وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھے باتھ روم جاتے دیکھ رہا تھا ۔اس کی ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑی وہ نیچے جا گرا تھا وہ نیچے بیٹھ گیا اپنے اندر کے درد کو روک نہیں پا رہا تھا اس اس کو کیا بولے گا کونسی تسلی دے کر اس کا غم کم ہو گا۔
وہ بے آواز رونے لگا شکواہ کس سے کرتا۔
کس کے ہاتھوں اپنی محبت کا لہو ڈھونڈتا اس کی محبت جو سنبھال کر رکھتا رہا وہی برہنہ دنیا کے کوڑے کھانے جا رہی تھی ۔کون سا درد تھا جو وہ سہہ نہیں پا رہا تھا کتنی دیر وہ وہی روتا رہا اسے سب یاد آ رہا تھا اس نے پہلی بار عینی کو دیکھا تھا
سفید فراک میں باربی ڈول لگ رہی تھی بغل میں کیند دبائے اپنی پونی ہلاتی بڑی سی گاڑی سے اتری تھی جب وہ اپنے ماموں اور کزنز کو گیٹ پر رسیو کرنے آیا تھا۔
وہ جلد سے جلد یہاں سے بھاگنے کے لیے پر تول رہا تھا ۔تب اس نے اس پری کو دیکھا تھا کو ناصرف گھر میں بلکہ زندگی میں بھی دبے پاؤں چلی آئی تھی ۔
وہ سارا دن اس پری کو نہلاتا کھلتا اس کا ہر کام خود کرتا اس کی ہر خواہش پوری کرتا۔اتنے سارے بھائیوں کی بہن تھی اس لیے اور کسی کو بھائی نہیں بولتی تھی اسے میر کہہ کر بولتی تھی وہ اپنے نام کی خوبصورتی کو اس کے منہ سے بار بار سنتا تھا
دونوں بڑے ہو گئے تھے دوستی یک جان ہو گئی تھی اور سب کی نظروں میں بھی آتی جا رہی تھی وہ مزید قریب ہوتے جا رہے تھے ۔کئ کئ دن ماموں کے گھر پایا جاتا ممانی بھی محبت میں کمی نہیں آنے دیتی
اس کا اب ہر دن ہر پل عینی کی سوچ میں شروع اور ختم ہوتا۔محبت دونوں دلوں میں ہو کر آنکھوں میں دکھائی دینے لگی لڑکی کی نیلی آنکھیں گہرا سمندر تھی وہ اس میں ڈوبتا چلا گیا زندگی اتنی حسن تھی میر کو اندازہ نہ تھا ۔دن گزرتے جا رہے وہ دونوں ایک دوسرے میں گم ہو رہے تھے اردگرد کا ہوش نہیں تھا ۔
یونیورسٹی ساتھ ساتھ گھر بھی گھر نہ بھی ہو تو فون
چوبیس گھنٹے میں بس سونے کے ٹائم رابطہ منقطع ہوتا ورنہ یہ عالم تھا اب نیند بھی ثانوی ہو جاتی۔شروع کی محبت پانی کے ابال جیسی ہوتی ہے گرم تیز زور دار۔
محبت کو ہلکی آنچ پکنا چاہئے جھبی دیر پا رہتی۔
______________
صامن شاہ ارصم شاہ کے آنے سے پرسکون تھی وہ بھائیوں کے لئے جیتنا پریشان تھی اب دل میں سکون اترا تھا ۔وہ سٹیج پر آنکھیں موندے بیٹھی تھی تب ایک طرف سے آوازیں تیز آ رہی تھی اس نے شیر دل کو سٹج پر اپنی طرف آتے دیکھ کر گھڑی ہو گئی اور دور ایک لڑکی کے شور کرنے چیخنے کی آواز آرہی تھی وہ اپنے کپڑے پھاڑ رہی تھی ۔لوگ کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے توبہ کی آوازیں آرہی تھی تب ایمبولینس کی آواز آئی وہ بت بنی سب دیکھ رہی تھی مگر ہل نہیں پا رہی تھی ۔
یہ سب کیا ہے کیوں ہے سمجھ نہیں پا رہی تھی
یہ لڑکی کپڑے کیوں پھاڑ رہی اپنے یااللہ
ایمبولینس جا چکی تھی مجموعہ جھٹ چکا تھا
تھبی ہیڈ سرونٹ کو اپنے سےمخاطب پایا
مم چلیے آپکو روم میں جانا ہے ۔۔۔
وہ اس کب سے بلا رہا تھا جیسے وہ سن نے پا رہی تھی سرونٹ نے اسے بازو سے تھاما اور ساتھ ساتھ لیے چلنے لگا۔وہ مرے قدموں سے چلتی جا رہی تھی وہ اسے روم میں چھوڑ کر دروازہ بند کر کے باہر آگیا۔اس کا دماغ سن ہو گیا وہ وہی پیچھے ڈھیر ہو گئی ۔
وہ جانے کب تک سو رات کا کون سا پہر تھا خود پر بہت سارا پانی گرتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔
اٹھو۔۔۔۔سر دل دھاڑا
تمہیں نیند آرہی ایک زناٹے دار دھپڑ پڑا جا کر دور گری اسکے حواس ساتھ نہیں دے تھے زیر دل کا بھاری ہاتھ اس کے گال جلا رہا تھا ۔
اٹھو تمہارے بھائی کی وجہ سے ہم قیامت سے گزر رہے ہیں وہ ابھی بھی حواس میں نہیں تھی ایک ایک تھپڑ نے ہوش میں لایا وہ بیڈ سے زمین پر آ رہی تھی شیر دل کے ہاتھ چابک کی طرح اس کے جسم کو ریشہ کر رہے تھے وہ اسکی ساتھ نسلوں کی زبان سے بخیے ادھیڑ رہا تھا ۔۔
اتنا وحشیانہ سلوک تھا کہ اسےلگا اسکی روح ساتھ چھوڑ گئی ۔۔۔
رچرڈ ۔۔اپنے نام کی پکار پر بوتل کے جن کی طرح حاظر ہو گیا ۔اٹھاؤ اسے یہ مرنی نہیں چاہئے جب تک ہمارے انتقام کی آگ سرد نہ ہو جائے وہ اس کے خاندان سے ہی ہو گی ۔
لے جاؤ اسے زور دار ٹھوکر بے ہوش صامن کے پیٹ میں مار کر نکل گیا ۔کتنی دیر وہ ٹھنڈے فرش پر پڑی رہی اس کی کس نے مدد کی وہ نہیں جانتی تھی سارا جسم درد اس کا یا الله اتنی بر بریت سہے کر میں زندہ ہوں مری کیوں نہیں مگر موت کو بھی اس سے حساب چکانے تھے
رچرڈ دونوں ہاتھ باندھے کھڑا تھا کچھ نہیں بول رہا تھا
ایک صاف پانی کا قطرہ آنکھ سے نکل کر تکیے میں جزب ہو گیا ۔
________________
صامن شاہ دلہن کی طرح سجی ہوئی تھی ہاتھوں پاؤں پر مہندی لگی سر جکائے آرہی.
تب ایک طرف سے شور ہوا طوفان مچ گیا۔ وہ جو مسکراتے اسکی طرف آ رہے تھے کسی کھلونے کی طرح اٹھائے اور دیکھتے ہی
دیکھتے ہی دیکھتے اس سے دور ہوئی تھی ۔۔۔بھائی ۔۔۔۔بھائی ۔۔۔۔ارصم ۔۔۔۔بچاؤ۔۔وہ چلا رہے تھی اس کا سارا سنگھار برباد ہو گیا ارصم کو اپنے پاؤں زمین میں بندھے ہوئے محسوس ہوئے وہ اس ہوا میں بے جان گڑیا کی طرح اڑتا ہوا دیکھ رہا تھا مگر کچھ کر نہیں پا رہا تھا ۔۔۔
صامن وہ چیخ مار کر اٹھا۔وہ خواب دیکھ رہا تھا ۔۔اتنا بھیانک خواب۔۔۔وہ پسینے میں شرابور
جب وہ دوپہر کو گھر آیا اسے سر میں شدید درد تھا وہ بستر پر لیٹا اسے ہوش نہیں رہ کب نیند کی وادی میں کھو گیا پھر یہ خواب۔۔۔
ارصم شاہ کی دنیا میں اندھرا ہو گیا ہر طرف صامن شاہ کا چہرہ نظر آتا رات آوارہ پھرتا دن کو کمرے میں قید رکھتا آنسو خشک نہیں ہوئے تھے صبر نہیں آ رہا تھا
نا دن کا پتہ نا رات کی خبر
سب اسے دیکھ رہے تھے مگر رابعہ شاہ کی قسم نے زبان سی دی تھی
بھائی بھابیاں سب اپنی زندگی میں مگن ہو چکے تھے
وہ نفرت سے اس کا نام بھی لینا گوارہ نہیں کرتے تھے ۔جہاں بھی ہے زندہ ہے اپنی مرضی سے ہے
ارصم بہت بے چین وحشت زدہ رہتا بہن کی یاد
وہ اس کی تکلیف محسوس کرتا تھا جب وہ ڈوب رہی ہو گی تو کتنا پکارا ہو گا۔اسکی بہن کہ اسے بچائے مگر وہ کالی کوٹھری میں جنگ لڑ رہا تھا ۔
ارصم
بھائی کھانا لگ گیا ہے ہلکی سی دستک دے کر اندر آئی تھی کمرہ خالی بیڈ پر شکن ہر طرف چیزیں بکھری اور چیزوں کے ساتھ اس کا بھائی بھی بکھرا ہوا وہ جاتی تھی وہ اس وقت کہاں ہے
وہ بالکونی میں آئی وہ فریم کو سینے سے لگائے بیٹھا تھا وہ جاتی تھی کسی کی تصویر ہو گئی
بھائی
ارصم شاہ نے انکھیں کھول کر اسے دیکھا
بھائی آپی یاد آ رہی ہے وہ صامن شاہ کی تصویر لیے کھڑا تھا کل سے بہت تکلیف میں تھا خواب میں بھی دیکھا منہ سوجا ہوا ۔
بھائی ایسا نہ بولیں پلیز وہ جلدی سے روخ موڈ گئی
بھائی امی بلا رہی جلدی آئیں
اس نے اپنی اس بہن کو دیکھا جو صامن شاہ سے بہت ملتی اس کا یکدم دل بھر آیا اٹھا اور اسے اپنے
ساتھ لگا لیا۔
اس کو آنسو بہانے کا بہانہ مل گیا ۔وہ اکثر سوچتا یہ آنسو نہ ہوتے دل درد سے پھٹ جاتا۔اللہ کا احسان ہے درد کے نکلنے کا رستہ بنایا دل کو کچھ قرار آ جاتا ہے ۔
___________________
آج یونیورسٹی کلچر ڈے تھا ہر طرف مسکراہٹیں لڑکے لڑکیاں اپنے ثقافتی لباس میں گپوں میں مصروف مگر ایک چہرے کی مسکراہٹ غائب تھی
وہ سفید شلوار قمیض میں ایک کونے بیٹھتا سب کو آتا جاتا دیکھ رہا تھا
ارغم شاہ
کسی نسوانی آواز پر اس نے چونک کر دیکھا
آپ ارغم شاہ ہیں نا؟؟
جی
آپ کے دوست کلاس روم میں آپ کو بلا رہے ہیں میرے دوست وہ ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھا
وہ اٹھا اور کلاس کی جانب بڑھ گیا اسی سوچ میں کے وہ کال بھی کر سکتے تھے
یہ لوگ یہاں چھپ کر کیا کر رہے کہیں پھر سے کوئی پروگرام تو نہیں بنا لیا۔
وہ سوچتا جا رہا تھا
وہ کلاس کے دروازے کو دھکیلتے ہوئے اندر آیا کلاس خالی تھی حد ہے مزاق کی بھی
وہ واپسی کے لئے موڑا ہی تھا تب نوری کو اندر آتے دیکھا ایک پل میں ساری پلاننگ سمجھ گیا
او نو اس سے پہلے کے کوئی اسے اندر بند کرتا وہ دروازے تک لپک کر گیا چند قدم کی دوری تھی دروازہ بند کر دیا گیا وہ دونوں ہاتھوں سے دروازہ پیٹ رہا تھا کھولو دروازہ ورنہ زندہ گاڑھ دوں گا وہ پاگلوں کی طرح شور اور لاک ہاتھ سے گھوما رہا تھا
تھبی باہر سے دروازہ کھولنے کی آواز آئی تو اس کی جان میں جان آ گئی
یار ابھی اس کے منہ میں ہی الفاظ تھے وہ ارغم شاہ سمران پر ٹوٹ پڑا تب دوستوں نے چھڑوا لیا
ہم تو مزاق کر رہے تھے
یہ مزاق تھا کسی کی عزت مزاق ہے
یار ہم نے سوچا تم اس سے بات کر سکو گے
بات۔۔۔۔۔تجھے پتہ ہے کیا کرنے چلا تھا
شٹ آپ اب بولنا نہیں ایک لفظ بھی ۔۔۔ارغم شاہ نے انگلی سے اسے وارننگ دی۔۔۔مجھے شکل نہیں دیکھانا اپنی۔دفع ہو جاؤ یہاں سے
وہ واپس روم کی طرف آیا جہاں وہ کھڑی تھی
دروازہ بند ہو جاتا تو اس کے اگے وہ سوچ نہیں پائی تھی
یا الله
نوری
ہاں
سب ٹھیک ہے چلو یہاں سے اس نے اس کا ہاتھ تھام کر باہر لے جانا چاہا اس نے اپنا ہاتھ چھڑوایا
چھوڑو مجھے یہ سب تماری وجہ سے ہو رہا ہے نوری کا ہاتھ اٹھا اور ارغم شاہ کے چہرے پر نشان ثبت کر گیا بھیڑیے درندے کیا سوچ کر تم نے یہ حرکت کی تم میرے ساتھ ۔۔۔۔اف الله ۔۔۔۔جانور کئ کے
وہ چیخ رہی تھی ساتھ رو رہی تھی
تم نے مجھے منہ دکھانے لائک نہیں چھوڑا گٹھیا حرکت کرتے شرم نہیں آئی۔۔۔ایک بار تو سوچ لیتے میں بھی کسی کی بیٹی ہوں
وہ خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا ایک لفظ نہیں بولا اپنی صفائی میں غلطی اس کے دوست کی اور یہ پس گیا
اسے سخت افسوس تھا یہ حرکت ہوئی
_____________
میں تمہیں خرید لوں گا۔۔۔۔
محبت بھی خریدی جاتی ہے کیا۔۔۔؟
خریدے بیچے جسم جاتے ہیں دل نام کا لوتھڑا ہی بچتا ہے جو زندگی ہونے کی نشانی اور کچھ نہیں ارغم۔۔۔۔ہم چھ بہنیں تھی تین بک چکی ہیں اب میری باری ہے مجھ سے بڑی کے پاؤں میں لنگ ہے اس لیے اس کا نہیں ہو سکتا ہوا بھی تو بہت سستے داموں بکے گی
ارغم شاہ۔۔۔۔
میری آنکھوں میں وہ خواب نہیں سجاؤ جن کی تعبیر نہ ہو
میں خوابوں کی ٹوٹی کرچیاں ہوتے جی نہیں پاؤں گی
چلے جاؤ میری زندگی سے چلے جاؤ مجھے پانے کے خواب مت دیکھو
وہ بولتے ہوئے کمرے سے نکل گئی
نہیں میں تمہیں کسی قیمت پر نہیں کھو سکتا
تمہیں میرے علاوہ کوئی دیکھے گا بھی نہیں چھونا تو دور کی بات ارغم نے خود سے عہد کیا۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...