا ہوں۔ اب اور کتنا انتظار کرواؤ گی؟ تمہاری وجہ سے سارا فنکشن روکا ہوا ہے۔ جیک یومائلہ پے غصہ ہورہا تھا۔”
” اووو!!! چالاکیاں۔ ہوں۔۔۔۔۔۔! یومائلہ تمسخری میں بولی۔”
” اوہ! ہیلو میں تو آگئی ہوں مسٹر، آپ ہی کہیں نظر نہیں آرہے ۔ یومائلہ نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔ کہ شاید جیک کہیں نظر آجائے۔۔۔”
” میں اپنے کمرے میں ہوں۔ محتاط انداز میں جیک نے کہا۔۔۔۔”
” ہائی! آیت ۔۔۔۔ یومائلہ کو آیت نظر آگئ
دور سے آواز دے کر، یومائلہ نے ہاتھ ہلایا۔۔۔”
” آیت مل گئی مجھے۔ یومائلہ نے جیک کو فون پے بتایا۔”
” بس تھوڑا اِنتظار کرو۔۔۔۔۔ میں آرہا ہوں۔
ٹھیک ہے تم آیت کے ساتھ کمرے میں آجاؤ۔”
” یا تم ایک کام کرو، میں آرہا باہر ۔۔۔۔جیک نے کال کٹ کی۔”
” ہوگئی بات جس سے بھی ہو رہی تھی؟
سجل اکتاہٹ بھرے لہجے میں بولی۔”
” ہاں ہوگئی. کیوں کیا ہوا۔ جیک نے سوالیہ نظروں سے سجل کو دیکھا۔۔۔”
” کچھ بھی نہیں میں تو بس ویسے ہی کہہ رہی تھی۔۔۔ سجل نے بیزاری سے کہا۔ کیونکہ سجل کافی دیر سے کھڑی تھی۔۔ ”
—————————- ————————–
” شکر تم آگئی میں جیک سے بات رہی تھی۔
یومائلہ نے آیت سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنائیت بھرے انداز میں کہا۔”
” چلو آؤ جیک کے کمرے میں چلتے ہیں۔۔۔۔
آیت نے یومائلہ کا ہاتھ پکڑا۔”
” نہیں! اس نے کہا ہے وہ باہر ہی آرہا ہے۔
یومائلہ نے آیت کو مسرور نظروں سے دیکھا۔ کیونکہ وہ کافی دنوں کے بعد جو ملیں تھیں۔۔۔”
” اچھا ٹھیک ہے بیٹھو تو صحیح۔
دونوں ہاتھوں سے یومائلہ کو کندھوں سے پکڑ کر آیت نے اسے کرسی پر بیٹھایا۔۔۔”
—————————— ————————-
” کیا ہوا کیوں دیکھی جارہی ہو مجھے؟ اس کے چہرے کے تاثرات جان کر جیک نے اس سے یہ سؤال کیا۔”
” کبھی اتنا پیارا لڑکا دیکھا نہیں ہے کیا؟
سجل کی محبت بھری نگاہوں کا انداز فوراً بدلہ۔۔۔۔۔”
” چوڑیاں دو مجھے، ہاتھ میں پکڑ کر ہی بیٹھ گئے ہو تم تو ۔ سجل نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔۔”
” اوہ! سوری:- کال آگئی تھی یاد نہیں رہا۔
وضاحتی انداز اپناتے ہوئے وہ بولا۔۔”
” ہاں تم فون پے بات کر رہے تھے اس لیے مجھے بھی اچھا نہیں لگا کہ تمہیں ڈیسٹرب کروں۔ منتظر نظروں سے وہ جیک کو دیکھ رہی تھی۔”
” یہ لو !!! جیک نے اس کے ہاتھ میں چوڑیاں تھما دیں۔ سجل کیلئے جیک کی اتنی سی توجہ بھی کافی تھی اس لیئے۔ وہ بے حد خوش دکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔”
” جیک کی اس توجہ سے سجل کے دل کی کیفیت بدل رہی تھی۔ وہ اس وقت جیک پر قربان ہوئے جارہی تھی۔اس کی نگاہیں جیک کیطرف بھٹکتی رہیں۔۔۔”
” سجل نی خوشی کے مارے جیک کے بال بکھر دیے۔ اور وہ تالی بجاتے ہوئے اچھل رہی تھی۔۔”
” یہ کیا کر رہی ہو۔ جیک فورا سے پیچھے ہٹا۔ اور بےپروا نگاہوں سے سجل کو گھورا۔”
” نہیں میں سارے خراب کرونگی ۔ سجل نے جیک کے سارے بالوں کا ہلیا بھگاڑ دیا تھا۔۔۔۔”
” ارے چھوڑ، ۔۔۔۔۔۔ دو یار۔ جیک کو اب اس پر شاید غصہ آرہا تھا۔۔۔”
” اب جیک بھی اسے کہاں بخشنے والا تھا۔”
” اب میں بھی تمہارے سارے بال خراب کرونگا۔۔۔۔۔ جو بڑی فرصت سے بنا کر آئی ہو تم یہاں۔ جیک بےاختیاری سے بولا۔”
” اتنے میں سجل بھاگتے ہوئے کمرے سے باہر کیطرف بڑھی ۔ لیکن دروازہ بند ہونے کی وجہ سے وہ واپس اندر مڑ گئ۔”
” اب تم گئی میرے ہاتھوں سے ۔
جیک اس کے پیچھ بھاگا ۔
سجل نے کمرے میں اچھل کود مچارکھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔”
” جیک کا کمرا کافی بڑا تھا۔ جس سے سجل باآسانی دوڑ رہی تھی۔۔”
” آخر کو سجل بالکونی کیطرف گئ۔۔۔ وہاں بھی وہ جیک کے ہاتھ نہ آئی۔۔۔ ”
” جیک کافی احتیاط کیے اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔
ظاہر ہے سجل تو ایک لڑکی تھی۔”
"” تیز رفتاری سے قدم بڑھاتے ہوئے وہ بیڈ پے سیدھے منہ، جا گری۔۔۔۔۔ جیک بھی تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔۔ نیچے گری کسی چیز کی وجہ سے جیک کا پاؤں پھسلا ۔۔۔ جیک نے خود کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی۔۔۔
وہ اس کے اوپر گرنے کو تھا جیک نے خود سممبھنلا ۔ سجل نے جیک کے سینے پے اپنے ہاتھ رکھے اور اپنا منہ دوسری طرف پھیرا لیا۔ اس نے اپنی پوری طاقت سے جیک کو روکا۔۔۔۔””
” جیک نے بھی جلدی سے خود کو سنبھالا اور خود کو اس پر گرنے سے بچایا۔۔۔۔۔
اتنے میں آیت دروازے کا ناب گھما کر یومائلہ کے ہمراہ جیک کے کمرے داخل ہوئیں ۔۔۔”
"” یہ کیا ہو رہا ہے؟ سخت لہجے سے آیت نے کہا۔
آیت یہ منظر دیکھ کر گم سم رہ گئ تھی ۔
اٌسے اپنی آنکھوں پے یقین نہ ہو رہا تھا۔۔۔
آیت کا دل بہہ رہا تھا۔ اٌس کی سانسیں اُکھڑ رہیں تھیں۔۔
وہ انتہائی افسردگی سے جیک کو دیکھ رہی تھی اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا کاجل لگی قاتلانہ انکھیں جھلکنے کو بے تاب تھیں… "”
” جیک نے آیت کو جیسے ہی دیکھا وہ فورا پیچے ہٹا۔ اور سجل نے بھی، جیک کو پیھے دھکا دیا۔”
” میں نے پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے؟؟؟؟
اس نے سارے بال بکھر دیے۔ پھر میں
بھی ضد میں آگیا تھا۔”
” آیت نے جیک کی کوئی بات ٹھیک سے نہ سنی۔ اٌسے لگا جیک جھوٹ بول رہا ہے۔”
” ناچاہتے ہوئے بھی آیت کا ہاتھ جیک کے چہرے پر نشان چھوڑ چکا تھا…”
” وہ جیک کو، کبھی کسی کے ساتھ نہیں دیکھ سکتی تھی۔
آیت سب برداشت کر سکتی تھی۔ مگر جیک کو کسی اور کے ساتھ دیکھنا، آیت کیلئے یہ بات ناقابِل برداشت تھی۔۔”
” یومائلہ اور سجل کو آیت کی یہ حرکت بلکل بھی پسند نہ آئی۔”
” اگر یہ کام کرنا تھا تو مجھے پہلے ہی بتا دیتے۔ میں نہ آتی یہاں۔ روندے لہجے میں اس نے کہا۔۔”
” سجل ، آیت کو اس حرکت کی وجہ سے وہ اسے تیکھی نظروں سے گھور رہی تھی۔۔”
” جیک مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔
آیت نے روندے لہجے سے کہا۔”
” تم ہمیں غلط سمجھ رہی ہو آیت۔ وضاحتی انداز میں جیک نے کہا۔”
” ہاں آیت،،،،،، جیک بلکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔ سجل نے خفگی سے کہا۔”
” تم تو چپ ہی رہو تو اچھا ہوگا۔ آیت نے ہاتھ بڑھا کر ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا۔۔اور ناگواری سے سجل کو گھورا۔”
” شکر کرو یہ ہاتھ تم پے نہیں اٹھا۔۔۔
ایسا کچھ نہیں ہے جیسا تم سمجھ رہی ہو۔”
” جیک مایوسی سے بیڈ پر بیٹھ گیا۔
کیونکہ آیت کچھ بھی سننے کو تیار نہ تھی۔۔۔۔ اس وقت آیت پر بس اسکا غصہ سنوار تھا۔۔۔۔”
” وہ آیت سے، اس قدر محبت کرتا تھا۔ کہ وہ کبھی بھی آیت کے دل میں اپنے لیے نفرت برداشت نہیں کر سکتا تھا۔”
” یومائلہ سے تم نے کہا کہ میں لون میں ہی آرہا ہوں۔
تب کے تم اب آرہے ہو لون میں؟ آیت نے چلا کر پوچھا۔”
” جیک چپ رہا۔ اس کی خاموشی اس کے اندر ٹوٹ کر ریزہ ریزہ بکھر رہی تھی۔۔”
” حد ہوتی ہے بےشرمی کی۔۔۔اگر
مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ یہاں یہ سب ہونے والا ہے تو میں یہاں آتی ہی نہیں۔
یہ دن دیکھنے سے پہلے میں مر کیوں نہیں گئ۔”
” اب آیت نے رونا شروع کر دیا تھا۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا تھا۔”
” اس نے اپنی ساری چوڑیاں دیوار کے ساتھ وہیں توڑ دیں تھیں۔۔”
” آیت تم غلط سمجھ رہی ہو یار۔
جیک نے سنجیدگی سے کہا۔۔ اور آیت کو چوڑیاں توڑنے سے روکا۔۔۔۔”
” لگ جائیں گی۔۔ بس کرو۔ جیک نے غصے سے اس کی کلائی پکڑی۔۔ وہ غصے سے آیت گھور رہا تھا…”
” چھوڑیں مجھے…تلملاتے ہوئے آیت نےجیک کو دھکا دیا۔۔۔ ”
” یومائیلا سجل کو لے کر کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ سجل آیت کے اس شدید برتاؤ سے سوچ میں ڈوبی تھی.”
” جیک نے آیت کو کھینچ کر خود سے قریب کیا… آنسوؤں سے بھیگی انگارہ آنکھیں جیک کا ضبط آزمارہی تھیں..
کبھی کبھی آنکھیں جو دیکھتیں ہیں وہ سچ نہیں ہوتا۔..جیک لفظوں کی حدت سے اسے پگھلا رہا تھا مگر آیت کچھ سننے کو تیار نہ تھی…
جیک نے اسے گلے لگایا۔۔۔ مگر آیت اسے خود سے دور دھکیل رہی تھی…”
” لیکن یومائلہ جیک پے بھی ترس آرہا تھا۔”
” جیک کو اس بات پے کافی دکھ ہو رہا تھا کے آیت کو اس پر بھروسا نہیں ہے۔”
” میں جارہی ہوں۔۔۔۔ اب میرا،، تم سے کوئی راشتہ نہیں ہے جیک۔..روتے روتے وہ دروازے سے باہر نکل گئی.”
” پومائلہ پلیز سمجھاؤ اسے۔ جیک نے آیت کیطرف اشارہ کرتے ہوئے یومائلہ کو کہا۔”
” کیا سمجھاؤ اسے اب یہ اتنی آسانی سے نہیں ماننے والی۔ نفی میں سر ہلاتے ہوئے یومائلہ نے کہا۔۔۔”
—————————– ————————-
” ہم کب سے تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔کب سے تمہاری رہ دیکھ رہیں ہیں۔
تم نظر ہی نہیں آئے۔ حیدد اور ہادی دونوں ایک کونے میں بیٹھے جیک کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔”
” میں کمرے میں تھا۔ جیک ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولا۔۔ اس نے اپنا لہجہ بدلنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔”
” بیٹا تمہارے سارے دوست آگئے ہیں؟ شفق بیگم نے جیک کا بازو پکڑ کر اس سے پوچھا۔۔۔”
” جی ماما سب آگئے ہیں۔ چلو پھر کیک کٹ کرو جلدی سے۔ شفق جیک کا ہاتھ تھامے اسے سامنے لیں گئ جہاں ٹیبل پے کیک پڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔”
” جیک کی نگاہیں آیت کو ڈھونڈ رہیں تھیں۔۔”
” میں یہاں سب سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ اپنائیت بھرےانداز میں سعدیہ فروز نے سب کیطرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔”
” جیک کیلئے اور ظاہر ہے ہم سے کیلئے بھی آج خوشی کا موقع ہے۔ میں اپنی بیٹی سجل اور جیک دنوں کی انگیجمنٹ کا آپ سب کو بتانا چاہتیں ہوں۔ اگلے ہفتے ان دونوں کی انگیجمنٹ ہے۔”
” اور بہت جلد ان دونوں کی شادی کی انوسمینٹ بھی ہوجائے گی۔ سعدیہ فروز کی اس بات پر جیک کے چہرے کے رنگ اڑ گئے۔…. اسکے چہرے کے تاثرات سے صاف ظاہر تھا وہ اس فیصلے پر خوش نہیں ہے۔”
” سعدیہ فروز کے اس فیصلے پر آیت کی جیسے جان ہی نکل گئی تھی۔۔اب اس میں اپنے جسم کو گھسیٹنے کی بھی قوت نہ رہی تھی وہ وہیں بت بنی کھڑی رہی.”
” درد بھری نگاہوں سے وہ جیک کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہیں تھیں۔۔۔ اس کے چہرے پے جدائی کی کیفیت جھلک رہی تھی۔۔ آیت کے دل میں جیک کو کھو دینے کا ڈر تھا۔۔۔۔
آنسوؤں کی ایک ندی بہنا شروع ہو گئی۔۔۔بے اختیار آنکھیں دھندلا گئی تھیں.”
” یومائلہ نے آیت کا ہاتھ تھاما۔ اور وہ بھی خفگی سے سعدیہ فروز کو گھور رہی تھی۔۔”
” یومائلہ کو کہیں نہ کہیں یہ بات کھٹک رہی تھی۔۔ کہ اس رشتے میں جیک کی کوئی رضامندی نہیں ہے۔۔”
” سجل کی دل ہی دل میں بے حد خوش۔۔۔ وہ تو جیسے پاگل ہی ہوگئی تھی۔ جلدی سے جاکر اپنی ماں سے لپٹ گئی۔”
I love you Mama.
I love Sooo much.
I love you tooماما کی جان ماما کی” جان۔
” سعدیہ فروز نے سجل کو چومتے ہوئے کہا۔”
” آؤ ! آیت میرے ساتھ کمرے میں چلو۔۔۔ یومائلہ سے آیت کی حالت برداشت نہیں ہورہی تھی۔۔۔۔۔”
” کیوں بیٹا تم خوش تو ہو نہ؟ سعدیہ فروز نے جیک سے پوچھا۔۔۔۔۔”
” جیک نے انہیں کوئی جواب نہ دیا۔۔۔۔
جیک کو اس وقت سخت غصہ آرہا۔۔ لیکن وہ اپنی ممانی سے کچھ نہ کہہ سکا۔۔
جیک نے ان کی بات کو ان سنا کر دیا۔”
” شفق بیگم نے جیک کے منہ میں کیک ڈالا ۔۔ یہ خبر سن کر جیک کو ایک گہرا جھٹکا لگا تھا اور کیک اس کے حلق سے نہ اترا،،،،،
” بیٹا تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔
سعدیہ فروز نے پھر سے اپنا سوال دہرایا۔۔”
” مگر جیک کو پھر سے ان کے اس سوال کا جواب دینا مناسب نہ لگا۔۔”
” وہ نہیں چاہتا تھا کہ غصے سے اس کے منہ سے کوئی ایسا الفاظ نکلے۔ جس سے اس کی ماں کی عزت پر کوئی آنچ آئے۔۔۔
اس لیے اٌسے خاموش رہنا بہتر لگا۔۔۔
جیک کی اس خاموش سے سعدیہ فروز کے ذہن میں کئ سوال پیدا ہو رہے تھے۔۔”
” ماما یہ سب کیا ہے؟ جیک نے حیرت اپنی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے یہ سوال کیا۔۔۔۔”
” جو تم سُن رہے ہو بیٹا۔ جیک کے گال پر شفق بیگم نے ہاتھ رکھا۔”
” آپ سب لوگ پارٹی انجواۓ کرو۔ ماما میں آتا ہوں۔ جیک وہاں سے غصہ کی حالت میں چلا گیا۔۔”
” جیک کہاں جارہے ہو؟ شفق بیگم اس کے پیچھے اندر تک گئ۔۔”
” اپنے کمرے میں۔۔۔۔ جیک نے تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔ ”
” کیوں ؟ یہاں سب تمہارے لیے آئیں ہیں اور تم اندر جارہے ہو۔ کچھ خیال کرو بیٹا۔یہ پارٹی تمہاری خوشی کیلئے رکھی گئی ہے۔
ان کے چہرے پر فکر مندی کے آثار تھے۔۔۔”
” واقعی ماما؟؟؟آپ کو ہے میرا خیال؟ جیک نے رک کر ان سے یہ سؤال مایوسی سے پوچھا۔۔۔”
” شفق بیگم حیران تھیں.کیا مطلب ہے تمہارا ؟؟؟
جیک غصے کی حالت میں وہاں سے چلا گیا۔۔۔”