وہ بھاگتی ہوئی لیب میں پہنچی اور دھڑام سے کرسی پر بیٹھ کے سر ٹیبل پر گرا لیا نا جانے کتنے آنسوں تہے جو اسکی آنکھوں سے بہے تھے رو رو کے جب اسکا دل حلقہ ہوگیا تو اسنے گہری سانس لیکر خود کو کمپوز کیا کیوں آیا ہے وہ یہاں ک کہیں وہ مجھ طلاق نہ نہیں میں اسے طلاق نہیں لون گی بیشک وہ مجھسے دور رہے لیکن میں اس کے نام سے علاحدہ نہیں ہونا چاہتی نہیں نہیں ہرگز نہیں مہر حیا نے اسکے شانے پر ہاتھ رکھا مہر بدک کے پیچھے ہٹی میں ہوں مہر یہ لو پانی پیو حیا نے اسکی طرف پانی کی بوتل بڑھائی مہر نے گٹا گٹ پانی پیا تم ٹھیک ہو مہر تم کلاس کے دوران ایسے چلی کیوں آئ حیا کو تشویش ہوئی ح حیا م مجھ گھر جانا ہے مہر نے منمناتے ہوۓ کہا پلیز مجھے ابھی گھر لے چلو مہر حالت سے بھاگتے بزدل ہیں اور ہمارے دین نے ہمیں حالت کا سامنا کرنا سکھایا ہے حالات سے بھاگنا نہیں کل ارحم بھائی تمہاری زندگی سے چلے گئے تھے پتا ہے کیوں کیوں کے تمنے انھیں روکا ہی نہیں اور آج اگر وہ پھر سے لوٹ آ ئے ہیں تو تم خود انھیں دور کر رہی ہو مہر میری جان خود کو اتنا کمزور مت بناؤ کے ہر کوئی تم پر اپنے فیصلے مسلط کرکے چلا جائے حیا نے اسکو نرمی سے سمجھایا مہر میری جان حوصلہ رکھو اور جو ہورہا ہے اسکا سامنا کرو حیا نے اسکے گال پر ہاتھ رکھا حیا کی باتوں نے مہر کو سوچنے پر مجبور کردیا وہ سوچ میں پڑ گئی
زندگی باربار موقے نہیں دیتی جو ہے اس پڑ شکر کرو مہر ارحم بھائی کا واپس آنا کسی نعمت سے کم نہیں ہے میرا کام تھا کے میں تمہیں سمجھاؤن کیوں کے ہم تمہارے خیر خواہ ہیں مہر ……
تم جاؤ میں کچھ دیر تک آتی ہوں کلاس میں ٹھیک ہے حیا اٹھ کھڑی ہوئی “””
مجھ اسکے سامنے جانا چاہیے میں ایسے خود کو کمزور ظاہر نہیں کرونگی سب کچھ ختم کرکے وہ گیا تھا میں نہیں اگر وہ اس سب کے بعد بھی میرے سامنے آنے کی ہمت رکھتا ہے تو اسکے سامنے جانے سے میں بھی نہیں کترائونگی مہر خود سے ہم کلام ہوتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی 👍👍
کچھ دیر بعد وہ کلاس روم کے سامنے تھی اسنے لمبا سانس ہوا میں خارج کیا
مے آئ کم ان سر مہر نے بے تاثر لہجے میں کھا وہ ابھی تک کلاس لے رہا تھا نجانے کلاس لے رہا تھا یا میرے صبر کا امتحان مہر سوچ کے رہ گئی
یس ارحم مہر کو دیکھنے لگا اوکے تو کہا تھے ہم اوہ مس مینے آپ کو بیٹھنے کی اجازت نہیں دی ہے اب تک ارحم نے مہر کو بیٹھتے دیکھا تو مسکراہٹ دباتے ہوۓ کھا
سر مینے آپ سے اجازت مانگی ہی کب تھی مہر کو اسکا مسکرانا ایک آنکھ نا بھایا
اوکے آپ اپنا انٹروڈیوس تو کروائیں ارحم نے سینے پڑ ہاتھ باندھے
آئ ام مہر حسین شاہ مہر نے کڑے لہجے میں کہا
اوکے سٹ داؤن ارحم نے اپنا لیکچر سٹارٹ کیا مہر جلدی جلدی لیکچر نوٹ کیا ارحم گاہے بگاہے مہر کو دیکھ رہا مہر نے خود پڑ کسی کی نظروں کی تپش محسوس کی لیکن پھر بھی وہ خود کو مصروف رکھے ہوۓ تھی
اوکے سٹوڈنٹس کل آپ نے اسائنگمنٹ بنا کے آنی ہے اسکے ساتھ اپنے پریزنٹیشن بھی دینی ہے اوکے اور مس آپ ارحم نے مہر کی طرف اشارہ کیا آپ پڑھائی پر دھیان دیں یہاں پر آپ پڑھنے آتی ہیں زبان کہیں اور جاکے لڑائین کل سب سے پہلے آپنے پریزنٹیشن دینی ہے ارحم نے انگلی اٹھا کے تنبیہ کیا مہر نے کھا جانے والی نظروں سے ارحم کو دیکھا حیا ان سب سے خوب لطف اٹھا رہی تھی اسے اچھا لگ رہا تھا ان دونو کا بات کرنا
یونی سے واپس آکر مہر کا موڈ سخت خراب تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کے ارحم کے بال نوچ لے اسنے روم میں پوھنچ تے ہی دھڑام سے دروازہ بند کیا ہائے اللہ بہت بوکھ لگی ہے مجھے تو حیا کباب کا پیس رائتے میں دباتے ہوۓ بولی مہر واشروم میں گھس گئی اسنے اپنے آپ کو شیشے میں دیکھا اجڑی اجڑی رنگت سرخ ہوتی آنکھیں وہ سنگ پے جھک کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی جب رو کے دل حلقہ ہوگیا تو اسنے منہ دھویا پھر خود کو کمپوز کرکے باہر آ گئی
حیا موبائل پر مصروف ہوگئی کھنا کھانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا وہ بیڈ پر لیٹ گئی سر درد سے پھٹا جا رہا تھا
وہ مزید رو کے خود کی جان کو ہلکان نہیں کرنا چاہتی تھی سوچتے سوچتے اس پر نیند کا غلبا طاری ہوگیا…..
شام کے ساڑھے چھے بجے اسکی آنکھ کھلی سر اب بھی بھاری ہورہا تھا حلقہ حلقہ بخار بھی تھا اسنے وارڈ روپ سے کپڑے نکالے اور واشروم میں گھس گئی لائٹ پرپل کلر کی شلوار قمیض جس پر شیفون کا دوپٹہ تھا وہ پہن کے باہر آئ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوکے بال بنا کر کاجل لگایا آدھے بالوں کو کیچر میں مقید کرکے وہ کمرے سے باہر آئ لان میں حیا چائے کے ساتھ پکوڑے کھانے میں مصروف تھی خدیجہ بیگم مہر کو دیکھ کے مسکرائین اسلام علیکم مہر سلام کر کے خدیجہ بیگم کے ساتھ بیٹھ گئی وعلیکم سلام خیریت بیٹا آج بہت دیر تک سوتی رہیں آپ ہاں پھپھو بس سر میں درد اور ذرا سا فیور ہورہا ہے مہر نے سر پر ہاتھ رکھا مہر ذرا سا نہیں تمہیں تو واقعی بہت زیادہ بخار ہورہا ہے حیا نے اسکی نبض چیک کرتے ہوۓ کھا
ہاں بیٹا آپ کو تو واقعی بخار ہورہا ہے خدیجہ بیگم پریشانی سے بولیں ابھی چلتے ہیں ڈاکٹر کو دکھانے اور خبر دار جو تمنے منا کیا تو جاؤ حیا فہد کو کہو گاڑی نکالے حیا سر ہلا کے چلی گئی اب جاؤ تم بھی تیار ہوجاؤ شاباس
کچھ ہی دیر میں وہ عبایا پہن کے باہر آئ بہت بیمار لگ رہی تھی وہ فہد نے تاسف سے اسے دیکھ کر سر جھٹکا
مہر تمہارے ہاتھ بہت ٹھنڈے ہورہے ہیں حیا نے اسکے ہاتھ پر دباؤ ڈالتے ہوۓ کھا فہد نے بیک ویو مرر سے مہر کو دیکھا بہت زیادہ کمزور لگ رہی تھی وہ فہد نے قرب سے آنکھیں پھیر لیں
کچھ دیر میں وہ ہسپتال میں تھے بس موسمی بخار ہے اور یہ اپنی ہیلتھ کا پراپر وے سے خیال نہیں رکھ رہیں اور کسی بات کا بہت شدت سے سٹریس لے رہی ہیں ڈاکٹر نے فہد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے کھا
وہ اپنے روم میں بیچینی سے چکر کاٹ رہا تھا تین دنو سے مہر یونی نہیں آرہی تھی ہر چیز پر اسے غصہ آنے لگا تھا نا چار ہوتے ہوۓ اسنے حیا کا نمبر ڈائل کیا چوتھی بیل پر کال اٹھا لی گئی اسلام علیکم ارحم بھائی وعلیکم سلام حیا خیریت تین دنو سے آپ یونی نہیں آرہی سب ٹھیک تو ہے نا مہر مہر تو ٹھیک ہے نا ارحم بے اختیار بولے جارہا تھا حیا نے اسکو ساری تفصیل بتا دی ابھی ابھی کیسی ہے وہ ٹھیک ہے آپ پلیز پریشان نا ہوں حیا ایک کام کرینگی جی بولیں بھائی میں مہر کو دیکھنا چاہتا ہوں پلیز منا مت کرنا تم اسے لیکر قریبی ریسٹورنٹ میں آجاؤ کیسے لیکر آنا ہے یہ تمہارا کام ہے ٹھیک ہے میں ٹرائ کرتی ہوں حیا نے کال بند کردی کیسے لے جاؤں مہر کو حیا ہاتھ تھوڑھی تلے رکھے سوچنے لگی پھپھو میں آجاؤں حیا نے دروازہ نوک کیا آجاؤ بیٹا حیا خدیجہ بیگم کے ساتھ بیٹھ گئی پھپھو مہر کی حالت تو دیکھی ہے نا آپنے وہ بہت کمزور ہوگئی ہے تین دنو سے کہیں باہر بھی نہیں گئی تو میں چاہتی ہوں کے آپ اسکو تھوڑی دیر تک کہیں باہر بھیجیں کھلی ہوا میں تاکے وہ اچھا محسوس کرے اب میں تو اسے کہ دیتی لیکن پھپھو میری بات وہ نہیں مانےگی تو میں چاہتی ہوں کے آپ اسکو منائین بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن تم دونو اکیلی کیسے جاؤگی وہ بھی رات کے وقت خدیجہ بیگم نے مسلہ ظاہر کیا اوہو پھپھو ہم فہد بھائی کے ساتھ جائیںگے آپ بس مہر کو مانا لیں ٹھیک ہے میں جاتی ہوں گرے کلر کے شارٹ فراک پڑ ہم رنگ کا حجاب پہنے ہلکی سی لپسٹک لگائے وہ باہر آئ چلیں فہد نے اسکو آتا دیکھا تو حیا سے متوجہ ہوا جی بھائی حیا نے ارحم کو ٹیکسٹ لکھ کے مطلوبا ریسٹٹورنٹ کا نام بتایا کچھ دیر میں وہ ریسٹورنٹ میں موجود تھے تو گرلز کیا کھانا پسند کرینگی آپ فہد نے خوش باش لہجے میں پوچھا بس اچھا سا کھانا کھلا دیں اوکے فہد آرڈر دینے لگا مہر لا تعلق بنی لوگوں کو دیکھ رہی تھی جیسے اسی لیے آئ ہو وہ ریسٹورنٹ کے ایسے حصے میں بیٹھا تھا جہاں سے مہر اسکو صاف نظر آرہی تھی کتنے دنون بعد اسنے مہر کو دیکھا تھا آج اتنے ٹائم بعد اسکو سکوں ملا تھا وہ بس اسے ہی دیکھے جارہا تھا مہر سے ہوتی اسکی نظر فہد پر پڑی ارحم کی آنکھوں میں حیرت ابہری اسنے موبائل نکال کر حیا کو ٹیکسٹ بھیجا یہ کون ہے تمہارے ساتھ اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا اسکا مہر کے اتنے قریب بیٹھنا مہر کھنا کھانے میں مصروف تھی فہد بھائی اب اچھا سا سوپ پلا دیں حیا نے منہ صاف کرتے ہوۓ فرمائش کی کچھ دیر میں سوپ بھی آگیا اوچ گرم سوپ غلطی سے مہر کے ہاتھ پر گر گیا فہد نے جلدی سے مہر کا ہاتھ تھام کے سوپ کو صاف کیا ارحم نے غصے سے مٹھیان بھینچ لیں اسکے ماتھے پر بل پڑ گئے ضبط سے اسکی آنکھیں سرخ پڑ گئیں اسے برداشت نہیں ہورہا تھا کے کوئی مہر کا اس طرح ہاتھ تھامے اسکی دسترس کے لیے یوں پریشان ہو وہ کرسی کو ٹھوکر مارتا ہوا باہر نکل آیا دسمبر کی سردییان شروع ہوگئین تھیں وہ کوفی کا کپ ہاتھ میں لیے چھت پر اکیلی کھڑی تھی سرد ہوا سے اسکے بالوں کی لٹین نکل کر اسکے چہرے پر بوسہ دے رہی تھیں فہد نے اسکو دیکھا تو ٹھٹھک گیا اتنی سردی میں آپ یھاں کیا کررہی ہیں اندر چلیں ورنہ سردی لگ جاۓگی فہد نے فکرمندی سے کھا
مہر نے گہرا سانس لیا جب روح پر پڑے زخم سرد پڑ جائیں تو باہر کی سردی کتنی بھی سرد کیوں نا ہو فرق نہیں پڑتا مہر درد سے کہتی فہد کو وہی ساکت چھوڑ گئی سکن کلر کی ٹائیڈس پر مہروں گھٹنو تک آتا فراک اس پڑ ہم رنگ حجاب پہنے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ایک لمحے کے لیے تو ارحم اسکو دیکھ کے بھول ہی گیا کے وہ کلاس روم میں ہے مس مہر شاہ چلیں پرسنٹیشن دیں آپ سکن کلر کی جینس پڑ مہرون شرٹ پہنے ہاتھ پینٹ کی جیبون میں ڈالے وہ مہر کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا مہر جواب دئے بنا ڈائس پڑ ہاتھ رکھے پرسنٹیشن دینے لگی اتنے میں ارحم کو شرارت سوجہی اسنے بیچ میں مہر سے سوالات پوچھے ایک سوال کا جواب وہ دے ہی رہی تھی کے وہ اگلے سوال پوچھنے لگتا جیسے ہی مہر نے جوابات صحیح دینے شروع کیے ارحم نے مہر کو آنکھ ماری مہر اسکی اس حرکت پر اسکو آنکھیں پھاڑ کے دیکھنے لگی ارحم نے پھر اگلا سوال کیا مہر نے جیسے ہی جواب دیا ارحم نے ہونٹ گول کرکے اس کی طرف فلائنگ کس پاس کی مہر کو تو مانو چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا ہی لگ گیا ہو وہ کنفیوز ہی ہوگئی اچھا ایک لاسٹ سوال اسنے مہر کو مزید مشکل سوال دیا اس بار ارحم نے حد ہی کردی پیپر پر آئ لوو یو لکھ دیا مہر نے زچ ہوکے چاک کو زمین پر مارا اور پیر پٹھختی ہوئی کلاس روم سے باہر نکل گئی سارے سٹوڈنٹس اسکو اجہنبہے سے دیکھ رہے تھے 😂
ہونہ کمینہ کہیں کا سمجھتا کیا ہے خود کو چھچہوروں والی حرکتتین دیکھو کیسے کر رہا تھا ہونہ دل کر رہا ہے اس کا سر پھاڑ دوں
وہ منہ پھلا کے پارک میں بیٹھ گئی اف مہر تم سر ارحم سے کیوں ایسے بی ہیو کرتی ہو اف اللہ کتنا ہندسم بندہ ہے سچی میرا تو دل کرتا ہے کے بس انھیں دیکھتی رہوں آئمہ نے کھوے ہوۓ لہجے میں کھا مہر کے تن بدن میں آگ لگ گئی اس کا دل کیا آئمہ کا منہ توڑ دے بھلے انکے بیچ میں کتنے بھی فاصلے تلخییان تھیں لیکن ارحم کے لیے کسی کے منہ سے یہ الفاظ اسے شدید غصہ دلا رہے تھے
وہ رخ موڑ کے بیٹھ گئی مہر سر فرید تمہیں اپنے آفس میں بلا رہے ہیں حیا نے ہاںپتے ہوۓ کھا
اسلام علیکم سر آپنے بلایا
وعلیکم سلام بچے پلیز ہیو اے سیٹ وہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی مہر دو بار اپنے مسٹر ارحم کی کلاس بنک کی ہے آپ تو بہت اچھی بچی ہیں پھر کیا وجہہ ہے ایسا کرنے کی؟؟؟ اور وہ کہ رہے تھے کے آپنے اسائینگمنٹ بھی جمع نہیں کروائی نا ہی آپ نے آج پرسنٹٹیشن صحیح طریقے سے دی جو بھی مسلہ ہے کھل کے باتیں
مہر سوچ میں پڑ گئی اصل میں سر مجھے انکے پڑھانے کا وے بلکل پسند نہیں ہے یا یوں سمجھ لین میں انسے پڑھنا ہی نہیں چاہتی مجھے وہ اچھے نہیں لگتے بلکل بھی مہر نے دو ٹوک انداز میں بات کی
بیٹا آپ اب سے انکی کوئی کلاس مس نہیں کرینگی اور دوسری بات کل سے آپ انسے ایکسٹرا کلاسس لینگی تھٹس فائنل نو مور آرگیو یو مے گو
ہونہ ایکسٹرا کلاسز وہ بھی اس شوخے سے میں لوںگی بلکل نہیں میں اس کام میں ذرا بھی دلچسپی نہیں رکھتی اس سے پڑھیگی میری جوتی وہ تیز تیز چلنے لگی کے کسی نے اسے کلائی سے پکڑ کے اسے دیوار سے لگایا مہر بوکھلا کے رہ گئی اسکی دل خراش چیخ کو ارحم کے ہاتھ نے روکا کیا کہا مجھسے پڑھنا آپ کو پسند نہیں ہے مجھ سے آپ اپنی جوتی پڑھوانا چاہتی ہیں اب تو تا عمر مجھے ہی برداشت کرنا ہوگا آپ کو مہر بی بی آپ کچھ بھی کر لیں ہم آپ کو اپنی زندگی میں دوبارہ لا کے ہی رہینگے مہر کھا جانے والی نظروں سے ارحم کو دیکھ رہی تھی وہ کچھ دیر مہر کو محبت پاش نظروں سے دیکھتا رہا پھر اسکی صبیح پیشانی پر بوسہ دیکر مہر کو ساکت چھوڑ کے چلا گیا
❤❤❤ ❤❤❤
پوری رات وہ ارحم کی اس حرکت کے بارے میں سوچتی رہی اسکے فائنل اگزیمز بھی سر پر تھے اسنے سب سوچوں کو جھٹک کے اپنی اسٹڈی پر فوکس کیا
پورے ہفتے وہ امتحان کی تیاری میں مصروف رہی کل انکا یونی کی طرف سے ٹور تھا
وہ رات کے وقت پیکنگ میں مصروف تھی مہر یہ ڈریس مینے تمہارے لیے لیا ہے دیکھو کیسا ہے حیا اسکو پکنک کی ڈریس دکھانے لگی وہ ایک سادہ سا فراک تھا ریڈ اور بلیک رنگ کا پر حیا یہ بہت ڈارک کلر ہے میں نہیں پہن سکتی مہر اگر تمنے یہ نہیں پہنا نا تو میں تمسے کبھی بات نہیں کرونگی حیا منہ پھلا کے بیٹھ گئی اچھا بابا ٹھیک ہے پہن لوںگی بس ہاں اب چلو کھانا کھانے پھپھو بلا رہیں ہیں خوش گوار ماحول میں کھنا کھایا گیا
رات کے گیارہ بج رہے تھے جب حیا کو ارحم کا میسج موصول ہوا حیا نے اسے بتا دیا کے مہر نے ڈریس لے لیا ہے اور کل وہی ڈریس پہن کے آئے گی
مارکیٹ سے ارحم نے ہی مہر کے لیے وہ ڈریس پسند کیا تھا
آنکھوں میں گہرا کاجل کلائی میں بلیک بریسلٹ پہنے سر پر ریڈ اور بلیک حجاب لیے وہ سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی بلیک جینس پر ریڈ ٹی شرٹ پہنے اس پر بلیک ہی رنگ کا لیدھر کا جیکٹ پہنے ہلکی بڑھی ہوئی شیو کلائی پر بلیک رنگ کی گھڑی پہنے ماتھے پر بکھرے بال وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہا تھا مہر نے چپکے سے اس پر نظر بد کی دعا پڑھ کے پھونک دی وہ عین مہر کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھا تھا گاڑی اپنے سفر کو روانہ ہوئی کچھ ہی دیر میں سب نے گانا سنانے کے لیے ارحم کو فورس کرنا شروع کیا ایک لڑکے نے ارحم کو گٹار پکڑایا
مہر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی لیکن اسکا پورا دھیان ارحم کی سمت تھا
تمہیں کوئی اور دیکھ تو جلتا ہے دل
بڑی مشکلوں سے پھر سمبھلتا ہے دل
کیا کیا جتن کرتے ہیں تمہیں کیا پتا
یہ دل بے قرار کتنا یہ ہم نہیں جانتے
مگر جی نہیں سکتے تمہارے بنا
ہمیں تمسے پیار کتنا ….
سب دم سادہے ارحم کی مدھر آواز کو سن رہے تھے
گانا ختم ہوتے ہی سب نے خوب تالیاں بجائین مہر کا سکتا سب کی تالییوں سے ٹوٹا واہ سر آپنے تو کمال کر دیا آپ کو تو سنگر ہونا چاہیے تھا ایک لڑکے نے بولا
اب کون سانگ سنائےگا
سب نے مہر مہر کی رٹ لگا ۔دی مہر کے نا نا کرنے پر بھی اس کی ایک نا سنی گئی
کچہ دیر وہ سوچتی رہی پھر آنکھیں موند کے اسنے گانا شررع کیا
آنکھوں میں آنسوں لیکے ہونٹوں سے مسکراے
آنکھوں میں آنسوں لیکے ہونٹوں سے مسکراے
ہم جیسے جی رہے ہیں کوئی جی کے تو دکھاے
ہم جیسے جی رہے ہیں کوئی جی کے تودکھا ے
جو ٹوٹ کر نا ٹوٹے کوئی ایسا دل دکھاے
ہم جیسے جی رہے ہیں کوئی جی کے دکھا ے
ہم نے تو کی محبت تو نے کی بے وفائی تقدیر یہ ہماری کس موڑ پر لے آئ تقدیر یہ ہماری کس موڑ پر لے آئ ٹوٹا ہے اس طرح دل آواز تک نا آ ئے ہم جیسے جی رہے ہیں کوئی جی کے دکھا ے ارحم
سانس روکے اس کی آواز سن رہا تھا کتنا درد تھا اسکی آواز میں اس سب کا ذمیدار میں ہوں ایک آنسوں پلکوں کی باڑ توڑ کے مہر کے گال پر بہ گیا اسنے سر جھکا لیا ارحم اسکو دیکھتا رہ گیا
پورے راستے وہ خاموش تھی
سفر اپنی منزل پر پوھنچا سب سٹوڈنٹس دھڑا دھڑ تصویریں نکالنے میں مصروف تھے ارحم نے بھی مہر کی بہت سی تصویریں لیں قریبی ریسٹورانٹ میں انہوں نے کھانا کھایا کھانا کھا کے سب اپنے اپنے روم میں چلے گئے ارحم نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے دیوار سے لگایا
یہ کیا بدتمیزی ہے مہر نے تلخی سے کھا بدتمیزی نہیں یہ میرا حق ہے ارحم نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوۓ کہا ہونہ حق تب کہاں تھا یہ حق جب مجھے اس حق کی ضرورت تھی مہر تمہاری یہ حالت مجھ تکلیف دیتی ہے میں اپنے سارے غلطییوں کی معافی مانگنے آیا ہوں معاف کردو مجھے اب خود کو یوں اذیت مت دو ارحم نے اسے کندھوں سے تھام لیا
مہر استیہازا ہنس دی
آپ کی جانکاری کے لیے آپ کو بتا دوں کے یہی درد اور اذیت آپنے ہی مجھے دی ہے یہ درد اور اذیت ہی ہیں جو تنہائی میں میرے ساتھی رہے ہیں میں کل بھی درد میں تھی میں آج بھی درد میں ہوں رہی بات معافی کی تو میں آپ کو معاف کرنے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں رکھتی آئندہ مجھ سے معافی مت مانگیئیگا سنا آپنے وہ سختی سے اسکے ہاتھ جھٹک کے روم میں چلی گئی کچھ دیر بعد وہ سب فریش ہوکے گھومنے کے لیے نکل گئے انکو آج رات ہی واپس آنا تھا سب لوگ گاڑی میں بیٹھ گئے مہر مسلسل حیا کو کال ملا رہی تھی اس کا نمبر بند جا رہا تھا اس کے موبائل کی بیٹری بھی ختم ہونے والی تھی وہ باتھروم میں لاک ہوگئی تھی اس نے دروازہ زور زور سے پیٹا لیکن بے سدہ
بس گھر کو روانہ ہوگئی مہر کی گیر موجودگی کا اب سب کو خیال آیا تھا ارحم کی جان پر بن آئ مہر بس میں نہیں بیٹھی تھی
وہ پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈ رہا تھا جب اسے کسی کے چیخنے کی آواز آئ بہ بچاؤ سم باڈی ہیلپ می وہ اپنے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی اسے لگا آج اس کی عزت داگدار ہو جاۓگی اس کا چہرا آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا کسی نے زور سے پیچھے سے ان لڑکوں کو لات ماری ارحم نے بے تحاشا لاتین اور گھوسے ان دو لڑکوں کو مارے وہ دونو بھاگ گئے مہر بھاگ کے ارحم کے گلے لگ گئی اس کا جسم کانپ رہا تھا وہ ارحم کے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی ارحم نے اسے خود میں بھینچ لیا ایئر اسکے ماتھے پر بوسہ دیا