وہ بچہ جس نے اپنا نام عاشر بتایا تھا اسے اپنے ساتھ لئے اونچی نیچی پگڈنڈیوں سے گزرتا ایک کوڑے کے ڈھیر کے پاس لے آیا ۔ جہاں سے اٹھتے بدبو کے بھبھوکوں نے کشمالہ کو ناک پر ہاتھ رکھنے پہ مجبور کر دیا تھا۔ جگہ جگہ لگے گندگی کے ڈھیر دیکھ کر اسے کراہیت محسوس ہوئی تھی اس نے شدت سے عدیمہ کے وہاں نہ ہونے کی دعا مانگی ۔عاشر بلا جھجک کوڑے کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا اور وہ زینب بی بی کا ہاتھ تھامے خود کو رونے سے روک رہی تھی۔
”یہاں تو کوئی نہیں ہے۔ “ کوڑے کے ڈھیر پہ جھکے جھکے عاشر نے کہا۔
”وہ یقیناً راستہ بھول گئی ہو گی۔۔۔ ورنہ اب تک کوئی نہ کوئی اسے ہمارے پاس ضرور چھوڑ جاتا“ موہوم سی ایک امید اب بھی باقی تھی۔
” یہاں جب بچے گم جائیں تو پھر ملتے نہیں ہیں اور اگر مل بھی جائیں تو وہ زندہ نہیں ہوتے“ عاشر نے سنسنی خیز انداز میں خبر سنائی جسے سن کر کشمالہ کا دل دہل گیا تھا۔
”ایک دو اور جگہیں ہیں وہاں چل کر دیکھتے ہیں “ اس کے چہرے کے اڑے رنگ دیکھ کر عاشر نے تسلی دینے والے انداز میں کہا تو وہ بنا کچھ کہے اس کے ساتھ چل پڑی۔
”لگتا ہے تمہاری بہن اب کبھی نہیں ملے گی“ عاشر نے مایوسی سے کہا۔ چوتھی جگہ پر ڈھونڈنے کے بعد بھی عدیمہ کا کچھ پتا نہیں چلا تھا۔
”آہ۔۔۔“ کسی کے کراہنے کی آواز پر ان کے کان کھڑے ہو گئے تھے وہ دونوں بیتابی سے اردگرد ڈھونڈنے لگے۔
آپا۔۔۔اماں۔۔۔داور۔۔۔ابا“ درد میں ڈوبی آواز مسلسل آئے جارہی تھی اور آواز دینے والی کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ عاشر نے آگے بڑھ کر دیوار کے دوسری طرف دیکھا اور وہاں پڑے نیم برہنہ وجود کو دیکھ کر فوراً نظریں موڑ کر کشمالہ کو آواز دی تھی۔ وہ دس بارہ سالہ لڑکا کسی بہترین سکول نہیں گیا تھا کسی درسگاہ سے نہیں پڑھا تھا لیکن پھر بھی اس میں روایات باقی تھیں۔
”عدیمہ۔۔۔عدیمہ میری جان۔۔“ اس کی حالت دیکھ کر کشمالہ پر بجلیاں گری تھیں اور اس نے پوٹلی سے اپنا دوپٹہ نکال کر اس کے گرد لپیٹا تھا۔
”آپا۔۔۔۔“ وہ کچھ بولنا چاہ رہی تھی لیکن لفظ اس کے منہ سے ادا نہیں ہو رہے تھے۔
” عاشر یہاں ہسپتال کہاں ہے؟ ۔۔۔ عدیمہ کو ہسپتال لے کر جانا ہے“ وہ عدیمہ کا سر گود میں رکھتے ہوئے تڑپ کر چلائی تھی زینب بی بی بھاگتی ہوئی آئی تھیں اور اپنی معصوم بیٹی کی حالت دیکھ کر ان کا کلیجہ منہ کو آ گیا تھا۔
”تم اسے لے کر سڑک تک آ جاؤ کوئی گاڑی مل جائے گی۔۔۔یہاں سے ہسپتال دور ہے “ عاشر کے کہنے پر وہ بمشکل عدیمہ کو اٹھائے سڑک تک آئی اور اسے زینب بی بی کی گود میں لیٹا کر گاڑی روکنے کی کوشش کرنے لگی۔ اس نے اور عاشر نے اس مصروف ترین سڑک پر نجانے کتنی گاڑیوں کو ہاتھ دے کر روکنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کے لئے کوئی ایک بھی گاڑی نہیں رُکی تھی۔ سب انہیں مانگنے والا سمجھ کر نظر انداز کرتے جا رہے تھے۔
عدیمہ کی بگڑتی حالت دیکھ کر وہ دوبارہ اس کے پاس آئی تھی۔
”آپا۔۔۔“ عدیمہ نے کانپتا ہوا اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا۔
”سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ ابھی ہم ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں“عدیمہ کا ہاتھ تھپتھپاتے اس کی آواز رندھ گئی تھی۔
”آپا۔۔۔“ اس نے دوبارہ کچھ بولنے کی کوشش کی تو کشمالہ نے اپنے کان اس کے منہ کے پاس کر لیے۔
”آپا۔۔۔ تیرا۔۔۔ پاکستان تو۔۔۔ بہت۔۔۔ برا ہے“ عدیمہ کے منہ سے لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہوئے تھے اور پھر وہ خاموش ہو گئی۔
”نہیں عدیمہ نہیں۔۔۔ ہوش میں آؤ“ اس نے زینب بی بی کی گود میں رکھا اس کا چہرہ ہلایا لیکن وہاں کوئی ہلچل نہیں ہوئی۔
”عدیمہ نہیں۔۔۔ آنکھیں کھولو۔۔۔ ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔۔۔ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔۔۔ پلیز آنکھیں کھولو“ کشمالہ کی آہ و بکا سن کر اردگرد لوگ جمع ہونے لگے تھے۔ زینب بی بی کی زبان تالو سے چمٹ گئی تھی بیٹی کے بے جان ہوتے وجود کو دیکھ کر انہیں لگا اب وہ کبھی نہیں بول سکیں گی۔
”قاتل ہو تم لوگ۔۔۔ظالم ہو۔۔۔محبت کے قابل نہیں ہو۔۔۔میں پاگل تھی جو تم لوگوں سے محبت کرتی رہی۔۔۔اور میری محبت نے دیکھوکیسی سزا دی۔۔۔ مار دیا تم لوگوں نے عدیمہ کو۔۔۔ مار دیا۔۔۔ دیکھنا آہ لگے گی تم سب کو ۔۔۔ میری آہ لگے گی“اردگرد اکھٹا ہوتے مجمع کو دیکھ کر وہ چلائی تھی آج اس کے ضبط کا دامن ٹوٹ گیا تھا۔ اگر کشمیر کے وہ پہاڑ جنہوں نے داور کی تدفین کے وقت اس کے حوصلہ کو داد دی تھی اسے اس وقت دیکھ لیتے تو ایک بار پھر سے حیران رہ جاتے یہ وہ لڑکی تو نہیں تھی جو کشمیر کی وادیوں میں بے خوف پھرا کرتی تھی یہ تو کوئی اور تھی جو ایک آزاد ملک کی سڑک کے کنارے بیٹھی اپنی بے بسی پر رو رہی تھی۔ ۔ کسی نیک انسان نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ایمبولینس کو کال کر دی تھی جبکہ بہت سے لوگوں کی جیب سے موبائل نکل آئے تھے جس پر دھڑا دھڑا ویڈیو بنائی جا رہی تھی۔ ایمبولینس کے آنے سے پہلے وڈیو اپلوڈ بھی ہو چکی تھی جس پر لوگ کمنٹ کر کے افسوس کا اظہار کر رہے تھے۔ اپنے ملک کے نظام کو کوس رہے تھے۔ ان میں وہ شخص بھی ہوں گے جو کچھ دیر پہلے لاپرواہی سے ان ماں بیٹیوں کے پاس سے گزرے تھے ان میں کوئی وہ بھی ہو گا جس کی گاڑی کے سامنے عاشر اور کشمالہ نے ہاتھ دئیے تھے۔
۔۔۔۔۔۔
کشمالہ جلے پیر کی بلی کی طرح ایمرجنسی روم کے باہر چکر کاٹ رہی تھی جس کے اندر مختلف مشینوں میں عدیمہ کا وجود جکڑا ہوا تھا۔پہلے تو ہسپتال کے عملے نے پولیس کیس کہہ کر ہاتھ لگانے سے ہی منع کر دیا تھا لیکن پھر ان کی حالت کو دیکھتے ہوئے ایک ڈاکٹر کو ترس آ ہی گیا تھا اس نے اپنے طور پر کاروائی کروا کے بے ہوش ہوئی عدیمہ کو ایڈمٹ کروایا تھا۔
زینب بی بی ٹھنڈے فرش پہ بیٹھی بار بار اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھیں۔
”انہیں ہاتھوں سے مارا تھا میں نے داور کو۔۔۔ دیکھ عدیمہ بھی اسی وجہ سے نہیں بچی۔۔۔ مجھے سزا ملی ہےبیٹی کی خاطر بیٹے کی سانسیں روکی تھیں اس نے بیٹی بھی چھین لی۔ “ وہ بار بار یہی الفاظ دوہرائے جا رہی تھیں۔
”سوری ہم آپ کی بہن کو نہیں بچا سکے۔۔۔اگر آپ وقت پر لے آتے تو شاید کچھ ہو سکتا تھا۔۔۔آپ ریسپشن پر جا کر فارملیٹیز پوری کر لیں اور پھر لاش کو لے جائیں “ یہ دیکھے بغیر کہ اس کے لفظوں سے مقابل پر کیسی قیامت ٹوٹی ہے ڈاکٹر اپنے مخصوص پروفیشنل انداز میں کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ وہ مرے مرے قدموں سے چل کر ریسپشن تک آئی تھی۔
”ویسے تو یہ سرکاری ہسپتال ہے لیکن مریضہ کو جو ٹیکے لگے وہ ہسپتال کی ڈسپنسری سے نہیں تھے اسی لئے آپ کو ان کے پیسے ادا کر نے ہوں گے پھر ہی لاش کو لے جا نے کی اجازت ملے گی “ ریسپشن پر موجود لڑکی نے کمپیوٹر پر انگلیاں چلاتے ہوئے مصروف سے انداز میں کہا۔
”مممم۔۔۔میں کہاں لے کر جاؤں“ وہ خود سے بڑبڑائی تھی اس کی بڑ بڑاہٹ اتنی بلند تھی کہ کاؤنٹر کے پار کھڑی لڑکی نے بھی سن لی ۔
”اپنے گھر لے جائیں۔۔۔اگر گھر دور ہے تو ایمبولینس کا بندوبست بھی ہو جائے گالیکن اس کا کرایہ الگ سے دینا ہو گا“ اس لڑکی نے کمپیوٹر کی سکرین سے نظریں اٹھاتے ہوئے کشمالہ کی طرف دیکھا تھا ۔
”ہمارا کوئی گھر نہیں ہے“ اس کے آواز پست تھی۔
”اوہ ۔۔۔ پھر آپ لاش کو کہاں لے جانا چاہیں گی“ لڑکی نے اوہ میں لب سکیڑے۔
”وہ لاش نہیں میری بہن ہے“ وہ پھٹ پڑی تھی عدیمہ کے لئے بار بار لاش سننا تکلیف دے رہا تھا۔
”یہاں لاوارثوں کی تدفین کا کوئی انتظام نہیں ہوتا؟کچھ دیر بعد پوچھتے ہوئے اسے اپنی آواز بھی اجنبی لگی تھی۔ ایک وارث ہو کر کسی اپنے کو لاوارث کہنا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے کوئی اس لمحہ کشمالہ سے پوچھتا۔
”لاورثوں کی لاشیں تو ایسے ہی سرد خانے میں پڑی رہتی ہیں اور کچھ عرصہ بعد میڈیکل کے طالب علموں کے تجربہ کے لئے بھیج دی جاتی ہیں“ اس لڑکی کی بات سن کر وہ دہل گئی عدیمہ کو کسی تجربہ کے لئے نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ اس سے بل لے کر وہ کاریڈور میں زینب بی بی سے پیسے لینے آئی تھی اور انہیں وہاں نہ پا کر اس کے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی ۔وہاں موجود ایک ورکر کے بتانے پر وہ باہر آئی تھی۔ زینب بی بی سامنے سنسنان سڑک پر ہوش و خرد سے بیگانہ چلی جا رہی تھیں۔ کشمالہ ان کی طرف بھاگی ۔اس سے پہلے کہ وہ ان تک پہنچ پاتی دوسری طرف سے آتی ایک تیز رفتار گاڑی ان سے ٹکراتی ہوئی آگے بڑھ گئی تھی سنبھلنے کی کوشش کرتی زینب بی بی سڑک کے دائیں طرف بنی گہری کھائی میں جا گری تھیں۔
”اماں۔۔۔اماں“ وہ حواس باختہ سی بھاگتی ہوئی آئی کھائی میں جھانک کر دیکھا خون کی چند لکیریں نظر آرہی تھیں وہ سیدھی ہو گئی اس میں اور دیکھنے کی ہمت نہیں رہی تھی۔۔۔ اس کے رشتوں کی لڑی خالی ہو چکی تھی ساتھ ساتھ اس کا دل بھی۔۔۔
وہ واپس بھاگ کر ہسپتال کے اندر گئی اور عملہ سے مدد مانگی تھی کچھ لوگ اس کی مدد کے لئے آئے بھی لیکن ایک بچی کی بات پر اتنی گہری کھائی میں جانے کی کون ہمت کرتا اور وہ بھی اس وقت جب انہیں کوئی رقم ملنے کی بھی امید نہیں تھی ۔اس کو تسلیاں دیتے وہ واپس چلے گئے۔
”خدا کے لئے کوئی میری مدد کرو۔۔۔ میری ماں وہاں کھائی میں گر گئی ہے۔۔۔ میری بہن کی لاش سرد خانے میں پڑی ہے۔۔۔۔ خدا کے لئے مدد کر و۔۔۔ کوئی تو رحم کرو“ وہ ہسپتال کے باہر بیٹھ کر روتے ہوئے کہے جا رہی تھی۔ کئی لوگ اسے فقیر سمجھتے ہوئے اس کے پاس چند سکے رکھ گئے تھے جنہیں اس نے سر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔
”ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے۔۔۔ شاید سچ کہہ رہی ہو“ پاس سے گزرتے ہوئے ایک جوڑے میں سے شوہر نے کہا۔
”پاگل ہیں۔۔۔ ایسے ہی ان لوگوں نے مانگنے کے طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔۔۔ دس روپے رکھیں اور چلیں“ بیوی نے تنک کر کہا ۔شوہر کا ایک لڑکی کی مدد کے لئے آمادہ ہونا اسے ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔ اس شخص نے ہاتھ میں پکڑے والٹ میں سے سو روپیہ نکال کر اس کے پاس رکھ دیا بیوی کو یہ حرکت بھی پسند نہیں آئی تھی لیکن پبلک پلیس کی وجہ سے خاموش ہوگئی۔
پتا نہیں کتنی دیر رونے کے بعد اس نے گھٹنوں سے سر اٹھایا ہر طرف شام کے دھند لکے پھیل چکے تھے۔ ایک نظر پاس پڑے پیسوں پر ڈالی اور بے دردی سے آنکھیں صاف کرتی ہوئی اٹھ گئی۔
”میں اب اس ملک کے لئے نہیں روؤں گی بلکہ میں یہاں رہوں گی ہی نہیں ۔۔۔ میں واپس چلی جاؤں گی “ اس نے خود سے عہد کیا۔ وہ مالا جو پاکستان سے محبت کرتی تھی وہ زینب بی بی کے ساتھ کھائی میں ہی گر گئی تھی۔ وہ کوئی اور کشمالہ تھی جس نے ابھی ابھی مری کے ایک ہسپتال کے سامنے جنم لیا تھا۔ اسے پاکستان سے نفرت ہوگئی تھی اور یہاں کے لوگوں سے گھن آنے لگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔