وہ اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا کے ایک جھٹکے سے دروازہ کھولا اور علی اندر داخل ہوا اور بازل سے گویا ہوا۔
تم نے اُس کو واپس بھیج دیا ہے اب ہم اپنا انتقام کیسے لیں گے؟ بازل کہیں تم اسے اپنی بیوی ماننے تو نہیں لگ گئے؟ وہ غصہ سے گویا ہوا۔
شٹ اپ علی جسٹ شٹ اپ۔ تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہو؟ تم بھول رہے ہو شاید کے شہیر شاہ صرف تمہارہ ہی نہیں میرا بھی گنہگار ہے اور میں نے عاریہ کو واپس بھی اسی کے لیئے بھیجا ہے۔وہ عاریہ کی پاکیزگی کو ثابت کرتا رہے گا لیکن کوئی مانے گا نہیں جب ڈاکٹر عاریہ کو چیک کرے گا تو وہ یہی کہے گا کے عاریہ کے ساتھ زبردستی ہوئی ہے لیکن سچائی صرف میں جانتا ہوں کہ عاریہ آج بھی پاک ہے عاریہ ساری زندگی میری نام پر بیٹھی رہے گی لیکن میرے ساتھ نہیں اور میں دیکھنا چاہتا ہوں کے شہیر شاہ عاریہ کو دیکھنے کے بعد کیا کرتا ہے اور تم شاید بھول گئے ہو کے ہمیں شہیر شاہ سے یہ بھی قبول کروانا ہے کے حنان اسکا بیٹا ہے اسکے ظلم کی نشانی۔ وہ علی کو جواب دے کر وہاں سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا نکل گیا تھا اور علی پرسوچ نظروزن سے اس جگہ کو دیکھ رہا تھا جہاں سے بازل گزرا تھا۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
شہیر شاہ عاریہ کے کمرے میں داخل ہوئے اور بےساختہ ہی انکی نظر عاریہ کے کمرے میں دوڑ گئی۔ عاریہ کا کمرہ بلکل عاریہ جیسا تھا نازک و نفیس اور کشادہ،سفید پینٹ سے ڈھکی دیواریں جس میں سے ایک دیوار پر عاریہ اور اسکی فیملی اور دوستوں کی تصویریں لگی ہوئی تھی جس پر جلی حروف میں میمریز لکھا ہوا تھا۔ ایک دیوار پر 42انچ کی ال۔ای۔ڈی لگی ہوئی تھی جس کے ارد گرد تتلیوں کے سٹیکر لگے ہوئے تھے اور ال۔ای۔ڈی کے عین نیچے ایک ڈارک براؤن کلر کا بہت خوبصورت ریک رکھا ہوا تھا جس کی سائیڈوں پر خوبصورت ڈیکورشن پیسس تھے اور درمیان میں عاریہ کا لیپ ٹاپ پڑھا تھا جس کے بیک کوار کالے رنگ کا تھا اور اسکے اوپر بھی شکنگ پنک کلر کی ایک بڑی سی تتلی بنی ہوئی تھی۔ بئایں طرف کی دیوار کے ساتھ تین دروازے تھے ایک باتھ روم کا ایک ڈرسنگ روم کا اور ایک پریر روم کا۔ کمرے کے وسعت میں ڈارک براؤن لکڑی کا خوبصورت سا جہازی بیڈ تھا جس پر عاریہ ہوش سے بیگانہ پڑی ہوئی تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے عاریہ کے پاس آئے اور انکی نظر عاریہ کے زخمی بازؤں پر پڑی اور انکے غصہ نے سر اٹھا یا اور وہ عاریہ کی طرف بڑھے اور ہاتھوں کو عاریہ کے گلے کی طرف لے کے جا ہی رہے تھے کے عاریہ کو ہوش آگیا اور وہ اپنے باپ کے گلہ سے لگ گئی اور روتے ہوئے بولنے لگی۔
با بابا او اس نے مجھ مجھے کس کسی کک کے ق قابل نن نہیں چھ چھوڑا او اس نن نے کک کہا تت تھا کک کے آ آپ کک کیئے کک کا بد بدلا لے رہ رہا ہے اس نن نے مج مجھ سس سے زب زبردستی نن نکاح کیا بب بابا اس اس نے میرے سس ساتھ زب زبردستی کی مم میں کک کسی کو یق یقین نہیں دلا سک سکوں گی کک کے اس نن نے زب زبردستی۔ اور یہا ں عاریہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور شہیر شاہ چیختے ہوئے گویا ہوئے۔
بکواس بند کرو اپنی سمجھی تم خبردار جو مجھ سے سے جھوٹ بولنے کی کوشش کی اس(گالی،گالی،گالی) کے ساتھ رنگ رلیا مناتی پھر رہی ہو اور میرے ساتھ بکواس کرتی ہو کے زبردستی کیا اسنے۔ اتنی آگ لگی تھی تو مجھے بتاتی میں رخصت کر دیتا تمہیں اسکے ساتھ لیکن تم نے میری عزت مٹی میں ملا دی تم نے مجھے کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ تم نے مجھے میری بہن کی نظروں میں گرا دیا کیا جواب دوں میں انکو اور علمیر اسکو کیا کہوں کے اسکو جو شک تھا وہ ٹھیک تھا ۔کیا قصور تھا ہم سب کا جو تم نے ہمارے اعتبار کا یوں قتل کیا؟ کہا کمی رہ گئی تھی ہماری محبت میں جو تم نے یہ کیا عاریہ کیوں کیا یہ سب کیوں؟ شہیر شاہ اپنی کہہ کر خاموش ہوگئے تھے کے عاریہ بولی۔
با بابا مم میں۔ ابھی عاریہ کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کے شہیر شاہ نے ایک زوردار تھپڑ عاریہ کے منہ پر دے مارا۔
چٹاخ کی آواز پورے کمرے میں گونج گئی تھی کے شہیر شاہ دوبارہ گویا ہوئے اور عاریہ سکتہ کی کفیت میں اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی جس نے کبھی اسکو ڈانٹا تک نہیں تھا آج کسی اور کی وجہ سے عاریہ پر ہاتھ اٹھا گیا تھا۔
چپ ایک لفظ بھی اور نہیں خبردار جو اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ میرا دل تو کر رہا ہے کے جان لے لوں تمہاری تم جیسی بیٹیوں کو تو پید ہوتے ساتھ ہی مر جانا چاہیے۔ اور یہ کہتے ساتھ ہی شہیر شاہ وہاں سے نکل گئے اور فاطمہ بیگم اور ایمان اندر آئے جو شہیر شاہ اور عاریہ کی گفتگو سن چکی تھیں۔ایمان پر دلہن کا روپ بہت آیا تھا وہ اس لال کامدار لہنگے اور نفاست سے کیئے گئے میک اپ میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ جب عاریہ کی نظر ایمان پر پڑی تو وہ اپنے سکتہ کی کفیت سے باہر نکلی اور ایمان کی طرف لپکی اور اس کے گلہ لگ کر رونے لگ گئی اور ایمان ضبط کرتی ہوئی بولی۔
عارو بس میری جان اب تو تم سیف ہو واپس آگئی ہو اپنے گھر میں اب رونے کی کوئی بھی بات نہیں ہے بس چپ اب رونا نہیں ٹھیک ہے۔ ایمان پیار سے عاریہ کو سمجھاتے ہوئے اسکے بالوں میں انگلیاں چلا رہی تھی اور عاریہ بس روئے جارہی تھی کہ فاطمہ بیگم ان دونوں کو الگ کرتے ہوئے عاریہ سے پوچھنے لگی۔
عاریہ ادھر دیکھوں میری طرف اور مجھے بتاؤ وہ کون تھا جس نے آپکے ساتھ۔ ۔انہوں نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔ عاریہ روتے ہوئے ہی بولی اب کے ہچکیاں بند چکی تھیں۔
ما مما مج مجھے کو کچھ نن نہیں پتا وہ کون ہے لل لیکن وہ ہمارے گگ گھر آتا رہ رہتا ہے او اور بب بابا اس کو جا جانتے ہا ہیں۔ یہ کہتے ساتھ ہی عاریہ چپ ہو گئی اور فاطمہ بیگم بولیں۔
ٹھیک ہے بیٹا اگر اب وہ آیا تو پہچان لو گی آپ؟ فاطمہ بیگم بغور عاریہ کا چہرہ دیکھ رہی تھیں جس پر چھایا ہوا خوف اور وحشت بتا رہا تھا کے عاریہ کے ساتھ زبردستی ہی ہوئی ہے۔
مم مما وہ یہاں پر نن نہیں میں اپنی جان لے لوں گی اب میں خود کو اسکے حوالے نہیں کک کروں گی مما وہ یہاں نن نہیں انا چاہیئے مما پلیز مما پپ پل پلیز۔ اور یہ کہتے ساتھ ہی عاریہ دوبارہ بے ہوش ہوگئی۔
فاطمہ بیگم نے ڈاکٹر کو کال کی اور ایمان کو اسکے کمرے میں جانے کا کہا۔ جس کے بازؤں،گردن اور چہرے کے نشانات سامنے والے کی حیوانیت کا پتا دے رہے تھے۔ ڈاکٹرعاریہ کو چیک کرنے کے بعد فاطمہ بیگم سے گویا ہوا۔
مسز شاہ میں نے پہلے بھی شاہ صاحب کو کہا تھا کے ان سے اس واقعہ کے متعلق کوئی بات نہ کریں۔ عاریہ بیٹی خوف سے بے ہوش ہوئی ہے اور اب میں نے انہیں نیند کا انجکشن لگا دیا ہے کچھ دیر تک وہ نارمل ہو جائے گیں۔آپ پلیز اب اس معاملہ کو عاریہ بیٹی کے سامنے ڈسکس نہ کریں۔ وہ منٹلی بہت ڈسٹرب ہیں۔ ڈاکٹر پروفشنل مسکراہٹ اچھالتے ہوئے چلے گئے اور فاطمہ بیگم عاریہ دیکھتی رہ گئیں انکی پھول جیسی بیٹی کیسے مرجھا گئی تھی صوف کچھ ہی گھنٹوں میں۔ وہ عاریہ کی طرف بڑھیں اور اسکی پیشانی پر بوسہ دے کر چلی گئیں۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
یہ ایک مہنگے ترین ہوٹل کا ہال تھا جسے نفاست سے سجایا گیا تھا جس میں ایمان کی برات آ چکی تھی۔ ہر کوئی وہاں پر عاریہ کے بارے میں پوچھ رہا تھا سب جانتے تھے کے عاریہ کو اغواء کیا گیا تھا اور یہ بھی کے عاریہ آج صبح ہی مل گئی تھی لیکن کوئی بھی یہ نہیں جانتا تھا کے ایک رات میں عاریہ کس قیامت سے گزری ہے۔ فاطمہ بیگم عاریہ کی وجہ سے پریشان ایک کرسی پر بیٹھی ہوئے عاریہ کے متعلق سوچ ہی رہی تھیں کے ایمان کی ساس انکے پاس آئی اور گویا ہوئیں۔
عاریہ بیٹی کیسی ہے اب اور آپکو اسکو لانا چاہیئے تھا کم از کم آنکھوں کے سامنے تو رہتی نا اب بچی گھر ہے اور آپ یہاں اسی کو سوچ کر ہلکان ہو رہیں ہیں۔ وہ فکرمندانہ انداز اپناتے ہوئے کہہ رہیں تھی اور فاطمہ بیگم کے جواب کی منتظر تھیں۔
عاریہ بلکل ٹھیک ہے اور اللہ کو شکر کے ہم کسی بڑے نقصان سے بچ گئے ہیں۔ جن لوگوں نے عاریہ کو اغواء کیا تھا وہ غلط فہمی میں عاریہ کو لے گئے تھے۔ اور عاریہ بہت ڈسٹرب ہے اس لیۓ یہاں موجود نہیں ہے لیکن وہ اپنے گھر میں بلکل سیف ہے اور آپ شادی انجائے کریں عاریہ کی فکر میں نا گھلیں۔ وہ طنزیہ مسکراہٹ اچھالتی انکی جھوٹی فکرمندی پر چوٹ کر گئیں تھیں اور ایمان کی ساس منہ بسورتی وہاں سے چلی گئیں کے فاطمہ بیگم کی نظر بازل پر پڑی اور بےساخطہ انہیں عاریہ کی کہی ہوئی بات یاد آئی۔
”مما وہ ہمارے گھر آتا رہتا ہے اور بابا اسکو جانتے ہیں” وہ بازل کو بغور دیکھتے ہوئے سوچ رہیں تھیں۔
”کہیں بازل نے ہی تو عاریہ کو؟ ” نن نہیں بازل شریف لڑکا ہے وہ ایسا نہیں ہے۔ وہ اپنی سوچوں کی نفی کر رہیں تھیں کے بازل انہی کی طرف آگیا اور انہیں سلام کرتا ہوا حال احوال پوچھنے لگا۔
اسلام وعلیکم مسسز شاہ کیسی ہیں آپ؟ بازل ان سے مسکراتے ہوئے گویا ہوا اور فاطمہ بیگم اسکے چہرے کو بغور سے دیکھ رہی تھیں اسکا چہرہ ہر قسم کے تاثر سے بلکل پاک تھا۔ فاطمہ بیگم بازل سے افسردہ لہجے میں گویا ہوئی۔
جس کی بیٹی کو اغواء کر کے اسکے ساتھ زبردستی کی جائے وہ کیسی ہو سکتی ہے بازل؟ میری وہ بیٹی جس نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا کسی نے اسے دنیا میں ہی قیامت دکھا دی وہ پانچھ وقت کی نماز پرھتی ہے باقائدہ قرآن پاک پڑھتی ہے پھر اللہ نے اسے کیوں اس درندے سے نہیں بچایا۔ میری بیٹی زندہ ضرور ہے لیکن مجھے پتا ہے اسکی زندہ رہنے کی خواہش مر گئی ہے۔ آج بازل کو فاطمہ بیگم بہت ٹوٹی ہوئی لگ رہی تھی اوربازل میں اور حمت نہیں تھی کے کچھ بھی کہہ سکتا یا انہیں تسلی دیتا کیونکہ یہ سب تو بازل کا کیا ہوا تھا اس لیئے صرف اتنا ہی کہہ پایا کے۔
مسسز شاہ میں بس اتنا ہی کہوں گا کے آپکی بیٹی آپکے گھر سے غایب ہوئی تھی تو یہ کسی گھر والے کا کام ہے اور اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو مجھے یہ کام علمیر کا لگتا ھے وہ کل بھی شاہ صاحب کو کہہ رہا تھا کے عاریہ کسی اور میں انٹرسٹڈ ہے اور وہ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔ یہ کہہ کر بازل وہاں سے چلا گیا تھا فاطمہ بیگم کو ایک نئی سوچ پکڑا کر۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
پوری حویلی خالی تھی اور بازل اسی وقت حویلی کی پچھلی سائڈ سے اندر آیا تھا اور اسکے قدم عاریہ کے کمرے کی طرف تھے۔ عاریہ کو ہوش میں آۓ ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی وہ بیڈ پر بیٹھی آنسو بھا رہی تھی اور علمیر اسے تسلیاں دی رہا تھا اور عاریہ اسکے ہاتھ جھٹک رہی تھی حلانکہ علمیر اب عاریہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسکے کمرے کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھولا اور سامنے کھڑے وجود کو دیکھ کر عاریہ کو اپنی سانسیں بند ہوتی ہوئی محسوس ہو رہیں تھی اور علمیر کی بھی حالت مختلف نہیں تھی لیکن علمیر کو عاریہ کے پاس بیٹھا دیکھ کر بازل کی دماغ کی رگیں تن گئی تھیں چاہے نکاح اسنے انتقام کیلئے کیا تھا لیکن تھا تو وہ پٹھان اورغیرت مند بھی وہ کیسے برداشت کرتا کسی غیر مرد کا اپنی بیوی کے قریب بیٹھنا اسے ناگوار گزر رہا تھا۔ وہ علمیر کی طرف بڑھا اور اسے گریبان سے پکڑ کر ایک مکہ اسکے منہ پر جڑ دیا اور چیختے ہوئے گویا ہوا۔
کیا کر رہے تھے اسکے ساتھ اسکی بے ہوشی کا فائدہ اٹھا رہے تھے؟ بازل چیختا جا رہا تھا اور علمیر کو ماری جا رہا تھا۔ بازل علمیر کو چھوڑتا ہوا عاریہ کی طرف بڑھا اور علمیر اپنی جان بچا کر بھاگا۔ بازل نے عاریہ کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر اسے اپنے سامنے کھڑا کرتے ہوئے چیخا۔
کیا کر رہی تھی اسکے ساتھ؟ ہاں بولو کیا کر رہی تھی؟ کچھ بکواس کر رہا ہوں میں جواب دو؟ عاریہ ہمت کرتے ہوئے آنسؤں کے ساتھ بولی۔
وہ صرف مجھ سے بات کر رہا تھا اور آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو؟ مجھ سے زبردستی نکاح کر لیا تو آپ مجھ پر حق بھی جمائیں گے ایسا نہیں ہو گا میں بابا کو سب بتادوں گی سب کچھ پھر آپکو مجھے چھوڑنا ہی پڑے گا۔ بازل دلچسپ نظروں سے عاریہ کو دیکھ رہا تھا آج بازل کو احساس ہو رہا تھا کے عاریہ کتنی حسین ہے اور روتی ہوئی اور بھی خوبصورت لگتی ہے۔ عاریہ بازل کی سانسوں کی تپش اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی اسکی سانسوں سے آتی سگرٹ کی مہک عاریہ کو بازل میں گم کررہی تھی۔بازل ایک جھٹکے سے عاریہ کو چھوڑتا واپس مڑ گیا اور دروازہ کے پاس پونچھ کر عاریہ کو تنبھی کی۔
اگر اپنے باپ کو کچھ بھی بتایا تو یاد رکھنا اسکے مجھ تک پونچھنے سے پہلے اسکو اوپر پنچھا دوں گا۔ وہ خونخوار نظروں سے عاریہ کو دیکھ رہا تھا اور پھر ایک جھٹکے سے باہر نکل گیا۔ عاریہ دروازہ کو گھورتی رہ گئی مگر بازل جا چکا تھا۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••