(Last Updated On: )
نہیں! …اس بار وہ نہیں بچ سکے گا! آخر کار اڑتالیس گھنٹوں کے بعد اس کا پتا لگا لیا گیا تھا۔ وہ جن راہوں سے گزرا تھا ان کا سراغ مل چکاتھا، اور وہ گائوں ،جہاں وہ چھپا ہوا تھا، اس کی نشاندہی ہو چکی تھی۔ اس دوران اس کی موجودگی کے کتنے ہی غلط سراغ ہاتھ لگے تھے۔ اسے بیک وقت لاتعداد مقامات پر دیکھا گیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی مافوق الفطرت ہستی ہو اور بیک وقت ہر جگہ موجود ہو۔ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ سرگرم انتہا پسند اسے بچا کر ملک کے مرکز کی جانب لے گئے ہیں۔ اس کی گرفتاری کے لیے جس گشتی دستے کو شمالی دلدلی علاقے میں پیرا شوٹ کی مدد سے اتارا گیا تھا اس کا دعویٰ تھا کہ اسے بری طرح زخمی کر دیا گیا ہے حالاں کہ اس بات کا واحد ثبوت محض خون کے چند دھبے تھے جو پہاڑی درے میں جا کر غائب ہو گئے تھے۔ سرحدی فوجیوںکا کہنا تھا کہ انھوں نے اسے گولی مار دی تھی جب وہ ایک چھوٹی سی کشتی میں فرار ہو رہا تھا ،بدقسمتی سے کشتی ڈوب گئی اور اس کی لاش نہیں مل سکی،لیکن بعد کی تحقیقات سے یہ سارے دعوے غلط ثابت ہوئے تھے۔ پولیس جو پہلے ہی سے کافی چوکس تھی اسے اور بھی چوکس کر دیا گیا تھا۔ مسلح افواج کی تازہ دم ٹکریا ں تعینات کی گئی تھیںاورفوج کو اس معاملے میں مکمل اختیارات دے دیے گئے تھے۔ فوجی شہر کے مزدوروں کے کوارٹروں میں داخل ہو گئے تھے ،انھوں نے مکانات کے دروازے توڑ ڈالے، اپنی سنگینوں سے روئی اورگھاس سے بھرے گدوں کو چھید ڈالا۔ اناج سے بھرے بستوں کو کاٹ کر کھول ڈالا۔ جو بھی ان کے سوالات کے جواب دینے میں ذرا بھی ہچکچایا اسے اپنی رائفلوں کے کندوں سے بری طرح پیٹ ڈالااورجس نے بھی اپنے گھر کی تباہی پر احتجاج کیا اسے بھی کاٹ کر رکھ دیا،لیکن ان ساری سخت ترین کاروائیوں کا نتیجہ صفر ہی رہا۔ سارے ملک پر خوف و ہراس کے سایے منڈلاتے رہے۔ نہ جانے وہ کہاں چھپا ہوا تھا؟
یہ ایک تقریباً ناممکن قتل تھاکیوں کہ بابائے قوم، عوام کا نجات دہندہ، عظیم رہنما، تاحیات صدر ِ مملکت اور فوجوں کا کمانڈر اِن چیف ایک عظیم الشان محل میں رہتا تھا۔ جہاں تک عام شہریوں کی رسائی ناممکن تھی۔ محل کے گرد کئی دائروں کی صورت میں جو حفاظتی حصار قائم تھے وہ ناقابلِ عبور تھے۔ حصاروں کا یہ نظام ایک اسرائیلی پروفیسرکی نگرانی میں تیار کیا گیا تھاجو فنونِ جنگ اور انسداد دہشت گردی میں کئی ڈگریاں حاصل کر چکا تھا۔ محل سے پانچ سو گز کی دوری پر ہتھیار بند کمانڈوز ایک دوسرے سے دس گز کے فاصلے پر دائرے کی صورت میںکھڑے رہتے تھے۔ کمانڈوز کا دوسرا حصار دوسو گز اور تیسرا حصار سو گز کی دوری پر قائم تھا۔ محل کے گرد پانی سے بھری ایک کافی گہری خندق تھی جس میں افریقی گھڑیال، اور وسطی امریکہ سے لائے گئے خوفناک مگر مچھ تیرتے رہتے تھے۔ انھیں کبھی بھی پیٹ بھر غذا نہیں دی جاتی تھی…خاص طور سے ملک میں اکثرہونے والی ہر حقیقی یا فرضی بغاوت کو فرو کرنے کی مہمات کے دوران۔ اس خندق کے بعد ایک اور نسبتاًکم گہری خندق تھی جس میں بے شمار سیاہ اور سبز ممبا سانپ بھرے ہوئے تھے، جن کا زہر اپنے شکار کو چشمِ زدن میں ہلاک کردیا کرتا تھا۔ محل کے گرد اینٹوں اور پتھروں سے بنی ایک ساٹھ فٹ اونچی چہاردیواری تھی جو زمبابوے کے کھنڈرات کی دیوار وں کی یاد دلاتی تھی۔ دیوار پر واچ ٹاور تھے، سرچ لائٹیں تھیں،کیلیں تھیں ، کانٹے دار تار اور کانچ کے نوکدار ٹکرے تھے۔ محل میں داخل ہونے کا واحد ذریعہ دو عظیم دروازے تھے، جو ان خندقوں کے لیے پُلوں کا کام بھی کرتے تھے۔ انھیں صرف محل کے اندر سے ہی کھولا اور بند کیا جا سکتا تھا۔ اور پھر محل…جہاں عوام کا مسیحا رہا کرتا تھا… اس میں دیڑھ سو کمرے تھے اور ہر کمرے میں بے شماربڑے بڑے آئینوں کا ایسا نظام تھا جو ہر شخص کی ہلکی سے ہلکی حرکت کو بھی ظاہر کر دیتا تھااور وہاں کسی کی نظر بچا کر کچھ بھی کر لینا، ناممکن تھا۔ کوئی بھی ملاقاتی ان آئینوں کے جال میں پھنس کر پریشان ہو جا تاتھا کہ اس کی ہر حرکت مختلف زاویوں سے دیکھی جارہی ہے۔ حرکت خواہ جتنی بھی ہلکی ہوتی، کسی صدائے باز گشت کی طرح ، ایک آئینے سے دوسرے آئینے کا سفر کرتی ہوئی آخر کار سب سے بڑے آئینے یعنی آقا کی آنکھوں تک پہنچ جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔جیسے وہ اپنی جگہ پر بیٹھا ساری کائنات کو دیکھ رہا ہو۔ کسی کو پتا نہیںتھا کہ قوم کا مسیحا کس کمرے میں سوتا ہے۔ یہاں تک کہ ان تیز طرار طوائفوں کو بھی اس بات کاپتا نہیں ہوتا تھا جنھیں وہ اپنی غیر فطری جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے لگاتار کئی کئی راتیں اپنے پہلو میں رکھتا تھااور نہ ہی ان معصوم دوشیزائوں کو کچھ پتا ہوتا تھا جن کی دوشیزگی سے کھیلنا اس کی پسندیدہ عادت تھی،لیکن اگرایک طرف بابائے قوم، عوام کا نجات دہندہ، عظیم رہنما، تاحیات صدر ِ مملکت اور فوجوں کا کمانڈر اِن چیف جسمانی طور پر کسی کو دکھائی نہیں دیتا تھا تو دوسری طرف وہ ہر وقت ہر جگہ موجود تھا۔ قانون کے مطابق عوام کے لیے یہ ضروری تھاکہ اس کی تصویر ہر گھر میں لگائی جائے۔ ریڈیو کی نشریات کی شروعات اور اختتام اس کے اقوال زریں سے ہوا کرتے تھے۔ ٹیلی ویژن کی خبریں اس کی تصاویر کے ساتھ ہی شروع ہوتیں اور پھر اختتام تک یہی چلتا رہتا،اور واحد مقامی اخبار کے ہر شمارے کے کم از کم چار صفحات ان فرضی خطوط سے بھرے ہوتے ،جن میں ملک کے شہری اس کے لیے اپنی محبتوں کا اظہار کیا کرتے۔
اور ان تمام حفاظتی اقدامات کے باوجود اس نے اسے قتل کر دیا تھا۔ وہ نہ جانے کیسے کمانڈوز ، گھڑیالوں اور ممبا سانپوں سے بچتا ہوا محل میں داخل ہوگیا تھا۔ وہ آئینوں کے جال سے بھی بچ نکلا تھااور بابائے قوم کو کسی عام انسان کی طرح قتل کر ڈالا تھا۔ پھر اس نے واپسی کا سفر شروع کیا اور ایک بار پھر واچ ٹاوروں ، سیاہ اور سبز ممبا سانپوں ، گھڑیالوں اور کمانڈوز سے بچتا ہوا صاف نکل گیا تھا۔ اور اب اڑتالیس گھنٹے گزر چکے تھے مگر وہ اب بھی آزاد تھا۔
… اور تبھی ایک افواہ پھیلی… کسی کو نہیں معلوم کہ اس کی شروعات کیسے ہوئی … کہ اس کا سراغ مل گیا ہے…و۔ہ جن راہوں سے گزرا تھا ان کا پتا چل چکاہے اور وہ گائوں جہاں وہ چھپا ہوا ہے اس کی نشاندہی ہو چکی ہے… وہ گھر چکا ہے…اس بار وہ نہیں بچ پائے گا۔
بکتر بند گاڑیاں، جیپیں، اور فوجیوں سے بھری لاریاںصبح کے تین بجے ہی چل پڑیں۔ ٹینکوں نے راستے میں آنے والے گائوں کے مکانات کے گرد گھوم کر جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ وہ راہ میں آنے والے مکانات کو مسمار کرتے ہوئے چلے جارہے تھے۔ ظاہر ہے ۔۔۔۔دو مقامات کے درمیان خط مستقیم سب سے کم دوری رکھتا ہے۔ اپنے پیچھے جلتے ہوئے گائووں کو چھوڑ وہ کر آگے بڑھتے جا رہے تھے ،فصلیں تباہ ہو چکی تھیںاور بے شمارلاشیں ٹینکوں کے زنجیر نما پہیوں سے بننے والے گڈھوں میں پڑی ہوئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی فاتح ملک کی فوجیں ہوں جو مفتوح کو بری طرح کچلتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہوں۔ آخر کار وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ انھوں نے اپنی رائفلوں کے کندوں سے گائوں والوں کو جگایا۔ انھوں نے ہر طرف تلاشی لی، اناج کی کوٹھریوں کو خالی کر ڈالا۔ درختوں اور جھاڑیوں کو کھنگالا،لیکن وہ شخص انھیں نہیں ملا جس کی انھیںتلاش تھی۔ دستے کا کمانڈر بہت برہم تھااور ایسا لگتا تھا جیسے اس کی ہلمٹ میں لگی زنجیر نیچے اس کی موٹی گردن پھول کر ابھی پھٹ جائے گی۔
’’ میں جانتا ہوں، وہ یہیں ہے… وہ کمینہ جس نے ہمارے پیارے بابائے قوم کو قتل کیا ہے…بابائے قوم جو ہمارے قومی ہیرو کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا…میں جانتا ہوں کہ وہ بدذات داڑھی والا اور یک چشم ہے۔ اگر تم نے دس منٹ کے اندر یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں چھپا ہوا ہے تو میں تمھارے سارے گھر جلا ڈالوں گا۔ میں تم میں سے کسی بھی ایک کو پکڑوں گا اور اسے بری طرح ٹارچر کر کے گولی مار دوں گا۔ ‘‘
دس منٹ ایک خوفزدہ سی خاموشی کے سایے میں گزرگئے ایسی خاموشی جیسی شاید کائنات کی ابتدا سے پہلے تھی۔ پھر فوجیوں کے کمانڈر نے انتقامی کاروائی کے آغاز کا اشارہ کر دیا۔ کچھ فوجیوں نے گائوں والوں میں سے چند کو پکڑ کر الٹا لٹکا دیا اور بری طرح پیٹنے لگے، دوسرے فوجی ان کے زخموں پر لال مرچیں لگانے لگے جب کہ کچھ نے انھیں گائے کا تازہ گوبر کھانے پر مجبور کیا،لیکن گائوں والے اس شخص کا نام نہیں بتا رہے تھے۔ آخر،فوجیوں نے گائوں کے تمام مکانات جلا ڈالے،فصلوں کو بھی نہ چھوڑا۔ ایک ایسا ملک جہاں کے لوگوں کو بڑی مشکلوں سے دو وقت کاکھانا نصیب ہوتا تھا، وہاں سال بھر کی محنت کو یوں آگ کی نذر کر ڈالا گیا،لیکن گائوں والوں نے اب بھی اس شخص کے بارے میں نہیں بتایا۔ دراصل ان کی خاموشی کاراز بس اتنا ہی تھاکہ وہ بے چارے جانتے ہی نہیں تھے۔ انھیں سچ مچ یہ پتا نہیں تھا کہ یہ کارنامہ کس نے انجام دیا ہے۔
اس شخص نے اکیلے ہی یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ اس نے مہینوں اس سلسلے میں تیاریاں کی تھیں۔ پڑھا تھا، تحقیق کی تھی اور منصوبہ بندی کی تھی۔ پھر اس نے ایک نقلی داڑھی لگائی اور اپنی ایک آنکھ پرڈاکوئوں جیسی سیاہ پٹی لگائی۔ اس نے پتا لگا لیا تھا کہ کیسے اس محل میں داخل ہو کر اس آمر کو قتل کیا جا سکتا ہے۔ اس نے یہ کام اتنی آسانی سے کیا تھا کہ اس نے اپنے آپ سے یہ عہد کیاتھا کہ وہ یہ راز کسی کو بھی نہیں بتائے گا، سخت سے سخت تشدد کی حالت میں بھی نہیں۔ تاکہ وہ طریقہ کبھی پھر استعمال کیا جا سکے۔ وہ اپنے گائوں میں فوجیوں کو دیکھ کر سخت حیران ہوا تھا۔ لیکن کیا ان لوگوں نے سچ مچ اسے پہچان لیا تھا یا وہ صرف یونہی ہانک رہے تھے۔ صاف ظاہر تھا ۔۔۔۔ ان لوگوں کو یہ پتا نہیں تھا جس کی تلاش میں وہ ہیں، وہ کون ہے۔ وہ تو ان کے سامنے کھڑا تھا اپنے گائوں والوں کے ساتھ جن کو یہ بالکل ہی معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا کر آیا ہے۔ وہ وہیں کھڑا تھا، کلین شیو اور اپنی دونوں آنکھوں کے ساتھ۔۔۔۔ اس انتظار میں کہ آگے نہ جانے کیا ہونے والا تھا۔
گائوں والوں کی خاموشی نے فوجیوں کے کمانڈر کو بے حد غضب ناک کر دیا تھا۔ ’’ میں آخری بار کہہ رہا ہوں۔ اگر تم نے نہیں بتایا کہ وہ منحوس یک چشم، جس نے ہمارے پیارے رہنما کو قتل کیا ہے، کہاں چھپا ہوا ہے تو میں تم میں سے کسی بھی ایک شخص کو گولی سے اڑا دوں گا۔ میں تمھیں پانچ منٹ دیتا ہوں۔ ‘‘
اس نے غصے میں دانت پیستے ہوئے اپنی کوارٹز گھڑی کی جانب دیکھا۔ دو منٹ ۔۔۔۔ ایک منٹ… تیس سیکنڈ…۔
’’ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کمانڈر صاحب ‘‘، گائوں کے مکھیا نے فریاد کی، ’’ ہم اسے نہیں جانتے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اس گائوں میں نہیں ہے۔ ‘‘
’’یہ تمھارے لیے برا ہے۔ میں اب کسی بھی ایک شخص کو پکڑوں گا اور اسے گولی مار دوں گا۔ شاید تم میری بات اچھی طرح سمجھ رہے ہو … اے تم! ‘‘
کمانڈر اسی کی طرف اشارہ کرر ہا تھا۔ اسے حیرت نہیں ہوئی۔ اسے تو اپناانجام معلوم تھا۔ شاید اندر سے وہ یہی چاہتا بھی تھا۔ کیوں کہ اگر اس کی جگہ کسی اور کو مارا جاتا تو شاید وہ عمر بھر سکون سے نہیں رہ پاتا۔ وہ خوش تھاکہ وہ اپنے راز کو اپنے ساتھ لے کر مر رہا ہے۔
’’ تمھارے مکھیا اور گائوں والوں کی بے وقوفی پر تمھیں بے موت مر نا پڑے گا… اسے ایک درخت سے باندھ دو اور شوٹ کر دو۔ ‘‘
وہ اسے ٹھوکر وں اور رائفل کے کندوں سے مارنے لگے۔ انھوں نے اسے اپنی سنگینوں سے چھید ڈالا۔ وہ اسے زمین پر گھسیٹ کر ایک آم کے درخت تک لائے اور باندھ دیا۔ اس کی بیوی اس سے لپٹ گئی لیکن چار فوجیوں نے بڑی بے رحمی سے اسے کھینچ کر الگ کر دیا۔
’’ آخری بار میں پوچھ رہا ہوں… مجھے بتا دو کہ وہ قاتل کہاں چھپا ہے۔ ‘‘
’’ میں نہیں جانتا … کمانڈر۔ ‘‘ مکھیا گڑگڑایا۔
’’فائر !!!‘‘
اس کا سینہ ہلکا سا آگے کی طرف اچھلا اور پھر وہ بنا کسی آواز کے جھول گیا… اب وہ لوگ اسے کبھی نہیں پا سکیں گے۔
دھواں چھٹ گیا۔ گائوں والے گہری خاموشی میں ڈوبے ہوئے تھے اور رسیوں میں بندھے اس کے مردہ جسم کو تکے جارہے تھے۔ کمانڈر اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنا نے کے بعد ان کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ جھجکا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اب انھیں کس بات کی دھمکی دے۔ اپنے اندرونی خوف کو چھپاتے ہوئے اس نے محض اپنی وردی میں لگے تمغوں کی لاج رکھنے کے لیے دہاڑا۔
’’ٹھیک ہے ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
اس کی اس چیخ سے غم میں ڈوبے گائوں والوں کو ایک بار پھر اس کی موجودگی کا احساس ہوا۔
’’ کیا ٹھیک ہے! ‘‘ گائوں کا مکھیا غرایا۔ ’’ میں نے تم کو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ہمیں اس آدمی کا پتا نہیں ہے جسے تم ڈھونڈ رہے ہو۔ تم نے ہماری بات پر یقین نہیں کیا اور ہمارے ایک آدمی کو خواہ مخواہ مارڈالا۔ اب میں اور کیا کہہ سکتا ہوں؟‘‘
کمانڈر کو کوئی جواب نہیں سوجھ رہا تھا۔ وہ ہلکے ہلکے ہلنے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آگے کر ناکیا ہے۔ آخر ،اس نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا۔
’’ اٹینشن !…فارم اَپ!…شکار جاری رہے گا۔ وہ کمینہ دوسرے گائوں میں چھپا ہو سکتا ہے۔ ہمارے پاس برباد کرنے کے لیے وقت نہیں ہے۔ آگے بڑھو !‘‘
پھر، گائوں والوں کی طرف مڑتے ہوئے ، وہ چیخا’’ ہم اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔ کتے کا بچہ، وہ جہاں کہیں بھی ہوگا، ہم اسے ڈھونڈ لیں گے۔ ہم اس کے کان اکھاڑ لیں گے، اس کے ناخنوں کو اکھیڑ ڈالیں گے،اس کی آنکھیں نکال لیں گے، ہم اس کی بیوی ، اس کی ماں اور اس کے بچوں کے سامنے اسے ننگا کر کے پھانسی پر لٹکائیںگے،اور اس کے بعد اس کی لاش ہم کتوں کو کھلا دیں گے،یہ تم سے میرا عہد ہے۔ ‘‘
جیپیں اور ٹینک اس کی تلاش میں کسی اور گائوں کی طرف روانہ ہوگئے۔
وہ لوگ اب بھی اسے تلاش کر رہے تھے۔ اس کی موجودگی کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے،وہ کہیں چھپا تھا؟ مگر کہاں؟ آمریت کی چکی میں پسے ہوئے لوگ کانپ اٹھتے، جب بھی کہیں ’اس آدمی‘ کا ذکر ہوتا۔ حالاں کہ پورے ملک پر پولیس کا عتاب پہلے سے زیادہ ہو گیا ہے…پورے ملک میں جاسوسوں، مخبروں اور پیشہ ور قاتلوں کا جال بچھا ہوا ہے…اور حالاں کہ نئے صدر مملکت ، دوسرے بابائے قوم نے اپنی حفاظت کے لیے صرف اپنے قبیلے کے لوگوں پر بھروسا کیا ہے…اس کے باوجود وہ باہر نکلنے سے ڈرتا ہے۔ اس نے اپنے بارے میں مشہور کر رکھا ہے کہ وہ اَمَر ہے اور اسے قتل نہیں کیا جا سکتا ہے…لیکن اس کے باوجود وہ اپنے محل کے اندرونی حصوں میں محدود رہتا ہے کیوں کہ وہ نہیں جانتا کہ کب’وہ آدمی‘ آ جائے گا اور اسے قتل کر دے گاتاکہ آزادی جو برسوں پہلے سلب ہو چکی ہے واپس مل سکے۔
’’ وہ آدمی‘‘… قوم کی امید… ایک ایسا آدمی جو ’نہیں ‘ کہنا جانتا ہے۔
Original Story : The Man
By : E. B. Dongala (Congo)