(Last Updated On: )
یہ کہانی وہ کی ہے۔ وہ کی تخلیق ایک قطرے میں پوشیدہ تھی۔ جس نے قطرے سے سمندر تک کے سفر میں نہ جانے کتنے سورجوں کو چڑھتے دیکھا اور پھر ان کو اترتے دیکھا۔ یہ سفر جو یگوں پر مشتمل ہے آج بھی جاری ہے اسی سورج دکو پانے کی جستجو میں جو اس تنگ و تاریک مقام سے شروع ہوا تھا جہاں اس کی خوراک گندہ خون تھی اور برہنگی اس کا لباس تھی اب جب کہ وہ با لباس ہو گیا ہے، با شعور ہو گیا ہے۔ (ابھی بے لباسی بے شعوری سے اس کا رشتہ نہیں ٹوتا ہے، بلکہ دائروں کی طرح، یہ سفر، مسلسل سفر، قطرے سے سمندر کا سفر، بے کراں لہروں کا سفر بے پایاں طوفانوں کا سفر، یگوں کا سفر، قرنوں کا سفر، ابھی مسلسل جاری ہے رنگ بدلتے اس آسمان کے نیچے)مگر پھر بھی اس کا اندھاسفر جاری ہے۔ وہ چل رہا۔۔ ۔۔ ۔۔
تھکا ماندہ سورج نے پرندے کی طرح اپنے پرسمینٹ لئے اور وہ کائنات جو کچھ دیر پہلے ست رنگی تھی، یک رنگی ہو گئی ہے۔
پرندہ نے اپنے پر پھڑپھڑانے شروع کر دئیے۔
اب وہ قدم جو سڑک پر چل رہے تھے اچانک بلیک نائٹ بار کی طرف مڑ گئے جو روشنی سے معمور ہے۔ کڑک کا رک کھولی گئی۔
’’وہ‘‘ نے اپنی ناک سکیڑ لی ’’اف کتنی!‘‘
پرندے نے ایک آنکھ بند کی اور گردن کو ہلایا
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں یہ بری ہے، اس کی ممانعت ہے‘‘
’’یار ممانعت تو اس بات کی بھی ہے کہ سڑک پر تیز نہ چلو چونکہ اس سے دھمک ہوتی ہے اور مرنے کے بعد زمین کو زبان مل جائے گی جو رو رو کر فریاد کرے گی۔ اول تو قبر ہی تمہارا کچومر نکال دے گی۔‘‘
’’جب کہ بھاگا نہ جائے تو زندگی کو پکڑنا بھی دشوار ہو جائے گا‘‘ اس نے متحیر ہو کر کہا۔
’’زندگی!!!۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ سٹی بس پکڑنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ بلکہ ذرا بھی سست روی اختیار کی گئی۔۔ ۔۔ ۔ تو پھر، پھر تو آدمی قبر میں سفر طے کرتا ہے۔‘‘
اچانک بارکی روشنی چلی گئی۔ رنگ برنگ کے لباس، سفید اور نیلے رنگ کی چھتیں منقش دیواریں، رنگین کھڑکیاں، سب کی سب ایک ہی رنگ میں تبدیل ہو گئیں، مختلف چہرے، اکائی میں متغیر ہو گئے اور خاموشی کی شائیں شائیں نے پنجہ گاڑ دئیے وہ گھبرا گیا محسوس ہوا جیسے بار تنگ و تاریک ہو گیا ہے کہ اس کی دائیں پسلیاں بائیں پسلیوں میں اور بائیں پسلیاں دائیں پسلیوں میں پیوست ہو گئی ہیں اور ۷۰ستر گز کے کالے بد نما ناگ نے گردن پکڑ لی ہے اور کسی راکھشس کے ہاتھ میں ۷۰ستر گز کا گرز مارنا ہی چاہتا ہو۔۔ ۔۔ ۔۔ بتا جلدی من ربّک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ما دینک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ من۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ما۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ربک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ دینک؟
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ن۔۔ ہ۔۔ ۔۔ ی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ں‘‘
’’اگر بھاگتی ہوئی زندگی سے چند لمحات مسرتوں کے چرا لئے جائیں وہ پوری زندگی پر بھاری ہوتے ہیں۔ اور پھر تم۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ تم تھکے ہوئے بھی تو ہو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ آخر اس کا علاج؟‘‘ پرندے نے اصرار کیا۔
’’قل۔۔ ۔۔ ۔۔ قل۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ قل۔۔ ۔۔ ل۔۔ ۔۔ ۔ ل۔۔ ۔۔ ۔ قل‘‘
غٹ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ غٹ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ غ۔۔ ۔۔ غ۔۔ ۔۔ غٹ‘‘
خاموشی پگھل رہی ہے اور اندھیرا آہستہ آہستہ رنگین ہو رہا ہے۔ اس کا پسینہ پیشانی سے رخسار کی طرف بہہ رہا ہے، اس نے رو مال سے ہونٹ صاف کئے۔ وہ کھڑا ہو گیا کھڑکھڑ۔۔ ۔۔ ۔۔ کھڑ کمرے میں گونج گئی۔
اب وہ اس طرح چل رہا ہے جیسے سڑک بال سے زیادہ باریک ہو اور تلوار سے زیادہ تیز دھار رکھتی ہو۔ دائیں طرف پان شاپ پر رک گیا جہاں ایک آدمی سگریٹ خرید رہا ہے۔
’’بھائی صاحب۔۔ ۔۔ ۔ ایک۔۔ ۔۔ ۔۔ ک ۹۵ پچانوے نمبر کا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ کا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ پان‘‘ اس نے لڑکھڑاتی زبان سے کہا۔
دوکان پر کھڑے آدمی نے اوپر کی سانس لی اور ناک سکیڑ لی۔
’’لو‘‘
اس نے منہ میں پان رکھ لیا۔۔ ۔۔ ۔ اور سڑک پر اس طرح چلنے لگا جیسے نٹ تار پر چل رہا ہو۔ ہر قدم کو ناپ تول کر رکھ رہا ہو کہ غلط قدم رکھا اور نیچے گرا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ سوچتا ہے کیا میں گر گیا؟ اور اگر گر گیا ہوں تو سنبھل سنبھل کر چلنے کی ضرورت؟۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں مجھے اسی طرح چلنا چاہئے۔ کیوں کہ پان کی دوکان پر ابھی تو ایک آدمی ملا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اور۔۔ ۔۔ ۔ راستہ ابھی بہت طویل ہے۔ ناک سکیڑنے والوں کی کمی نہیں۔ پھر اس خوشبو کے پان کا کیا مطلب؟
’’لیکن تم گھبراتے کیوں ہو؟ فضا اس لئے رنگین ہوئی کیونکہ تمہاری پھولی ہولی ہوئی جیب سکڑی اور اگر لوگوں کی ناک سکڑی ہے تو یہ ان کی جیب خالی ہونے کا ردّ عمل ہے‘‘ پرند کا دلاسہ۔
اچانک اس کی بائیں آنکھ میں کیڑا آ کر گرا، وہ تلملا گیا اور جلدی جلدی آنکھ میڑنے لگا اس کی آنکھوں میں پانی آ گیا۔ اس نے آنکھ صاف کی اور بالوں کو اوپر جھٹکا دیا۔ راستہ میں نظر دوڑائی، اندھیرا جاڑے سے کانپ رہا ہے۔ اس نے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال لئے۔ پل صراط جیسی سڑک کو عبور کر لیا تھا اور اس کمرے میں اپنے بوجھل قدم کو رکھا جس میں گورستان جیسی خامشی طاری تھی جو اسرافیل علیہ السلام کی دوسری صور کا انتظار کر رہی تھی۔ کمرے میں اس کی مسہری بائیں ہاتھ پہ بچھی تھی اور دروازے کے صحیح سامنے ایک چار پائی تھی جس کا سرہانہ دائیں طرف تھا۔ اس کے ذہن میں آگ سی لگ گئی۔
’’اس میں سرخ ہونے کی ضرورت کیا ہے؟ اگر مسہری کے قریب چارپائی نہیں بچھی کیا ہوا؟‘‘ پرندے نے سمجھایا۔
اس نے ضبط کر لیا۔ کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔ قریب ہی دائیں جانب سنگار ٹیبل پر ٹائم پیس کی کٹ۔۔ ۔ کٹ۔۔ ۔۔ ۔ کٹ کی آواز۔۔ ۔۔ ۔ اس کی ایک آنکھ گھڑی پر دوسری رسٹ واچ پر، دائیں ہاتھ سے فیتہ کھولا اور رسٹ واچ سنگار دان کی ڈرار میں رکھی۔ کپڑے تبدیل کئے اور کرتا پائجامہ پہن کر لحاف میں داخل ہو گیا۔
اس نے چارپائی پر لیٹی ہوئی بیوی کو آنکھ کا اشارہ کیا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی ’’آج موڈ ہو رہا ہے‘‘
’’موڈ۔ ووڈ کچھ نہیں۔ اپنی صحت کا خیال رکھو اور سو جاؤ۔‘‘
اس کے ذہن کی تمام آگ ہونٹوں پر سمٹ آئی ’’مجھے بڑا تعجب ہوتا ہے کہ تم ذرا بھی میرا خیال نہیں رکھتی ہو۔‘‘
’’کیسا خیال؟ آپ کے لئے روٹیاں پکاتی ہوں، گھر سجاتی ہوں، کپڑے دھوتی ہوں۔ آپ کے بچوں کی پرورش کرتی ہوں۔‘‘
’’کیوں تمہارے بچے نہیں ہیں؟ اگر روٹیاں پکاتی ہو تو کیا میں کمائی نہیں کرتا؟‘‘
’’میں نے کب انکار کیا؟‘‘
’’تم۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ تم۔۔ ۔۔ ۔۔ میرا انتظار نہیں کرتی ہو۔ کیا زندگی روٹیاں پکانے، گھر سجانے، کپڑے دھونے بچوں کی پرورش کرنے تک محدود ہے؟‘‘
’’اس سے آگے ہے بھی نہیں‘‘
’’تم جاہل ہو‘‘
’’کھسیانی بلّی کھمبا نوچے‘‘
اس کی پیشانی پر رگیں تن گئیں اور آنکھیں سرخی میں ڈوب گئیں وہ مسہری کے سرہانے کمر لگا کے بیٹھ گیا اور چیخوف کی کہانی ’’دشمن‘‘ کے مطالعہ میں مصروف ہو گیا۔ وہ رات کے مختصر مطالعہ سے ہمیشہ Sleeping Tablet کا کام لیتا ہے۔ لیکن آج کی رات روز محشر بن گئی ہے۔ نہیں نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اپنی صحت۔۔ ۔۔ ۔۔ روٹی کپڑا بچے۔۔ ۔۔ ۔ کھسیانی بلی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اپنی صحت۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ کل ملا کر سامان شب حشر بن گئے۔
کمرے میں سکوت طاری ہے، دیوار یں تابوت کی طرح کھڑی ہیں، باہر رات کی جسامت پر کتوں کی بھوں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ بھوں۔۔ ۔۔ ۔۔ بھوں رینگ رہی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ سوچتا ہے زندگی ایک رات ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ رات ایک اندھیرا ہے۔ اور اندھیرا ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت میں وہ ایک کرن پانے میں سرگرداں ہے جیسے برسات کی ڈراؤنی رات میں بھٹکے ہوئے مسافر کو بجلی کی معمولی سی چمک بھی راستہ دکھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
وہ اچانک گھٹ کر اپنی عمر سے پچیس سال چھوٹا ہو گیا ہے۔
صحن میں چارپائی بچھی تھی، آسمان پر چاند لگا تھا۔ دادی اسے گود میں لئے اچھال رہی تھی۔ وہ اپنا ہاتھ اٹھا اٹھا کر چاند پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ ۔۔ لیکن افسردگی کا احساس بار بار اس کے چہرے پر آ جاتا۔ ’’دادی وہ چاند میں تون بیٹھا ہے؟‘‘
’’بیٹے ایک بڑھیا چاند کی گود میں ہے‘‘
’’پر دادی تم تو مجھے دود میں لئے بیٹھی ہو‘‘
’’ہاں بیٹے میں اپنے چاند کو گود میں لئے ہوں‘‘
’’دادی میں تمہیں تب دود میں لوں گا‘‘
’’بیٹے جلدی بڑے ہو جاؤ‘‘ دادی نے اس کا ما تھا چوم لیا۔
وہ سوچتا ہے چاند آج تک میرے ہاتھ نہیں لگا۔ ابھی تک اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا پہلے تھا حالانکہ میں بڑا بھی ہو گیا اور دادی۔۔ ۔۔ ۔ دادی تو کب کی بادلوں میں چھپ گئی۔
’’دادی میں تب برا ہوں دا‘‘
’’بیٹے خدا سے دعا کرو‘‘
’’اے کھدا مجھے جلدی۔۔ ۔۔ ۔ جلدی برا کر دے‘‘
اور میں بڑا ہو گیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن۔۔ ۔۔ ۔ لیکن اتنا بڑا ہو گیا کہ میری ماں چھوٹی ہو گئی وہ تو صرف پچیس سال کی عمر میں دادی کے پاس چلی گئی اور اس وقت میں اسے پانچ سال بڑا ہوں اس کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں۔
پرندہ مسکرانے لگا تم شاید بھول گئے میں نے کہا تھا ’’بھلا رونے سے کوئی لوٹ آتا ہے۔ تمہیں یاد ہو تمہاری ماں کفن اوڑھے دالان میں لیٹی تھی کافور کی بو چاروں طرف پھیل رہی تھی اور دیوار کے سوراخ میں لگی اگر بتیوں کی خوشبواس میں گڈمڈ ہو رہی تھی۔ پڑوس کی عورتیں چارپائی کے ارد گرد بیٹھی تھیں رشتہ کی عورتیں رو رہیں تھیں، لیکن تمہاری ماں کا مرد دور دور خاموش نظر آ رہا تھا۔ اسے دور رہنے کی سزا اس لئے دی گئی تھی چوں کہ اس مرد نے مرحومہ کے ساتھ زندگی کے گیارہ سال گزارے تھے (اور اگر گیارہ گھنٹے بھی گزارتے ہوتے)تو بھی یہی سزا ہوتی کیوں کہ اس نے نکاح کیا تھا؟ اور وہ عورت جو بے نکاح تھیں اس نے تمہارے باپ کی گود میں دم توڑا تھا۔ اس عورت کی گود میں ایک لڑکا ہے جس کی تخلیق میں تمہارا باپ بھی شامل ہے۔ مرتے وقت اس نے وعدہ لیا تھا ’’اس محبت کے پھول کی پرورش تم اپنے یہاں کرو گے تاکہ اسے باپ بھی مل سکے‘‘ (مگر تمہارے باپ شریف آدمی تھے۔ در اصل ہر باپ شریف ہوتا ہے)پرند نے طنز کیا۔
’’تم الزام لگا رہے ہو؟‘‘ اس نے غصہ میں کہا۔
’’ہاں وہ تمہارے باپ ہیں اس لئے ان سے کوئی غلطی ہونے کے امکان نہیں‘‘ پرند کا طنز۔
اس نے کہا ’’بکو مت‘‘ وہ سوچتا ہے اگر ایسا ہوا بھی ہے تو کیا وہ میرے ساتھ رہ سکتا ہے۔ چلو میں رکھ بھی لوں تو لوگ انگشت نمائی کریں گے۔ یہ مجھے برداشت نہیں ہو سکتا۔ اف کتنی بے عزتی کا مقام ہے۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔‘‘
’’تم اسے رکھنے میں ذلت محسوس کر رہے ہو۔ ذرا اس کے دل سے پوچھو، جب کہ اس حادثہ میں اس کے فعل کو ذرا بھی دخل نہیں۔ اس کی تخلیق اتفاقیہ ہوئی ہے۔ جس طرح تمہاری ہوئی ہے اور سب کی ہوئی ہے۔۔ ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ چند بولوں (اشلوکوں)سے پہلے پیدا ہو گیا اور تم بعد میں‘‘ پرند نے گردن ہلائی۔
’’اف۔۔ ۔۔ ۔۔ میں کیا کروں؟‘‘ اس نے اپنا ما تھا پکڑ لیا۔
’’میرا یہ مدعا نہیں کہ تم شرمندہ ہو نہ ہی تمہارے باپ کی غلطیوں کا شمار کرنا مقصد ہے اور نہ ہی مجھے یہ شکوہ ہے کہ انہوں نے کیوں غلطی کی؟ صحیح بات تو یہ ہے کہ مجھے عزت ذلت، شرمندگی، من گھڑت اصطلاحیں محسوس ہوتی ہیں۔ یہ اصطلاحیں ’’جامد‘‘ نہیں ہیں، یہ بات میں تاریخی اور سماجی پس منظر میں کہہ رہا ہوں۔ اصل میں ہر شخص کی زندگی کے مختلف حادثات کے تحت ان کے معنی بدل جاتے ہیں اور نہ صرف یہ تمام دنیا میں مختلف مقامات پر رہنے والے تمام انسانوں کے سامنے ان کی مختلف تہذیب و تمدن کے سبب اس کے الگ معنی خیال کئے جائیں گے اور لغت میں ان کے ایک ہی معنی نکلتے ہیں‘‘ پرند نے دلیل پیش کی۔
’’میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا‘‘
’’میں سمجھاتا ہوں یہ جو تمہارے دائیں ہاتھ کو میز رکھی ہے اس کو ہم اس لئے میز کہتے ہیں چوں کہ اس کو ہمارے بزرگوں نے میز کہہ دیا اور اگر ہم اس کو کوئی دوسرانام دینا چاہیں (جب کہ حق حاصل ہے)مگر ہم نہیں دے سکتے بلکہ قاصر ہیں‘‘ پرند نے مزید دلیل پیش کی۔
اس نے مسہری کے قریب بچھی میز پر نظریں جما دیں جس پر کتابوں کا ڈھیر ہے جو اسے دھندلی دھندلی دکھائی دے رہی تھیں۔
’’آپ رو کیوں رہے ہیں؟‘‘ بیوی نے کہا
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں راستہ میں کیڑا گر گیا تھا‘‘ اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
’’نکل گیا؟‘‘ بیوی نے پوچھا۔
’’ہاں، لیکن کسک ابھی تک باقی ہے‘‘ اس نے کہا۔
اس نے اپنا دایاں ہاتھ پیشانی پر رکھ لیا۔ قدرے گردن جھکا لی اور آنکھیں بند کر لیں وہ سوچتا ہے ہر دن لمحوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر لمحہ ایک حادثہ ہے۔ سب کچھ بھولنے کے باوجود وہ لمحہ جواس لمحہ خود ایک حادثہ بن گیا ہے اس رات کے لئے۔
اس وقت سہ پہر تھی سورج رفتہ رفتہ ڈوب رہا تھا لوگ اپنی گھڑیوں میں بار بار وقت دیکھ رہے تھے، ڈاکٹر کے ہاتھ میں نبض تھی، ماں کی آنکھیں کھلی تھیں جو آسمان کو تک رہی تھیں پتہ نہیں خدا کے پاس جانے کی خوشی تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں نہیں دنیا چھوڑنے کا غم۔ چھوٹی بہن پلنگ کے قریب تھی میں سورہ یٰسین کی تلاوت کر رہا تھا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ہچکیوں کا ایک طویل سلسلہ ’’غیں۔۔ ۔۔ ۔ غیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ اچانک سانسوں کی ڈور ٹوٹ گئی ’’لا الہ الا اللہ‘‘ ایک بلند آواز گونجی۔ اور پھر رو نے کا ایک شور۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ہاں ہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ایں ایں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ آں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ آں۔
’’آپ آنکھوں میں سرمہ لگا لیجئے‘‘ بیوی نے مشورہ دیا۔
’’ہیں۔ ہاں اس قدر ٹی بی کا بوجھ اٹھانے کے باوجود اس کو زندہ رہنے کی اس قدر خواہش کیوں تھی؟‘‘ اس نے چونک کر کہا۔
’’کیا۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا کہہ رہے ہیں آپ‘‘ بیوی نے متحیر ہو کر پوچھا۔
’’ہاں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ سب جانتے ہیں۔ کلّ نفس ذائقۃ الموت پھر زندگی سے اتنا پیار کیوں؟‘‘
زندگی بڑی حسین شے ہے۔ انسان کو اس کی قدر کرنی چاہئے۔‘‘ پرند نے گفتگو جاری کی۔
’’اچھا خاموش ہو جاؤ۔ جتنا زندگی سے انسان کو پیار ہو گا۔ آدمی موت سے اتنا ہی ڈرے گا۔ اور پھر زندگی کیوں کر حسین ہو سکتی ہے جب کہ اس کے دامن پر موت جیسا بھیانک دھبّہ لگا ہے‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’وہ تو آنی ہے مگر پھر بھی اپنی تمام تر بد صورتی کے درمیان بھی حسین ہے کنول کی طرح‘‘
’’بات یہ نہیں۔ انسان زندگی کی تضحیک بھی کرتا ہے، اور زندہ رہنا بھی چاہتا ہے۔ لیکن کیوں؟‘‘
’’زندگی کی تضحیک نہیں، بلکہ حالات کی تضحیک کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ حالات کے مطابق ہی وہ زندگی کے بارے میں مثبت یا منفی نظر یہ قائم کرتا ہے‘‘ پرندہ نے عالمانہ گفتگو کی
وہ کچھ قائل سا ہو گیا اور خاموش ہو کر کمرے کے چاروں طرف نظر دوڑانے لگا۔ رات کا اندھیرا گہرا ہو گیا ہے۔ اس نے ٹائم پیس کو دیکھا چھوٹی سوئی دس کے ہند سے پر بڑی سوئی بارہ کے ہند سے پر زاویہ حادہ بنا رہی تھی۔
’’آپ سو کیوں نہیں جاتے؟‘‘ بیوی نے کہا۔
’’تمہیں کیا تکلیف ہے؟ تم سو جاؤ‘‘
مجھے روشنی میں نیند نہیں آتی‘‘
’’لیکن مجھے اندھیرے سے گھبراہٹ ہوتی ہے‘‘ اس نے کہا
’’جب کہ میں تمہارے ساتھ ہوں پھر بھی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
’’ہاں‘‘ وہ سوچتا ہے ’’ایسا میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ تم میرے ساتھ ہو‘‘
’’کٹ‘‘
کمرے میں خاموشی اور اندھیرے سے چونک کر ’’مجھے پڑھنا ہے‘‘
’’آپ کو تو ہر وقت پڑھنا ہی ہوتا ہے‘‘ بیوی نے جھنجھلا ہٹ ظاہر کی۔
’’تو کیا تم سے نمک، مرچ اور لکڑی کی بات کروں؟‘‘
’’تو کیا زندگی میں چیزوں کی ضرورت نہیں‘‘
’’ہاں ضرورت ہے۔‘‘ (چند لمحہ خاموشی رہی)
’’ضرورت تو ہر اس چیز کی ہے جس کی ضرورت محسوس کی جائے اور میں نے محسوس کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب تو ضرورت مجھے تمہاری بھی محسوس ہوتی ہے‘‘ اس نے اپنی گردن ہلائی۔
’’یہ ضرورت تو مجبوری کے تحت تم محسوس کر رہے ہو، خلاف، مرضی‘‘ پرند نے کہا۔
’’خلاف مرضی؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں خلاف مرضی‘‘ پرند نے گردن ہلائی
’’بکواس مت کرو!میں ایک مرد ہوں اور یہ عورت میری ضرورت ہے، میری فطرت ہے۔ میری اس سے تکمیل ہوئی ہے‘‘ اس نے سخت لہجہ میں کہا
پرند نے چیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ چیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ چیں کرنا شروع کر دیا۔ پھر زور زور سے چیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ چیں۔۔ ۔ چیں
اس نے دائیں ہاتھ سے پیشانی پکڑ لی ’’للّہ میرا مذاق نہ اڑاؤ‘‘
’’نہیں نہیں میں مذاق نہیں بنا رہا۔ پہلی چیز تو یہ کہ اپنی گفتگو میں لفظ عورت کے بجائے بیوی استعمال کرو اور جہاں تک ’’ضرورت‘‘ ’’فطرت‘‘ اور ’’تکمیل‘‘ کا سوال ہے تو یہ الفاظ تمہارے رسمی اور زبانی ایجاب و قبول کے رشتہ کے تحت ادا ہو رہے ہیں۔ ورنہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
’’یہ رسمی اور زبانی ایجاب و قبول سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
جسے آپ لوگ شادی بیاہ کہتے ہیں۔ جو الگ الگ قوموں میں الگ الگ طریقے سے رائج ہے وہی عورت جو آپ نکاح کر کے جائز کر لیتے ہیں، لگن منڈپ کے پھیرے لگانے کے بعد ناجائز ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگنی کو شاکھشی مان کر عورت کو قبول کرنے والے کی نظر میں نکاح کے بعد عورت کو سویکار کرنا نا ممکن ہے۔ جب کہ نکاح کرنے والا بھی انسان ہے اور منڈپ پر بیٹھنے والا بھی انسان ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ (ایک طویل وقفہ)۔۔ ۔۔ ۔۔ دیکھو مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ عورت کو مرد کی ضرورت ہے اور مرد کو عورت کی۔ یہ ضرورت تو وہیں سے شروع ہو جاتی ہے جب دنیا میں انسان اتارا گیا۔ مجھے اس سے کوئی بحث نہیں کہ کیوں اتارا گیا کیسے اتارا گیا؟ انسان کی ہئیت میں اتارا گیا؟ یا اس کی ہئیت شروع شروع میں جانوروں سے مشابہت رکھتی تھی؟
’’نہیں۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نئیں۔۔ ۔۔ ۔ نئیں‘‘
رکو ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ہاں تو میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں وہ اصطلاح جسے ’’سورگ‘‘ کہتے ہیں جو خوبصورتی کی علامت ہے اس میں بھی آدم کو حوا کی ضرورت پیش آئی تھی اور جب یہ پوری کائنات ایک ہی آدم کی اولاد ہے تو اس کے لئے ایک ہی نظام کیوں نہیں۔۔ ۔۔ ۔؟‘‘ پرند نے دلیل پیش کی
’’تم غلط سوچ رہے ہو۔ در اصل الگ الگ آب و ہوا میں رہنے والے انسانوں کی ضرورتیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ اس لئے ان کے لئے الگ نظام اور الگ قانون کی ضرورت ہے‘‘ اس نے بھی دلیل دی
’’مانا۔۔ ۔۔ ۔ لیکن میرا اشارہ ان آفاقی ضرورتوں کی طرف ہے جو تمام انسانوں میں یکساں ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ عجیب سا تضاد کلچر و تہذیب کا جب کہ اس لفظ کے معنی ہر قوم میں یکساں ہیں اور یہ معنی بھی انسان ہی نے دئیے ہیں۔ آج انسان لفظ و معنی کے جال میں اس طرح الجھ کر رہ گیا ہے جس طرح مکڑی کے جال میں مکھی پھنس جاتی ہے۔ جتنا وہ نکلنے کی کوشش کرتی ہے اتنا ہی الجھتی جاتی ہے۔۔ ۔۔ ۔ (ایک طویل وقفہ)۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ انسان دنیا میں پہلے آیا مذہب بعد میں۔ اس لئے وہی اصول جو اس نے زندگی کے لئے مرتب کئے ہیں۔ وہ انہیں کے پس منظر میں بولتا ہے۔ چلتا ہے اور یہ سب کے سب زندگی میں اس طرح مدغم ہو گئے ہیں کہ ان کے خلاف وہ سوچ بھی نہیں سکتا جبکہ اس کو حق ہے سوچنے کا بلکہ ان کو اکھاڑ پھینکے کا بھی حق حاصل ہے۔ اور اسی کے تحت وہ زندگی گزارتا ہے۔ اسی چیز نے انسان کو خلاف فطرت زندگی گزارنے کے لئے مجبور کر رکھا ہے۔‘‘ پرند نے طویل گفتگو کی اور خاموش ہو گیا۔
کمرے میں اندھیرا تھا، خاموشی تھی، لیکن اس کے ذہن میں ایک بے ہنگم شور سا تھا۔ وہ تکیہ کے نیچے سے سگریٹ کا پیکٹ نکالتا ہے اور جلا کر کش لیتا ہے۔
’’میں نے آپ سے کہا ہے زیادہ سگریٹ نقصان کرتی ہے‘‘
’’اور کم سگریٹ کوئی فائدہ کرتی ہے؟‘‘
’’سگریٹ سے کوئی فائدہ نہیں ہے، لوگ کہتے ہیں اس سے کینسر ہو جاتا ہے‘‘ بیوی نے مشورہ دیا۔
’’اور کینسر کا آدمی بچتا نہیں ہے‘‘
’’ہاں‘‘ بیوی نے کہا
’’اور جنہیں کینسر نہیں ہوتا ہے وہ بچ جاتے ہیں کیا؟‘‘
’’کیا لڑنا چاہتے ہو؟‘‘
’’بغیر لڑے بھی تو زندگی میں کوئی لطف نہیں‘‘ اس نے ٹائم پیس کی طرف نظر اٹھاتے ہوئے کہا رول گولڈ کے ہند سے اندھیرے میں چمک رہے تھے۔ گھڑی سوا بارہ پر زاویہ قائمہ بنا رہی تھی۔
’’پاپا لڑنا بری بات ہے، کل جب ہماری ببلو سے لڑائی ہوئی تھی تو آپ نے ہم سے کہا تھا‘‘ لحاف سے منہ نکالتے ہوئے پانچ سال کے بچے نے کہا۔
’’ہاں بیٹے‘‘ اسے محسوس ہوا جیسے وہ اپنی ہی تلوار سے قتل ہو گیا ہو اور چاروں طرف تازہ تازہ لہو بکھر گیا ہو اور اس کے اندر اتنی بھی سکت نہ رہی تھی کہ وہ اپنے ہی بیٹے کو ڈانٹ کر یہ کہہ سکے بیٹے تم ابھی تک نہیں سوئے چونکہ جاگ تو وہ بھی رہا ہے۔ جب وہ اپنے بیٹے کے ہم عمر تھا۔
’’جھوٹ بولنا پاپ ہے، جھوٹ بولنا پاپ ہے، جھوٹ بولنا پاپ ہے‘‘ استاد نے سبق دیا۔ جب یہ سبق رٹ گیا تھا۔ عین اسی وقت کھٹ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ کھٹ ایک آواز
’’جاؤ دیکھ کر آؤ کون ہے؟ اگر مجھے کوئی بلا رہا ہو تو کہہ دینا ہے نہیں‘‘ استاد کا حکم
’’ہے نہیں‘‘
’’کون کہہ رہا ہے‘‘ ماسٹر صاحب کے دوست نے پوچھا۔
’’ہمارے ماسٹر صاحب‘‘
اور پھر ماسٹر صاحب کا زناٹے دار تھپڑ ’’تم بہت بے وقوف ہو‘‘
ہاں انہوں نے بالکل سچ ہی کہا تھا۔ واقعی میں بیوقوف ہوں۔ پرلے درجہ کا بیوقوف اور اگر اس وقت میں اپنے بیٹے کو ڈانٹ دوں تو یقیناً وہ اس وقت مجھے بیوقوف سمجھے گا لیکن جب میری برابر ہو جائے گا تو میری طرح اپنے آپ کو بیوقوف کہے گا؟۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ یہ بچپن بھی بڑا عجیب و غریب زمانہ ہے شاید اس لئے کہ اس وقت کوئی پرندہ درمیان میں نہیں بولتا۔۔ ۔۔ ۔ ل۔۔ ۔ ے۔۔ ۔۔ ک۔۔ ۔۔ ن۔۔ ۔۔ ے۔۔ ۔۔ ۔۔ کن۔۔ ۔ لیکن یہ پرندہ ہے کون؟
یہ وہی پرندہ ہے جس نے شاید میرے ساتھ ہی جنم لیا تھا۔ مجھے اس کی تخلیق کا احساس اس روز ہوا جب میں عذرا کے ساتھ ’’آپا بونی‘‘ کھیل رہا تھا۔ جھوٹ موٹ کے چولھے پر ایک مٹی کی ہنڈیا رکھ دی گئی۔ میں آفس سے واپس آیا۔ منہ دھو یا۔ عذرا نے سامنے کھانا رکھا، پنکھے سے ہوا جھلنے لگی میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ ہم دونوں نے کھانا کھا لیا۔ پھر عذرا نے چارپائی پر لیٹ کر سونے کا بہانہ کیا۔ ذرا فاصلے پر عذرا کے بابا پلنگ پر لیٹے تھے اور اس کی امی ان کے قریب چہرے پر جھکی ہوئی شاید کان میں کچھ کہہ رہی تھیں۔ مجھے عذرا کی بند آنکھیں بہت اچھی لگ رہی تھیں۔ اس کے گورے رخسار پر ایک بھلا سا تل تھا۔ میں نے سوچا اس تل کو اپنے ہونتوں میں دبا لوں۔۔ ۔۔ ۔ جیسے ہی میں جھکا عذرا کے باپ کا میرے سر پر ایک زور دار ہاتھ لگا۔ میری آنکھوں میں اندھیرا کے ساتھ ساتھ آنسو بھی آ گئے تھے۔ میں نے صرف یہ سنا تھا ’’اب ایسی حرکت کرے گا؟‘‘
’’نہیں‘‘ بغیر سوچے سمجھے جواب دیا۔ اس وقت میرا خیال تھا شاید میری غلطی یہ تھی کہ میں عذرا کے چہرے پر جھکا تھا۔ اگر عذرا اپنی امی کی طرح میرے اوپر جھکی ہوتی تو شاید آنکھوں میں آنسو نہ آتے۔
اور اس پرند کی اڑان کا مجھے اس وقت احساس ہوا جب میں نے عذرا کو فطری حالت میں اچانک نہاتے دیکھا تو میرے جسم میں چیونٹیوں نے اپنے ڈنک گاڑ دئیے۔ پھر تو میں نے اس کے مکان اور اپنے مکان کا فاصلہ اس قدر تیز رفتاری سے طے کیا۔۔ ۔۔ ۔۔ کہ گھر آتے آتے ہانپ گیا۔ لیکن اس پرند کی پیدائش سے پہلے کتنا اچھا لگتا تھا! جب کہ میں نماز پڑھ کر جاہ نماز اٹھاتا اور اس کے نیچے مجھے ریوڑی ملتی تھیں اور ماں کہتی تھیں ’’بیٹے جو بچہ نماز پڑھتا ہے خدا اس کو ریوڑی دیتا ہے‘‘ کس قدر اٹوٹ وشواس تھا مجھے اس بات پر۔ اور جب میں بڑا ہوا تو پتہ لگا ریوڑی ماں رکھتی تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ مجھے برا لگا۔ مگر ماں۔۔ ۔۔ ۔۔ خدا۔۔ ۔۔ ۔ خدا۔۔ ۔۔ ۔۔ خدا ہے۔ ماں خالق ہے وہ میری۔۔ ۔۔ نماز پڑھنے کے بعد ریوڑی دیا کرتی تھی مجھے۔ نہیں۔۔ ۔ نہیں قہار ہے ماں۔۔ ۔۔ ۔۔
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ امی اب۔۔ ۔۔ ۔۔ کاؤن آں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں کھاؤں۔ آں امی تائی مجھے بچا لو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
’’بول حرام زادے تیری کھال کھینچ لوں گی‘‘
’’ارے چھوڑ دے حاجرہ۔۔ ۔۔ ۔ بس بھی کر۔۔ ۔۔‘‘ تائی نے رحم کھایا۔
پھر ماں اس کمرے میں لے گئی جس میں وہ پیدا ہوا تھا۔ مٹی کا لپا ہوا فرش۔ اینٹوں کی دیواریں، جس پر سفیدی، سیاہی مائل ہو رہی تھی، چھت پر کہیں کہیں مکڑی کے جالے تھے کچھ اشیاء سلیقہ سے، کچھ بے سلیقہ پڑی تھیں۔ گرمیوں کی دوپہر تھی پسینہ کی تیزابیت اور سورج کی تیزی سے بدن میں چلچلاہٹ ہو رہی تھی۔ کمرے میں مسلسل سسکیوں کی آوازیں۔۔ ۔ آں۔۔ ۔۔ ۔ ایں۔۔ ۔۔ ۔۔ آں ایں۔
’’بیٹے بری بات ہے کسی کی بغیر اجازت تم کو گزک نہیں کھانا چاہئے۔ اگر تائی نے رنگ منگایا تھا تو تم نے گزک کیوں کھائی؟۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اب تو ایسی حرکت نہیں کرو گے‘‘ ماں سمجھا رہی تھی۔
’’ہاں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہاں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ایں۔۔ ۔ ایں۔۔ ۔۔ لیکن ہم نے کل ایک آنہ گزک کے لئے مانگا تھا مگر آپ نے منع کر دیا تھا‘‘ اس نے سسکتے ہوئے کہا۔
’’کل بیٹے ہمارے پاس پیسے نہیں تھے‘‘ ماں نے اسے گلے لگا کر چوم لیا، اس وقت اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اور جس طرح وہ دنیا میں آئی تھی اسی طرح روتی ہوئی دنیا سے رخصت ہو گئی۔ میں نہیں جانتا کہ اس درمیان میں وہ کبھی ہنسی تھی یا نہیں۔ لیکن ایک بات پر مجھے ابھی تک ہنسی آتی ہے جب کہ میں اپنے باپ کی بارات میں جا رہا تھا۔
’’ہیں بھائی صاحب ابا کہاں جا رہے ہیں‘‘ چھوٹی بہن نے بڑی معصومیت سے کہا۔
’’نئی امیّ کو لینے‘‘ اس نے کہا۔
’’کہاں سے؟‘‘
’’سبزی منڈی سے‘‘
’’اچھا میرے لئے ٹماٹر اور کھیر ابھی لانا‘‘ بہن نے بڑی معصومیت سے کہا۔
خاندان کے تمام افراد قہقہہ مار کر ہنسنے لگے، اور وہ بے چاری حیرت سے ہمارا منہ دیکھ رہی تھی اور آج بھی اس بات کا ذکر چھیڑ جانے سے ہم لوگ ہنستے ہیں اور وہ ہمارا منہ تکتی ہے اور جب ہم نے نئی اماں کا منہ دیکھا۔ وہ لال کپڑوں میں ملبوس کتنی اچھی لگی تھی کتنا برا لگتا جب کہ تائی چچی کہا کرتی تھیں ’’دوسری ماں ڈائن ہوتی ہے‘‘
’’اچھا‘‘ جی چاہتا تھا ان کا منہ بکوٹ لوں۔
’’تو ہر چیز دھونس سے کھایا کر، آخر تیرے باپ کا مال ہے‘‘ دادا کا مشورہ تھا اور مشورہ تو نئی اماں کو لانے میں بھی شامل تھا۔ آخر پھر کیوں انہوں نے ڈائن کا انتخاب کیا؟ جب کہ ڈائن تو یہ پوری دنیا ہے۔ نئی امی کے آنے سے پہلے تائی کے، پھر چچی کے گھر رہے۔ سب نے رکھنے کی پوری پوری قیمت وصول کی۔ اور وہ عورت جو میرے باپ کی منکوحہ تھی پورے گھر پرسانپ کی طرح کنڈلی جما کر بیٹھ گئی ہے تو یہ تو اس کا حق ہے۔ پھر تمام خاندان کو اتنی تکلیف کیوں؟ اور پھر دوسری ماں۔ آخر وہ بھی کیا کرے؟ جب اس کے بچے ہوئے تو مجھ سے زیادہ پیارے و لاڈلے ہوئے اس لئے کہ وہ اس کی اپنی کوکھ کے تھے اور اگر میں بھی اس کی کوکھ سے جنم لیتا تو مجھے اس عورت کی یاد نہ آتی جس نے سب سے پہلے میرے باپ سے نکاح کیا تھا۔ پھر تو میں بہت پیارا ہوتا۔ اتنا ہی پیارا ہوتا جتنے۔۔ ۔۔ ۔۔ اور آج اپنے تیرے کے چکر میں، میں پرایا ہو گیا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ بہت دور ہو گیا ہوں۔
’’تم ایک استاد ہو، تمہیں کلاس میں اس شاگرد سے زیادہ پیار ہو گا جس نوعیت کا اس سے تعلق ہو گا‘‘ پرند نے کہا۔
’’لیکن یہ تو نا انصافی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
ہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہا۔۔ ۔۔ ہا۔۔ ۔۔ ۔ انصاف، رشتے تعلقات، مذہب، سماج، قومیت، خون یہ سب انصاف کے قاتل ہیں اور اتفاق سے انہیں تمام لفظوں سے انسان کی شخصیت بھی مکمل ہوتی ہے۔ اب بھلا انصاف۔۔ ہا۔۔ ۔۔ ہا۔۔ ۔ ہا۔۔‘‘ پرند نے طنز یہ قہقہہ بلند کیا۔
’’کٹ‘‘ کمرے میں روشنی پھیل گئی۔ اس کے قریب لیٹا ہوا بچہ سو گیا تھا۔ ٹائم پیس جو کہ سامنے سنگاردان پر رکھی تھی رات ۱۲ بج کر ۲۵ منٹ پر رک کر زاویہ منفرجہ بنا رہی تھی اور اس کی کٹ کٹ کٹ کمرے کی خاموشی کو چاٹ رہی تھی۔
’’فڑ۔۔ ۔۔ ۔ فڑ۔۔ ۔۔ ف۔۔ ڑ۔۔ ۔۔‘‘
’’دیکھئے مجھے کتابوں سے نفرت ہے‘‘ بیوی نے جھلا کر کہا۔
’’کیوں؟‘‘
’’تمہارے اور میرے درمیان میں سرحد قائم کر دی ہے‘‘
’’لیکن کتابیں مجھے بہت عزیز ہیں‘‘ اس نے دائیں طرف دیوار پر بنی الماری پر رکھی کتابوں پر نظر دوڑائی اور ہاتھ میں رکھے رسالے کے ٹائٹل پر بنی عورت کی تصویر پر نظر ٹھہر گئی۔
’’دیکھو جی جان ہے تو جہان ہے اور کتابیں بھی ہیں ورنہ ان کو دیمک پڑھتی ہے‘‘ عورت نے مشورہ دیا۔
’’ہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہا۔۔ ۔۔ قہقہہ تم بھی لگا سکتے ہو مگر نہیں لگا سکتے۔ کیوں کہ زیادہ زور سے ہنسنا گناہ ہے کیوں؟ پرند نے کہا۔
روشنی پر پھیلائے تھی، مگر اس کے ذہن میں سمندر کے طوفانوں جیسا شور تھا، اور کمرے میں سمندر تہہ جیسی خاموشی تھی۔۔ ۔۔ ۔ وہ سوچتا ہے ’’اس بھری پری دنیا میں اتنا تنہا سا کیوں ہوں ،۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا ہر انسان تنہا ہے؟‘‘
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ہر انسان اپنی، ایک الگ دنیا لئے گھومتا ہے۔ وہ اس دنیا میں اس قدر مگن اور مصروف ہے کہ باہر سے رشتہ منقطع ہو گیا ہے۔ اور انسان دنیا کی بے حسی کا شکوہ کرتا ہے جب کہ وہ خود بے حس ہو گیا ہے‘‘ پرند نے کہا۔
’’لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن یہ بے حسی کیوں کر پیدا ہوئی؟‘‘ اس نے سوال کیا
’’یہ ہماری سوسائٹی کا المیہ ہے۔ کہ عدیم الفرصتی کے اس دور میں، اپنے عزیر کی میت کو بھی کاندھا دینے کے لئے انسان بار بار گھڑی پر نظر جمائے رہتا ہے۔ اب تم اپنے آپ کو دیکھو، صبح اٹھنا، اسکول جانا، ٹیوشن کرنا، رات کو واپس ہونا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ پھر سو جانا۔‘‘
اس نے محسوس کیا جیسے کمرے میں بے حسی سی طاری ہو گئی ہے گو کہ چہار دیواری کے درمیان ڈھائی افراد رہتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ اس کی نگاہیں چھت پر لگے کنڈے پر ٹنگ گئیں اس نے رسالہ مسہری پر بائیں طرف رکھ دیا۔ دائیں طرف بچھی چارپائی پر اس کی بیوی خاموشی سے پڑی اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔
’’کیا دیکھ رہی ہو‘‘
’’آپ کو‘‘
’’میں تو بھلا چنگا ہوں‘‘
’’دیکھئے آپ کو ذرا بھی فکر نہیں میرے سر میں اکثر درد رہتا ہے‘‘
’’ڈاکٹر کے چلی جاتیں‘‘
’’کیا سب کام میں ہی کروں، آپ کچھ نہیں کریں گے؟‘‘
’’صبح چلیں گے‘‘
’’صبح آپ اسکول جائیں گے۔‘‘
’’ہاں۔ یہ تو میں بھول ہی گیا۔ اچھا تم خود ہی چلی جانا‘‘
’’ہاں میرے لئے آپ کے پاس فرصت ہے کہاں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ فرصت تو آپ کو اس پہلی رات بھی نہ تھی جس رات تقریباً ہر انسان کو فرصت ہوتی ہے‘‘
’’اس وقت میں ٹیچرس یونین کا پروپگنڈہ سکریٹری تھا۔ اس رات مٹنگ ہونے کے سبب ڈیڑھ بجے ختم ہوئی۔‘‘
’’میٹنگ کرنے، کمیشن بٹھانے سے مسائل حل ہو گئے ہوتے تو ہندوستان مکرر سورگ ہو جاتا‘‘ پر ند نے کہا۔
’’آپ نے کیا دوسروں کا ٹھیکہ لے لیا ہے جو شخص اپنے مسائل حل نہیں کر سکتا وہ دوسروں کے کیا حل کرے گا؟‘‘ بیوی نے طنز کیا۔
پرند نے زور زور سے قہقہہ بلند کیا۔۔ ۔۔ ۔۔ اسے لگا پورا کمرا اس کی گونج میں ڈوب گیا ہے۔ ہاہا۔۔ ۔۔ ہا۔۔ ۔۔ ہا۔۔ ۔۔ ہا اساتذہ کے مسائل جوں کے توں۔ لیکن رپورٹوں اور قرار داروں میں حل پر اسرار طریقہ سے پوشیدہ ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ علاء الدین کے چراغ کی طرح جب ظاہر ہو گا تو گاندھی جی کے سپنوں کا بھارت سب کو دکھائی دے گا‘‘ پرند نے کہا۔
’’جد و جہد ترقی کا راز ہے جو ہم کر رہے ہیں‘‘ اس نے کہا۔
’’جیسے گوتم سنسار کی مصیبتوں کا انت کرنے کیلئے جنگل کو نکل گئے۔ تپسیا کی، گیان دھیان میں لگ گئے، بھوک پیاس، کٹھن پر شرم بھوگتے رہے۔۔ ۔۔ ۔ لیکن نہ تو وہ موت کا انت کر پائے اور نہ مصیبتوں کا علاج۔۔ ۔۔ ۔ بلکہ خود موت اور مصیبتوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اصل میں موت خود ایک انت ہے‘‘ پرند نے وکالت کی۔
’’جد و جہد، صرف مٹنگ یا اجلاس بٹھانے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے لئے عمل بھی ضروری ہے‘‘ بیوی نے گفتگو کا کنارہ پکڑا۔
’’تم چاہتی کیا ہو؟‘‘
’’میں وہی چاہتی ہوں جو ہر عورت اپنے مرد سے چاہتی ہے‘‘
’’تم کونسی عورت کی بات کر رہی ہو، کیا اپنی جیسی۔۔ ۔۔ ۔؟‘‘ اس نے کہا۔
’’کیا چیز میرے اندر نہیں جو ہر عورت میں ہوتی ہے؟‘‘ بیوی نے کہا۔
وہ سوچتا ہے بے شک تم جسمانی اعتبار سے مکمل ہو۔ اور کہتا ہے ’’میں نے تمہارے حقوق پورے کئے ہیں۔ کیا کمی رہی ہے میرے حقوق میں‘‘
کمرے میں روشنی ہے، خاموشی ہے، سردی ہے اور تمام چیزیں معمول کے مطابق ہیں گھڑی کی ٹک ٹک اور جھینگروں کی جھیں جھیں خاموشی کو چاٹ رہی ہے۔ بڑی سوئی چھ پر چھوٹی سوئی بارہ پر زاویہ مستقیم بنا رہی ہے۔
’’حقوق؟ ہاں (ایک گہرا سانس) روٹی دیتے ہو، تنخواہ دیتے ہو، بچے دیتے ہو‘‘ بیوی نے گفتگو جاری کی۔
’’تمہیں مانگنا چاہتی ہے‘‘ پرند نے آہستہ سے کان میں کہا۔
’’تم بیچ میں کہاں سے بول پڑتے ہو‘‘ اس نے چیختے ہوئے کہا۔ اس کی آواز ٹک ٹک، جھیں جھیں پر حاوی ہو کر قبائے خاموشی تار تار کر گئی۔
’’ہاں میں صحیح کہہ رہی ہوں‘‘ بیوی کی آواز نے کمرے کی خاموشی پر لپٹنے کی کوشش کی۔
’’یہ احسان بھی کیا کم ہے، کہ تم میرے گھر بارات لائے اور میں تمہارے ساتھ چلی آئی؟‘‘ بیوی نے گفتگو کا سلسلہ پکڑا۔
’’بارات لانا، تمہارا میرے ساتھ چلے آنا۔ یہ سب احسان کے دائرے میں نہیں آتا۔۔ ۔۔ ۔ در اصل میری اور تمہاری تکمیل مشیت ایزدی تھی‘‘ اس نے اپنی بیوی کو قائل کرنا چاہا۔
’’کیا تم اس سے آگاہ تھے؟‘‘ بیوی نے بات کا کنارہ پکڑا۔
’’اگر آگاہ ہوتا۔ تو جو، اب ہے، وہ نہیں ہوتا‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
وہ سوچتا ہے۔۔ ۔۔ ۔ لیکن یہی سچ ہے۔۔ ۔ یہی مشیت ایزدی ہے۔ یہی تقدیر ہے۔۔ ۔ لیکن تقدیر؟ کاتبِ تقدیر نے، وہ کاغذ تو لکیروں سے پہلے ہی بھر دیا تھا۔
’’اس کا مطلب یہ ہوا اب حالات جو آ رہے ہیں وہ انہیں لکیروں کے مطابق آ رہے ہیں تو پھر منّتوں یا تدابیر پر یقین کیوں رکھتے ہو؟‘‘ پرند نے بات منقطع کی۔
’’ہاں۔۔ ۔۔ منتوں سے کیا ہو گا؟‘‘ اچانک اس کے منہ سے نکلا۔
’’کل ہی تو آپ نے چار فقیروں کو کھانا کھلایا ہے منت بولی تھی‘‘ بیوی نے بات پکڑی۔
’’چار فقیروں کو کھانا کھلانے کا ٹرانسفر سے کیا تعلق ہے؟‘‘ پرند نے طنز کیا۔
’’یہ اپنے اپنے یقین اور اعتقاد کا معاملہ ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’یقین؟ افسوس ہے ایسے اعتقاد پر۔ جیسے کہ تقدیر کا کاغذ تمہارے سامنے تحریر کیا گیا ہو اوراس میں لکھا ہو چار فقیروں کو کھانا کھلانے سے ٹرانسفر ہو گا۔ سچ تو یہ ہے کہ تمہارا ٹرانسفر ہونا ہی تھا چاہے تم منت رکھتے یا نہیں رکھتے۔ اصل بات یہ ہے کہ تم اس قدر بزدلے ہو کہ جب بھی مخالف حالات سے غیر محفوظ سمجھتے ہو تو جاہ اماں کے طور پر تقدیر، مشیت، منت کی رٹ لگانے لگتے ہو جیسے طوطا ٹیں۔۔ ۔ ٹیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ٹیں کرتا ہے‘‘ پرند نے بات ختم کرتے ہوئے گردن ہلائی۔
’’تقدیر کا لکھا کون مٹا سکتا ہے؟‘‘
’’سچ کہا‘‘ بیوی نے تائید کی۔
اچانک کمرے کے باہر کھڑ۔۔ ۔۔ ڑ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ڑ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ڑ کھڑکی آواز ہوئی اور ہو چونک کر دروازہ کو دیکھنے لگا۔
’’بلّی ہو گی‘‘
’’ہا۔۔ ۔۔ ۔ ہاں۔۔ ۔ ہوں‘‘
’’آپ ڈر کیوں رہے ہیں؟ اب تو کمرے میں روشنی ہے‘‘ بیوی نے کہا۔
’’ہاں‘‘ اس نے کہا۔ وہ سوچنے لگا ’’ہاں اگر زندگی میں روشنی نہ ہو یا روشنی کی تمنا نہ ہو تو پھر باقی کیا رہ گیا؟ سوائے اندھیرے کے۔ کتنی عجیب سی بات ہے کل تک عورت کے بارے میں جو آئیڈیل میرے ذہن میں تھا وہ آج بھی برقرار ہے گو کہ میری شادی ہو گئی ہے اور اب دوسری عورت کا تصور بھی پاپ ہے! ایک گناہ۔ آخر ایسا کیوں؟ اس نے سگریٹ کا آخری کش لیا اور کمرے کی روشنی نے دھوئیں کی چادر اوڑھ لی۔ وہ پھر سوچتا ہے ’’زندگی کے اندھیرے اور اجالے کے درمیان کچھ فرق ہے تو صرف ’’اگر‘‘ کا۔ اگر میں پرائم منسٹر کے یہاں جنم لیتا تو میں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اور پھر زندگی کے بارے میں یہ خیال نہیں رکھتا جو اب ہے لگتا ہے لفظ ’’اگر‘‘ کی زندگی میں کتنی اہمیت ہے؟ جب بھی کوئی کام انسان کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے تو بھی اگر کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کام اس کے موافق ہوتا ہے تو بھی لفظ ’’اگر‘‘ سے اپنی بات واضح کر کے اطمینان حاصل کرتا ہے خود میری زندگی کے رخ کو لفظ ’’اگر‘‘ نے موڑ دیا اگر وہ رات نہ آئی ہوتی۔۔ ۔ لیکن کیوں نہ آتی؟
’’تمہارا رشتہ طے کر دیا ہے۔ تمہیں رشتہ پسند ہے‘‘ باپ نے پوچھا۔
کمرے میں مدھم روشنی تھی، کم روشنی۔۔ ۔۔ زیادہ اندھیرا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ رشتہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ خاموشی مشورہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ خاموشی اور ایک طویل خاموشی کمرے میں طاری تھی۔
’’اس کا مطلب ہے تمہیں کوئی اعتراض نہیں‘‘ باپ نے خوشی کا اظہار کیا۔
’’نہیں‘‘
’’اب تم سو جاؤ۔ رات ہو رہی ہے‘‘ باپ کا مشفقانہ حکم۔
اور واقعی رات ہو گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اندھیرا پھیل گیا چاروں طرف اور وہ کرن جو اکثر دکھائی دیتی تھی اب جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے ماند پڑتی جا رہی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ رات کی سیاہی بہت گہری ہو گئی ہے۔
’’اس لئے کہ اب وہ کرن حاصل ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے‘‘ پرند نے سلسلہ منقطع کیا۔
وہ سوچتا ہے رشتہ میرا ہوا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ میری بیوی کو محرم سے نامحرم تک سب نے دیکھا۔ پھر کوئی باپ اپنے بیٹے کا برا تھوڑئی سوچتا ہے۔ پھر آخر ان کو اپنے فرض سے سبکدوش ہونا تھا۔ آخرمذہبی فرائض بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے‘‘ سوچنے کا ایک طویل سلسلہ۔
’’اگر تمہارا باپ شادی نہ کرتے تو تم کنوارے رہ جاتے۔ تمہارے باپ کا دامن گندہ ہو جاتا۔ اور مرنے کے بعد وہی دامن تم حشر کے میدان میں پکڑ لیتے۔ لیکن یہ سب کچھ ہونے سے پہلے تمہاری بیوی نے تمہارا دامن پکڑ لیا۔ چوں کہ جوڑا آسمان سے اترتا ہے اوراس طرح تینوں کی عاقبت سدھر گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘ پرند نے کہا۔
’’ہاں یہی سچ ہے، آسمانی فیصلہ؟ باپ کی مرضی، تمہاری مرضی حکم ربّی سب سچ ہے‘‘ وہ زور سے چلایا۔۔ ۔۔ کمرے میں آواز گونج گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اس نے گھڑی پر نظر اٹھائی دونوں سوئیاں ۱۲ اور ۶ کے اعداد پر ہاتھ پھیلا کر زاویہ مستقیم بنا رہی تھیں۔
’’کیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ آپ ڈر گئے، باہر شاید بلّی ہے‘‘ بیوی نے کہا۔
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ہاں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہاں بلّی ہے‘‘
کمرے کی دیوار یں کفن پوش مردوں کی طرح صف باندھے خاموش کھڑی تھیں، الماری پر کتابیں خاموشی سے رکھی تھیں، اندھیرا خاموش تھا۔ مسہری خاموش۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ سب خاموش۔۔ ۔۔ ۔ موش۔۔ ۔۔ ش۔۔ ۔۔ ۔۔ ش۔
’’آپ کی خاموشی سمندر سے مشابہ ہے‘‘
’’کیوں؟‘‘ وہ سوچتا ہے کبھی سطح سے تہہ تک کا فاصلہ طے کرو۔
اس نے تکیہ کے نیچے سے پیکٹ نکالا اور سگریٹ ہونٹوں کے دائرہ میں لگا لیا۔ ماچس ادھر ادھر ٹٹولنے لگا۔
’’یہ رہی‘‘
اس نے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کی مدد سے تیلی پکڑی اتفاقیہ طورسے اسی انداز میں جس طرح سمن پکڑتی تھی۔
’’مجھے آپ کا سگریٹ جلانا اچھا لگتا ہے، لیکن آپ کا سگریٹ پینا پسند نہیں‘‘
ماچس پر تیلی گھستی تھی۔ اچانک تیلی پر شعلہ نمودار ہو گیا۔ وہ چونک گیا اور تیلی کی سرخ لو کے درمیان پیلے رنگ کو بغور دیکھنے لگا۔
چار پائی پر بیٹھی بیوی اسے گھور رہی تھی یکا یک جب اس کی نظر ٹکرا گئی وہ جھینپ سا گیا اور سگریٹ کو جلانے میں مصروف ہو گیا۔ چہار اطراف سگریٹ کا دھواں کمرے کی خاموشی پر پھیل گیا، سگریٹ کا شعلہ ایش کی پرت کے نیچے، خاکستر میں دبی چنگاری کی طرح چمک رہا ہے اسے محسوس ہوا جیسے وہ چمک انسانی جسم میں تبدیل ہو گئی ہو۔ کتنی اچھی تھی وہ جیسے صبح کی پہلی کرن، چھوٹاسا قد، باریک ناک و نقشہ، نازک سا بدن، انداز گفتگو الفاظ کو چن چن کر ادا کرنا جیسے پھولوں کو چن رہی ہو۔ ہم نے ہونٹوں تک کے فاصلے طے کر لئے تھے۔ چونکہ ہم کلچرڈ تھے اس لئے جسموں کے حصار میں قید رہے گو کہ جی چاہتا تھا اس قید کو توڑ دیں لیکن نہیں توڑ سکے اور ہم انتظار کرنے لگے حالات کے فیصلے کا۔ پھراس کہانی کا بھی وہی روایتی انجام ہوا۔ جس کا سلسلہ آدم کی کہانی سے جا کر ملتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اور اب ہم اس قدر غیور ہو گئے ہیں کہ ایک دوسرے کو چاہتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتے۔ میں نے ان راستوں کو ترک کر دیا ہے جو اس کے گھر تک جاتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ یہ کیا فیصلہ ہے؟ کس کا فیصلہ ہے؟ ہر بار یہی کہانی دہرائی جاتی ہے، ہر کہانی کا یہی انجام ہوتا ہے ہر انسان کے ساتھ یہی المیہ ہے اور اتفاق سے ہر انسان کا فیصلہ بھی وہی روایتی فیصلہ ہے۔ آخر کیوں؟۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ کیوں؟
’’آپ رو کیوں رہے ہیں؟‘‘ بیوی نے پوچھا۔
’’سب جانتے ہیں کہانی وہیں ختم ہوتی ہے جہاں سے اس کا نقطۂ عروج ہوتا ہے۔۔ ۔۔ ۔ لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ لیکن چونکہ تم شتر مرغ ہو اس لئے حالات کے ہاتھوں سونپ کر دیکھے ہوئے راستہ پر اندھی منزل کے مسافر کی طرح چلنا شروع کر دیا‘‘ پرند نے سلسلہ گفتگو کاٹتے ہوئے کہا۔
رات اور روشنی دھندلی دکھائی دے رہی ہے کمرے کی ہر چیز بھیگی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
’’کیا ہوا؟‘‘ بیوی نے ٹوکا۔
’’دھواں لگ گیا‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’سگریٹ پھینک دیجئے‘‘
’’کیوں‘‘
’’ورنہ جل جاؤ گے‘‘ پرند نے کہا
’’جلنا زندگی کی علامت ہے سگریٹ کی طرح‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ان آبلوں سے ڈرو جو پھوٹ کر زخم بنتے ہیں اور پھر نا سور‘‘ پرند نے کہا۔
’’وقت دنیا کا سب سے بڑا مرہم ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’وقت مرہم ہی نہیں ایک زخم بھی ہے‘‘ پرند نے کہا۔
’’ہاں یہ سچ ہے‘‘ اس نے سگریٹ کا کش لیا۔
’’در اصل جب تم۔ مرہم کا نام لیتے ہو تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے تمہارے سینہ پر ایک بھاری سی سل رکھی ہو‘‘
’’آپ خاموش کیوں ہیں‘‘ بیوی نے کہا۔
’’ابھی تو اس میں شعلہ باقی ہے جب اپنے آپ بجھے گی تب پھینکوں گا‘‘
’’سگریٹ سے بچوں کی طرح ضد کر رہے ہو‘‘ بیوی نے کہا۔
اس کو ہنسی آ گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کمرے میں آوازوں کے سائے رینگ گئے۔ وہ سوچتا ہے The child is the father of manانسان کی عمر کا یہ سفر جو بچپن سے شروع ہو کر بچپن ہی پر ختم ہوتا ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’تمہاری تو یہ باتیں میری تو سمجھ میں نہیں آتی‘‘ بیوی نے کہا۔
’’سمجھانے بیٹھا تو بوڑھا ہو جاؤں گا‘‘ اس نے کہا۔
’’اگر بوڑھے ہو گئے تو اپنے باپ کی طرح باتیں کرنے لگو گے‘‘ پرند نے کہا۔
کمرے میں ٹائم پیس کی آواز ٹک ٹک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ٹک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ٹک جھینگروں کی جھیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ جھیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ جھیں، اور روشنی اور اندھیروں کے سائے تھے۔
’’تم کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ اس نے گفتگو جاری کی۔
’’سوچ رہی ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ غلطی ہمارے بزرگ کرتے ہیں اور خمیازہ ان کی پوری نسل اٹھاتی ہے‘‘
’’ہاں تم صحیح کہہ رہی ہوں۔ ہر انسان گناہوں کی صلیب اپنے کاندھے پر لئے گھوم رہا ہے‘‘ اس نے کہا۔
وہ سوچتا ہے ’’گناہ ارتقائے انسانی کا فطری عنصر ہے۔ پھر انسان، انسان کو کوئی حکم صادر کرتے ہوئے اس کی فطرت کو کیوں نظر انداز کرتا ہے؟
’’ذرا غور کرواس کائنات کی تخلیق بھی ارتکاب جرم کاسبب ہے جس میں مشیت ایزدی بھی شامل تھی اور پھر یہ گناہو سزا کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے‘‘ پرند نے تائید کی۔
’’لیجئے میں کہنا چاہتی ہوں آپ آدم کو لے بیٹھے؟‘‘ بیوی نے کہا۔
’’اچھا بولو‘‘ اس نے کہا۔
’’جب تم بوڑھے ہو جاؤ گے تو ہمارا بیٹا بڑا ہو جائے گا تم اس سے کہو گے کما کر لاؤ، اس کارشتہ کرو گے پھر اس سے پوچھو گے تمہیں پسند ہے یا نہیں۔ اور اگر اس نے کہہ دیا ’’نہیں‘‘ تم کہو گے ناخلف ہے اور اگر ’’ہاں‘‘ کر دی تو تم اپنی بوڑھی گردن ہلاتے ہوئے کہو گے ’’آخر میرا بیٹا ہے مجھ سے خلاف تھوڑئی جا سکتا ہے‘‘ بیوی نے روایت دہرائی۔
’’نہیں۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ میں اپنے بیٹے کو پوری آزادی دوں گا‘‘ اس نے کہا
’’جیسے تمہارے باپ نے تمہیں دی تھی‘‘ بیوی نے کہا۔
’’اگر میں اپنی آزادی کا پورا پورا فائدہ اٹھاتا تو تم میرے گھر نہیں آتیں‘‘
’’لیکن میں تو تمہارا دامن پکڑے بیٹھی تھی‘‘
’’اگر کوئی ضدی عورت میرے بیٹے کا دامن پکڑے بیٹھی ہو تو غلطی میرے سر جائے گی یا میرے بیٹے کے؟‘‘
پرند نے قہقہہ بلند کیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہا۔۔ ۔۔ ۔ ہاہاہا۔
’’نہیں، وہ غلطی نہ تمہارے سر جائے گی اور نہ تمہارے بیٹے کے، غلطی ہمیشہ عورت کے سر جاتی ہے‘‘ بیوی نے کہا۔
وہ خاموش ہو گیا، کمرے میں خاموشی طاری ہو گئی۔
’’جس طرح ہر غلطی کی ذمہ دار میں ٹھہرائی گئی ہوں۔ در اصل عورت، مردوں کے ہاتھوں کا ایک کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔ اور نہ صرف مرد بلکہ عورت کے ساتھ عورت بھی ظلم کرنے میں نہیں چوکتی۔
’’اس میں شوہر کا کیا قصور؟‘‘ اس نے کہا۔
شوہر کی خدمت کرے تو کہا جاتا ہے۔ بیٹے کو والدین سے جد ا کرنا چاہتی ہے، یا یہ کہ ہر وقت میاں کے پاس گھسی رہتی ہے۔ سارا دن کام کاج کرنے کے باوجود کسی کو آنکھ تلے نہیں آتا۔ صبح جلدی اٹھو، رات کو دیر سے سوؤ۔ پھر بھی مرد کے لئے جاگو۔ ہر فرد کی جائز ناجائز بات برداشت کرو۔۔ ۔۔ اگر میکے والوں کی بھی برائی ہو رہی ہو تو بھی برداشت کرو۔ عجیب مصیبت ہے اب دیکھو نا تمہارے باپ کو یہ شکایت ہے کہ ہم لوگ ان کی مدد نہیں کرتے۔ کل تین سو روپیہ میں گزارا کرنا ہوتا ہے۔ چالیس روپیہ مکان کا کرایہ، دودھ، گیہوں، ایندھن اور روزانہ کے اخراجات۔۔ ۔۔ ۔ ننگی کیا اوڑھے کیا سکھائے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
’’آدمی ٹنگیں کاٹے یا چادر تان کر لمبائی بڑھائے۔ جو نا ممکن ہے‘‘ پرند نے بات کاٹی۔
’’بہن بیٹیوں کا آنا جانا، لین دین بھی تو ضروری ہے۔ اور اگر یہ سب کچھ نہ کیا جائے تو دنیا والے کیا کہیں گے، باوجود اس کے، تمہارے باپ کی یہ شکایت کہ میں نے ان کے بیٹے کو چھین لیا ہے‘‘ بیوی کی طویل گفتگو۔
’’ہاں، یہ سب صحیح ہے، لیکن ان کا یہ سوچنا بھی غلط نہیں کہ آخر میں ان کا بیٹا ہوں۔ انہوں نے میری پرورش بھی اسی انداز اور اسی چاہت سے کی ہو گی، جس طرح پم اپنے بیٹے کی کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کے حقوق پورے نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ آخر ان کے سامنے بھی تو پورا پورا خرچ ہے جس کو وہ اپنے بوڑھے کاندھے پر اٹھائے گھوم رہے ہیں اور میں جو ان ہو کر بھی ان کا بوجھ ہلکا نہیں کر پایا۔ کبھی کبھی تو مجھے شرم آنے لگتی ہے۔ مگر چونکہ زندگی گزانی ہے۔ اس لئے بے شرم ہو کر زندگی گزار رہا ہوں‘‘ اس نے اپنی بیوی سے کہا۔
’’یہ سب ٹھیک ہے، میں نے کیا آپ کو روکا ہے کہ آپ ان کی مدد نہ کریں۔ پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ میں نے بیٹے کو باپ سے جدا کر دیا۔۔ ۔۔ ۔۔
’’اچھا اب خاموش ہو جاؤ‘‘ اس نے بات کاٹی
’’کیوں‘‘ بیوی نے پوچھا۔
’’میں نے تم سے کتنی بار کہا ہے، بڑے بوڑھوں کی بات کا برا نہیں ماننا چاہئے، برداشت میں جو مزہ ہے وہ کسی میں نہیں‘‘ اس نے کہا
’’کب تک برداشت کیا جائے، ایک حد ہوتی ہے‘‘ بیوی نے کہا
’’اگر برداشت نہیں کرو گی تو گھر میں فساد ہو گا۔ جو مجھے پسند نہیں اور یہ تمہارا فرض ہے کہ تم میری پسند، نا پسند کا خیال رکھو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
’’اس لئے کہ تم ایک مرد ہو اور پھر تمہارا مرتبہ اس لئے بھی بلند ہے کہ تم ایک شوہر ہو‘‘ پرند نے قطع کلامی کرتے ہوئے طنز کیا۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ جس طرح میں تمہاری پسند نا پسند کا خیال رکھتا ہوں‘‘ اس نے اپنی بات پوری کی
’’کیا خیال رکھتے ہیں؟ مجھے یہ نا پسند ہے کہ تمہارے ماں باپ، بہن بھائیوں کی ناجائز بات سنوں‘‘ بیوی نے کہا۔
’’تم نے ان باتوں کو گنا دیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ذرا سوچو میں علیحدہ صرف اس لئے ہوا کہ تمہارے اوپر کوئی ظلم نہ ہو۔۔ ۔۔
’’غلط، اس لئے ہوئے کہ تمہارا ذہنی سکون برقرار رہے‘‘ پرند درمیان میں بولا۔
’’۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ رہی ماں باپ کی بات، سوچ لو جیسے تمہارے ماں باپ ویسے یہ ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘
’’اسی انداز میں تمہارے ماں باپ کو بھی سوچنا چاہیے کہ یہ ان کی بیٹی ہے‘‘ پرند پھر بولا۔
’’اور تمہارے چھوٹے بہن بھائی جو چاہے کہہ جاتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ پھر ان کی حمایت یہ کہہ کر کیوں کی جاتی ہے کہ دیور نندوں کا رشتہ بڑا ہوتا ہے؟ وہ جو چاہیں کہیں، سننا پڑے گا‘‘ بیوی نے کہا۔
’’اچھا چپ ہو جاؤ۔ فضول کی باتوں میں رات نہ گنواؤ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
کمرے میں پھر خاموشی، دیواروں پر روشنی اور اندھیرے کے سائے میں لپٹی ہوئی خاموشی۔
’’میں یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا ہوں کہ تم عورت ہو اور تمہاری تخلیق ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’تمہیں پھر بھی یہ شکایت ہے کہ میں اپنا عورت پن کیوں نہیں بھولتی؟‘‘
’’تم کو اس کے عورت ہونے پر شکایت ہے۔ جب کہ تم اپنا مرد پن جتا رہے ہو۔۔ ۔ پھر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ پھر یہ کیوں بھول رہے ہو وہ ٹیڑھی پسلی تمہاری ہے۔ اسی لئے وہ تمہارے جسم کا ناقابل تقسیم جز ہے۔‘‘ پرند نے کہا۔
’’پھر تم نے ہی مجھ سے کہا تھا کہ کوئی کسی کا باپ نہیں، کوئی کسی کا بیٹا نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ پیسہ باپ ہوتا ہے اور پیسہ ہی بیٹا‘‘ بیوی نے جیسے یاد دلانے کی کوشش کی۔
’’اور وہی میری دی ہوئی تلوار تم میری گردن پر رکھ رہی ہو۔‘‘
وہ سوچتا ہے۔ ہاں میری بیوی سچ کہتی ہے۔ میں سروس کے لئے بہت پریشان تھا، گھر میں کوئی عزت نہیں تھی، فیملی کا زائد فرد تھا۔ بہن بھائی، سوتیلی ماں اور باپ کے درمیان بالکل اکیلا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ جی چاہتا تھا خود کشی کر لوں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
’’جرأت مندانہ عمل ہوتے ہوئے بھی حرام ہے‘‘ پرند نے کہا۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ اور جب معمولی سروس ملی تو آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔۔ ۔ خوشیوں کے آنسو، قیمتی آنسو، اس وقت میرے ان آنسوؤں کو رضیہ نے اپنی مٹھی سمیٹ لیا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اور جب اس کی شادی ہوئی تو اس نے آخری خط میں لکھا کہ تہاری یاد میری قبر میں شمع کی طرح روشن رہے گی اور میدان حشر میں نفسی نفسی کا عالم ہو گا تو میری نگاہیں تمہیں تلاش کریں گی اور اگر تم نے اس وقت بھی میرے ساتھ بے رخی برتی پھر بھی میں شکایت نہیں کروں گی۔ بلکہ اس وقت بھی اپنی قسمت کو مورد الزام ٹھہراؤں گی کیا سمجھے ہاں؟‘‘ وہ سوچتا ہے اس وقت رضیہ کیسی ہو گی؟ کیا اس کو میری یاد آتی ہو گی۔ ضرور آتی ہو گی میں بھی تو اس کو یاد کر رہا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں سب جھوٹ ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ کوئی کسی کو یاد نہیں کرتا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
پرند نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا ’’کوئی کسی کو یاد نہیں کرتا لوگ مرنے والوں کو بھی بھول جاتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ایک جان ہزاروں غم۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کس کس کو یاد رکھے۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا وہ پاگل نہیں ہو جائے گا۔۔ ۔۔ ۔۔ اور پھر یاد رکھنے یا بھولنے سے اس کائنات میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کوئی پیدا ہو جائے یا مر جائے کائنات کا نظام جس طرح چل رہا ہے، چلے گا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ انسان اس قدر سنگ دل نہیں ہو سکتا‘‘ اس نے کہا۔
’’کسی اپنے عزیز کی موت کے بعد بھی، وہ کھانا کھاتا ہے، پانی پیتا ہے، زندگی کے تمام حقوق پورے کرتا ہے۔ یہ سنگ دلی نہیں ہے بلکہ تقاضۂ فطرت ہے، مجبوری ہے۔۔ ۔۔ ۔ (مختصر وقفہ)رضیہ جو قبر میں بھی تمہارے ساتھ چلنے کو راضی تھی۔۔ ۔۔ ۔ اب وہ اپنے شوہر اور بچوں میں اس قدر مشغول ہے کہ اسے ذرہ برابر بھی خیال نہیں آتا۔ اور یہ اس کا قصور نہیں۔‘‘ پرند نے کہا۔
’’یہ فطرت انسانی، جانور کی خصلت سے ملتی ہے‘‘
’’جسے تم جانور کی خصلت کہتے ہو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ وہ ہی زندگی کی حقیقت ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ اور انسانی تہذیب کی نشانی بھی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘ پرند نے فلسفیانہ دلیل دی۔
’’پھر مجھے ام شب رضیہ کیوں یاد آ رہی ہے؟‘‘ اس نے کہا۔
’’اس وقت تمہیں رضیہ کی معصومیت پر ہنسی آئی تھی۔۔ ۔۔ اور اس رات تمہیں رضیہ کی یاد ستا رہی ہے۔ شاید اس لئے جب تم اس کے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ نکہت سامنے کرسی پر دو زانو بیٹھی تھی۔ کمرے میں اتھاہ خاموشی تھی، دیواروں پر ٹیوب لائٹ کی دودھیا روشنی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ درمیان میں ایک میز تھی اور اس پر کتابیں رکھی تھیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ تم نے نکہت کو مشت میں قید کرنا چاہا لیکن باد صبا کا جھونکا اسے اڑا کر لے گیا۔۔ ۔۔ یکا یک دروازہ کی کنڈی کی آواز ہوئی وہ چونک گئی۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔ کہہ کر نکہت پیچھے ہٹ گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اور پھر وہ اپنے ہی خول میں قید ہو گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ میز درمیان میں رکھی تھی اس پر کتابوں کا بوجھ تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ رضیہ کی معصومیت تم نے نکہت کے اندار تلاش کرنی چاہی۔۔ ۔۔ ۔۔ اور نکہت تمہیں کتابوں میں تلاش کرتی رہی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ حقیقت ’’زندگی‘‘ میں ملتی ہے۔ کتابوں میں نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ پرند نے یاد دلایا۔
میں نے کمرے میں نظر دوڑائی تھی، درمیان میں میز تھی، چھت پر پنکھا گھوم رہا تھا۔ اس کی سائیں سائیں کمرے کی خاموشی کو چاٹ رہی تھی۔ دائیں جانب رکھی ایک میز پر گل دان میں پھول مرجھا رہے تھے۔۔ ۔۔ ۔۔ میں چاہتا تھا سمن کو پھر سے خوشبو اور تازگی مل جائے۔۔ ۔۔ میں یہ بھی چاہتا تھا کہ جو رنگ پھیکا ہو گیا ہے۔۔ ۔۔ ۔ وہ مکرر گہرا ہو جائے۔
’’نکہت تم اس انداز میں سوچو، جس انداز میں، میں سوچ رہا ہوں‘‘ میں نے کہا تھا۔ کمرے میں خاموشی جوں کی توں تھی، پنکھے کی سائیں سائیں چاروں طرف رینگ رہی تھی۔ پھر ہوا کا جھونکا آیا کھڑکی کے پٹ کھل گئے۔ میں سوچنے لگا ا س خاموشی کا کیا مطلب ہے؟ مجھے ایک پرانا تجربہ ہے کہ میری خاموشی کو دوسروں نے اقرار تسلیم کیا ہے جب کہ مجھے انکار تھا۔
’’کبھی کبھی بے تکلفی کس قدر معقول لگتی ہے تم سے یاسمین نے کہا تھا ’’میرے خون کا ایک ایک قطرہ، جسم کا ایک ایک رونگٹا آپ کا ہے اور تم اس لئے مسکرا گئے کیونکہ شریف ہونے کا فخر تھا تم کو۔‘‘ پرند نے اس وقت مجھے قائل کیا تھا اور اس ڈرائنگ روم میں پرند کے ساتھ میں بالکل اکیلا رہ گیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار مجھے پرند پر پیار آیا مگر مجبوری یہی تھی کہ دام گرفتاری کے باوجود اس کی آزادی کو مصلوب کرنا نا ممکن تھا پرند تو پھر پرند ہے۔ اس وقت ڈرائنگ روم میں نکہت تھی۔ درمیان کی میز پر کتابوں کا بوجھ، ہمارے انٹلیکچول ہونے کی پہچان، ہمارے موضوع بحث ٹیگور، غالب، منٹو، کا مو، وغیرہ تھے، ان شخصیتوں کے بارے میں عالمانہ گفتگو کر کے یا تو ہم دونوں ایک دوسرے کو دھوکا دے رہے تھے یا اپنے آپ کو، ممکن ہے اپنے اپنے وجود کو بھولنے کے لئے انسان دوسروں کی شخصیتوں پر غور کرتا ہے۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود کو بھولنے کے لئے انسان دوسروں کی شخصیتوں پر غور کرتا ہے۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود اس ڈرائنگ روم میں بالکل تنہا تھا۔ بے چین سا۔ اور اسی کرسی پر پہلو بدل رہا تھا۔ اچانک اسی لمحہ مجھے یاد آیا تھا۔ جس دن میں سمن سے آخری بار ملا، پھرا س کے بعد اس سے ملاقات نہ کر سکا۔ وہ کرسی کتنی اچھی تھی، جس پر بیٹھ کر میں ہمیشہ اس کے ہونٹوں کو چومتا تھا اور اس کی خوبصورت، ملائم اور سیاہ زلفیں اپنے ہاتھ میں لپیٹ کر آنکھوں سے لگا لیا کرتا تھا لیکن راز داری کا یہ جذبہ ظاہر ہوا، ذلت اور ناکامی کا سبب بن گیا۔ کیا کوئی انسان اس جذبہ سے مبرا ہے۔ اور اگر نہیں تو پھر انسان اس یاس کو اپنے ساتھ کیوں لئے پھرتا ہے؟ اور یہی نکہت جو بیٹھی ہے ایک دن اسی ڈرائنگ میں اسی طرح بیٹھی تھی۔ میں نے سگریٹ جلائی تھی۔
’’مجھے سگریٹ کی خوشبو اچھی لگتی ہے‘‘ نکہت نے کہا تھا۔
میں اس وقت یہ سوچ رہا تھا سمن کو سگریٹ جلانا پسند تھا اور نکہت کوسگریت کی خوشبو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کیسا عجیب اتفاق ہے۔ کاش نکہت میں تمہارے ہونٹوں کی حدت اپنی انگلیوں کے لمس سے محسوس کر سکتا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن کبھی کبھی سوچتا کہ کہیں یہ سمن کیساتھ بے وفائی تو نہیں۔
’’محبت کے بارے میں وہ روایتی تصورات جب کہ ہواؤں میں محل تعمیر کئے جاتے تھے اب تقریباً چکنا چور ہو چکے ہیں اور تم اب تک ماضی سے بھوت بن کر چمٹے ہوئے ہو‘‘ پرند نے کہا۔
’’ہاں میں بھول نہیں پاتا‘‘ اس نے کہا۔
’’تمہاری یہ روایت پرستی تمہارے وجود کے لئے ایک خطرہ ہے‘‘ پرند نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
’’میں روایت پسند نہیں۔۔ ۔۔ ۔ لیکن بھول نہیں پاتا۔۔ ۔۔ ۔۔ ایک چیز یاد ہوتی ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’Reasoning کی بنیاد پر انسان کو حیوان پر فوقیت حاصل ہے‘‘ پرند نے کہا۔
’’لیکن Sense of beauty بھی انسان کی ایک پہچان ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘‘
’’مجھے اس سے کوئی انکار نہیں لیکن جو انسان جذبات کا سراسر غلام ہو وہ Normal نہیں ہو سکتا‘‘ پرند نے کہا۔
’’لیکن کیا انسان کی تکمیل بغیر جذبات کے مکمل سمجھی جائے گی۔ کون سا انسان ہے جو اپنی ماں کی موت پر آنسو نہ بہاتا ہو، خوبصورت عورت کو دیکھ کر جذبات متحرک نہ ہوتے ہوں۔ قدرت کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کی خواہش نہ رکھتا ہو۔‘‘ اس نے کہا۔
’’در اصل ہم اپنے عزیز و اقارب کی موت پر روتے چلے آئے ہیں، اس لئے روتے ہیں۔ اگر ہمارے بزرگوں نے خوشیاں منائی ہوتیں، تو ہماری آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں ہوتے۔ خوبصورت عورت کو دیکھ کر جذبات تب ہی متحرک ہوتے ہیں جب کہ انسان کے پیٹ میں روٹی ہوتی ہے یہ کوئی ضروری نہیں کہ خوبصورت مناظر سے ہر آدمی لطف اندوز ہو سکتا ہے‘‘ پرند نے دلیل پیش کی۔
’’محبت کا روٹی سے کوئی رشتہ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ جمالیاتی حس سے انسان کی تکمیل ہوتی ہے‘‘ اس نے کہا۔
مجھے معلوم تھا تم یہی کہو گے۔ در اصل محبت کا عمل، غیر شعوری طور پر ایک جنسی رد عمل ہے۔ ورنہ محبت، یاد، وفا، انتظار یہ شاعری کی اصطلاحیں ہیں۔ زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔‘‘ پرند نے کہا۔
میں محبت سے انکار نہیں کر پاتا‘‘
’’یہ حقیقت تمہاری فطرت میں داخل ہو چکی ہے اور میں انسان کی فطرت سے انکار نہیں کرتا مگر میں ان فرسودہ روایتوں کا قائل نہیں ہوں جن کی وجہ سے انسان، انسان نہ بن کر کچھ درمیانی سی چیز ہو کر رہ گیا ہے۔ انسان اپنی فطرت کے مطابق زندہ رہے تب ہی حقیقی مسرت پا سکتا ہے۔ در اصل تمہاری سوسائٹی نے جو روایتیں بنائی ہیں مجھے ان سے انکار نہیں۔ میں محبت کا مخالف بھی نہیں ہوں۔ جانتے ہو نکہت جسے تم اب دل کی گہرائیوں چاہنے لگے ہو، وہ بھی اس روایت کی شکار ہے کہ محبت کی کامیابی یہ ہے کہ شادی ہو جائے۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن محبت کی منزل شادی نہیں ہے۔۔ ۔ محبت ایک تمنا کا نام ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ جس کی تکمیل کی کوئی گنجائش نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ تو ایک راستہ کا نام ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اور یہ ’’پرائے آدمی‘‘ کا غلط تصور وہ لوگ رکھتے ہیں جو محبت کے مفہوم سے ناواقف ہیں۔ آج جو تم نے نکہت کی قربت چاہی تمہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ چوں کہ تم ایک پرائے آدمی ہو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اس سلسلے کا شدید احساس ایک نا مکمل انسان کی پہچان ہے‘‘ پرند نے مدلل گفتگو کی۔
’’لیکن بے حسی بھی، انسان کی پہچان نہیں‘‘ اس نے کہا۔
میری بات ابھی پوری نہیں ہوئی ہے، در اصل اپنی تہذیبی عظمت میں چار چاند لگانے کے لیے انسان نے جو قدر یں مرتب کر لی ہیں انہیں کو مان کر اپنی زندگی گزار تے ہو کیا تم بتا سکتے ہو جو بیوی تمہارے قریب سو رہی ہے اس کے پرانے عاشق کو سلام کرتے اور لیتے وقت تمہیں پسینہ کیوں آ جاتا ہے؟‘‘ پرند نے بات مکمل کی۔
’’نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ اس سلسلے میں، میں نے اپنی بیوی سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا‘‘ اس نے کہا۔
’’یہ تمہاری عظمت ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن اس کے عاشق سے رقابت کا جذبہ یہ تمہاری روایت ہے‘‘ پرند نے کہا۔
’’یہی روایت، میری فطرت ہے‘‘ اس نے کہا۔
کوئی فطرت نہیں، جو گزر گیا، سو گزر گیا۔ دیکھو سچ وہ ہے جو سامنے ہے۔ باقی سب جھوٹ ہے سمن مرجھا گئی، نکہت ایک احساس کا نام ہے۔ موت ایک تسلیم شدہ حقیقت اور یاد بس کبھی کبھی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
ٹن۔۔ ۔۔ ۔۔ ن ایک
ٹن۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نن دو
ٹن۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ننن تین
ٹن۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ نن نن چار
کلاک ٹاور نے بجائے۔ اس نے منہ میں سگریٹ لگائی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ زندگی بھی ایک سگریٹ ہے انسان بھی مٹی کا بنا ہے اور سگریٹ بھی۔ دونوں جل کر مٹی بن جاتے ہیں۔ اور بس جیون ختم۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اور ایک دن میں بھی مر جاؤں گا، مجھے بھی کون یاد کرے گا؟ شاید کوئی نہیں۔ مرے مرنے کا کائنات میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اس کی ناک پر ایک مکھی آ کر کہیں سے بیٹھ گئی اور اس نے ہاتھ سے جھٹکا دیا۔ اچانک اس کے بستر کے سرہانے بنے روشندان کے گھونسلے سے چڑیا کا ایک جوڑا۔۔ ۔۔ ۔ باہر نکلا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ پھڑ۔۔ ۔۔ ۔ پھڑاس کے بستر کے چاروں طرف پھڑ پھڑ پھڑ اس کو پسینہ آ گیا، انگلیوں کے درمیان دبی سگریت سیل گئی۔ اس نے گھبرا کر سگریٹ کا آخری کش لیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اور سگریٹ زمین پر پھینک دیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ چڑیا کے پروں کی سرسراہٹ سے دھوئیں کے مرغولے ادھر ادھر مبہم آڑی ترچھی لکیریں بنانے لگے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ بستر سے اتر کر زمین پر کھڑا ہو گیا۔۔ ۔۔ ۔۔
’’شی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ شی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ شی‘‘ پھڑ۔۔ ۔۔ ۔۔ پھڑ۔۔ ۔۔ ۔ پھڑ۔۔ ۔۔ ’چڑیا کتابوں پر بیٹھ گئی۔
’’شی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ شی۔۔ ۔۔ شی‘‘ ۔۔ ۔ اس نے مسہری کے نیچے سے لاٹھی نکالی اور اس کے چاروں طرف بھاگنے لگا۔۔ ۔۔ ۔ پھڑ۔۔ ۔۔ ۔ پھڑ چڑیا کبھی کتابوں پر کبھی گھونسلے میں۔۔ ۔۔ ۔۔ پھڑ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ پھڑ، اس کا چہرا سرخ ہو گیا۔۔ ۔ سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگا۔ ’’آج میں تجھے نہیں چھوڑوں گا‘‘
چڑیا روشندان پر بیٹھ گئی۔۔ ۔۔ اس نے ڈوری کھینچنی چاہی تا کہ وہ کھڑکی میں دب کر مر جائے لیکن وہ پھر سے روشندان سے باہر نکل گئی۔
وہ مسہری پر آ کر بیٹھ گیا اور سانس تیزی سے چلنے لگا۔ اس نے اپنے حواس درست کئے۔۔ ۔۔ ۔ چوں۔ چوں۔۔ چیں۔۔ چیں۔۔ ۔۔ کائیں۔۔ ۔۔ ۔ کائیں۔۔ ۔۔ ۔ ٹیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ٹیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ چیں۔۔ ۔۔ ۔ چیں ککڑوں کوں۔۔ ۔۔ ۔ ککڑروں
اس نے کمرے کی کواڑ کھول دی اور باہر صحن میں کھڑا ہو گیا۔ آسمان رنگ بدل رہا ہے وہ زندگی بھر دیکھتا آیا ہے کہ آسمان رنگ بدلتا ہے۔ آسمان کی سیاہی ہلکی ہوتی جا رہی ہے اور ستاروں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ لیکن پرندوں کی چہچہاہٹ بڑھ رہی ہے۔ چو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ چوں۔۔ ۔۔ ۔ چیں۔۔ ۔ چیں۔۔ ۔۔ ۔ کائیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کائیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ٹئیں۔۔ ۔۔ ٹئیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ککڑوکوں۔۔ ۔۔ ۔ ککڑوکوں اس نے اپنے کانوں پر انگلیاں رکھ لیں پرند کی آوازیں دور مشرق سے آتی ہوئی محسوس ہوئیں اس کا جی چاہا کہ وہ پرندوں کے پر کاٹ کر ان کو اڑان سے محروم کر دے۔۔ ۔۔ ۔ لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن وہ اپنا سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا۔
’’کیا بات ہے۔۔ ۔ سر میں درد ہو رہا ہے‘‘
’’نہیں‘‘ اس نے اپنی بیوی کے شانے پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا۔۔ ۔ بیوی نے اسے کاندھے کا سہارا دیا۔۔ ۔۔ اور مسہری پر لٹا دیا۔ اور آہستہ آہستہ اس کے بالوں کو انگلیوں سے کرید نے لگی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اسے سکون کا احساس ہوا۔ پتہ نہیں کون سے لمحہ اس نے اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر ہونٹوں پر رکھ لیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ دور کہیں سے اللہ اکبر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اللہ اکبر۔ الصلوۃ خیر من النوم کی صدائیں آ رہی تھی۔ اس نے بھی اپنی آواز اللہ اکبر اللہ کہہ کر موذّن کی صدا کے ساتھ ملا دی۔۔
٭٭٭