استحکام خاندان کے لیے مرد و زن کے دائرہ عمل کی تقسیم کے بعد اسلام ایسے بہت سے امور کا ذکر کرتا ہے جن میں زوجین کا یکساں کردار خاندان کے استحکام میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
1۔ باہمی محبت و مؤدت
زوجین کے درمیان باہمی محبت و مؤدت، دلی لگاؤ، اور دلی وابستگی کا ہونا استحکام خاندان کے لیے نا گزیر ہے۔ تبھی وہ زندگی کے نشیب و فراز اور نامساعد حالات کا سامنا کر پائیں گے۔ اس مخلص رشتے میں محبت در اصل اللہ کی بے پایاں رحمت کا حصہ ہے۔
وَمِنْ ایٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃ وَّرَحْمَۃ [35] ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی‘‘۔ زوجین کے درمیان محبت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو یہ دعا سکھائی ہے:
رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ۔ [36] ’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولادوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں قُرَّۃَ اَعْیُنٍ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی کہ جو آنکھوں کی ٹھنڈک ہو۔ آنکھوں کی ٹھنڈک سے مراد زوجین کے درمیان گہری محبت اور وابستگی ہے۔ دونوں کے درمیان مزاج کی ہم آہنگی اور مزاج شناسی کا ہونا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں بھی ہے: ان امرھا اطاعتہ، وان نظر الیھا سرتہ، وان اقسم علیھا ابرتہ، وان غاب عنھا نصحتہ فی نفسھا ومالہ۔ [37]
کہ ایسی عورت جو شوہر کی فرمانبردار ہو، مال اور عزت آبرو کی حفاظت کرنے والی اور ظاہری جمال کے ساتھ ساتھ خوش خصال بھی ہو قُرَّۃَ اَعْیُنٍ کے مفہوم میں شامل ہے۔
آپؐ کی خانگی زندگی ایسی تھی جس میں زوجین کے درمیان محبت و الفت گھر کے کونے کونے میں رچی بسی نظر آتی ہے۔ ازواج مطہرات سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ ازواج سے صلح میں ہمیشہ پہل فرماتے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ مجھ سے پانی کا گلاس چھین لیتے اور مسکرا کر جہاں سے میں پانی پی رہی ہوتی ٹھیک اسی جگہ منہ رکھ کر پانی پیتے، ہڈی وہاں سے چباتے جہاں حضرت عائشہ نے چبایا ہوتا، [38] پیار سے حضرت عائشہ کو حمیرا اور عائش کہہ کر بلاتے۔ حضرت عائشہؓ کو بھی آپﷺ سے نہ صرف شدید محبت تھی بلکہ انتہا کا شغف و عشق تھا کہ کسی اور کی جانب سے اظہار ہوتا تو ان کو ملال ہوتا۔ کبھی راتوں کو بیدار ہوتیں اور پہلو میں نہ پاتیں تو بے قرار ہو جاتیں۔ [39] تخییر کی آیت نازل ہوئی تو بلا تردد دامن نبوت کا انتخاب فرمایا، ارجا کی آیت نازل ہوئی کہ آپﷺ جس بیوی کو چاہیں تو رکھیں اور جس کو چاہیں الگ کر دیں۔ تو حضرت عائشہؓ کہنے لگیں اگر یہ اختیار مجھے حاصل ہوتا تو آپﷺ پر کسی کو ترجیح نہ دیتی۔ [40]
چنانچہ زوجین میں جب تک ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مہربانی کا تعلق پیدا نہ ہو اور ان دونوں کے درمیان خلوص اور ایثار کے جذبات نہ پائے جاتے ہوں تو ایسے تعلقات پائیدار نہیں ہو سکتے بلکہ وہ کچے دھاگوں کی طرح ٹوٹ جاتے ہیں۔ اور اگر بالفرض طوعاً کرہاً اس رشتے کو ناگواری کے ساتھ نبھایا بھی جاتا ہے تو زندگی بذات خود ایک بوجھ بن جاتی ہے۔ گھر کا ماحول کشیدہ اور کثیف رہنے لگتا ہے۔ زوجین کے درمیان محبت و الفت اور موافقت کی کمی بچوں پر اثر انداز ہونے لگتی ہے اور ان کی شخصیت مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔
اس کا واحد حل یہی ہے کہ ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھا جائے، شکایات کا ازالہ کیا جائے، بد گمانیوں کو رفع کیا جائے، اپنی غلطی ہو تو اس کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت کر لی جائے، حقوق و فرائض کو ادا کیا جائے، ایسے عادات اور خصائل سے خود کو آراستہ کیا جائے جن سے پیراستہ اسے دوسرا دیکھنا چاہتا ہے اور بعد میں بھی اس پر ثابت قدم رہا جائے تا کہ دونوں کے درمیان چاہت، محبت اور الفت کے جذبات روز افزوں رہیں۔
2۔ حسن سلوک
خانگی زندگی میں حسن سلوک بہت اہمیت کا حامل ہے اسی لیے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے روزمرہ کی زندگی میں عورت کیساتھ حسن سلوک کی سفارش کی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، فَاِنْ کَرھُِتُمُوْھُنَّ شَیْئاً فَعَسَیٰ أَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئاً وَیَجْعَلُ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْراً کَثِیْراً۔ [41] ’’اور ان عورتوں کے ساتھ حسن و خوبی سے گذر بسر کرو اور اگر تم کو وہ ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک چیز ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر بڑی منفعت رکھ دے۔‘‘
اس آیت میں میاں بیوی کے تعلقات کا ایسا جامع دستور پیش کیا گیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہو سکتا اور اگر اس جامع ہدایت کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے تو اِس رشتہ میں کبھی بھی تلخی اور کڑواہٹ پیدا نہ ہو گی۔ مولانا جلال الدین عمری لکھتے ہیں وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ کا مطلب ہے کہ ’’بیوی کے حقوق ٹھیک ٹھیک ادا کیے جائیں اور اس کی جائز اور معقول ضروریات پوری کی جائیں۔ اس کے ساتھ ناروا سلوک نہ کیا جائے، بلکہ پیار اور محبت کا برتاؤ کیا جائے۔ ترش روئی اور سخت کلامی سے اجتناب کیا جائے۔ یہ سب باتیں معروف میں آتی ہیں۔ اس کے خلاف جو رویہ اختیار کیا جائے گا وہ غیر معروف اور منکر ہو گا۔‘‘ [42]
اسی طرح رسول اللہﷺ نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی سفارش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: استوصو بالنساء فان المراۃ خلقت من ضلع و ان اعوج شی فی الضلع اعلاہ، فان ذھبت تقیمہ کسرتہ و ان ترکتہ لم یزل اعوج فاستوصو بالنساء۔ [43]
’’عورتوں کے بارے میں مجھ سے نصیحت حاصل کر لو۔ بے شک عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھی اوپر والی پسلی ہوتی ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ دو گے۔ اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دو گے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ پس عورت کے بارے میں وصیت حاصل کر لو۔‘‘
جس معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کی سفارش آ جائے اس معاملے کی سنگینی، نزاکت اور اہمیت کا اندازہ بخوبی ہو جانا چاہیے۔ عورتوں سے حسن سلوک کی تاکید وہ واحد معاملہ ہے کہ آپﷺ نے سب سے زیادہ نصیحت کی۔ یہاں تک کہ آپﷺ نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کو کامل ایمان کی علامت قرار دیا ہے:
ان من اکمل المومنین ایمانا أحسنھم خلقا والطفہم باھلہ۔ [44] مومنین میں سے اس کا ایمان زیادہ کامل ہے جس کا اخلاقی برتاؤ سب کے ساتھ بہت اچھا ہو اور خاص کر اپنی بیوی کے ساتھ جس کا رویہ انتہائی لطف و محبت کا ہو۔ مزید فرمایا: خیرکم خیرکم لاھلیٰ، وانا خیرکم لاھلی۔ [45] تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں (یعنی بیوی بچوں) کی نظر میں اچھا ہو۔۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں اچھا وہی ہو گا جو اُن کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہو۔ اور بیوی کے حقوق کیا ہیں جب اس بارے میں آپﷺ سے استفسار فرمایا تو آپﷺ نے جواب دیا: ان تطعھما اذا طعمت و تکسوھا اذا اکتسیت او اکتسبت ولا تضرب الوجہ ولا تقبح۔ [46] ’’یہ کہ تو اس کو کھلائے اور اس کو پہنائے جو تو خود پہنے، اور اس کے چہرے پر نہ مار اور نہ اسے برا بھلا کہہ۔‘‘
امام غزالی آداب معاشرت اور نکاح کو قائم رکھنے والے اسباب بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے رہنا چاہیے، ان کی جانب سے ایذا برداشت کرنی چاہیے ان پر رحم اور ترس کھانا چاہیے۔ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بیوی کو ایذا نہ دینا حسن سلوک نہیں بلکہ عورت کی جانب سے ایذا برداشت کرنا اور اس کے غصہ اور طیش کو سہنا اصل حسن سلوک ہے۔ یہ آپﷺ کا طریقہ ہے۔ آپﷺ کی بعض بیویاں آپﷺ کے سامنے بولتی تھیں اور سارا سارا دن بات نہ کرتی تھیں مگر آپﷺ پھر بھی تحمل فرماتے۔ [47]
آپﷺ نے کبھی کسی زوجہ کو طعن و تشنیع نہ کی اور نہ ہی کبھی کسی پر ہاتھ اٹھایا حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ما ضرب رسولﷺ خادماً لہ، ولا امراۃ ولا ضرب بیدہ شیاً۔ [48] بلکہ بیوی کے ساتھ تشدد کرنے والوں کے لیے فرمایا: لیس اولئیک بخیارکم۔ [49]
عورت کو بھی مرد کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ اس کے مزاج، پسند و ناپسند کا خیال رکھے۔ جب کوئی حکم دے تو بجا لائے۔ شوہر گھر آئے تو اس کے آرام و سکون کا خیال رکھے۔ اس کے اعزہ و اقارب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ اس کے والدین بہن بھائیوں اور اگر دوسری بیوی سے اولادیں ہوں تو ان کے ساتھ بھی احسان کا رویہ اپنانا چاہیے۔ جس طرح حضرت سودہؓ نے حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد ان کی بچیوں کی دیکھ بھال اور تربیت کی کٹھن ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے پورا کیا انہیں حقیقی ماں جیسا پیار دیا، حضرت فاطمہؓ کی شادی میں تمام ازواج مطہرات کی شمولیت کرنا خواتین کے لیے بھی قابل تقلید نمونہ ہے کہ مرد کے حسن سلوک کے جواب میں عورت کس طرح سے احسان کی روش اپنا سکتی ہے۔ کیونکہ نرمی محبت اور خدمت و اطاعت دلوں کے بند دروازے وا کرتی ہے۔ نفرت و عداوت کا خاتمہ کرتی ہے اور خاندان کی بنیادوں کو باطنی استحکام فراہم کرتیں ہیں۔
3۔ حقوق و فرائض کی ادائیگی
خاندان کی تشکیل میں جو تعلق سب سے حساس اور اہم ہے وہ میاں بیوی کا ہے، آپﷺ نے خاندان کو انتشار سے بچانے اور اسے استحکام بخشنے کے لیے زوجین کے باہمی حقوق و فرائض کا ایک ایسا سلسلہ قائم کر دیا، جس پر عمل پیرا ہو کر انفرادیت پسندی، عدم اعتماد، پریشانی اور انتشار جیسے معاشرتی امراض کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، حضورﷺ کے اسوہ حسنہ میں خاندان کے جملہ عناصر ترکیبی مثلاً والدین، ازواج مطہرات، اولاد، اقربا اور غلاموں کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ [50]
آپﷺ کی خارجی زندگی کی ذمہ داریاں اتنی متنوع اور وسیع تر تھیں کہ ان کے ساتھ اپنے اہل خانہ اور افراد خاندان کے لیے وقت نکالنا اور ان کے حقوق کی رعایت کرنا، آج کے زمانے کو دیکھتے ہوئے ایک مشکل ترین بات تھی لیکن حیات مبارکہ کے مطالعہ سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ آپﷺ ازواج مطہرات میں سے ہر ایک کے حقوق کی رعایت فرماتے اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر آپ اس سے غافل نظر نہیں آتے۔
4۔ تقویٰ
قرآن کریم نے جہاں زوجین کے حقوق کا ذکر کیا ہے وہاں انہیں تقویٰ اختیار کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے اس حوالے سے خطبہ نکاح کے وقت پڑھی جانے والی آیت سب سے پہلے ذہن میں رہنی چاہیے [51] اللہ رب العزت نے جہاں میاں بیوی کے حقوق کا تذکرہ فرمایا وہیں تقویٰ کا حکم بھی دیا: وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوٓا اَنَّکُمْ مُّلَاقُوْہُ۔ [52] اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اس کے رو برو حاضر ہونا ہے۔ ان آیات میں میاں بیوی کو یہ بات ذہن نشین کروائی ہے کہ باہمی حقوق و فرائض میں اگر کسی جانب سے کمی، کوتاہی یا زیادتی ہو بھی جائے تو دونوں اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنے معاملات انجام دیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حد ہے۔ نہ کہ ایک دوسرے کی دل آزاری کی جائے، سزا دی جائے، تشدد کیا جائے، ایذا دی جائے۔ آپﷺ نے عورتوں کے معاملے میں تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید کی۔ اتقو اللہ فی النساء، فانکم أخذتموھن بامانۃ اللہ۔ [53] اپنی بیویوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو تم نے ان کو اللہ کی امان کے ساتھ اپنے عقد میں لیا ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب کوئی عورت حبالہ نکاح میں آتی ہے تو وہ اللہ کی امان میں داخل ہو جاتی ہے ایسے میں اگر شوہر اس پر زیادتی کرے گا تو وہ اللہ کی امان کو توڑے گا اور بارگاہ الٰہی میں مستوجب سزا ٹھہرے گا۔ اور حضورﷺ کی ایک حدیث کے مطابق اُس سے اس ذمہ داری کے سلسلے میں خدا کے ہاں باز پُرس ہو گی۔ والرجل راع علی اھل بیتہ وھو مسؤل عنھم۔ [54] مرد اپنے گھر والوں پر نگہبان ہے اور اسے اس کے بارے میں بازپرس کی جائے گی۔
تقویٰ کے حصول کا یہ سفر سہل نہیں اس سفر میں کبھی خار دار جھاڑیوں سے دامن الجھے گا اور کبھی صحرا کی صعوبتیں بھی سہنیں پڑیں گی، کبھی اس دشت کی سیاحی جسم و روح دونوں کی آبلہ پائی کا باعث بنے گی تو کبھی موسموں کے سرد و گرم مضطرب رکھیں گے، کبھی یہ نہ کٹنے والا پر خطر سفر مضمحل کرے گا تو کبھی اس کے بالکل برعکس انہی خار دار جھاڑیوں سے بیش قیمت پھولوں سے دامن بھر جائے گا کبھی یہی صحرا شجر سایہ دار میں بدل جائے گا اور کبھی اس دشت کی سیاہی پھولوں کی سیج ثابت ہو گی تو کبھی موسموں کا یہی سرد و گرم زندگی کا حسن بڑھاتا جائے گا اور کبھی یہ پر خطر سفر ایک حسین خواب کی تعبیر کا روپ دھار لے گا۔ اور یہ سب تبھی ممکن ہو گا جب زوجین میں سے ہر ایک کی زندگی میں تقویٰ کا پہلو کبھی فراموش نہ کیا جائے۔ اور وہ عزم و ہمت، صبر و برداشت، ایثار و محبت خلوص اور سچائی پر اس رشتے کی بنیاد رکھیں۔
5۔ عفو و درگزر اور صبر و تحمل کا مظاہرہ
عفو درگزر خانگی زندگی میں کامیابی کی کنجی ہے۔ زوجین کے درمیان تفاوت اور اختلاف کا ہونا فطری امر ہے۔ اور خطا کا ہو جانا بھی انسانی سرشت میں شامل ہے لیکن ایسے مواقع پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا اور عفو درگزر سے کام لینا بہت سی پیچیدگیوں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ اگر زوجین عفو درگزر سے کام نہ لیں تو نوبت لڑائی جھگڑوں تک پہنچ سکتی جس سے خاندان کا شیرازہ منتشر ہو سکتا ہے۔ اور یہی کام شیطان چاہتا ہے کہ زوجین کے درمیان تفریق کروا دی جائے۔ آپﷺ سے روایت ہے:
’’شیطان پانی پر اپنا تخت بچھاتا ہے اور اپنے چیلوں کی کار کردگی کی رپورٹ لیتا ہے۔ کوئی کہتا ہے میں نے فلاں جگہ قتل کروا دیا، کوئی کہتا ہے میں نے فلاں کو زنا یا شراب کی طرف مائل کر دیا لیکن ابلیس لعین تب خوش ہوتا ہے جب ایک چیلا یہ رپورٹ دیتا ہے کہ میں نے بیوی خاوند میں پھوٹ ڈال دی اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا، وہ اسے گلے لگاتا اور شاباش دیتا ہے کہ تو نے اصل کام کیا۔ [55]
عفو درگزر اور صبر و تحمل شیطان کے حملے کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ رشتوں میں تلخیوں اور دوریوں کو بڑھنے نہیں دیتا۔ غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کر کے نرم رویہ اپنانا اسوہ محمدیﷺ ہے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: ما رایت احدا کان ارحم بالعیال من رسول اللہﷺ۔ [56] ’’میں نے اللہ کے رسولﷺ سے زیادہ اپنے اہل و عیال کے لیے رحیم و شفیق کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘
عورت نرم دل اور جذباتی ہوتی ہے، جذبات سے مغلوب ہو کر بعض اوقات اس سے کوئی ایسا فعل ہو جاتا ہے جو عقل سلیم کے مخالف ہوتا ہے ایسے حالات میں شوہر کو چاہیے کہ وہ عورت کی جانب مدد کا ہاتھ بڑھائے نہ کہ زد و کوب کا بہانہ ہاتھ آنے پر وحشت و بربریت کا مظاہرہ کرے۔ بلکہ اس کی کوتاہی پر عفو و درگزر سے کام لے۔ جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا: استوصوا بالنساء فان المراۃ خلقت من ضلع و ان اعوج شی فی الضلع اعلاہ، فان ذھبت تقیمہ کسرتہ و ان ترکتہ لم یزل اعوج فا ستو صو بالنساءخیراً۔ [57] ’’عورتوں کے بارے میں مجھ سے نصیحت حاصل کر لو۔ بے شک عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھی اوپر والی پسلی ہوتی ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ دو گے۔ اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دو گے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ پس عورت کے بارے میں وصیت حاصل کر لو۔‘‘
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک مرد کو اپنے گھر میں کیسا رویہ رکھنا چاہیے۔ اپنی طاقت کے بل بوتے پر اسے سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرے بلکہ اپنی حکمت اور دانشمندی سے اسے اپنی پسند کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ اگر مرد جسمانی لحاظ سے بمقابلہ عورت کے قوی ہے تو جذباتی لحاظ اور فہم و فراست میں بھی عورت سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ اگر وہ حکمت سے کام لے تو زندگی کا اصل لطف حاصل کر پائے گا کیونکہ عورت کا یہی مزاج یکساں اور بے رنگ زندگی میں تنوع اور خوبصورتی کا باعث بھی ہے۔ ایک بار حضرت عائشہؓ آپﷺ سے ناراض ہو گئیں اور فرمانے لگیں أنت الذی تزعم انک نبی؟ [58] ہمارے معاشرے میں مرد عموماً ایسی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور ایسے طرز تخاطب کو بدتمیزی اور اپنی بے عزتی پر محمول کرتے ہیں لیکن آپﷺ تو اس بات کو سن کر مسکرانے لگے۔
آپﷺ کا طریقہ کار کتنا بہترین ہے۔ اس کے ذریعے گھر کو جنت کا نمونہ بنایا جا سکتا ہے۔ جس میں سلامتی اترتی ہے۔ اور ازدواجی زندگی کی بقا کی ضمانت ہے۔ لہٰذا جب میاں بیوی میں سے ایک غصے میں ہو تو دوسرے کو حوصلہ اختیار کرنا چاہیے ورنہ عداوت پختہ اور جھگڑا سخت نوعیت کا ہو جا تا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ کچھ ہو جاتا ہے جس کا گمان تک نہیں ہوتا۔ بسا اوقات ایسی صورتحال خاندان کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیتی ہے۔ [59] لیکن اگر بیوی بد مزاج ہے یا جھگڑالو ہے تب بھی مرد کو صبر اور تحمل مزاجی سے کام لینے کی تلقین کرتے ہوئے آپﷺ نے اجر کی نوید سنائی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: اگر کوئی مرد اپنی بیوی کے برے اخلاق پر صبر کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس خاوند کو اس طرح سے اجر عطا فرمائے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب ؑ کو اللہ تعالیٰ نے بیماری کے اوپر صبر کرنے کا اجر عطا فرمایا تھا۔ اور جو بیوی اپنے خاوند کے برے اخلاق پر صبر کر لیتی ہے اللہ تعالیٰ اس کو اتنا صبر عطا کرتا ہے جتنا آسیہ بنت مزاحم یعنی فرعون کی بیوی کو عطا کیا تھا۔ [60]
مقصود یہ ہے ناخوشگوار حالات میں مرد بد کلامی اور زد و کوب کی بجائے نرمی و شائستگی سے کام لے۔ یہ نا ممکن ہے کہ یہ سب کچھ ہو اور اس کے اچھے نتائج برآمد نہ ہوں۔ مرد چونکہ عقلمندی اور دانائی میں بڑا ہوتا ہے اس لیے اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ سے حکمت، نرمی اور اچھی رہنمائی سے کام لیتے ہوئے معاملے کو سلجھانے کی ذمہ داری کسی مناسب وقت میں نبھائے کیونکہ اس کے لیے ہر وقت مناسب نہیں ہوتا۔ [61]
خاوند کو چاہیے کہ وہ عورت میں اچھے اخلاق کو دیکھے اور بیوی کی برائی کے بدلے میں اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرے۔ اسی بارے میں آپﷺ کا فرمان ہے: ولا یفرک مومن مومنۃ ان کرہ منھا خلقا رضی آخر۔ [62] ’’کوئی مومن مرد ( اپنی) مومن عورت سے بغض نہ رکھے۔ اگر وہ اس کی کسی عادت کو نا پسند کرتا ہے تو کسی عادت کو پسند بھی تو کرتا ہے۔‘‘ الفرک کا لفظ کینہ بغض و عناد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کہ زوجین کسی معمولی بات کی وجہ سے دل میں نفرت، بغض اور کینہ نہ پال لیں بلکہ ایسے وقت میں ایک دوسرے کی خوبیوں پر نگاہ کرتے ہوئے کوتاہیوں اور خامیوں سے درگزر کرنا ہی دور اندیشی ہے۔ ایک غصے کی حالت میں ہو تو دوسرا درگزر سے کام لے اور خاموش رہے۔ اس سے جھگڑا طول نہیں پکڑے گا اور بات جلد ہی رفع دفع ہو جائے گی۔
دوسری طرف عورت کو بھی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اگر خاوند تھکا ہارا کام سے آیا ہے اس کے چڑچڑے پن یا سخت لہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے عفو درگزر سے کام لے، اس کے مزاج کو سمجھے، بعد میں جب شوہر کا مزاج اعتدال پر آ جائے تو اس سے اس کی پریشانی کی بابت دریافت کرے۔ اس کی دلجوئی کرے۔ اور اسے اچھے حالات کی امید دلائے اس کے اعصاب کو سکون و راحت دے۔ جیسا کہ پہلی وحی کہ نزول کے وقت آپﷺ پریشان حال گھبرائے ہوئے گھر لوٹے تھے تو حضرت خدیجہؓ نے ان کو ہمت دلائی ان کی ڈھارس بندھا ئی اور انہیں امید افزاء نتائج کا یقین دلایا۔ حضرت خدیجہؓ کا یہ انداز تمام خواتین کے لیے مشعل راہ ہے۔ جس پر عمل پیرا ہو کر گھر کے ماحول کو کشیدگی سے بچایا جا سکتا ہے، زوجین کے باہمی تعلق کو مزید مستحکم اور گہرا بنایا جا سکتا ہے۔
خواتین کے لیے بھی ازواج مطہرات کا اسوہ قابل تقلید ہے کہ جب خاوند کی کوئی بات بری لگے تو شکوہ شکایات، برا بھلا کہنے کی بجائے مناسب طرز عمل اختیار کریں۔ ایک مرتبہ حضور اکرمﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو، دونوں حالتوں میں مجھے علم ہو جاتا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے پوچھا: یا رسول اللہ! کس طرح علم ہو جاتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو رب محمد کے الفاظ کے ساتھ قسم کھاتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو رب ابراہیم کے الفاظ کے ساتھ قسم کھاتی ہو۔ اس وقت تم میرا نام نہیں لیتی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لیتی ہو۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ! میں صرف آپ کا نام چھوڑتی ہوں، نام کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑتی۔ [63]
اب آپ اندازہ لگائیں کہ کون ناراض ہو رہا ہے؟ حضرت عائشہؓ اور کس سے ناراض ہو رہی ہیں؟ حضور اکرمﷺ سے معلوم ہوا کہ اگر بیوی ناراضگی کا اظہار کر رہی ہے تو یہ مرد کی قوامیت یعنی امارت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے بڑی خوشی طبعی کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا کہ مجھے تمہاری ناراضگی کا پتہ چل جاتا ہے۔
دوسری طرف حضرت عائشہ کا طرز عمل عورتوں کے لیے قابل تقلید ہے کہ گھر بار چھوڑ کے ماں باپ کی طرف نہیں چلی گئیں، نہ ہی کسی قسم کا قطع تعلق کیا اور نہ ہی جھگڑا کیا بلکہ خاموش طرز عمل اپناتے ہوئے اپنے تمام فرائض و امور بھی معمول کے مطابق انجام دے رہی ہیں بس خفگی کے اظہار کے لیے محبوب شوہر کا نام لینے سے گریزاں ہیں۔ یہ انداز محبت و الفت کے اس رشتے میں دراڑ نہیں ڈالتا بلکہ مان بھرا یہ انداز اس رشتے کو اور مستحکم کر دیتا ہے۔ یہ ادا و ناز اس رشتے میں محبت و الفت کی چاشنی کو اور بڑھا دیتی ہے۔
6۔ باہمی مشاورت
صالح، کامیاب اور پر امن زندگی گزارنے کے لیے مشاورتی نظام اپنانا از حد ضروری ہے، بلاشبہ مشورہ خیر و برکت، عروج و ترقی اور نزولِ رحمت کا ذریعہ ہے، اس میں نقصان و شرمندگی کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: مَا شَقیٰ عَبْدٌ بِمَشْوَرَۃ وَمَا سَعِدَ بِاسْتِغْنَاءِ رَأیٍ۔ [64] یعنی کوئی انسان مشورہ سے کبھی نا کام اور نامراد نہیں ہوتا اور نہ ہی مشورہ ترک کر کے کبھی کوئی بھلائی حاصل کر سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گھر کے نظام کو چلانے کی ذمہ داری مرد کے ذمہ رکھی گئی ہے لیکن حسن معاشرت کے طور پر عورت سے بھی گھر کے نظام کو چلانے کے لئے مشورہ لینا چاہئے، جیساکہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: یعنی بیٹیوں کے رشتے کے لئے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کرو۔ [65] ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
مَاخَابَ مَنِ اسْتَخَارَ وَلَا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ [66] ’’جس نے استخارہ کیا وہ نا کام نہیں ہوا اور جس نے مشورہ کیا وہ شرمندہ نہ ہوا۔‘‘
مشاورت کی کمی کی وجہ سے ماحول میں کشیدگی اور بدامنی کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر ایک کے مشورے پر عمل کیا جائے بلکہ باہمی مشاورت کے بعد جو بہتر مشورہ نظر آئے اسے تسلیم کیا جائے۔
آپﷺ اکثر صحابہ کرام کے ساتھ مشاورت کیا کرتے تھے۔ لیکن متعدد مواقع پر آپﷺ نے ازواج مطہرات کے ساتھ مشاورت بھی فرمائی۔ جیسا کہ پہلی وحی کے نزول کے وقت آپﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے مشاورت کی۔ حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ کی شادی کے بارے حضرت عائشہؓ کے مشورہ پر عمل کیا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپﷺ نے حضرت ام سلمیٰ کے مشورہ سے سر منڈوایا۔ [67] زوجین چونکہ باہم رفیق ہوتے ہیں تو زندگی کے نشیب و فراز کا سامنا کرنے کے لیے اپنے رفیق حیات سے بڑھ کر مخلص کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ باہمی مشاورت سے زوجین جو امور انجام دیں گے اس سے خاندانی نظام کو مزید تقویت حاصل ہو گی کیونکہ دونوں ہی کے پیش نظر خاندان کی فلاح اور بھلائی ہوتی ہے۔
7۔ ایثار
زوجین کا باہمی تعلق تبھی ایک مضبوط بندھن ہونے کے ساتھ دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ بنتا ہے جب اس میں حقوق و فرائض کے دائرہ سے نکل کر ایک دوسرے کے ساتھ احسان اور ایثار کا رویہ ہو۔ یہ دونوں اوصاف اس رشتہ کو مزید نکھارتے ہیں اور اس میں حسن و نزاکت پیدا کرتے ہیں۔ زوجین کا یہ رشتہ ایثار پر ہی استوار ہے لڑکی اپنا گھر بار اپنے والدین بہن بھائی سب چھوڑ کر آتی ہے۔ شوہر کی دلجوئی کرتی ہے۔ اس کی اولاد کی پرورش کرنے میں اپنا آرام سکون، نیندیں سب قربان کر دیتی ہے اسی طرح سے مرد دن رات زمانے کے سرد و گرم سے لڑ کر محنت کر کے روزی روٹی کما کے لاتا ہے اپنا مال عورت پر خرچ کرتا ہے اس کی دلجوئی کرتا ہے اس کا خیال رکھتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے ایثار کی انتہا کر دیتے ہیں تو ایک خاندان بنتا ہے۔ جس قدر یہ ایثار کرتے جائیں گے اسی قدر خاندان مستحکم ہوتا جائے گا۔ نیز زوجین کا یہ ایثار کمال محبت کی دلیل ہوتا ہے۔ یہ ایثار ہمیں ذات نبویﷺ میں بھی نظر آتا ہے۔ آپﷺ کو شہد بہت پسند تھا لیکن جب آپﷺ کی ایک زوجہ نے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا یا رسول اللہ شہد کی وجہ سے آپﷺ کے منہ سے تو بد بو آ رہی ہے تو آپﷺ نے شہد چھوڑ دیا۔ [68] ایک دوسرے کے لیے چھوٹی چھوٹی باتوں میں ایثار زوجین کے رشتے کو محبت کی چاشنی سے گوندھ دیتا ہے اسے ایسی پائیداری اور مضبوطی عطا کرتا ہے کوئی بھی طوفان اسے غیر متزلزل نہیں کر سکتا۔
ایثار کی یہ انتہا ہمیں خانہ نبوت میں ازواج مطہرات کے درمیان بھی نظر آتی ہے۔ حضرت سودہؓ کا سن زیادہ ہو چکا تھا اور حضرت عائشہؓ ابھی نوعمر تھیں اس لئے انہوں نے اپنی باری بھی حضرت عائشہ کو دے دی جو انہوں نے خوشی سے قبول کر لی۔ حضرت عائشہؓ کا قول ہے: ’’ میں نے کسی عورت کو جذبہ رقابت سے خالی نہ دیکھا سوائے سودہ کے۔ مَارَأَیْتُ امْرَأَۃ أَحَبَّ إِلَیَّ أَنْ أَکُونَ فِی مِسْلَاخِہَا مِنْ سَوْدَۃ بِنْتِ زَمْعَۃ [69] سودہ بنتِ زمعہ کے علاوہ کسی عورت کو دیکھ کر مجھے یہ خیال نہیں ہوا کہ اس کے قلب میں میری روح ہوتی۔ حضرت سودہ کا یہ ایثار عدیم النظیر اور فقید المثال ہے۔
8۔ راز داری
زوجین لباس ہی کی مانند ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں ایک دوسرے کے عیوب، کمزوریوں، خامیوں اور رازوں سے واقف ہوتے ہیں۔ لباس نہ صرف جسم کے عیوب کو چھپاتا ہے بلکہ انسان کی شخصیت کو نکھارتا اور اس کی وجاہت و وقار کا سبب بھی ہے۔ اسی طرح زوجین بھی ایک دوسرے کے عیوب کی پردہ پوشی کر تے ہوئے ایک دوسرے کی عزت اور وقار میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔ ہمارے ہاں عموماً عورتیں بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر چھوٹی بڑی بات کسی سہیلی، دوست، بہن یا ماں سے بیان کرنا ضروری سمجھتی ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ گھر کی عزت بھی کم ہوتی ہے اور الٹے سیدھے مشوروں سے وہ اپنی گرہستی بھی تباہ کر لیتی ہے۔ ایک بار جب حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے مابین کچھ اختلاف ہو جاتا ہے اور آنحضورﷺ نے اس بارے میں حضرت فاطمہؓ سے استفسار کیا تو راز داری اور ایک دوسرے کی عزت کا پاس رکھتے ہوئے اور بجائے شوہر کی شکایتیں کرنے کہ مختصراً کہا کہ ہمارے درمیان کچھ ان بن ہو گئی ہے۔ [70] ۔ پھر جب ازواج مطہرات نے جب آپﷺ سے نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کیا اور آپﷺ بالا خانے پر تشریف لے گئے تو ازواج مطہرات بھاگی بھاگی اپنے والدین کے پاس نہیں گئیں کہ ہمارا شوہر ہمیں کم خرچ دیتا ہے یا خرچ میں اضافہ کے مطالبہ کے جواب میں ہم سے ناراض ہو کر بالا خانہ جا کر مقیم ہو گیا ہے۔ بلکہ اس واقعہ کی خبر حضرت عمرؓ کو اپنے پڑوسی سے ملتی ہے۔ اور جب آیات تخییر نازل ہوئیں تو آپﷺ بالا خانہ سے نیچے تشریف لائے اور سب سے پہلے حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے عائشہ ! میں تمہارے سامنے ایک بات رکھتا ہوں مگر تم اس کے جواب میں جلدی مت کرنا اور اپنے والدین سے مشورہ کر کے مجھے جواب دینا۔ اس کے بعد آپﷺ نے تخییر کی آیت تلاوت فرما کر ان کو سنائی تو انہوں نے برجستہ عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ یفَفِیْ اَیِّ ہٰذَا اَسْتَامِرُ اَبَوَیَّ فَاِنِّیْ اُرِیْدُ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃ۔ [71] اس معاملہ میں بھلا میں کیا اپنے والدین سے مشورہ کروں میں اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں۔ پھر آپﷺ نے یکے بعد دیگرے تمام ازواجِ مطہراتؓ کو الگ الگ آیت تخییر سنا سنا کر سب کو اختیار دیا اور سب نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہؓ نے جواب دیا تھا۔ ان تمام واقعات میں ان خواتین کے لیے نصیحت ہے جو ایسے معاملات میں اپنی ہر چھوٹی بڑی بات خود کو معصوم ظاہر کرتے ہوئے اپنے والدین تک پہچانا ضروری سمجھتی ہیں۔
اسی طرح سے مردوں کو بھی اپنی بیوی کے رازوں کی حفاظت کرنی چاہیے اور مشترکہ معاملات کی تشہیر نہیں کرنی چاہیے۔ رسول اللہﷺ نے اس قبیح فعل کی مذمت فرمائی ہے وان من اشر الناس عند اللہ منزلہ یوم القیامۃ الرجل یقضی الی امراتہ و تقضی الیہ ثم ینشر سرھا۔ [72] ’’بے شک لوگوں میں بدترین آدمی اللہ کے ہاں قیامت کے دن وہ شخص ہو گا جو اپنی بیوی سے خواہش پوری کرتا ہے اور اس کی بیوی اس سے خواہش پوری کرتی ہے، پھر وہ بیوی کے راز کو افشاں کر دیتا ہے۔‘‘
جبکہ یہ زوجین کی عزت کی حفاظت کے لیے ضروری بھی ہے اور اس رشتہ وفا کا تقاضا بھی ہے کہ زوجین ایک دوسرے کے عیوب کی تشہیر نہ کرتے پھریں۔ مشترک معاملات کو نہ پھیلائیں۔ کیونکہ یہ بات عہد زوجیت کے منافی اور خیانت میں شمار ہوتی ہے۔ ایسا رویہ بے مروتی، بد مزاجی اور بد اخلاقی کی دلیل ہو گا۔ بعد ازاں یہی وعدہ خلافی میاں بیوی کے درمیان اختلافات کی آگ بھڑکانے اور ضد و ہٹ دھرمی میں اضافے کا سبب بنے گا۔
9۔ قناعت و شکر گزاری
قناعت اور ایک دوسرے کی شکر گزاری خانگی زندگی پر مثبت اثرات ڈالتی ہے۔ اور زندگی کے مسائل کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ میاں اور بیوی دونوں اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے خاندان کے لیے ایثار بھی کرتے ہیں اور مختلف فرائض بھی سر انجام دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کاوشوں کو سراہنا زوجین کے درمیان تعلق کی پختگی کا سبب بنتا ہے۔ اور ایک خوشگوار تاثر چھوڑتا ہے۔ لیکن عموماً زوجین اور بالخصوص بیوی ایک دوسرے سے شاکی اور غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔ اکثر عورتوں میں قناعت اور شکر گزاری کا عنصر کم ہوتا ہے لیکن شوہر کی نافرمانی اور نا شکری عورت کو جہنم میں لے جانے کا سبب بن سکتی ہے۔ ارشاد نبویﷺ ہے کہ یا معشر النساء تصدقن فانی رایتکن اکثر اھل النار، فقلن و بما ذلک یا رسول اللہﷺ قال: تکثرن اللعن و تکفرن العشر۔ [73] ’’اے عورتوں کی جماعت ! تم صدقہ کیا کرو، کیونکہ میں تم کو دیکھتا ہوں کہ تم اکثر جہنم میں ہو، انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! ایسا کیوں ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا ’’تم کثرت سے لعن طعن کرتی ہو اور اپنے خاوند کی ناشکری کرتی ہو۔‘‘
قناعت کی یہ جھلک ہمیں خانہ نبویﷺ میں بڑی واضح نظر آتی ہے۔ حضورﷺ کی تقریباً تمام ازواج مالدار اور بڑے گھرانوں سے تھیں حضرت ام حبیبہؓ رئیس مکہ حضرت ابو سفیانؓ کی صاحبزادی تھیں، حضرت جویریہؓ قبیلہ بنی المصطلق کے سردار اعظم حارث بن ضرار کی بیٹی تھیں، حضرت صفیہؓ بنو نضیر اور خیبر کے رئیس اعظم حیی بن اخطب کی نور نظر تھیں، حضرت عائشہؓ حضرت ابو بکر صدیقؓ کی پیاری بیٹی تھیں، حضرت حفصہؓ حضرت عمر فاروقؓ کی چہیتی صاحبزادی تھیں، حضرت زینب بنت جحش اور حضرت اُمِ سلمہؓ بھی خاندانِ قریش کے اونچے اونچے گھروں کی ناز و نعم میں پلی ہوئی لڑکیاں تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب بچپن سے امیرانہ زندگی اور رئیسانہ ماحول کی عادی تھیں اور ان کا رہن سہن، خورد و نوش، لباس و پوشاک سب کچھ امیر زادیوں کی رئیسانہ زندگی کا آئینہ دار تھا اور تاجدار دو عالمﷺ کی مقدس زندگی بالکل ہی زاہدانہ اور دنیوی تکلفات سے یکسر بے گانہ تھی۔ دو دو مہینے کاشانہ نبوت میں چولھا نہیں جلتا تھا۔ صرف کھجور اور پانی پر پورے گھرانے کی زندگی بسر ہوتی تھی۔ لباس و پوشاک میں بھی پیغمبرانہ زندگی کی جھلک تھی مکان اور گھر کے ساز و سامان میں بھی نبوت کی سادگی نمایاں تھی۔ لیکن ازواج مطہرات نے ہمیشہ ایک ہی بات کہی فَاِنِّیْ اُرِیْدُ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃ۔ [74]
عورت پر یہ بات لازم ہے کہ اپنے شوہر کے ساتھ میانہ روی اور حسن تدبیر کے ساتھ زندگی گزار کر اس کی مدد کرے، اسی طرح مردوں پر بھی لازم ہے کہ آپﷺ کے اسوہ حسنہ سے روشنی حاصل کریں اور جس طرح سے آپﷺ حضرت خدیجہؓ کے ایثار اور قربانیوں کا اعتراف کیا کرتے تھے کہ: ’’اللہ کی قسم!خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور انہیں کے شکم سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔‘‘ [75]
اسی طرح سے ایثار کا رویہ اختیار کرنے سے زوجین میں باہم محبت، مؤدت، الفت، ایثار، تعاون اور عزت و احترام کا یہ تعلق مزید مستحکم ہوتا جائے گا۔
10۔ شخصی آزادی اور احترام باہمی
خاندانی زندگی میں جہاں محبت و الفت اور حسن سلوک کی اہمیت ہے وہیں افراد خانہ اور بالخصوص زوجین کے درمیان عزت و احترام کا ہونا بہت ضروری ہے۔ شرف انسانی کی بنا پر ایک دوسرے کو عزت دینا، رائے کو اہمیت دینا اور بحیثیت انسان مختلف معاملات میں شخصی آزادی کا خیال رکھنا خاندانی روابط کو مستحکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: واذا صلت المراۃ خمسھا و حصنت فرجھا وا طاعت بعلھا دخلت من ای ابواب الجنۃ شأت۔ [76] ’’جب عورت اپنی پانچ نمازیں پڑھے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے، اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔‘‘
لیکن اس اطاعت کا یہ مطلب نہیں کہ مرد کو عورت پر ہر طرح کا اختیار حاصل ہو گیا کہ عورت سانس بھی مرد کی اجازت سے لے۔ ایسا نہیں ہے اسلام بحیثیت زوجین کسی ایک فریق پر بھی زندگی کی راہیں مسدود نہیں کرتا بلکہ دونوں کو مخصوص حد کے اندر مکمل شخصی آزادی کا حق بھی دیتا ہے۔ بحیثیت انسان ایک دوسرے کی ذات کا احترام ملحوظ رکھنے کی بھی تلقین بھی کرتا ہے۔ ہر معاملے کی ٹوہ، ہر وقت کی پوچھ گچھ، ہر بات میں بلا وجہ کی دخل اندازی زندگی کے دائرے کو تنگ کر دیتی ہے کہ دوسرا فریق عدم تحفظ کا شکار ہو کر خود کو بے بس اور مجبور قیدی تصور کرنے لگتا ہے۔ اکثر ایسا رویہ بد اعتمادی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اور یہ بد اعتمادی خاندان کی بنیادوں تک کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ بلکہ زوجین باہمی طور پر ذاتی معاملات میں مناسب حد تک ایک دوسرے کو حق تخلیہ دیں۔ احترام باہمی اور شخصی آزادی کا یہ تصور آپﷺ کی خانگی زندگی سے بھی ملتا ہے۔ ایک بار آپﷺ حضرت عائشہؓ کے حجرے میں مقیم تھے۔ ہوا سے الماری کا پردہ اٹھا اور آپﷺ کی نظر حضرت عائشہ کے کھلونوں پر پڑی، جن میں ایک اڑنے والا گھوڑا بھی تھا۔ آپﷺ نے حضرت عائشہ سے اس بارے میں استفسار کیا کہ اے عائشہ گھوڑے کے تو پر نہیں ہوتے تو اس کے پر کیوں ہیں۔ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ حضرت سلیمانؑ کے گھوڑے کے پر تو ہوا کرتے تھے۔ [77]
اگر غور کریں تو یہ واقعہ اس بات پر استدلال کرتا ہے کہ ایک مختصر سا حجرہ جس میں بمشکل کھڑے ہونے اور لیٹنے کی جگہ تھی اور حضرت عائشہ سے سالوں کی رفاقت کے بعد ان کے کھلونے کے بارے میں استفسار کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس تمام عرصے میں آپﷺ نے حضرت عائشہ کی شخصی آزادی کا خیال کرتے ہوئے اس پردے کو اٹھا کر ان کی ذاتی اشیاء میں دلچسپی نہ لی اور انہیں ان کے ذاتی معاملات میں مناسب حد تک حق تخلیہ دیا۔ بلا وجہ کی مداخلت ہر وقت کی پوچھ گچھ زوجین کے درمیان نا چاقی اور تلخی کا باعث بنتی ہے۔ ایک دوسرے پر اعتماد، ایک دوسرے کی ذات کا احترام اس رشتے کو مزید مستحکم اور پائیدار کر دیتا ہے۔
11۔ ذاتی سطح پر اصلاح احوال
زوجین کے مزاج میں اختلاف کا ہونا فطری بات ہے۔ ایک ساتھ ایک ہی چھت تلے رہتے ہوئے عموماً معمولی اختلافات ہو جاتے ہیں جو کہ اکثر و بیشتر زوجین باہمی افہام و تفہیم سے خود ہی حل کر لیتے ہیں۔ اور نوبت خاندان کے دیگر افراد تک نہیں پہنچتی۔ رشتے کی نزاکت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ممکن حد تک اپنی باتیں خود تک ہی محدود رکھی جائیں اور دوسروں کو اس میں ملوث نہ کیا جائے کیونکہ ہر چھوٹی بڑی بات، معمولی تنازعات اور اختلافات کی خاندان کے دوسرے افراد کے سامنے تشہیر سے اکثر و بیشتر معاملات پیچیدہ صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں اسوہ نبویﷺ اور سیرت صحابیات کے نظائر ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ تخییر والا واقعہ ہمارے لئے بطور مثال ہے۔ [78]
ایک دوسری مثال حضرت فاطمہؓ کی ہے۔ ایک مرتبہ رسولﷺ ان کے ہاں تشریف لے گئے تو حضرت علیؓ کو نہ پایا۔ استفسار فرمایا کہ وہ کدھر ہیں تو حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا میری ان سے کچھ چپقلش ہو گئی تھی اس لیے وہ ناراض ہو کر باہر چلے گئے ہیں اور میرے پاس انہوں نے قیلولہ بھی نہیں کیا۔ آپﷺ نے کسی سے فرمایا جاؤ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ پتا چلا کہ مسجد میں لیٹے ہوئے ہیں۔ رسولﷺ خود مسجد میں تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ حضرت علیؓ زمین پر لیٹے ہوئے ہیں اور جسم پر مٹی لگی ہوئی ہے۔ آپﷺ نے خوشگوار انداز میں انہیں مخاطب فرمایا اے ابو تراب حضرت علیؓ کو یہ کنیت بہت پسند تھی۔ [79]
یہاں حضرت فاطمہؓ کا طرز عمل تمام خواتین کے لیے مشعل راہ ہے۔ کہ انہوں نے والد کو تفصیل نہیں بتائی بلکہ اتنا کہا کہ آج ہم میں کچھ ان بن ہو گئی ہے۔ زوجین جس طرح سے ایک دوسرے کے مزاج اور اپنے تعلق کو سمجھتے ہیں کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔ اس لیے اپنی ہر چھوٹی بڑی بات پوری جزئیات کے ساتھ ہر کسی کے سامنے بیان کرنا خود کو معصوم عن الخطا ظاہر کرنا اور دوسرے کو غلط۔ تو اس سے ایک تو زوجین کی اپنی عزت و وقار اور مرتبے میں کمی ہوتی ہے دوسرا بہتری کی بجائے خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ لہٰذا کوشش یہ ہونی چاہیے کہ باہمی افہام و تفہیم سے اختلافات کو حل کر لیا جائے۔ معمولی باتوں کو نظر انداز کر دیا جائے۔ کیونکہ یہ رشتہ معمولی اختلافات سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ زوجین کا باہمی تعلق جس قدر مضبوط ہو گا اسی قدر وہ باہمی مسائل کا تصفیہ بھی آپس ہی میں کر لیں گے۔ کیونکہ اس تعلق میں ہار جیت اور انا پسندی نہیں ہوتی اور زوجین فریق نہیں بلکہ ایک دوسرے کے رفیق ہوتے ہیں۔
12۔ تعدد ازواج اور عدل
جب کسی آدمی کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو اس کے ذمہ ہے کہ وہ ان کے درمیان شریعت کے مطابق عدل کرے۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت دوسری شادی کو بہت برا سمجھتی ہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جو شوہر دوسری شادی کرتے ہیں وہ اپنی پہلی بیوی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں نبی کریمﷺ کی سیرت عائلہ سے تمام ارباب علم و دانش آگاہ ہیں آپﷺ کا فرمان ہے: من کانت لہ امراتان فمال الی احداھما، جاء یوم القیامۃ و شقہ مائل۔ [80] ’’جس شخص کی دو بیویاں ہوں وہ ان میں سے کسی ایک کی طرف زیادہ جھک جائے تو قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہو گا۔‘‘
قلبی میلان پر کسی کا اختیار نہیں۔ وہ کسی ایک کی طرف زیادہ ہو سکتا ہے لیکن حقوق و فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی یا کمی بیشی سخت پکڑ کا موجب بن سکتی ہے۔ آپﷺ کے نکاح میں بیک وقت ایک سے زائد خواتین موجود تھیں آپﷺ کا قلبی میلان حضرت عائشہؓ کی طرف زیادہ تھا لیکن آپﷺ نے انصاف کے ساتھ سب کی باریاں مقرر کی ہوئی تھیں۔ یہاں تک کہ آخری ایام میں بیماری کی حالت میں بھی آپﷺ باری باری ازواج مطہرات کی طرف جاتے رہے اور پھر سب کی اجازت سے حضرت عائشہ کے حجرہ میں آخری دن گزارے۔ آپﷺ نے فرمایا: ان المقسطین عند اللہ علی منابر من نور عن یمین الرحمن عز و جل و کلتا یدیہ یمین الذین یعدلون فی حکمھم و اھلیھم وما و لو۔ [81]
’’بے شک اللہ کے نزدیک انصاف کرنے والے قیامت کے دن رحمن کی دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے، اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو کہ اپنے فیصلوں میں اہل و عیال کے بارے میں اور جن کے وہ نگران بنائے گئے ہوں ان کے معاملے میں عدل سے کام لیتے ہیں۔‘‘
لیکن اگر مرد کو خوف ہو کہ وہ اپنی ازواج میں انصاف نہیں کر سکے گا تو پھر ایک پر ہی اکتفاء کرنا بہتر ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃ [82] ’’اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے۔‘‘
ازواج کے درمیان انصاف رکھنا خانگی ماحول کی سازگاری کے لیے ضروری ہے۔ کیونکہ اگر مرد ان میں انصاف نہ کر سکا خاندان کا شیرازہ تو بکھرے گا ہی بلکہ اس کی اپنی زندگی بھی جہنم بن جائے گی اور آخرت بھی ہاتھ سے جائے گی۔