(Last Updated On: )
کانچ کی گڑیا
ٹوٹ کر بھکرتی رہی
اپنی ہی ﺫات میں سمٹتی رہی
لفظوں کے بازار میں
جہاں درد کا کوئی خریدار نہیں تھا
بن کر خوشی کا آنسو
بے قیمت لفظوں کے داموں میں
وہ انمول سی گڑیا
آنکھوں میں مرضی سجائے
دل میں درد چھپائے
بکتی رہی،بکتی رہی
ٹوٹ کر بھکرتی رہی
اپنی ہی ﺫات میں سمٹتی رہی
پتھر پتھر وہ باری کھیلے
ہر پتھر کو وہ ہنس کے جھیلے
پتھر کو پتھر نہ جانے
ارماں اس کے ایسے دیوانے
پتھروں کا دکھ جھیلتے جھیلتے
اپنے دکھ وہ بھول گئی
پتھروں کی بارش میں
اک موم کے پتھر سے
خود بچانا وہ بھول گئی
صدیوں سے کھڑی تھی کانچ کی گڑیا
اک موم کے پتھر سے ٹوٹ گئی
نہ سمٹ سکی اور بکھر گئی کانچ کی گڑیا
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
“ممی۔۔۔وہ کانچ کی گڑیا کیسے ٹوٹی تھی-“
“اس کو اس دنیا نے توڑ دیا تھا۔۔۔یہ دنیا بہت بری ہے بیٹا-“
“ممی پھر اس گڑیا کا کیا ہوا تھا؟”
“اسکے پاس ایک مسیحا آیا تھا جس نے اس ٹوٹی گڑیا کو جوڑا تھا اور دنیا کے سامنے مضبوط بنا کر کھڑا کیا تھا-“
“واؤ زبردست میری پیاری ماما۔۔۔آپکو کس نے سنائی یہ سٹوری؟” بچہ ماں کا منہ چومتے ہوئے بولا-
“مجھے میرے بابا نے سنائی تھی یہ کہانی- جب میں آپ جتنی ہوتی تھی-“
“مما۔۔میں کانچ کی گڑیا نہیں خریدوں گا- ایسی گڑیا کا کیا فائدہ جو ٹوٹ جائے-“
بیٹا آپ اسے جوڑ بھی تو سکتے ہیں۔۔اللہ نے آپکو لڑکا اسی لیے بنایا ہے کہ آپ بڑے ہو کر ٹوٹی گڑیا کو جوڑ سکو- اسکی ماں اسے پیار کرتے ہوئے سمجھا رہی تھیں-
مما۔۔پھر بابا نے آپکو کیوں نہیں جوڑا۔۔۔آپ بھی تو ٹوٹ گئیں تھیں گڑیا جیسی—وہ بچہ بہت ﺫہین تھا۔۔۔اسکو ہر ایک ایک بات یاد تھی-
میرا بچہ سو جاؤ۔۔صبح سکول بھی جانا ہے۔۔۔ اسکی ماں لیمپ آف کرچکی تھیں تاکہ ان کے بیٹے کو کانچ کی گڑیا کے آنسو نظر نہ آسکے–
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
“یہ سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی شام تھی۔ وہ مغرب کی نماز پڑ ھ کر مسجد سے نکلا توسرد ہواکے جھونکوں نے اسکا استقبال کیا۔
اس نے سر اٹھایا۔ آسمان پر ایک ایسا منظر تھا جس کے حسن نے اسے مسحور کر کے رکھ دیا۔سردیوں کی اس گلابی شام میں آسمان کے مغربی افق پر گویا شعلے بھڑ ک رہے تھے ۔ سورج تو ڈوب چکا تھا مگر اپنے پیچھے شفق کی وہ لالی چھوڑ گیا، جس نے نیلے آسمان کودلہن کے سرخ لباس کی طرح سجادیا تھا۔
سرد ہوا میں انگاروں کی طر ح دہکتے آسمان کا یہ منظر اتنا حسین تھا کہ پوری کائنات اس کے مشاہدے میں مصروف تھی۔پرندے اس آسمانی دلہن کی بارات کا دیدار کرتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے ۔ فضا میں بکھرے بادلوں کو کوئی جلدی نہ تھی۔وہ اپنی جگہ ٹھہر کراس حسین منظر سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔بلند قامت درخت بھی بادلوں کی دیکھا دیکھی، حسن فطرت کے اس نظارہ سے محظوظ ہونے لگے ۔حد تو یہ ہے کہ شب کی سیاہی بھی اس منظر کو دیکھنے نکل آئی ۔
وہ دیکھ رہا تھا کہ فطرت کی ہر شے اس بے حدحسین منظر کو دیکھ کر خالق کائنات کی حمدو تسبیح کرنے لگی ہے ۔ مگر جس ہستی کوزمین کا بادشاہ بنایا گیا تھا، وہ بالکل بے پروا اپنے دھندوں میں لگا تھا۔ شاپنگ سنٹر سے نکلتے ، گاڑ یوں میں بیٹھتے ، سڑ کوں پر چلتے یہ لوگ سب سے بڑ ھ کر اس کے اہل تھے کہ یہ منظر دیکھتے اور خدا کی حمد اور تعریف کے نغمے گاتے ۔مگر آہ یہ انسان، اس کے پاس ہر چیز کا وقت ہے ۔ خدا کی صناعی کو دیکھ اس کی ثنا اور تعریف کا وقت نہیں ہے-“
وہ گھر آکر اپنے روم میں جانے لگا تب ہی اسے کچن سے آوازیں آرہی تھیں۔۔وہ اسی طرف چلا آیا- کچن میں دیکھا تو بوا جی جو کہ اس گھر کی پرانی ملازمہ تھیں کھانا پکانے میں مصروف تھیں-
بوا ایک کپ کافی مل سکتی ہے ؟؟
جی بیٹا! میں ابھی لاتی ہوں۔۔وہ کہنے کے ساتھ ہی دودھ ابالنے رکھنے لگیں-
وہ باہر آکر لاؤنج میں بیٹھ گیا۔۔۔اسے یہ اتنا بڑا گھر کاٹ کھانے کو دور رہا تھا۔۔۔اسے اس لڑکی کمی محسوس ہورہی تھی جسکو اسنے توڑ دیا تھا-
اور اب وہ لڑکی اس سے دور تھی۔۔۔-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
مری کے پہاڑوں میں سرد ہوائیں چل رہیں تھیں- اگلے کئی دنوں تک برف باری کا امکان لگ رہا تھا- وہ کمبل میں گھس کر بیٹھی اپنی آج کی لکھی ہوئی ﮈائری پڑھ رہی تھی جب سمیرا کمرے میں داخل ہوئی–
سجل یہ سوٹ میں پہننے کیلئے لے جاؤں- سمیرا اس کا نیا سوٹ الماری سے نکال کر پوچھ رہی تھی-
ہاں لے جاؤ- سجل کو کوئی پرواہ ہی نہیں تھی۔۔۔اور سمیرا اسکا سوٹ لے کر بھاگ گئی اس سے پہلے کہ وہ دیکھ لے- اگر وہ دیکھ بھی لیتی تو کونسا منع کردیتی۔۔۔اسکو ان سب چیزوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا-
اماں۔۔اماں دیکھو ماموں جو سوٹ شہر سے سجل کیلئے لائے تھے یہ وہی ہے- اسنے مجھے دے دیا– سمیرا نائلہ بیگم کو آکر خوشی خوشی بتانے لگی- سامنے سے آتا مزمل اس سوٹ کو دیکھ کر حیران ہوگیا۔۔۔۔
یہ تم نے کسکی اجازت سے لیا ہے۔۔۔۔ادھر دو– مزمل اس سے زبردستی سوٹ لیتے ہوئے بولا-
ہنہہ۔۔۔مجھے خود سجل نے دیا ہے۔۔تمہیں کیا مسلئہ ہے- سمیرا غصے سے آگ بگولہ ہو گئی-
اسکی چیزیں چھین کر تم لوگوں کو ملتا کیا ہے آخر؟؟ کیوں اسکے پیچھے سارا دن پڑی رہتی ہو- مزمل ہمیشہ سے اس گھر میں سجل کے ساتھ ناانصافیاں ہوتے دیکھتا آیا ہے– جب سے وہ بڑا ہوا تھا اور اس سے دوستی ہوچکی تھی تب سے وہ اس کے حق میں بولتا تھا اور جب وہ سجل سے اس بارے میں کوئی بات کرتا تو وہ “دفع کرو” کہ کر بولتی بند کرادیتی تھی- اسکو دنیاوی چیزوں کا بلکل شوق نہیں تھا۔۔اسکو ایک کتاب اور قلم چاہیے ہوتا تھا اور لکھتے وقت بہتا پانی جو کہ اسے یہاں مہیا تھا۔۔۔۔روز شام کو وہ کتاب اور قلم لے کر وہاں جاتی- اور وہیں بیٹھ کر اپنی روز مرہ زندگی کا ہر ایک ایک لفظ اتارتی تھی اور سکون محسوس کرتی تھی۔۔۔۔اسے کوئی کھانا بھی نہ کھلائے وہ رہ لے گی پر وہ اپنی کتاب اور قلم کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی- اس کی ساری کزنز اسے پاگل بولتی تھیں کہ اتنی خوبصورت ہونے کے باوجود وہ انکی طرح اتراتی نہیں ہے۔۔۔نہ گھر میں فضول سجاوٹی کپڑے پہن کر بیٹھتی ہے-
سجل یہ تم نے نیا سوٹ سمیرا کو کیوں دیا؟ مزمل اسکے کمرے میں آکر اسکا سوٹ بیڈ پر رکھ چکا تھا اور خود بھی وہیں بیٹھ گیا-
وہ مانگ رہی تھی تو میں نے دے دیا- سجل کندھے اچکاتے ہوئے بولی-
اچھا۔۔۔وہ تم سے تمہارا شوہر مانگے گی تب بھی دے دو گی نا تم؟ وہ طنز کرتے ہوئے بولا-
نہیں۔۔۔میں اپنا شہزاہ کیوں کسی کو دوں گی- سجل اسکی بات پہ مسکراتے ہوئے بولی جیسے اسنے کوئی مزاحیہ بات کی ہو-
میں سیریس ہوں اور تم ہر وقت ایسے ہی مذاق کیا کرو-
میرے دوست میں بھی سیریس ہوں- میرے لیے سوٹ، جیولری اور جوتے یہ سب کوئی معنی نہیں رکھتے – ہمیں اس دنیا سے صرف اپنے اعمال لے کر جانے ہیں پھر میں ان دنیاوی چیزوں کیلئے لڑ کر کیوں اپنا اعمال نامہ خراب کروں-
سجل بہت سمجھ دار لڑکی تھی۔۔۔اسے اسکے ماں باپ نے نہیں پالا تھا بلکہ اسنے خود اپنے آپ کو پالا تھا- اگر اسکے ماں باپ بھی اسے پالتے تو شاید اسکی اتنی اچھی تربیت نہ کرپاتے جو اسنے خود اپنے آپکی کی تھی-
سجل۔۔۔تم میں بڈھی روح حلول ہو گئی ہے۔۔۔دادی کا یہ سب کیا دھرا ہے ورنہ آج تم بھی سمیرا اور بتول کی طرح ہوتیں- مزمل اسکی باتیں سن کر تپ گیا تھا۔۔۔اسے کبھی کبھار اس لڑکی کی سمجھ ہی نہ آتی تھی-
کوئی نہیں۔۔۔دادی میں کچھ سے زیادہ ہی بڈھی روح حلول تھی۔۔تبھی ہمیں ہر وقت ﮈانٹتی رہتی تھیں- وہ ہنستے ہوئے بولی اور مزمل بھی اسکی بات پر ہنس دیا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سر۔۔۔جس لڑکی کے بارے میں آپ نے معلومات کرنے کیلئے بولا تھا اسکا پتہ لگ گیا ہے- یہ رہی وہ فائل۔۔۔اس میں اس کے بارے میں ہر ایک ایک انفارمیشن ہے- اسکے علاوہ آپ کو کچھ اور معلومات بھی چاہیے ہوں تو آپ ہمیں بتا دیجئے گا-
اوکے تھینک یو۔۔آپ جا سکتے ہیں- انسپکٹر ہمدانی اب وہ فائل کھول چکا تھا۔۔۔پہلے ہی صفحے پر ایک لڑکی کی تصویر تھی جو دریا کے پاس بیٹھے کچھ لکھنے میں مصروف تھی-
انٹرسٹنگ۔۔۔۔وہ اگلا صفحہ بھی دیکھنے لگا–
ہمم۔۔۔۔تو اب تمہارے رونے کے دن شروع ہوچکے ہیں– ان 7 دنوں میں جتنا جینا ہے۔۔۔جی لو۔۔اسکے بعد تم جینے کے قابل دور کی بات۔۔۔۔۔بولنے کے قابل بھی نہیں رہوگے– انسپکٹر ہمدانی کے لہجے میں نفرت تھی اور وہ خود سے بول رہا تھا–
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
اماں۔۔دیکھ رہی ہیں آپ اس مزمل کو۔۔کتنا بد تمیز ہوگیا ہے-
ہاں دیکھ رہی ہوں۔۔۔اس منحوس ماری نے ہی کوئی جادو کرایا ہوگا- نائلہ بیگم منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئیں بولیں۔۔۔انہیں سجل ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔۔۔وہ سمجھتی تھیں کہ اسکی خوبصورتی انکی بیٹیوں کیلئے عذاب بن جائے گی۔۔انکی بیٹیوں کو کوئی بھی دیکھنے آتا تو وہ سجل کو کمرے بند کردیتی تھیں۔۔۔وہ سمجھتی نہیں تھیں کہ ہر لڑکی اپنی قسمت ساتھ لے کر آتی ہے۔۔۔جو سمجھنا نہ چاہے ان کو سمجھانے کا فائدہ بھی نہیں ہوتا ہے-
اماں آپ ممانی کے کان میں بات تو ﮈال دیں بتول کیلئے۔۔۔میرا تو اب رشتہ ہو بھی چکا ہے۔۔۔وہی اب رہ گئی ہے پھر سجل کو کسی بڈھے کے ساتھ بھی بیاہ دیں گی تو بھی وہ کچھ نہیں کہی گی- سمیرا اپنی ماں کو پٹیاں پرانے لگی-
ہاں میں ابھی بھابھی اور بھائی سے بات کرتی ہوں۔۔۔ نائلہ بیگم کی آنکھیں چمک اٹھیں-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
بھابھی آپ لوگ تو جانتے ہی ہیں۔۔۔میری ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ ایک بیٹی بھائی کے گھر جائے اور پھر اماں کی بھی یہی خواہش تھی-
نائلہ بیگم اوپر والے پورشن میں آگئیں تھیں-
ہاں نائلہ ہم بھی جانتے ہیں اماں بیگم کی خواہش کو۔۔۔اور ہم مزمل کیلئے بھی یہی چاہتے ہیں پر سجل بیٹی۔۔۔وہ مانے گی اس رشتے کیلئے ؟؟ نائلہ بیگم کو انکی بات سنتے ہی غصہ آگیا۔۔۔ جو وہ چاہتی تھیں ہمیشہ ان سب سے الٹ ہی ہوتا تھا-
بھائی میں سجل کی نہیں اپنی بتول کی بات کر رہی ہوں۔۔۔سجل کا تو اسکا باپ ہی کچھ سوچے گا۔۔۔اسے فرصت ہی کب ہے اپنے بزنس سے— نائلہ بیگم اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے بولیں۔۔۔انھیں اسی بات کا ﮈر تھا کہ کچھ الٹا نہ ہوجائے-
ٹھیک ہے بھابھی ہم مزمل سے بات کرتے ہیں– آپ فکر نہ کریں- صفیہ بیگم ان کی بھابھی تھیں اور وہ بھی اپنے بیٹے کے لیے بتول کو پسند کرتی تھیں۔۔۔۔پر انکا بیٹا کیا چاہتا ہے وہ تو کوئی سوچنے کی کوشش بھی نہیں کرتا تھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ممی۔۔۔کیسی ہیں؟ وہ آج جلدی گھر آگیا تھا تاکہ اپنی ماں کے پاس بیٹھ سکے-
بیٹا۔۔جیسے 20 سال پہلی تھی- تم بتاؤ سارا دن گزر جاتا ہے۔۔۔آتے ہی نہیں ہو-
امی۔۔۔آج آپکے پاس ہی ہوں ساری رات۔۔۔آپکو ایک بات بھی بتانی ہے- وہ انکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا-
بتاؤ۔۔میری جان- کیا بات ہے؟ آج خوش بھی بہت ہو-
ہاں امی کیونکہ میری ساری دعائیں قبول ہوچکی ہیں اور اب میں اپنا مشن شروع کرنے والا ہوں۔۔۔آپ دعا کریں گی نا میرے لیے؟ اسکی کی آنکھوں میں کچھ حاصل کرلینے ، کچھ جیت جانے کی چمک تھی اور کلثوم بانو اسکی اس چمک سے خوفزدہ ہوگئیں-
ہاں بیٹے میں آپکے لیے ضرور دعا کروں گی۔۔۔آپ بتاؤ کونسا مشن ہے؟
ہاہاہاہا۔۔۔ایک کانچ کی گڑیا کو توڑ پھوڑ کر پھینک دینے کا مشن ہے- انسپکٹر ہمدانی کی اس بات نے کلثوم بانو کو دھچکا دیا۔۔۔ان کو لگا تھا ساتوں آسمان ان پر آگرے ہیں–
نہیں۔۔میرے بیٹے ایسا مت کرنا۔۔۔تمہاری ماں التجا کر رہی ہے- میرا بیٹا ظالم نہیں ہوسکتا-
آپکا بیٹا ظالم اور سفاک دونوں ہے۔۔۔میری ماں کے ساتھ جو چاہے کچھ بھی کرے اور میں انکو بخش دوں۔۔۔نہیں ممی آپ جانتی تھیں کیوں میں اس شعبہ میں آیا ہوں– صرف اسلیے کہ میں اپنا بنایا گیا ہر ایک منصوبہ پورا کرسکوں- آپ مجھے مت روکیں ممی پلیز–
وہ انکے روم سے جاچکا تھا اور کلثوم بانو ہاتھ اوپر اٹھائے ایک ہی دعا مانگنے لگیں–
”یا اللہ کسی کانچ کی گڑیا کو ٹوٹنے مت دینا“
وہ دعا مانگ تو رہیں تھیں پر ضروری نہیں کہ ہر دعا سنی جائے۔۔۔کچھ دعائیں دیر سے سنی جاتی ہیں۔۔۔شاید اسی میں اللہ کی کوئی بہتری ہوتی ہے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★