ونود پر ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ وہ محسوس کررہا تھا کہ وہ جو کچھ بھی کررہا ہے غیر ارادی طورپر کررہا ہے کوئی انجانی قوت اس کو اپنے قابو میں کرچکی ہے وہ کسی اَن دیکھی قوت کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔
دوگھنٹے تک ونود بالکل بے مقصد شہر کی سڑکوں پر گھومتا رہا۔ اسی اثناء میں اس نے ایک خط لکھا اور فوری طورپر مجھے بھی اگات پور طلب کرلیا۔ لیکن اس نے مجھے بلانے میں بہت دیر کردی۔ وہ اگر مجھے دو دن پہلے ہی خط لکھ دیتا تو شاید اس کی آپ بیتی مختلف ہوتی اور وہ وقت سے پہلے بوڑھا نہ ہوجاتا۔
ونود نے مجھے خط لکھا اور پھر ایک تار بھی روانہ کردیا۔
مجھے خط لکھنے کے بعد جیسے اسے ایک سکون سا مل گیا تھا۔ حالانکہ میں جادوگر نہیں تھا جو اگات پور پہنچتے ہی اس کو اس سیلاب حوادث سے نکال لیتا جس میں وہ گھر چکا تھا لیکن میں اس کا دوست ضرور تھا اور مصیبت میں دوستوں کو ہی آواز دی جاتی ہے۔
یہاں میں اپنے اور ونود کے بارے میں ایک اور داستان بھی لکھ دینا چاہتا ہوں۔ میں لکھ چکا ہوں کہ ونود میرا بچپن کا دوست تھا اور ہم دونوں نے ساتھ ہی تعلیم پائی تھی لیکن دوستی کے علاوہ بھی میرا دوست سے ایک اور رشتہ تھا۔ ایک بڑا ہی نازک اور بڑا ہی درد ناک رشتہ ایک ایسا رشتہ جس نے چند سال قبل وقتی طورپر ہماری دوستی کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔
اس سلسلے میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ خود ونود اس رشتہ سے بالکل بے خبر رہا اور اسے آج تک میرے اور اس کے رشتے کا کوئی علم نہیں ہے ورنہ شائد وہ میری دوستی کا خاطر شانتا سے شادی نہ کرتا۔ میں نے بھی مصلحتاً اس کو اس رشتہ سے بالکل بے خبر رکھا۔
آج شانتا ونود کی بیوی ہے لیکن ونود کو بالکل نہیں معلوم کہ کبھی شانتا میری محبوبہ تھی۔
شانتا کے والد سے میرے والد کی دوستی تھی اور یہ دوستی رشتہ داری میں تبدیل ہو چکی تھی۔ میں شانتا کے والد کو چچا کہتا تھا اور بچپن سے ہی ان کے گھر آتا جاتا تھا۔ شانتا کا اور میرا بچپن ایک ساتھ جوانی کی حدوں میں داخل ہوا تھا۔ اور جوان ہونے کے بعد میں شانتا سے وہ دلچسپی لینے لگا تھا جس کو محبت کا نام دیا جاتاہے۔ شانتا بھی مجھے پسند کرتی تھی دل ہی دل میں ہم دونوں ایک دوسرے سے شادی کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
لیکن اچانک شانتا کے والد کا ایک دوسرے شہر میں تبادلہ ہوگیا اور اس تبادلے نے مجھے اور شانتا کو ایک دوسرے سے دور کردیا۔ جدائی سے پہلے میں شانتا سے تنہائی میں ملا میں نے اس سے کہا “شانتا میں تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گا” اس کے آگے میں اس سے کچھ نہ کہہ سکا ایک طالب علم جس نے زمانے کا نشیب و فراز نہ دیکھا ہو، اس کے آگے اور کہہ بھی کیا سکتا تھا؟
شانتا نے جواب میں کہا “میں بھی تمہیں یاد رکھوں گی” اتنا کہہ کر وہ رونے لگی اور میں شدت جذبات سے بے قابو ہوکر وہاں سے چلا آیا۔
شانتا اپنے گھر والوں کے ساتھ نئے شہر چلی گئی۔ جہاں ایک سال بعد اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔ میرے والد اپنے دوست کے مرنے کی خبر سن کر فوراً وہاں پہنچ گئے۔ وہ شانتا کے گھر والوں کو اپنے ساتھ لے آنا چاہتے تھے لیکن چوں کہ شانتا کے بڑے بھائی کو وہاں سرکاری ملازمت مل چکی تھی اس لئے وہ لوگ نہ آسکے نتیجہ یہ ہوا کہ میں ایک طویل مدت تک شانتا کو نہیں دیکھ سکا۔
اور پھر۔۔۔۔۔
ایک دن ونود نے مجھے ایک لڑکی کی تصویر دکھاتے ہوئے کہا “میری اس لڑکی سے شادی ہورہی ہے؟”۔
یہ تصویر شانتا کی تھی۔
میرا دل بے قابو ہوگیا۔
میں نے ونود سے کوئی تذکرہ نہیں کیا، صرف شانتا کو ایک خط لکھالیکن شانتا نے مجھے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ونود کی برات میں میں بھی شامل تھا۔۔۔ اور میری موجودگی میں ہی شانتا ونود کے حوالے کی گئی تھی۔ میں صرف شانتا کو دیکھتا رہا تھا۔
شادی کے بعد ونود نے شانتا کی ملاقات مجھ سے کرائی اور میں نے اسے مبارکباد دی کہ اس کے مقدر میں اتنی خوبصورت بیوی لکھی تھی۔ دن گزرتے رہے۔ شانتا اور میں دن بدن دور ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ ہم دونوں یہ بھول بھی گئے کہ کبھی ہم دونوں کو ایک دوسرے سے پیار تھا۔
بہرحال۔۔ میں بھی اپنی اس دستان کو بھی ادھورا ہی چھوڑتا ہوں۔۔۔۔
ونود جب شہر سے حویلی پہنچا تو شام ہونے میں دیر تھی۔ برآمدہ بالکل خالی پڑا تھا۔ وہ فوارے کے بت پرنظر ڈالتا ہوا شانتا کے کمرے میں داخل ہوا۔ اور پھر جیسے اس کے حلق میں اس کی چیخ گھٹ کر رہ گئی۔
کمرے میں شانتا بالکل دلہن بنی بیٹھی تھی۔ اس کے جسم پر وہی لباس تھا جو تہہ خانے کے صندوق سے نکلا تھا۔ وہ صندوق کے ہی تمام زیور پہنے ہوئے تھی۔ یقیناً وہ اس وقت شانتا نہیں شاتو معلوم دے رہی تھی۔
اور۔۔۔۔
فضاء میں وہی خنجر لہرارہا تھا جس کے دستے پر راجہ بلونت سنگھ لکھا تھا اور جو مجھے ہڈیوں کے پنجر پر رکھا ملا تھا۔ شانتا اس خنجر سے بالکل بے خبر تھی۔ وہ آنکھیں بند کئے دلہن بنی بیٹھی تھی۔
خنجر شانتا کے بالکل قریب ایک سانپ کی طرح لہرانے لگا۔ ونود پر جیسے ایک سکتہ طاری ہوگیا تھا وہ چیخنا چاہتا تھا لیکن چیخ نہیں سکتا تھا۔ اس کو بس ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس کے جسم کا سارا خون منجمد ہوگیا ہو۔ شانتا اس کے آنے سے بالکل بے خبر خیالوں کی دنیا میں کھوئی ہوئی بیٹھی تھی۔ صندوق کے قدیم لباس اور قدیم زیورات میں وہ صرف پہلی رات کی دلہن ہی نہیں معلوم ہورہی تھی بلکہ اس کے چہرے پر ایک ملکوتی حسن کا نور بھی پھیل گیا تھا۔ ونود ایک بت کی طرح شانتا کی طرف دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا کہ اس وقت شانتا جو اس کی بیوی ہے شاتو کیوں نظر آرہی ہے۔ شانتا اور شاتو۔ ناموں میں بھی تو کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اور پھر جیسے اس کے ذہن میں ایک بالکل نیا خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا۔ اس نے سوچا “یہ بھی تو ممکن ہے کہ دلہن بنی ہوئی یہ عورت شانتا نہ ہو، شاتو ہی ہو۔ شاتو۔ جس کا بت کنویں سے نکلا تھا۔ اور جس کو اس نے اپنی حویلی کے سامنے فوارے کے وسط میں نصب کرادیا تھا۔ ونود نے سوچا یقینا شاتو کا بت دوبارہ زندہ ہوگیا ہے، یقین صندوق سے برآمد ہونے والے کپڑے اور زیورات شاتو کے تھے۔ وہی دلہن بنی ہے۔ وہی اس وقت شانتا کے پلنگ پر بیٹھی ہے”۔ خنجر شاتو کے چاروں طرف اب بھی لہرا رہا تھا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ یہ شاتو تھی یا شانتا۔۔۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ یہ خنجر فضاء میں شاتوکے چاروں طرف لہرا کیوں رہا تھا خنجر کا رقص کیوں جاری تھا۔ یہ خنجر شانتا یا شاتو کے بالکل قریب ہوتے ہوئے بھی اس پر وار کیوں نہیں کررہا تھا۔ ایک مرتبہ پھر ونود نے پوری قوت کے ساتھ چیخنا چاہا لیکن اس کی چیخ اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئی حالات نے اس کو ایک مردہ لاش بنادیا تھا۔ اچانک شاتو یا شانتا نے اپنی نگاہیں اوپر اٹھائیں۔ اف۔۔۔ ان نگاہوں میں کتنی پیاس تھی، ان نگاہوں میں تنمناؤں کی کنتی محرومی ھی، ان نگاہوں میں کتنی گہرائی تھی۔ ان نگاہوں میں کتنی سپردگی تھی۔۔ ونود ان نگاہوں کی طرف دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔۔۔ یقینا یہ شانتا کی نگاہیں نہیں تھیں۔ ونود کی طرف اس وقت شانتا نہیں شاتو دیکھ رہی تھی۔ ان نگاہوں نے ایک بار ونود کی طرف دیکھا اور دوسری بار فضاء میں لہراتے ہوئے خنجر کی جانب۔۔۔ اور پھر جیسے یہ نگاہیں مسکرانے لگیں۔۔۔ نگاہوں کے ساتھ شاتو کے لب مسکرانے لگے۔۔۔ لبوں کے ساتھ شاتو کا سارا چہرہ مسکرانے لگا۔ شاتو اپنی جگہ سے اٹھی اس نے ہاتھ اونچا کرکے خنجر کو پکڑلیا اور بڑے ہی آہنی عزم کے ساتھ کہا “کنور جی۔۔۔ اب تم شاتو کو نہیں مارسکتے۔۔۔ کیونکہ آتما نہ قتل کرسکتی ہے اور قتل ہوسکتی ہے”۔ شاتو نے خنجر ہاتھ میں لے کر اس کو غور سے دیکھا اور ایک مرتبہ پھر مسکرائی لیکن اس مرتبہ اس کی مسکراہٹ میں زہر بھراہوا تھا۔ ونود سمجھتا تھا کہ شاتو یہ خنجر پھینک دے گی لیکن وہ خنجر کے دستے پر اپنی گرفت مضبوط کرچکی تھی وہ اب اسی زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ اس خنجر کو دیکھ رہی تھی جیسے وہ خبر کو نہ دیکھ رہو اس میں خون کو دیکھ رہی ہو جو کبھی اس کے پھل پر لگا ہوگا۔ جیسے وہ خنجر کو نہ دیکھ رہی ہو اس ہاتھ کو دیکھ رہی جس نے اسی خنجر سے اس کے باپ کا قتل کیا تھا۔ چند لمحات اسی طرح گذر گئے۔ آخر۔۔۔شاتو نے دوبارہ ونود کی طرف دیکھا اور بڑی آہستہ آواز میںکہا “میں دلہن بن گئی ہوں، مجھے دلہن بننے کی بڑی تمنا تھی آج میری یہ تمنا پوری ہوگئی راج کمار۔۔۔” “لیکن میں راج کمار نہیں ہوں۔۔۔، اب ونود نے ہمت کرکے کہا۔ “تم کوئی بھی ہو۔۔۔ لیکن میر ے لئے میرے راج کمار ہی ہو۔ وہ راج کمار جس سے میں نے دنیا میں سب سے زیادہ محبت کی تھی اور جس کی خاطر میرے پتا کا قتل ہوا تھا”۔ شاتو اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی اور دوبارہ خنجر کی طرف دیکھنے لگی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آنسو صاف کئے بغیر اس نے ونود سے مزید کہا “میں نے ابھی تمہیں اپنی ادھوری کہانی سنائی ہے۔۔۔ آج میریی سب سے بڑی تمنا پوری ہوگئی ہے اس لئے میں تمہیں اپنی پوری کہانی سنادوں گی کیونکہ میری بُت کی زندگی کا ایک مقصد یہ بھی ہے”۔ “لیکن ۔۔۔ میری شانتاکہاں ہے”۔ ونود اچانک چیخا۔”میں کسی شانتا کو نہیں جانتی راج کمار۔۔۔ اور نہ تمہیں کسی شانتا کو جاننا چاہئے”۔ شاتو نے بڑے محبت بھرے لہجے میں جواب دیا،۔ ہم دونوں صرف ایک دوسرے کیلئے زندہ تھے، اور آج بھی زندہ ہیں جب کہ ہم دونوں کی زندگی کو صدیاں گذر چکی ہیں”۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد شاتو نے مزید کہا “میں نے تمہارا بڑا انتظار کیا راج کمار۔۔۔” اتنا کہہ کر شاتو نے کچھ ان نظروں سے ونود کو طرف دیکھا کہ ونود پگھل کر رہ گیا۔ شاتو نے اپنی بات جاری رکھی اس نے کہا “میں تم سے بتاچکی ہوں کہ میں راج کمار دشونت سنگھ کی بیٹی ہوں۔ میرے باپ کا میرے چچا راجہ بلونت سنگھ نے قتل کردیا تھا۔ لیکن میں نے تمہیں یہ نہیں بتایاکہ تھا کہ بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کا قتل کیوں کیا؟ میں دراصل تم سے محبت کرتی تھی راج کمار۔۔۔ اور راجہ بلونت سنگھ نہیں چاہتے تھے کہ میں تم سے محبت کروں یا تم مجھ سے محبت کرو کیونکہ ان کی اولاد تھے، تم ان کی اولاد ہی نہیں اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے ان کی ریاست کے وارث تھے اور وہ تمہاری شادی ریاست چاند پوری کی راج کماری سے کرکے اپنی ریاست کی حدوں کو بڑھانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی کو منع کیا کہ وہ مجھے تم سے نہ ملنے دیں لیکن میرا باپ میری محبت کے تقدس کو جانتا تھا اس لئے وہ میری راہ میں حائل نہیں ہوا۔ جب میرے چچا نے یہ دیکھا کہ معاملات دن بدن ان کے خلاف ہی ہوتے جارہے ہیں تو انہوں نے ایک اور فیصلہ کیا۔۔۔ ایک بڑا بھیانک فیصلہ۔ انہوں نے یہ طئے کرلیا کہ وہ مجھے بھی مارڈالیں گے اور میرے باپ کو بھی۔ لیکن میرے باپ کو کسی طرح ان کے اس فیصلے کی خبر مل گئی۔ انہوں نے مجھے محل سے بھگادیا اور خود اسی تہہ خانے میں چھپ گئے جہاں تمہیں ان کی لاش ملی تھی۔ چند دن بعد راجہ بلونت سنگھ کو تہہ خانے کا پتہ چل گیا اور انہوں نے انہیں اسی جگہ قتل کردیا”۔ “لیکن ابھی میری کہانی ختم نہیں ہوئی ہے راج کمار۔۔۔” شاتو نے ایک لمبی سانس لینے کے بعد کہا “ابھی میری کہانی کا وہ حصہ باقی ہے جس نے مجھے بت میں تبدیل کیا۔ ابھی میری کہانی کا وہ حصہ باقی ہے جس کا تعلق تمہاری ذات سے ہے”۔ اب ونود اپنے اعصاب کی کشیدگی پر قابو پاچکا تھا۔ اب اس کا وہ خوف بھی دور ہوچکا تھا جو اس پر شاتو کو دلہن بنے دیکھ کر طاری ہوا تھا۔ وہ اب تک غور سے بت کی کہانی سن رہا تھا لیکن پھر اسے اچانک شانتا کی یاد آگئی۔ اس نے شاتو کی بات کاٹ دی۔ اور بڑی بے چینی سے پوچھا “تم مجھے سب سے پہلے شانتا کے بارے میں بتاؤ۔۔ مجھے بتاؤ کہ وہ کہاں ہے؟” “میں تم سے کہہ چکی ہوں کہ میں کسی شانتا کو نہیں جانتی”شاتو نے جواب دیا۔ “شانتا میری بیوی ہے۔ یہ کمرہ اسی کا ہے۔ اور یہ پلنگ بھی اسی کا ہے جس پر تم دلہن بنی بیٹھی ہو”۔ ونود نے لگ بھگ چیختے ہوئے کہا۔ شاتو نے ونود کے بدلے ہوئے لہجے کی کوئی پرواہ نہیں کی ۔ وہ کہتی رہی “اپنے باپ کے قتل کے بعد میں چند ماہ تک حویلی سے دور رہی۔ اسی اثناء میں میرے چچا راجہ بلونت سنگھ نے زبردستی تمہاری شادی اپنی مرضی سے کردی۔ تم نے بہت انکار کیا لیکن آخر کار تمہیں اپنے پتا کی بات ماننا ہی پڑی۔ تم نے شادی تو کرلی لیکن تم میرے یاد کو اپنے دماغ سے کھرچ نہ سکے۔ تم نے میرا ایک بت بناناشروع کردیا اور پھر ۔۔۔” شاتو یہں تک اپنی داستان سنانے پائی تھی کہ وہ اچانک چیخنے لگی۔۔۔۔ ماڈالو۔۔۔۔مارڈالو۔۔۔۔ ایک دن قبل بھی وہ اسی طرح چیخی تھی اور اسی طرح اس کی داستان ادھوری رہ گئی تھی کیونکہ آج بھی کل کی طرح “مار ڈالو۔۔۔۔ مارڈالو” کہتے کہتے آج بھی اس کا جسم فضاء میں تحلیل ہونے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا وجود کمرے سے غائب ہوگیا۔ اب ونود کی نگاہوں کے سامنے پلنگ پر شاتو کے بجائے وہ لباس اور وہ زیور بکھرا پڑا تھا جو ابھی چند لمحات قبل تک شاتو پہنے بیٹھی تھی۔ ونود ڈرے بغیر آگے بڑھا۔ پلنگ کے نزدیک آیا اور غور سے کپڑوں اور زیوروں کی طرف دیکھنے لگا۔ یقینا یہ وہی کپڑے اور وہی زیور تھے جو اسے تہہ خانے میں بند صندوق کے اندر سے ملے تھے۔ ونود کی حیرت کی کوئی حد و انتہا نہ رہی۔ کیونکہ وہ آج تک روح کو صرف روح سمجھتا رہا تھا لیکن آج وہ عمر میں پہلی مرتبہ روح کو ایک ٹھوس حقیقت سمجھ رہا تھا۔ ایک مرتبہ پھر ونود خوف کی وجہہ سے لرز گیا۔ اس کی آنکھیں خوف کی وجہہ سے پھٹنے لگیں اور وہ دیوانوں کی طرح کمرے سے باہر نکل آیا۔ اب وہ حویلی میں شانتا کو تلاش کرنے لگا تھا۔ لیکن شانتا کا حویلی میں کوئی پتہ نہ تھا۔ شانتا کو نہ پاکر ونود کی وحشت کی کوئی حد و انتہا نہ رہی۔ اس نے نوکروں کو آوازیں دیں۔ تمام نوکر جمع ہوگئے سب نے مل کر شانتا کی تلاش کی لیکن شانتا حویلی میں تھی ہی کب۔ جو وہ تلاش کرنے والوں کو مل جاتی۔ اچانک ونود کے ذہن میں تہہ خانے کا نقشہ ابھرا کیوں کہ اب حویلی میں صرف تہہ خانہ ہی باقی رہ گیا تھا۔ جہاں ونود نے شانتا کو تلاش نہیں کیا تھا۔ نوکروں کو بتائے بغیر وہ تہہ خانے میں داخل ہوگیا۔ تہہ خانے میں حسب معمول گہری تاریکی تھی اور زبردست سناٹا، لیکن ونود چونکہ اس ماحول کا عادی ہوچکا تھا اس لئے اسے اب ڈراؤنے ماحول سے کوئی ڈر و خوف محسوس نہ ہوا وہ پاگلوں کی طرح سیڑھیوں سے اتر کر تہہ خانے میں داخل ہوا اور چیخنے لگا۔ شانتا۔۔۔شانتا۔۔۔ شانتا تم کہاں ہو؟ اس کی آواز تہہ خانے کی وسعتوں میں دیر تک گونجتی رہی اور پھر گونج کر فضا میں تحلیل ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ شانتا اس تہہ خانے میں بھی نہیں تھی۔ ونود کی وحشت اور بڑھ گئی اور اس نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ تہہ خانے کا گوشہ گوشہ دیکھنے کیلئے آگے بڑھا اور پھر جیسے ہی اس چبوترے کے قریب پہنچا جہاں ہڈیوں کا پنجرا پڑا ہوا تھا اس کے قدیم اپنی جگہ جم کر رہ گئے۔ کیونکہ اس چبوترے کے قریب ہی شانتا فرش پر بے ہوش پڑی ہوئی تھی۔ ونود تیزی سے شانتا کی طرف لپکا اور اس نے شانتا کو اپنے ہاتھوں پر اٹھالیا۔ پندرہ منٹ کے اندر وہ شانتا کا ہوش واپس لانے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ شانتا کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے کمرے میں اپنے پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی۔ وہ اس وقت برسوں کی بیمار معلوم ہورہی تھی۔ اس کے چہرے کی ساری شادابی اور شگفتگی ختم ہوچکی تھی۔ سرخ رنگ سفید رنگ میں تبدیل ہوچکا تھا۔ ہونٹ خشک تھے اور آنکھیں ویران ہوچکی تھیں۔ ہوش میں آنے کے بعد اس نے بڑی آہستہ بلکہ تقریباً مردہ آواز میں ونود سے کہا “تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا”۔ “میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا شانتا۔۔۔”ونود نے کہا۔ “صرف میں نے تم سے کچھ باتیں چھپائی تھیں لیکن سب سے پہلے تم یہ بتاؤ کہ تم تہہ خانے میں کیسے پہنچیں؟”۔ “میرا دل کانپ رہا ہے ونود۔۔۔” شانتا نے بڑے مایوس لہجے میں کہا “وہ مجھے زبردستی اس تہہ خانے میں لے گیا تھا”۔ “کون لے گیا تھا۔۔۔” ونود نے حیرت سے پوچھا۔ “وہی جو اس حویلی میں رہتا ہے اور جو مجھے اپنی بیوی سمجھتا ہے”۔ شانتا نے جواب دیا۔ “کون رہتا ہے۔۔۔” ونود مجسم حیرت بن گیا۔ “میں تم سے بتا چکی ہوں کہ مجھے ایک آدمی کی آواز سنائی دیتی رہتی ہے”۔ شانتانے کہا “یہی آواز آج بھی مجھے مقناطیس کی طرح گھسیٹ کر اس تہہ خانے میں لے گئی”۔ “کیا تم نے اس آدمی کو دیکھا”۔ نہیں۔۔۔۔ شانتا نے جواب دیا۔ میں نے صرف اس کی آواز سنی ہے۔ وہ مجھے اب تک نظر نہیں آیا ہے”۔ “تہہ خانے میں تم پر کیا بیتی۔” ونود نے پوچھا۔ “میں کسی جادوائی اثر سے تہہ خانے پہنچ گئی ونود۔ وہاں میں نے چمگاڈریں اڑتے دیکھیں لیکن مجھے دیکھتے ہی جیسے ان چمگاڈروں کو سانپ سونگھ گیا۔ وہ بالکل خاموش ہوگئیں اور پھر میں خود بخود ایک چبوترے کے پاس پہنچ گئی جس پر ہڈیوں کا ایک پنجر پڑا تھا میں ایک زندہ بت کی طرح اس پنجر کو دیکھنے لگی اور پھر” “اور پھر کیا ہوا۔” ونود نے بے چین ہوکر پوچھا۔ “اور پھر۔ میں دوبارہ اسی آدمی کی آواز سننے لگی۔ یہ آواز مجھ سے کہنے لگی۔ تم آگئیں تو مجھے اپنی دنیا مل گئی۔ آج تم میرے بالکل قریب ہو، آج تم نے مجھے میری کھوئی ہوئی جنت واپس دلادی ہے۔ آج تم نے مجھے جو خوشی دی ہے وہ مجھے صدیوں سے نہیں مل تھی۔ میں چبوترے کے پاس کھڑی رہی اور مجھ پر ایک ستکہ سا طاری رہا اور پھر ۔ میں ایک چیخ مار کر بیہوش ہوگئی اس کے بعد میری آنکھ کھلی تو میں اپنے بستر پر پڑی تھی اور تم میرے سامنے بیٹھے ۔” “اس آواز نے تمہیں اپنا نام بتایا۔” ونود نے پوچھا۔ “نہیں۔ “شانتا میں مری ہوئی آواز میں جواب دیا”لیکن وہ مجھے اپنی بیوی کہتا ہے، اور ونود میں سچ کہتی ہوں وہ بھوت ہے۔ اس حویلی کا مرد بھو۔ یہ حویلی چھوڑ دو ونو، یہ حویلی بھوتوں کا مسکن ہے۔” “نہیں شانتا۔،ونود نے جواب دیا۔ “میں یہ حویلی نہیں چھوڑوں گا۔ میں مانتا ہوں کہ یہ حویلی بھوتوں کا مسکن ہے لیکن یہ بھی تو سوچو کہ یہ بھوت ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچاتے”۔ “لیکن یہ بھوت ہماری زندگی کا سکون درہم برہم کررہے ہیں ونود”۔ “تم مت گھبراؤ شانتا۔ “ونود نے جواب دیا “میں ان بھوتوں کے وجود سے اس حویلی کو بالکل پاک کردوں گا”۔ “کیسے پاک کردوگے”۔شانتا نے پوچھا۔ “یہ روحیں کسی الجھن کا شکار ہیں ان روحوں کے کچھ کام ادھورے رہ گئے ہیں ان روحوں کی کچھ تمنائیں باقی رہ گئی ہیں اور یہ اسی لئے بھٹک رہی ہیں جیسے ہی ان کو ملکوں پہنچادوں گا ان کے وجود سے یہ حویلی پاک ہوجائے گی”۔ ونود نے اتنا کہنے کے بعد شانتا کو اپنی اور شاتو کی ملاقات کی داستان بھی سنادی۔ اس نے کہا “یہ کتنا دلچسپ اتفاق ہے کہ اس حویلی میں رہنے والی عورت کی روح مجھے اپنا محبوب کہتی ہے اور اس حویلی میں بھٹکنے والی مرد روح تمہیں اپنی بیوی کہتی ہے۔ ایک کا نام شاتو ہے اور دوسرے کا نام ہمیں ابھی تک نہیں معلوم ہوسکا”۔ ابھی ونود کچھ اور کہنا چا ہتا تھا کہ کالکا نے آکر کہا “پروفیسر تارک ناتھ آگئے ہیں”۔ تارک ناتھ کی آمد کی خبر سنتے ہی ونود کو ایک اطمینان سا ہوگیا۔ اس نے کالکا سے کہا “تم یہاں شانتا کے پاس موجود رہوگے کالکا۔ اور ایک منٹ کیلئے بھی اس کمرے سے باہر نہیں جاؤگے۔” ونود اتنا کہہ کر کمرے سے باہر نکلا۔ باہر پورٹیکو میں پروفیسر تارک ناتھ موجود تھے۔ انہوں نے ونود کو دیکھتے ہی کہا : “میں نے آپ کی دی ہوئی کتاب کا مطالعہ کرلیا ہے۔ مسٹر ونود”۔ “لیکن میں آپ کو ایک اور کتاب سنانے والا ہوں۔ ونود نے ایک مردہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ “کیسی کتاب؟” پروفیسر نے حیرت سے پوچھا “کیا آپ کو کوئی دوسری کتاب بھی مل گئی ہے”۔ “نہیں پروفیسر صاحب”۔ ونود نے جواب دیا”کتاب نہیں ملی ہے لیکن حویلی کی داستان نے ایک بالکل نئی کروٹ لے لی ہے۔ آپ اطمینان سے کمرے میں بیٹھیں میں آپ کو ابھی اس کہانی کا یہ دلچسپ باب سنادوں گا”۔جلد ہی ونود نے پروفیسر کے رہنے کیلئے حویلی کے اس کمرے میں انتظام کردیا جو اس کے رہائشی کمرے کے بالکل متصل تھا اس اثناء اس نے ایک مرتبہ پھر شانتا کو جاکر دیکھا وہ بدستور سکتے کے عالم میں بستر پر نڈھال پڑی تھی۔ شانتا کے اعصاب پر حویلی کے واقعات نے بہت برا اثر ڈالا تھا۔ اب رات کی تاریکی چاروں طرف پھیلی تھی۔ حویلی پر موت کا ساسکوت طاری تھا۔ چاروں طرف ایک ہولناک خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ باہر ہوا کے تیز تھپیڑوں سے درختوں کی پتیاں کبھی کبھی اس طرح شور مچانے لگتیں جیسے ایک ساتھ بہت سے درندوں نے چیخنا شروع کردیاہو۔ یہ آوازیں اتنی دردناک معلوم ہوتی تھیں کہ سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ ماحول ایسا تھا کہ یہ گمان ہورہا تھا کہ آج رات کو آسمان سے بلائیں اترآئی ہیں۔ اس ماحول میں سب سے زیادہ پر اسرار شاتو کا مجسمہ معلوم ہورہا تھا جو اپنی مخصوص ادا کے ساتھ فوارے کے چبوترے پر پڑی دل ربائی کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ ونود کا اضطرات لمحہ بہ لمحہ بڑھتا ہی جارہا تھا۔ اس کے دل میں یہ تصور کرکے ہی دل ہول اٹھنے لگتا تھا کہ اس کی شانتا کی دعوے دار ایک روح ہوگئی ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب تک اس کا سابقہ صرف ایک بت سے تھا۔ صرف ایک عورت کی غم نصیب روح سے تھا لیکن اب اس کا مقابلہ ایک مرد کی روح سے بھی ہوگیا تھا اور اسے کوئی اندازہ نہیں تھاکہ یہ روح اچھی ہے یا بری۔ رات کو تقریباً نو بجے وہ پروفیسر تارک ناتھ کے کمرے میں آیا۔ پروفیسر صاحب خیالوں کی دنیا میں بالکل کھوئے بیٹھے تھے۔ ونود کو دیکھتے ہی ایک بڑی سنجیدہ مسکراہٹ ان کے لبوں پر پھیل گئی۔ انہوں نے کہا “میں آپ کا ہی انتظار دیکھ رہا تھا” “میں خود آپ سے باتیں کرنے کیلئے بیتاب تھا اور اس کا انتظار ہی کررہا تھا کہ آپ کھانے سے فارغ ہوجائیں تو اپ کے پاس آجاؤں”۔ ونود نے کہا۔ “آپ سب سے پہلے مجھے اپنی نئی کتاب سنادیجئے”۔ پروفیسر نے اتنا کہنے کے بعد سگریٹ سلگالی اور آرام سے پیر پھیلاکر بیٹھ گئے۔ ونود نے تفصیل سے پروفیسر کو اب تک کے واقعات سنادئیے اور کہا “میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ مرد روح کس کی ہوسکتی ہے”۔ “میرا خیال ہے کہ یہ روح راج کمار وشونت سنگھ کی ہوسکتی ہے”۔ پروفیسر نے کچھ سوچ کر کہا۔ وہ اتنا کہہ کر ونود کی طرف غور سے دیکھنے لگے۔ “لیکن آپ کے اس خیال کی بنیاد کیا ہے”۔ ونود نے پوچھا۔ “وہ کہانی جو اس قدیم کتاب میں لکھی ہوئی ہے”۔ “آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ روح شاتو کے باپ کی ہے”۔ ونود نے کہا۔ “ہاں۔۔۔۔”پروفیسر نے کہا۔ “اور اس جملہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے”۔ “کون سا جملہ۔۔۔۔” پروفیسر نے پوچھا۔ “وہی جو شاتو کی روح اپنی داستان سنانے کے دوران کہتی ہے”۔ مار ڈالو۔ مارڈالو” اور پھر نہ صرف یہ کہ اپنی داستان نامکمل چھوڑ دیتی ہے بلکہ اس جملہ کے ساتھ ہی اس کا وجود بھی غائب ہوجاتاہے”۔ “اس سلسلے میں یہ کتاب بالکل خاموش ہے۔ لیکن میراخیال ہے کہ جب وہ آپ کے پاس موجود ہوتی ہے اور اپنی داستان سناتی ہوتی ہے تو اسے کوئی اور دشمن روح نظر آجاتی ہے اور وہ دیوانوں کی طرح چیخنے لگتی ہے”۔ “پروفیسر صاحب ۔۔۔”ونود نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا “میں تھگ گیا ہوں آپ مجھے مشورہ دیں کہ میں کیا کروں؟ شانتا کہتی ہے میں یہ حویلی چھوڑدوں، مجھے یہ بتائیے کہ کیا میں اس کے مشورے پر عمل کرلوں”۔ “میرے خیال میں اگر آپ یہ حویلی چھوڑ بھی دیں گے تب بھی آپ کی الجھنیں باقی رہیں گی مسٹر ونود۔۔۔۔ کیونکہ آپ آواگون کے پھیر میں پڑگئے ہیں”۔ پروفیسر نے بھی یہ جملہ پورا ہی کیا تھا کہ ان کمرے کا بند درواز خود بخود کھل گیا۔ پروفیسر اور ونود دونوں چونک پڑے۔ دوسرے ہی لمحہ کمرے میں ایک آواز گونجی “چاچا جی۔۔۔۔آخر تم میرے جال میں آہی گئے”۔ ونود نے آوازپہچان لی۔ یہ آواز شاتو کی تھی اور شاتو نے یہ جملہ یقینا پروفیسر ناتھ کو مخالف کرکے کہا تھا۔ تو۔۔۔کیا پروفیسر تارک ناتھ کے جسم میں راجہ بلونت سنگھ کی روح موجود تھی؟ ونود نے فوراً سوچا کیوں کہ کمرے میں اس کے اور پروفیسر کے علاوہ کوئی تیسرا موجود نہیں تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ پروفیسر تارک ناتھ پر کیا گزری؟ شانتا کا سابقہ شوہر کون تھا؟ حویلی کا بت روزانہ رات کو زندہ کیوں ہوجاتا تھا یہ جاننے کیلئے انتظار کریں۔
خود پروفیسر صاحب ایک اجنبی عورت کی آواز سن کر چونک گئے۔ وہ اس جملے کا مطلب سمجھ ہی نہیں پائے۔
“چاچا جی۔۔۔ آخر تم میرے جال میں آہی گئے”۔
انہوں نے جملہ سننے کے بعد ادھر ادھر چونک کر دیکھا اور جب انہیں کوئی عورت دروازے یا کھڑکیوں میں کھڑی نظر نہیں آئی تو انہوں نے گھبرا کر ونود سے پوچھا “یہ کس عورت کی آواز ہے مسٹر ونود۔۔۔”
“شاتو کی۔۔۔۔”ونود نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
“شاتو کی۔۔۔؟” پروفیسر نے حیرت سے پوچھا “تمہارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ بت کی آواز ہے”۔
“جی ہاں۔۔۔” ونود نے جواب دیا “یہ شاتو کی روح کی آواز ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ جملہ اس نے آپ سے مخاطب ہوکر کہا ہے۔۔۔”
“لیکن میں اس کا چچا کب ہوں۔۔۔”پروفیسر نے گھبرا کر کہا۔
“جس طرح میں اس کا محبوب ہوں اسی طرح آپ اس کے چچا ہیں”۔ ونود نے سمجھایا۔
“یعنی تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ میں وہ راجہ جسونت سنگھ ہوں جس نے شاتو کے باپ کو تہ خانے میں قتل کیا تھا”۔
“جی ہاں”۔۔۔ ونود مسکرایا۔
پروفیسر تارک ناتھ نے دو ایک منٹ تک کمرے کے ماحول کا کچھ اس طرح جائزہ لیا جیسے وہ ‘شاتو’ کی روح کو کمرے میں تلاش کر رہے ہوں اور پھر جیسے وہ مطمئن ہوگئے انہوں نے بھی حالات کے آگے سپر ڈال دی۔ اب انہوں نے بڑے سکون کے ساتھ ونود سے کہا “شاتو کی روح خاموش کیوں ہوگئی؟”
“میں نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ اس کمرے میں موجود ضرور ہے”۔ ونود نے بڑے یقین کے ساتھ کہا۔
“وہ نظر کیوں نہیں آتی”۔ پروفیسر نے بے چین ہو کر پوچھا۔
“یہ بھی مجھے نہیں معلوم۔۔۔” ونود نے جواب دیا۔
“لیکن میں اس سے باتیں کرنا چاہتا ہوں”۔ پروفیسر نے کہا۔
ابھی پروفیسر کی پوری بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ کمرے میں دوبارہ آواز گونجی “میں تمہاری غلام نہیں ہوں چاچا جی کہ تم اگر باتیں کرنا چاہو تو تم سے باتیں کرنے لگوں”۔
“لیکن میں تمہارا چچا نہیں ہوں شاتو۔۔۔” پروفیسر نے بات بڑھانا چاہتی۔
“لیکن۔۔۔” آوازمیں اب کچھ غصہ بھی شامل تھا۔ “تم میرے چچا راجہ جسونت سنگھ ہو، میرے پتا کے قاتل۔۔ تم نے میری زندگی برباد کی ہے، تم نے مجھے ایک بت میں تبدیل کیا ہے، تم میرے بھی قاتل ہو، کیوں کہ تم نے میری حسرتوں کا بھی خون کیا ہے اور میرے ارمانوں کا بھی۔۔۔ میں تم کو کبھی معاف نہیں کرسکتی چاچا جی۔۔۔”
شاتو نظر تو نہیں آ رہی تھی لیکن اس کی آواز کمرے میں بادلوں کی گرج کی طرح گونج رہی تھی ، ونود اور پروفیسر دم بخود بیٹھے تھے۔
یہ کتاب تعمیر نیوز ویب سائٹ کے اس صفحہ سے لی گئ ہے۔