وہ بھاگ رہی تھی جب ہر طرف سے گرد اڑنے لگی ، بابا اسکے پیچھے نہیں تھے اب ، وہ چھ سال کی بچی رونے لگی ۔۔۔۔
وہ اونچی آواز میں رو رہی تھی
اسکی تتلیاں کھو گئیں تھیں
جو ایک اس نے تتلی پکڑی ہوئی تھی جیسے ہی اس نے مٹی کھولی اسکی ہتھیلی پر خون تھا،
وہ زور سے چیخی
بابا ۔۔۔۔۔۔
با با جان۔۔۔۔
مگر ہر طرف اڑتی ہوئی مٹی میں سب کچھ کھو رہا تھا
اب وہ گہرے کالے اندھیرے میں تھی ، یہ کوئی کنواں تھا جہاں وہ قید تھی ہر طرف بچھو رینگ رہے تھے اسکے اوپر چڑھ رہے وہ جتنا جھٹکتی وہ اتنے ہی زیادہ تر ہوتے جا رہے تھے ،
بچاؤ
بچاؤ
مجھے نکالو یہاں سے
با با
بابا
مجھے بچاؤ ۔۔۔۔
اسکے سارے جسم پہ کالے بچھو بڑھتے آ رہے تھے ۔۔۔۔
تبھی ایک زوردار آواز سے وہ اٹھی تھی، سفید دودھیا دیواریں، بازو میں لگی ڈرپ اور ناک میں لگی مصنوعی سانس کی نالیاں، اس نے نرس کو اپنی طرف آتے دیکھا،
سارے بچھو اچانک سے غائب ہو گئے تھے ۔۔۔۔ وہ نیلے رنگ کے گاؤن میں تھی اور بری طرح ہانپ رہی تھی، زندگی نے اسے موت کے حوالے نہیں کیا تھا، اس ایک چیخ کے بعد وہ ساکن تھی،
نرس نے اسے واپس لٹایا اب دو ڈاکٹرز اسے ہر طرف سے چیک کر رہے تھے ،
وہ اتنے دن سے جس اندھیرے میں تھی وہ موت کا اندھیرا نہیں تھا، اسکی گہری نیند تھی، وہ پچھلے تین ہفتوں سے کومہ میں تھی ، اسکا جسم اتنا کمزور تھا کہ وہ اپنا بازو تک ہلا نہیں پا رہی تھی،
اس دن جب اسے تیار کروا کر سیج پر بٹھایا گیا تھا تب اسے اپنی طرف کوئی آتا ہوا نظر آیا تھا اور وہ اس چہرے کو دیکھ کر دنیا سے اپنا ناطہ توڑنا چاہتی۔تھی کہ اس رات کوئی بھی ہوتا مگر وہ نا ہوتا۔۔۔۔
وہ ۔۔۔۔
وہی تھا جس کے سامنے سر اٹھا کر جیتی آئی تھی اور اب ایک کوٹھے پر اسے ملی۔۔۔۔
اس کے آگے کچھ نظر نہیں آیا اسکا نروس بریک ڈاؤن ہوا تو وہ تین ہفتے اندھیرے میں بھٹکتی رہی تھی۔۔
اسے نیند کے انجیکشن دیئے جا رہے تھے اسکا زہین بند ہو رہا تھا
وہ سو رہی۔تھی مگر دماغ جیسے اٹک گیا ہو۔۔۔
امیر شاہ ۔۔۔۔۔
امیر شاہ
میرا امیر شاہ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے دو ماہ سے وہ اس تاریک کوٹھڑی میں بند تھا، ہر طرف اندھیرا اور سیلن کی بساند تھی، وہ روز ایک نئی آزمائش سے گزر رہا تھا
اور وہ اس میں قید کاٹ رہا تھا اسے علم تھا کہ جو وہ جلد از جلد نا نکلا وہ اپنے پیچھے بہت کچھ کھو دے گا
، دو ماہ اس نے اس کالی کوٹھڑی میں کاٹ دیۓ کہ اسکی بے گناہی کا یقین کر لیا جاتا ، مگر ایسا نا ہونا تھا نا ہی ہوا ، وہ اس کوٹھڑی کو دیکھ رہا تھا، جو اتنی چھوٹی تھی کہ وہ سیدھا کھڑا تک نہیں ہو سکتا تھا اور نا ہی اپنے پاؤں سیدھے کر پاتا تھا
یا اللہ تجھ تیرے حبیب کا واسطہ میری اس آآزمائش کو ختم کر، میں مزید سہہ نہیں سکتا، اسے کھانا اتنا ہی دیا جاتا کہ وہ زندہ رہ سکتا، رفاے حاجت کے لیے بھی وہ کئی کئی دن تک انتظار کرتا ، اسکی حالت دن بدن بگڑ رہی تھی، سوکھ کر کانٹا ہوتا جا رہا تھا، اسے اس اندھیرے سے نکلنا ہی تھا، پاکی نا پاکی ہر شے کا احساس ختم ہو گیا تھا، زندگی کی ریت کی مانند ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی تھی، وہ خود کو مزید اس حالت میں نہیں رکھ سکتا تھا ۔۔۔۔
اماں، آپ دعا کیجیے میرے لیے، ماؤں کی دعائیں بہت جلدی لگتی ہیں، اپنی دعاؤں سے میری آآزمائش کے کم ہونے کی دعا کریں کیوں نہیں کرتی آپ دعا
اماں۔۔۔۔ وہ اونچا پورا مرد پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپے، وہ دوزانو بیٹھا ہوا تھا۔۔۔
کب تک ؟ اللہ پاک جی میری مدد کریں جیسے یوسف علیہ السلام کی مدد کی تھی، اپنی بے گناہی ثابت کرنے کو، آپ جانتے ہیں کہ میں بے قصور ہوں، جیسے انکی مدد کی اس پاک پیغمبر اسلام کے صدقے میری بے گناہی ثابت کر دے میرے مالک، وہ رو رو کر اللہ کے حضور اپنا مقدمہ پیش کر رہا تھا
وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا، اور دونوں ہتھیلیوں سےگال رگڑ ڈالے، وہ روز ایسی عرضیاں عرش معلیٰ پر بھیجتا اور روز ایک تسلی اسے ملتی تھی، اسکی ہر سانس ایک دعا تھی،
اور ہر ساعت ایک آزمائش،
اور وہ اپنے رب کی طرف سے اس آآزمائش کے لیے چنا گیا تھا، اپنی تو چاہے اسکی جان بھی قربان ہو جاتی ، مگر اسے اپنے پیچھے رہ جانے والے رشتوں کی فکر ستاتی تھی، کہ وہ جو اسکے بناء کبھی جی نہیں پاتے تھے وہ زندہ بھی تھے کہ نہیں۔۔۔۔۔
اسے کئی سارے وسوسے ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھے، مگر ابھی تک وہ ان کو خود سے جھٹک رہا تھا مگر اب کئی دنوں سے وہ قید ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صامن شاہ ولد منصور شاہ آپکا نکاح شیر دل خان ولد ہشمت خان سے کروایا جاتا آپکو قبول ہے؟؟
اس نے منہ سے اقرار نہیں کیا مگر سر ہلا کر اپنے راضی ہونے کی تصدیق کی
کہ وہ منہ سے بولنے کی سکت نہیں رکھتی تھی، نکاح خواں دستخط کے بعد رجسٹر لے کر نکل گیا تھا،
ارحم ، اور ارقم نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کوئی دعا نہیں دی تھی
باپ کا شفقت بھرا نہیں رکھا تھا
مولوی کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ اسکی سماعتوں پہ پگھلے ہوئے سیسے کی مانند لگ رہے تھے کہ وہ انکار کرنے کی جرات نہیں کر سکتی تھی کہ اسے اپنے بھائی پہ یونہی قربان ہونا تھا، اپنی جان سے بڑھ کر چاہنے والا بھائی اسکی اس قربانی سے رہائی پا سکتا تھاآپی آپ نے ایسا کیوں کیا۔۔۔
آپکو ارصم بھائی کا خیال کیوں نہیں آیا آپکو کس بات کی جلدی تھی ، کہ ان کے لوٹ آنے کا بھی انتظام نہیں ہوا آپ سے
بولیں آپی
یہ کیا بولے گی یہ بول چکی جو کچھ بولنا تھا، ہماری ناک کے نیچے یہ رنگ بازیاں کھیلتی رہی ہمیں کانوں کان خبر نہ ہونے دی، ارے خصم ہی چاہیے تھا تو ہم سے کہتی ہم ڈھونڈ ہی لیتے مگر تجھے سیج پر چڑھنے کی جلدی تھی، اتنی ہی جوانی سنبھالی جاتی تھی تو کچھ کھا کر مر جاتی، تیرے باپ کی اس عمر میں ناک تو نا کٹتی صامن تیرا ستیاناس ہو، تو کبھی خوش نہیں رہے گی میری آہ لگے گی تجھے،
کوکھ کو تو نے جو ڈنگ مارا ہے نا تو ارے ماں جائے کی کوئی خبر آ لینے دیتی، کہ زندہ ہے کہ مر گیا ۔۔۔ اماں نے اسے دونوں ہاتھوں سے پیٹ ڈالا تھا، اور اورنچی آواز میں بین ڈالنے لگی تھیں،
دونوں بھابھیاں جو اسے نیک اور شریف سمجھتی تھیں، دونوں نے ہی اسکو بے نقظ سنائی تھیں، وہ اسکی شکل دیکھنے کی بھی روادار نہ تھیں دونوں بھائی جنہوں نے اسکے چاہ لاڈ کے تھے آج منہ موڑے کھڑے تھے ایک بار وہ عزت سے اس گھر سے نکل جائے تو پھر زندگی بھر اسکی شکل نہیں دیکھیں گے
وہ بے بس لاچار بنی بیٹھی تھی آمن اسکے قدموں کے پاس زمین پر زودانو بیٹھی ہوئی سراپہ سوال تھی کہ اسکی حیادار بہن ایسی عزتوں کی دشمن نکلی تھی،
وہ برف کی طرح ٹھنڈی اور سرد تھی رنگت میں زردیاں گھلی ہوئی تھیں، اسکے سہاگ کا سرخ جوڑا اسکے کنوارے ارمانوں ، تمناؤں کا خون تھا، مگر وہ لبوں پہ چپ کے قفل ڈالے ساکت پتھر کی مانند تھی، کئی تولے سونے کے زیورات اور بھاری لہنگے پر اسکا روپ دو آتشہ تھا ماہر بیوٹیشن کے ہاتھوں نے اسکا انگ انگ سنوار دیا تھا ،
مگر اسکی خالی سرد آنکھوں پر کسی نے دھیان نہیں دیا، کسی نے نہیں دیکھا کہ محبت پا لینے والی دلہن اتنی ویران تو نہیں ہوتیں، اسکی دل کی وحشت آنکھوں میں آن سمائی تھی، دل ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوا تھا کہ کسی کو سنائی نہیں دیا تھا،
آپی ۔۔۔ آپ نے ایسا کیوں کیا صرف ایک بار بول دیں، کس نے مجبور کیا ، بولیں آپی ، پلیز آمن پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی، بولیں نا آپ ایسی نہیں تھیں، میری آپی ایسا کر ہی نہیں سکتی،
کوئی مجبوری نہیں تھی،
صامن شاہ نے آمن کے ہاتھوں کو زور سے جھٹکا، کتنی بار بولوں
محبت کرتی ہوں ان سے، پتہ نہیں کب سے مگر ارصم کو پتہ نا چلے اسلئے یہ شادی اسکی غیر موجودگی میں کروانا چاہتی تھی،
بہتر ہے کہ میری خوشی میں خوش نہیں ہو سکتی تو اماں کی طرح بین مت ڈالو، اتنی مشکلوں سے تو وہ مجھے مل رہے ہیں، میرا روم روم انکی محبت سے لبریز ہے، وہ اپنی نتھ کو ٹھیک کرتے ہوئے بول رہی تھی، میرے تو ہاتھ خوشی سے ٹھنڈے ہوئے جا رہے ہیں،
ایک بار مجھے ساتھ لے جائیں تو پلٹ کر نہیں دیکھوں گی
تم لوگوں کو میری خوشی سے کوئی مطلب نہیں، اسلئے تو رونا دھونا مچا کر رکھا ہوا ہے،
وہ کبھی چوڑیاں چھیڑتی تو کبھی جھمکے سہی کرنے لگتی ، وہ سنگھار میز کے سامنے پڑے ہوئے سٹول پر بیٹھ گئی، سامنے پڑا ہوا پرفیوم اٹَھا کر ڈھیروں ڈھیر خود پر چھڑک لیا، وہ زبردستی مسکرانے کی کوشش کر رہی تھی،
ہم سے دس گناہ ذیادہ امیر ہے، وجاہت دیکھی ہے، افف میرے ساتھ کھڑے کتنے جچیں گے، وہ اپنے مومی پیروں کو گولڈن نازک سے سینڈلز کی سٹریپس بند کرتے ہوئے بول رہی تھی،
اف اللہ خوشی سے جان نکل رہی ہے اور تم نحوست پیھلا رہی ہو، اگر تمہیں میری خوشی سے کوئی مطلب نہیں تو دفع ہو جاؤ اس کمرے سے باہر، آمن شاہ جو اپنی بہن کو دیکھ رہی تھی اس کی آخری بات پر منہ پہ ہاتھ رکھے روتی ہوئی باہر نکل گئی
صامن شاہ جو سنگھار میز کے سامنے بیٹھی تھی اپنے پور پور سجے روپ کو دیکھ کر سسک اٹھی اور سر سامنے پڑے میز پر ٹکا دیا، ارصم۔۔۔۔
میرا بھائی،
ارصم تم تو میرا یقین کرو گے نا، تمہاری بہن ایسی نہیں ہے، ارصم ۔۔۔۔ وہ سسک سسک جا رہی تھی
بہنوں کو تو صدیوں سے اپنے باپ بھائیوں پر قربان ہونا پڑا تھا، مگر انکی قدر کرتے ہوئے مگر یہاں سے وہ جیسے جا رہی تھی اتنی بے قدری اور بے عزتی کے ساتھ، مگر ارصم جیسے بھائی کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی تھی ، سو وہ قربان گاہ جا رہی تھی ، اتنی سج دھج کے ساتھ کہ اسکے بھائی کی رہائی کی یہ ہی قیمت تھی صامن شاہ کی زندگی۔۔۔۔
آ پی ، چلیے، نیچے بلا رہے آپکو،
صامن شاہ کو اپنے پیروں میں سے جان نکلتی محسوس ہوئی یوں کہ وہ کسی معجزے کے انتظار میں تھی ، مگر اسکا بلاوہ آچکا تھا
صامن شاہ نے سر سے پیر تک اپنی بہن کو دیکھا جو اس سے پانچھ سال چھوٹی تھی، جیسے وہ روز رات کو پریوں کی کہانیاں سناتی تھی، جس کی ہر ضد کو صامن شاہ نے پورا کیا اور کروایا تھا، سرخ سفید بلی جیسی آنکھوں والی شہد رنگی بالوں کی چٹیا ایک طرف ڈالے مونگیا انگرکھے میں نازک سی بالیاں پہنے ہوئے وہ نازک سی موم کی گڑیا لگ رہی تھی، ایک لمحے کو تو آمن شاہ کو سب کچھ بتا دینے کو دل کیا۔۔۔مگر ارصم کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی، تو صامن شاہ نے لبوں کے قفل اور مظبوط کر لئے، اور دونوں بانہیں پھیلائے ہوئے اسکی طرف دیکھا، آمن شاہ بھاگ کر بہن کی بانہوں میں سمائی تھی،
آپی مجھے چھوڑ کر نا جائیں،
یہ سب مجھے آپ سے کبھی ملنے نہیں دیں گے، تم ارغم کا اماں کا بابا کا خیال رکھنا، انہیں کبھی اکیلا مت چھوڑنا
میرے بعد بابا کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا، صبح نماز کے فورا بعد ہی وہ چاۓ پیتے ہیں، پھر انکی دوائی دینا اور سردیاں ہیں تو ان کے روم کا ہیٹر چیک کرتی رہنا، اماں کو تلی ہوئی چیزیں کھانے مت دینا، کولیسٹرول بڑھ جاتا ہے نا انکا روزانہ شام کو واک کروانا، اور گھٹنوں کی مالش بھی اسکا تیل وہاں الماری میں پڑا ہے، ویسے تو ارصم اب آ جائے گا مگر جب تک وہ نہیں آتا یہاں ہی رہنا، سمجھ گئی نا
وہ آمن شاہ کا چہرہ ہاتھوں میں لیے سسک پری تھی،
ارصم سے کہنا بہت پیار کرتی ہوں اس سے وہ تیزی سے باہر کی جانب لپکی کہ اس کے منہ سے کچھ نکل نا جائے کہ اسکے بھائی کی رہائی ممکن نا ہو تی۔۔۔
جیسے ہی وہ باہر نکلی منصور شاہ نے اسے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا، رابعہ شاہ مارے باندھے اسے ساتھ لیے دروازے تک آئیں تھیں کسی نے اسکے سر پر ہاتھ نہیں رکھا تھا، نا ہی کوئی دعا اسکی مشعل راہ بنی تھی وہ آہوں اور بددعاؤں میں اپنی دہلیز پر قدم رکھے کھڑی تھی
اسلیے لوگ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے وہ سہی کرتے تھے کہ تم جیسی بیٹیاں انہیں جیتے جی مار نا دیں، اس نے منصور شاہ کو کہتے سنا،
چھن سے اسکے اندر کچھ ٹوٹا تھا، جس نے ہر طرف سناٹا بکھیر دیا تھا،
اس نے ایک نظر ان سب کو دیکھا اور سسرالی رشتوں کے ساتھ لینڈ کروزر میں بیٹھ گئی تھی، وہ دوبارہ یہاں کبھی نا آسکے گی وہ جانتی تھی ، اس لئے تو اسکا سجا سجایا جسم ہی رخصت ہوا تھا، روح نہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیر شاہ تم ۔۔ہاں میں کیسی ہو عینی، قراۃالعین کو تپتے صحرا میں چھاؤں مل گئی تھی، وہ امیر شاہ کے طرف بھیگی نگاہوں سے دیکھا تھا
تمہیں پتہ ہے میرے ساتھ کیا ہوا ۔۔۔
امیر شاہ تمہاری عینی اجڑ گئی ، اجڑ گئی
وہ بلک رہی تھی دونوں ہاتھوں میں امیر شاہ کے ہاتھ تھامے ،
میرے عزت کے رکھوالے عزت کے دشمن بن گئے، میں خود کو بچا نہیں سکی، امیر شاہ میں لٹ چکی ہوں،
بس کرو عینی ۔۔۔۔
مت رو اتنا، تمہاری طبیعت پہلے ہی نہیں ٹھیک، اگر اتنا رو گی تو مر جاؤ گی۔۔۔۔ اگر اس رونے سے میری موت کی خواہش پوری ہوتی تو اپنا وجود آنسوؤں میں بدل دیتی امیر شاہ میں
مر ہی تو جانا چاہتی ہوں، مگر مر نہیں سکی کہ میری لاش تک وہ نہیں چھوڑتے امیر شاہ
تم مجھے مار ڈالو
کہیں دفنا دینا، مگر کسی کو بتانا مت ورنہ وہ میری ہڈیوں کو بھی نہیں چھوڑے گا امیر شاہ تم اپنے ہاتھوں سے میری جان لے لو
وہ بیڈ پر بیٹھی اسکی کمر سے لپیٹی رو رہی تھی،
امیر شاہ یہ وجود ، یہ خوبصورتی میری دشمن بن گئی ہے،
مجھے اس قید سے چھڑا دو، اس خوبصورت مجسمےکی قید سے، امیر شاہ تم تو اتنے لوگوں کی جان لیتے ہو مجھے بھی مار ڈالو
کیسے مار دوں تمہیں، تم مر گئیں تو امیر شاہ کیسے جئے گا
بتاؤ کیسے جئے گا؟؟؟!
ایک سندھی وڈیرا جس کے سینے میں تمہاری محبت نے دل کی جگہ پتھر رکھ دیا، جسکی جان تم میں تب سے بسی ہے جب سے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا کیسے مار دوں تمہیں، وہ اسے اپنے سینے میں چھپائے آبدیدہ تھا،
اٹھو ہمیں نکلنا ہے یہاں اس سے پہلے کہ بابا کو تمہاری خبر ہو، جلدی کرو
وہ اسکے سر پر چادر پیھلا رہا تھا ، نیچے جھک کر اسکے نازک پیروں میں سینڈل ڈالے ، اور چھوٹا سا بیگ جو اسکے سامنے پڑا تھا فورا آٹھایا اور وہ تیزی سے اسلام آباد کے اس ہسپتال سے باہر نکلے تھے، بلیک لینڈ کروزر میں کوئی نہیں تھا سوائے ان دونوں کے،
جو اب ایک انجانی منزل کی طرف رواں دواں تھے، ٹرنکولایزرز کے اثر کی وجہ سے قراۃالعین بار بار نیم غنودگی میں جا رہی تھی ، وہ امیر شاہ کے چوڑے سینے پر پرسکون نیند سو رہی تھی، امیر شاہ کی گرم چادر میں لپیٹی وہ قریبا چھپ ہی گئی تھی،
امیر شاہ ایک ہاتھ سے اسے سنھبالے ایک ہاتھ سے سٹیرنگ سنبھالے ہوئے تھا،
امیر شاہ کو وہ دن بہت شدت سے یاد آیا تھا جس دن اس نے قراۃالعین کو ہمیشہ کے لیے خود سے الگ کیا تھا ،
جب تیمور شاہ نے اسے موت کا پروانہ تھمایا تھا
جب وہ رو رو کر اپنی محبت کی دہائی دے رہا تھا
بابا پلیز آپ ایک بار صرف ایک بار اپنے بیٹے کے بارے میں سوچیں، آپکی نسل کا امین ہوں میں۔۔۔۔
اگر میں ہی نا رہا تو آپ کیا کرو گے۔۔۔۔
با با جان پلیز۔۔۔۔ مجھ سے میری خوشی مت چھینں میں مردوں کی طرح نہیں جی سکوں گا۔۔۔۔۔
وہ اونچا بڑا مرد ہچکیوں سے رو رہا تھا۔۔۔۔ بابا جان ساری زندگی آپکی ہر بات مانی ہے ۔۔۔۔ مجھے میری محبت سے جدا نا کریں۔۔۔۔
پلیز بابا ، میں عینی کے بناء ادھورا ہوں۔۔۔۔
کالے رنگ کے سلوار سوٹ میں اسکی رنگت چاندی کی طرح چمک رہی تھی، لمبی گھنی پلکوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہہ رہی تھیں
وہ دونوں ہاتھ باندھے اپنے باپ کے پیروں میں فریادی بنا بیٹھا تھا۔۔۔۔۔ صاف شفاف ہاتھ ان کے سامنے جوڑے وہ پتھر کی مورت کو رام کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔
بابا وہ میری زندگی ہے۔۔۔۔
اسے کچھ مت کریں۔۔۔۔ بابا اسے کچھ مت کہیں قصور تو میرا ہے مجھے جو چاہے سزا دے دیں بابا۔۔۔۔۔
وہ انکا ہاتھ تھامے خود کو تھپڑ مارنے لگا تھا تبھی تیمور شاہ نے اپنے ہاتھ اس سے چھڑواتے ہوئے
اسکے ہاتھ میں چاندی کا کڑا اور گلے میں شہ رگ کے حفاظت کا تعویز باندھا ہوا دیکھاتھا۔مگر وہ تعویز بھی اسکو بچا نہیں پائے گا جو اسکی محبت اس سے روٹھ گئی۔۔۔۔۔ابھی اگر وہ نرم پڑ گئے تو ساری زندگی سر جھکا کر جینا پڑ جاتا انہوں نے خود کو اور زیادہ مظبوط کیا۔ وہ لڑکی جب تک ان کے قبضے میں تھی وہ امیر شاہ سے ہر بات منوا سکتے تھے ایک بار وہ لڑکی امیر شاہ کے پاس چلی جاتی وہ باغی بن جاتا جو وہ نہیں چاہتے تھے، ابھی بازی انہیں کے ہاتھوں میں تھی وہ حالات کا رخ موڑ سکتے تھے۔۔۔۔۔
انکے لہجے میں رعونت اور غصہ دونوں آگئے تھے
امیر شاہ ہم نے تم سے کہا تھا کہ ہمارے خون میں ملاوٹ کبھی مت کرنا۔۔۔۔
مگر تم نے ہماری نہیں مانی۔۔۔۔
اس لڑکی نے اپنی تباہی کو آواز دی ہے ، ہر روز وہ بکے گی ہر روز اسکی عزت کی چادر اتاری جائے تب ۔۔۔۔۔ تب ہمارا بدلہ پورا ہو گا امیر شاہ
انہوں نے اپنے سامنے بیٹھے اکلوتی اولاد کے کندھے پر زوردار ٹھوکر ماری تھی۔۔۔۔تم نے غدراری کی ہم سے۔۔۔۔ اور غداری کی سزا موت ہے ۔۔۔۔ صرف موت
امیر شاہ اگر تمہیں وہ لڑکی صحیح سلامت دیکھنا چاہتے ہو تو تمہیں اسے چھوڑنا ہوگا ورنہ ہم اسکی بوٹیاں تک نوچ لیں گے نا وہ جی سکے گی نا مر سکے گی۔۔۔۔۔
سمجھے
اتنے بڑے ہال کی درو دیوار ان کی آواز سے لرز اٹھے تھے۔۔۔۔
بابا آپ جو کہیں گے کروں گا۔۔۔۔ اسے چھوڑ دیں بابا ۔۔۔۔۔
اسے جانے دیں وہ امیر شاہ کی عزت ہے، میں کبھی اسکی شکل تک نہیں دیکھوں گا یہ میرا آپ سے وعدہ ہے، جیسا آپ چاہیں گے وہی ہو گا۔۔۔۔
وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے بلک بلک کر رو رہا تھا۔۔۔۔
یہ نہیں تھا کہ وہ کمزور تھا ۔۔۔۔ مگر وہ بے بس تھا اپنے باپ کی طاقت کے سامنے بے بس اور مجبور تھا محبت کے ہاتھوں۔۔۔۔۔
تیمور شاہ نے پلٹ کر اسے دیکھا جو زارو قطار فریادیں کر رہا تھا۔۔۔۔
تم امیر شاہ ہمیں زبان دو کہ ہم جو چاہہیں گے وہی ہو گا ۔۔۔۔
وہ یکدم سے کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔
میں امیر شاہ بن تیمور شاہ اپنی آن۔بان شان کی قسم کھا کر زبان دیتا ہوں کہ جیسا آپ چاہیں ویسا ہی ہوگا۔۔۔۔
قراۃالعین کو جانے دیں۔۔۔۔
ٹیھک ہے بچے۔۔۔۔
انہوں نے اپنی کندھوں پر رکھی چادر کو زور سے جھٹکا اور مونچھوں کو تاؤ دیتے وہاں پڑے بڑے سے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئے۔۔۔۔
انکے چہرے کی مسکراہٹ کچھ اور شاطرانہ ہو گئی تھی۔۔۔۔
تیمور شاہ وہ سانپ تھا جو اپنے بچے تک نہیں چھوڑتا ۔۔۔۔۔
اتنی بڑی حویلی کا چھوٹا شاہ ٹوٹے شکستہ دل کے ٹکڑے لیے وہاں سے نکل آیا تھا
وہ مر چکا تھا اب صرف ایک زندہ چلتے پھرتے لاشے کو سانس چلنے تک اسے ڈھونا تھا۔۔۔۔
صحیح کہتے لوگ محبت انسان کو روگی بنا دیتی ہے۔۔۔۔ پھر چاہے وہ امیر شاہ کی طرح بڑی حویلی کا شاہ ہو یا کسی کچے مکان کا کوئی رہنے والا۔۔۔۔۔جسے محبت کی ٹھوکر لگے وہ ساری زندگی نہیں آٹھ پاتا آج امیر شاہ کو لگی ٹھوکر نے اس سے اسکی زات کا غرور چھین لیا تھا، وہ تہی دامن تھا مگر اسکے ہاتھوں میں ان دیکھی زنجیریں پڑ گئی تھیں۔۔۔۔ اسکے قدموں کی مظبوطی ختم ہو گئی،
اپنے بڑے سے کمرےمیں آتے ہی وہ بلک بلک کر گھٹنوں پر سر رکھ کے رویا تھا
بار بار وہ آسمان کی جانب شکوہ کناں نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
باہر بجتےاسکی شادی کے شادیانے اسکے کانوں پر ضرب پہ ضرب لگاتے جا رہے تھے۔۔۔۔
خیر منگدامیں تیری ربا سے یارا
مہر منگدا میں تیری۔۔۔۔۔
یار بناء جینا سکھا دے اوہ ربا میرے
پیار بناء جینا سکھا اوہ ربا مجھے
؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی کہ قراۃالعین اسکے سینے سے پھسل کر گود میں گری کہ وہ گہری نیند میں تھی
عینی ۔۔۔
عینی ہوش کرو، گھر پہنچ گئے ہیں، اٹھو، وہ اسے سیٹ کی پشت سے لگائے چہرہ تھپتھپا رہا تھا
، ہمم۔۔۔۔ ہممم۔۔۔۔ م۔۔۔ وہ ہولے ہولے نیند کی وادیوں میں سے باہر آ رہی تھی،
گھر آ گیا امیر شاہ نے اپنی
طرف کا دروازہ کھولا اور تیزی سے باہر نکل کر اسکی جانب آیا جو گہرے گہرے سانس لے رہی تھی
وہ اسے آٹھویں منزل پر موجود پینٹ ہاؤس میں لایا تھا
وہ اسے ایک بار کھو چکا تھا مگر اب وہ ایسا ہونے نہیں دے گا اب وہ تیمور شاہ کے سامنے کمزور نہیں پڑے گا پھر چاہے کچھ بھی ہوتا
عینی کو وہ اپنی جان سے بڑھ کر تحفظ دے گا
ساتھ ہی اس نے فون کو آن کیا جو صبح سے بند تھا ، آن کرتے ہی فون بجنے لگا تھا دوسری طرف سائرہ شاہ تھیں قراۃالعین کی ماں ، مامی عینی میرے پاس ہی ہے اور وہ محفوظ ہے ، آپ اسکے لیے اب پریشان نا ہوں ، اب میں ہوں اسکے صبح اس سے نکاح کروں گا، آپ دعا کیجیے گا ہمارے لیے، کہہ کر وہ فون دکھ کر عینی جی جانب متوجہ ہوا جو اسکے سامنے کھڑی اسے دیکھ رہی تھی، عینی ۔۔۔۔
میری زندگی
میری جان ،
امیر شاہ نے دونوں ہاتھوں میں اسکا چہرہ تھاما تھا، تم فریش ہو کر آؤ کھانا منگواتا ہوں تب تک
اوکے وہ اسے تسلی دیتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گیا۔۔