(Last Updated On: )
وہ بات بات پہ مجھ سے فریب کرتا ہے
مگر یہ دل ہے کہ پھر بھی اُسی پہ مرتا ہے
جو ہارتا ہے کوئی اعتبار الفت کا
سو ایسے حال میں انسان پھر بکھرتا ہے
کوئی تو حشر گزرتا ہے قلب نازک پر
تِرے خیالوں کے صحرا میں جو اُترتا ہے
عجیب زندگی کرتا ہے آج مفلس بھی
کہ ایک لمحے میں وہ بار بار مرتا ہے
کسی بھی کام کا ہوتا نہیں نکما جو !
محبتوں میں کہاں سے کہاں گزرتا ہے
ہاں ایسے شخص کو جینے کا حق نہیں عاقل
جو اس جہاں کے خداوں سے اتنا ڈرتا ہے