وہ آج جنت کیلیے شاپنگ کرنے جارہے تھے—معیز نیچے لانج میں اسکا ویٹ کررہا تھا–حسنہ بیگم اسکے پاس بیٹھی تھیں
“معیز بیٹا ایک بار پھر سوچ لو— اتنا اندھا اعتماد اچھا نہیں ہوتا— وہ جوان ہے خوبصورت ہے اور” وہ کچھ جھجھک کر رُک گئیں
“اور بڑی گاڑیوں, بنگلے کی شوقین پھر جا بھی دبئی رہی ہے اور ایسی تقریب میں جہاں رئیس زادے آئیں گے” معیز کو ان کی ٹکڑوں میں کی گئی بات کا ایک لفظ نہیں سمجھ آیا “اُف مما آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں؟؟؟” اس نے اپنا سمارٹ فون نکالتے پوچھا—جنت کو مس کال ماری
“تم خود کیوں نہیں چلے جاتے ساتھ؟؟؟”
“مما میں کیسے چلا جاؤں پہلے دو بار کمپنی کی طرف سے ہی گیا تھا پھر ابھی جنت کیلیے گاڑی لی ہے اُسکا قرضہ بھی ادا نہیں کیا—بینک اکاؤنٹ بھی ساتھ نہیں دے رہا—آپ بےفکر رہیں میں اپنی تسلی کر کے آیا ہوں میرا ایک دوست اور اُسکا گروپ بھی جارہا ہے اُس میں موجود لڑکیوں سے میں نے جنت کا رابطہ کروادیا ہے—ایسے ہی تھوڑی بھیج رہا ہوں پھر اسکا دبئی دیکھنے کا شوق بھی پورا ہوجائے گا” وہ بےفکر تھا اس سے پہلے کہ وہ کوئی بات کرتیں جنت سیڑھیوں سے آتی نظر آگئی
شاپنگ کرتے انہیں کافی وقت ہوگیا تھا—رات کے بارہ بج رہے تھے وہ جنت کی نئی گاڑی میں آئے تھے— یہ ایک سنسان روڈ تھا—معیز اسے پچھلے تین ہفتوں سے ڈرائیونگ سکھا رہا تھا اب وہ اس قابل تھی کہ صاف سڑک پر ڈرائیو کرسکتی—جنت نے معیز کو ڈرائیونگ سیٹ چھوڑنے کا کہا اور خود دوسری طرف سے آکر اسٹیرنگ سنبھال لیا—سامنے سے آتی بائیک بالکل سیدھی کار سے ٹکراتی اگر معیز جنت کو ہٹاتا بریک نہ لگاتا—جنت آنکھیں میچے خطرے کے ٹل جانے کا اطمینان کررہی تھی—معیز نے ابھی سکون کا سانس بھی نہیں لیا تھا کہ بائیک سوار اُترے اور ہینڈ گن نکال کر جنت پر تان دی— اسکے چہرے پر کوئی نقاب نہیں تھا ایک عام شہری تھا بالکل
“چابی دو—گاڑی کی چابی دے نہیں تو یہیں کام تمام کردوں گا” جنت نے چابی پر ہاتھ رکھا ہوا تھا مسلسل نفی میں سر ہلا رہی تھی—
“جنت چابی دے دو” معیز گھبرا کر بولا—
اگر وہ ہلتا تو سامنے کھڑا آدمی کچھ بھی کر سکتا تھا فی الحال اس کے پاس ایک طاقت ور آلہ تھا جو کسی بھی انسان کو ایک لمحے میں اس دنیا سے غائب کرسکتا تھا آدمی نے ہینڈ گن کا پچھلا حصہ اسکے ماتھے پر مارا–درد کے باعث جنت کی چیخ نکل گئی—ساتھ ہی خون بھی رسنا شروع ہوگیا تھا—یہ سب لمحوں میں ہوا تھا معیز نے جلدی سے کار کی چابی نکال کر ان کے حوالے کر دی—-وہ ایک سیکنڈ میں غائب ہوچکے تھے
“جنت”
“جنت”
معیز نے بےہوش ہوتی جنت کو اپنے حصار میں لیا—رات کا وقت سنسان سڑک مدد ملنا بہت مشکل تھا مگر صد شکر وہ لوگ ان کے موبائل پیسے سب چھوڑ گئے تھے یہاں تک کہ جنت کی اُنگلی میں پہنی انگوٹھی بھی نہ اُتاری—معیز نے ایمبولینس کو کال کی اور جنت کا گال تھپکنے لگا مگر وہ ہوش و خرد سے بیگانہ اسکے بازوؤں میں پڑی تھی—معیز کا دل بند ہوتا جارہا تھا وہ بار بار اسکی نبض ٹٹول رہا تھا
چھوڑ جانے کی بات مت کرنا
دل دکھانے کی بات مت کرنا
مر نہ جاؤں کہیں جدائی سے
آز ما نے کی بات مت کرنا
میں نے چاہا ہے مثلِ جاں تجھ کو
جاں جلانے کی بات مت کرنا
گر بچھڑنا نصیب ٹھہرے بھی
دل سے جانے کی بات مت کرنا
بنکے رہنے دے خاک قدموں کی
تُو اڑانے کی بات مت کرنا
بھول جانا تجھے نہیں ممکن
سو بھلانے کی بات مت کرنا
کب سے بیٹھا ہوں راہ میں تیری
تُو نہ آنے کی بات مت کرنا
شہرِ جاناں کی خاک سرمہ ہے
نہ لگانے کی بات مت کرنا
پھول گجروں کی ٹھیک ہے لیکن
تارے لانے کی بات مت کرنا
جو بھی کہنا ہے تم کہو خود سے
اس زمانے کی بات مت کرنا
رو چکی ہیں بہت مری آنکھیں
اب رلانے کی بات مت کرنا
بعد صدیوں کے آج آئے ہو
پھر سے جانے کی بات مت کرنا
مٹی کے ان بتوں کے قدموں میں
سر جھکانے کی بات مت کرنا
مجھکو جلنا ہے یونہی صحرا میں
تم بچانے کی بات مت کرنا
روٹھ جاؤں بلا سبب جو میں
تو منانے کی بات مت کرنا
عشقِ رفتہ کے زخم باقی ہیں
یہ مٹانے کی بات مت کرنا
جسکو بھولا ہوں مشکلوں سے بہت
اس فسانے کی بات مت کرنا
مرنا مشکل ہے موت سے پہلے
جاں سے جانے کی بات مت کرنا
عشق کے جلتے اس الاؤ کو تم
بجھانے کی بات مت کرنا
آخرش تم سے اتنا کہنا ہے
دور جانے کی بات مت کرنا
**************
“مجھے کچھ نہیں کھانا مجھے کسی سے بات نہیں کرنی” معیز اسکے لیے کھانا لایا تھا مگر وہ مسلسل روئے جارہی تھی—
رات ہسپتال میں گزری تھی صبح اسے ڈسچارج کیا تھا ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اسے پیار سے ڈیل کریں اسے گہرا صدمہ پہنچا ہے پھر معیز نے ان سے جنت کی گاڑی کو لے کر ضد اور خوشی کا ذکر کیا تو ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ یہ وقت اس کیلیے بالکل ایسا ہے جیسے ہمارے لیے ہماری کسی عزیز چیز کا چھن جانا
“کیوں نہیں کھانا؟؟؟ میں اپنے ہاتھوں سے کھلاؤں گا تو کھانا تو پڑے گا” وہ کسی بچے کی طرح پچکار رہا تھا اسے روٹی کا نوالہ بنا کر اسکے منہ کی طرف لے کر گیا جنت نے منہ موڑ لیا
“ایک بے جان شےء کیلیے کیوں اپنے آپ کو تکلیف دے رہی ہو”معیز عاجز آگیا تھا اسکے رویے سے
“میں اب رو بھی نہیں سکتی اس پر بھی آپ کو پرابلم ہے” وہ آنکھوں میں سیلاب لیے بیٹھی تھی ہاتھ سے گال صاف کرتی بولی
“ہے پرابلم, تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا اتنی پیاری آنکھوں کو رلانے کا” اسکے گال اپنے انگوٹھے کی مدد سے خشک کرتے پیار سے بولا
“ایک گاڑی تھی وہ بھی چھین لی اللہ تعالٰی نے مجھ سے, میرے اتنے دنوں کی محنت اور جو لوگ اتنا حرام کماتے ہیں اللہ تعالٰی ان کو اور نوازتا ہے” وہ سچ مچ صدمے کا شکار ہوچکی تھی
“بہت بری بات ہے جنت, اتنا کمزور ایمان ایک چھوٹی سی آزمائش نہیں برداشت کر پارہی تم؟؟؟ اللہ کی تقسیم سے اختلاف کررہی ہو؟؟؟ میں نے تمہیں اتنا احمق تصور نہیں کیا تھا—توبہ کرنی چاہیے ہے تمہیں” معیز کو اسکی بات بہت ناگوار گزری تھی
“میری ہی آزمائش مقصود تھی” وہ بڑبڑائی
“اپنے پیارے بندوں کو ہی آزمائش کیلیے چنتا ہے وہ” معیز کے پاس اسکے ہر شکوے کا جواب تھا
“میرے نصیب میں امیر ہونا ہے ہی نہیں—” جنت مایوسی سے بولی—معیز اسکے سامنے سے اٹھ کر اسکے برابر بیٹھ گیا پھر اسکے شانے کے گرد اپنے بازو پھیلاتے اپنے ساتھ لگایا “اتنی امیر ہو تم, اتنا پیارا گھر ہے تمہارا, اتنا اچھا لائف پارٹنر ہے, ایک مکمل انسان ہو, روز کا رزق ملتا ہے تمہیں اور کیا چاہیے” وہ الفت و چاہت سموئے کسی بچے کی طرح اسے سمجھا رہا تھا
“مگر یہ سب تو بہت سے لوگوں کے پاس ہے” وہ اسکی شرٹ سے آنکھیں رگڑتی شکایتی انداز میں بولی—اسکی حرکت نے معیز کا دل گدگدایا
“بہت سے لوگوں کے پاس یہ بھی نہیں ہے اور معیز جیسا شوہر تو صرف جنت کے پاس ہے” وہ بھی اپنی خوبیوں سے واقف تھا ہمارے معاشرے میں معیز جیسا مرد کسی نعمت سے کم نہیں تھا—بلکہ بہت بڑی نعمت تھا جو اللہ تعالٰی نے صرف اسے عطا کیا تھا
“آپ کے ہونے سے میں امیر تھوڑی ہوگئی ہوں—رہتے نہیں بل گیٹس کہیں کے” جنت اس سے الگ ہوئی
“میں خوبرو جوان وہ ساٹھ سال کا بڈھا—”
“چلو مل کر بل گیٹس کو کڈنیپ کرلیتے ہیں” خود ہی آئیڈیا دینے لگا
“اُس سے کیا ہوگا؟؟؟” جنت نے گھورا
“تاوان میں پچاس بلین ڈالر مانگ لوں گا تمہارے لیے” وہ سنجیدہ تھا مگر آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی—جنت نے کشن اٹھا کر اسکے بازو پر دے مارا
“پسند نہیں آیا میرا آئیڈیا؟؟؟” وہ کشن اس سے پکڑ کر بولا “بہت ٹھنڈا جوک تھا” اس نے ناک چڑھائی
“ویسے بل گیٹس کیوں چاہیے تمہیں؟؟؟”
“اسکا بیٹا چھوٹا ہے نا ابھی 1999 کی پیدائش ہے— اُسکے بارے میں سوچنا مشکل ہے” جنت نے وجہ بتائی معیز نے اسکی چٹیا کھینچ کر اپنے بازو پر لپیٹی
(بل گیٹس کی دولت چاہیے تمہیں, بل گیٹس نہیں) وہ کہنا چاہتا تھا مگر کہہ نہیں سکا—جنت کے سامنے اُسکی ذات کا منفی پہلو وہ چاہ کر بھی نہیں رکھ پایا
“جان لے لوں گا تمہاری اگر میرے سوا کسی کا خیال بھی آیا تمہارے دل میں تو” چٹیا کو جھٹکا دے کر اسے خود سے قریب کرتے عجیب دھونس بھرے لہجے میں بولا
“کھانا ٹھنڈا کردیا آپ نے” جنت نے اسکا دھیان کھانے کی جانب دلایا
“میں نے ایف آئی آر درج کروا دی ہے—ان شاء اللہ گاڑی مل جائے گی اور تم نے اگر اپنا بی ہیویر نہیں تبدیل کیا تو میں تمہارا دبئی جانا کینسل کردوں گا” وہ دھمکا رہا تھا–کھانے کو نظرانداز کردیا
“میں بالکل ٹھیک ہوں آپ مجھے بلیک میل نہ کریں” وہ فوراً کھانے کی ٹرے کی جانب متوجہ ہوگئی معیز اسکے اتنا جلد مان جانے اور اپنی چالاکی دونوں پر ہی مسکرادیا
*****************
گاڑی والے واقعے کو ہفتہ گزر گیا تھا جنت کی مایوسی بڑھتی گئی تھی مگر وہ معیز سے اسکا اظہار نہیں کرسکی—آج اسکی فلائٹ تھی—اپنی پیکنگ وہ پہلے ہی مکمل کرچکی تھی—اسکا ٹریولنگ بیگ بیڈ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا معیز اور جنت بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے ایک دوسرے کی جانب مُڑ کر بیٹھے تھے—معیز نے اسکا بایاں ہاتھ تھام رکھا تھا سر جھکا ہوا تھا—اسکی انگوٹھی کو انگلی میں گھما رہا تھا—جنت کی نظریں اسکے گھنے بالوں پر ٹہری ہوئیں تھیں
“میں تمہیں بہت مس کروں گا” وہ اسکی جانب دیکھے بغیر انگوٹھی سے کھیلتا بول رہا تھا
“میں بالکل نہیں چاہتا تم مجھ سے دور جاؤ” وہ بہت دیر بعد دوسرا جملہ بولا
“تین دن کی ہی تو بات ہے” جنت خود بھی تھوڑی اُداس ہوچکی تھی مگر دبئی جانے کی خوشی اپنی جگہ قائم تھی—معیز نے سر اٹھا کر اسے دیکھا—نچلا ہونٹ دانتوں میں لیے وہ سر ہلا رہا تھا پھر ہونٹ بھینچ لیے
“کاش آپ میرے ساتھ جاسکتے” جنت نے اسکی شرٹ کے بٹن چھیڑتے مدھم آواز میں کہا
“وہ دن بھی جلد آئے گا” معیز پُراُمید تھا
(شاید ہی کبھی آئے) جنت دل میں سوچ کر رہ گئی
“دیر نہ ہوجائے—-ہمیں نکلنا چاہیے” جنت نے دیوار گیر گھڑی کی جانب دیکھتے کہا تو معیز نے اسکا ہاتھ کھینچ کر اسے اپنے سینے سے لگالیا— جنت کا کان بالکل اسکے دل کے مقام پر تھا—اُسکے دل کی دھڑکن بہت تیز تھی بہت زیادہ تیز
“میری دھڑکنوں کی آواز سُن رہی ہے” اسکے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے سہلاتے سرگوشی میں بولا—جنت کسمسائی “تم دور جارہی ہو— یہ بے قرار ہورہی ہیں—تمہاری قربت ہی میری دھڑکنوں کو قرار دے سکتی ہے اور تم ہو کہ ہر وقت فاصلوں کی بات کرتی ہو” اسکے پرفیوم کی خوشبو جنت کے نتھنوں میں گھسے جارہی تھی—ان بازوؤں کی حدت کو وہ بھلا کبھی بُھلا سکتی تھی ؟؟؟
دل کی دھڑکن کے پیامات سے ڈر جاتے ہیں
عمر ایسی ہے کہ ہر بات سے ڈر جاتے ہیں
خشک پتوں نہ گرو ٹھہرے رہو شاخوں پر
وہ اندھیروں کی ملاقات سے ڈر جاتے ہیں
“آئی لو یو” معیز نے گھیرا مزید تنگ کردیا—جنت اسکے حصار میں مقید سینے سے ٹکریں مارتے دل کو قابو کرنے میں ناکام ہورہی تھی معاً کمرے میں سمارٹ فون کا شور مچا—جنت نے بمشکل اسکا حصار توڑا— اسکا گروپ ائیر پورٹ کیلیے نکل چکا تھا
***************
معیز اسکے ساتھ ائیر پورٹ گیا وہاں اسکے باس اور پوری ٹیم سے ملاقات ہوئی کوئی آٹھ لوگ تھے—جن میں جنت کو ملا کر تین لیڈیز تھیں—ان کی فلائٹ کی اناؤزمنٹ ہورہی تھی—معیز نے جنت کا ہاتھ مزید زور سے پکڑ لیا “ایسا کیوں لگ رہا ہے تم بہت دور جارہی ہو؟؟؟” جنت کو لگ رہا تھا ابھی اسکی آنکھیں جھلک پڑیں گی اور یہ وقت تھا جب جنت کی بھی آنکھیں نمکین پانی سے بھرگئیں—جگہ کا اور لوگوں کا لحاظ کیے بغیر معیز نے اسے اپنے بازووں میں بھر لیا—جنت رونے لگی—معیز کی بھی آنکھیں نم تھیں وہ اسکے بال چوم رہا تھا—اناؤزمنٹ پھر ہونے لگی “جنت” اسکی کولیگ نے آواز لگائی—معیز نے اسکے گرد سے اپنے بازو ہٹالیے مگر وہ اسکی شرٹ بھینچے اسکے سینے میں سر چھپائے سسک رہی تھی
“جنت تمہاری فلائٹ نکل جائے گی” معیز اب پریشان ہوگیا—اسے بمشکل خود سے الگ کیا اسکے آنسو صاف کیے
“چلو بھاگو نہیں تو یہ تمہیں چھوڑ کر چلے جائیں گے” وہ نم آنکھوں سے ہنس رہا تھا سب انٹرنس کی جانب جاتے جاتے انہیں مُڑ مُڑ کر دیکھ رہے تھے—معیز جنت کا بیگ لے کر اسے انٹرنس تک چھوڑ کر آیا—- ائیرپورٹ پر موجود کافی لوگ ان کی جانب متوجہ ہوچکے تھے—معیز نے باقاعدہ اسے ہاتھ ہلا کر بائے بائے کہا وہ اندر کی جانب جاتی ہنس دی
واپسی پر اسے اپنا آپ بہت خالی خالی لگ رہا تھا—جیسے کوئی اسکے جسم سے اسکی جان نکال کر لے گیا ہو— دل ڈر رہا تھا جیسے وہ اسے کھوچکا ہو
دبئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر جہاز کی محفوظ لینڈنگ کے بعد وہ نیلے رنگ کے سائن بورڈز کو فولو کرتے ایکسیلیٹرز کی جانب بڑھ گئے— جابجا لگے نیلے اور لال رنگ کے سائن بورڈز مسافروں کی رہنمائی میں اعلٰی کردار ادا کررہے تھے— سفید رنگ کی ٹائلز سے جگمگاتا ائیر پورٹ نہایت صاف ستھرا تھا— وہ لوگ اب شٹل ٹرین کے انتظار میں کھڑے تھے اناؤزمنٹ کے مطابق اسے آنے میں دو منٹ کا وقت درکار تھا—جنت کو زیادہ تر یہاں انگریز ہی نظر آرہے تھے— شٹل کے آتے ہی وہ اس پر سوار ہوگئے جو سیدھا ایک پلیٹ فارم پر جا کر رکی تھی جہاں پر لگے نیلے رنگ کے سائن بورڈ پر بیگج رِکلیم لکھا تھا— دبئی انٹرنیشنل ائیر پورٹ اتنا وسیع تھا کہ انہیں امیگریشن کاؤنٹر تک پہنچنے میں بیس منٹ لگے تھا— ویزہ ہولڈرز کی لائن میں لگ کر باقی تمام کاروائی مکمل کرتے جنت کا دل دھڑکے جارہا تھا— جب اسکے پاسپورٹ پر سب ٹھیک ہے کا اسٹامپ لگا تب جا کر اس نے ایک طویل سانس خارج کی— بیگج بیلٹ سے اپنا سفری سامان لے کر وہ کسٹم سے نکل آئے سامنے ہی ویٹنگ ائیریا میں سر لغاری اور ایونٹ مینجر طحٰہ موجود تھے—انہوں نے اپنی دو گاڑیوں کے ساتھ ایک ٹیکسی بھی کروا رکھی تھی–
بہت سے لوگ دبئی کو ایک ملک سمجھتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے دبئی متحدہ عرب امارات کا سب سے بڑا شہر ہے جو اپنی تعمیرات و آرائش اور کھیلوں کی بڑی بڑی تقریبات کے باعث دنیا بھر میں مشہور و معروف ہے
Dubai, the man made city!
یہ خیال صرف جنت کا نہیں بلکہ یہاں آنے والے ہر سیاح کا تھا کیونکہ دبئی قدرتی وادیوں اور پہاڑوں سے ڈھکا شہر نہیں بلکہ آرکیٹیکچر ہے! صرف اور صرف آرکیٹیکچر جو انسان کو مسحور کر کے رکھ دیتا ہے—
سال دوہزار میں یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد نے دنیا بھر کو دبئی کی طرف متوجہ کردیا تھا— تقریباً تین ملین وزیٹرز اس سال 1990 سے شروع ہونے والے دبئی کو سیر و سیاحت کے بین الاقوامی مرکز بنانے کے منصوبے کو دیکھنے تشریف لائے تھے— دبئی دنیا کے پچس مہنگے ترین شہروں میں بھی شمار ہوتا ہے—
دبئی کی عمارتیں صرف اور صرف ایک ہی جملہ کہتی نظر آتی ہیں اور وہ ہے:
The One and The biggest One!
اور وہ یہ جملہ کیوں کہتی ہیں یہ جنت آپ کو بعد میں بتائی گی مگر اس وقت آپ چلیں سَم ویئر جہاں ملٹی نیشنل ڈیجیٹل میڈیا کمپنی کے اس گروپ کی تین دن رہائش کا انتظام پہلے سے ہی کیا ہوا تھا— ایک انٹرنیشنل کنونشن کیلیے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا سِٹے اتنا غیر معمولی نہیں تھا— سِم ویئر کی بلند بلڈنگ نے جنت کو خوش آمدید کہا تھا وہ مسحور کن سی اس الگ دنیا کو دیکھ رہی تھی— دبئی کا طرزِزندگی اسلام کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے مگر وہ غیر ملکیوں اور غیر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی دل سے خوش آمدید کہتے ہیں—
دو بیڈ روم کے اپارٹمنٹ میں سے ایک بیڈروم میں وہ اور اسکی سینئر لیڈی کولیگ تحریم ٹہرے تھے— تحریم پہلے بھی اپنے شوہر کے ساتھ دبئی وزٹ کرچکی تھی اور انٹرنیشنل کنونشنز میں اسکی شرکت بھی کافی زیادہ تھی—
کمرے بہت بڑے بڑے تھے ان کی قد آدم کھڑکیوں سے سٹی سینٹر کے ساتھ آس پاس کے نظاروں سے بھی لطف اندوز ہوا جاسکتا تھا
جنت نے اپنا لباس منتخب کیا اور باتھ لینے واش روم چل دی– چاکلیٹ براؤن ٹائلز میں جڑے سفید بڑے بڑے بیسن اور اسی طرح کے جدید اسٹائل کے شاور روم کو دیکھ کر اس نے اپنے ماتھے پر ایک دھپ لگائی اور بال کھولنے لگی— دبئی جنت ستار کو خوش آمدید تو کہہ چکا تھا مگر اسکی ذہنی رو کو بری طرح بھٹکانے والا تھا
*****************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...