وجدان ماما کو آفس لے کر آیا تھا وہ اس کے آفس میں بیٹھی تھیں
” کچھ منگواؤں آپ کے لیے؟؟؟”
” نہیں بیٹا۔۔۔۔ ابھی تک آئی نہیں وہ”
” آتی ہو گی ماما ” وجدان ہنسا۔
تھوڑی دیر میں دروازہ نوک ہوا ” یس کم ان” وجدان بولا اور روشانے اندر آئی ماما نے بھی مڑ کے دیکھا روشانے ڈارک گرین کلر کے ڈریس میں آدھے بالوں میں کیچر لگائے باقی بالوں کو کھلا چھوڑے ہاتھوں بریسلیٹ ھو وہ ہمیشہ سے پہنتی تھی کانوں میں ائیر رنگز پہنے بہت جازب نظر لگ رہی تھی۔
ماما کو وہ دیکھتے ہی بہت پیاری لگی
” سوری سر آپ بزی ہیں میں بعد میں آجاؤں گی” وہ جانے کو مڑی تو اس نے پکارا
” مس روشانے میری ماما سے ملیے”
وہ آگے آئی ماما اپنی جگہ سے اٹھیں اور پیار سے اسے گلے لگایا
” آؤ بیٹا بیٹھو میرے پاس” ماما نے ساتھ والی چئیر پہ اسے بیٹھنے کو کہا وہ جھجکتی ہوئی بیٹھ گئی ماما اس سے باتیں کرنے لگیں وجدان کی کال آئی تو وہ وہاں سے اٹھ لے چلا گیا پندرہ بیس منٹ بعد وہ آیا تو روشانے اور ماما میں دوستی ہو چکی تھی وہ مسکرایا
” وجدان آپ مجھے گھر چھوڑ دو بیٹا ” ماما اٹھیں
” جی ماما ”
” اوکے روشانے بیٹا اب میں چلتی ہوں” وہ اس کے گلے لگیں
” اوکے آنٹی پھر دوبارہ آئیے گا”
” ضرور بیٹا اب تو انشآاللٰہ آنا ہی پڑے گا بلکہ بہت جلد گھر آؤں گی آپ کے”
” شیور آنٹی کیوں نہیں موسٹ ویلکم ” اسے بھی وجدان کی ماما بہت پسند آئی تھیں وہ خوشی سے بولی۔
***********
گھر آکے اس نے ماما کو وجدان کی ماما کے بارے میں بتایا۔
” تمہارے باس کے بابا کا نام کیا ہے”
” جہانگیر حیدر بابا پہلے وہ ہی سنبھالتے تھے سارا بزنس اب ان کا بیٹا سنبھالتا ہے”
” جہانگیر حیدر۔۔۔۔۔” بابا سوچ میں پڑ گئے
” کیا ہوا بابا ”
” ایک جہانگیر کالج کے زمانے سے میرا دوست تھا بعد میں وہ۔باہر چلا گیا تھا اور ہم۔نے بھی شفٹنگ کر لی تھی تب سے اب تک رابطہ نہیں میں سوچ رہا ہوں کہیں یہ وہی تو نہیں ”
” پتا نہیں جاوید لیکن آپ تو کہہ رہے ہیں وہ باہر چلا گیا تھا تو پاکستان کیوں آئے گا”
” ہمممم۔۔۔۔ شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو ”
************
آج سنڈے تھا وجدان نے روشانے کو فون کیا
” ہیلو اسلام علیکم ”
” وعلیکم السلام مس روشانے کیسی ہیں آپ ”
” الحمداللٰہ سر میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں ؟؟؟”
” فائن ”
” کیسے فون کیا سر” روشانے نے پوچھا
” موبائل سے ” وجدان نے دوبدو جواب دیا روشانے ہنسی
” آئی مین کیوں فون کیا ؟؟؟”
” کیوں نہیں کرنا چاہیے تھا”
” ایسی بات نہیں ہے سر میرا مطلب ہے سب خیریت ہے”
” ہاں جی سب ٹھیک ہے دراصل ماما بابا آپ کے گھر آنا چاہ رہے ہیں آج شام”
” سب خیریت”
” جی جی”
” شیور سر مجھے بہت خوشی ہو گی”
” مجھے بھی” وجدان نے کہا اور مسکرادیا۔
وجدان سے بات کرنے کے بعد وہ ماما بابا کو بتانے بھاگی۔
************
شام کو وہ لوگ آگئے تھے جاوید صاحب کی سوچ درست نکلی تھی وہ ان کے دوست نکلے تھے کافی ٹائم کے بعد ایک دوسرے کو دیکھ کے وہ دونوں ہی بہت خوش تھے وانیہ بھی ساتھ آئی تھی سے بھی روشانے بہت پسند آئی دونوں میں اچھی دوستی ہو گئی تھی روشانے اسے اپنا گھر دکھانے لے گئی ولید بھی آیا ہوا تھا وہ بھی ملا دونوں فیملیز میں اچھے مراسم بن گئے تھے جاوید صاحب نے زبردستی انہیں رات کے کھانے پہ روک لیا تھا رات کا کھانا کھانے اور چائے کے دور کے بعد وہ لوگ جانے کے لیے اٹھے مہرالنساء نے روشانے کو گلے لگایا “آنٹی پھر آئیے گا ”
” جی بیٹا ضرور”
” بھائی صاحب اب جب ہم دوبارہ آئیں گے تو خالی ہاتھ نہیں جائیں گے ” انہوں نے روشانے کی طرف دیکھ کر کہا روشانے ایک دم ٹھٹکی۔
***********
دو دن بعد جہانگیر حیدر کا فون آیا جاوید صاحب اور وہ کچھ بات کرنے لگے تھوڑی دیر بعد جاوید صاحب آئے اور ماما سے کہنے لگے
” ان لوگوں نے ہماری روشانے کا رشتہ مانگا ہے”
” یہ تو بہت اچھی بات ہے لوگ بھی اچھے ہیں ” ماما خوش تھیں
” ہممم۔۔۔ میں نے سوچنے کا ٹائم ہے آپ روشانے سے بھی پوچھ لیں”
” جی ٹھیک ہے”
ماما نے روشانے سے اس رشتے کے بارے میں بات کی تو وہ شاکڈ رہ گئی ” بٹ ماما وہ میرے باس ہیں”
” ہاں بیٹا ہیں پر اس سے کیا فرق پڑتا ہے لڑکا اچھا ہے خاندان اچھا ہے اور سب سے بڑی بات کے تمہارے بابا انہیں جانتے ہیں”
” وہ سب تو ٹھیک ہےماما پر۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا مجھے تھوڑا وقت چاہیے سوچنے کے لیے”
” اوکے بیٹا جتنا ٹائم لینا ہے لے لو آج تمہارے بابا وجدان سے ملنے کا کہہ رہے تھے دیکھتے ہیں اب ” انہوں نے اسے پیار کیا اور وہاں سے چلی گئیں روشانے نے بابا سے بات کرنے کا فیصلا کیا۔
*************
بابا اور ولید کو وجدان بہت اچھا لگا تھا ان کی طرف سے تو ہاں تھی پر بس روشانے کی ہاں کا انتظار تھا۔
جاوید صاحب اسٹڈی روم میں بیٹھے بک پڑھ رہے تھےروشانے کے آنے پر بک دائڈ میں رکھی
” کیا ہوا بیٹا خیریت ہے سب”
” جی بابا کچھ بات کرنی ہے ” وہ تھوڑا جھجک رہی تھی
“جی بیٹا کھل کے کہو ویسے بھی ہم اچھے دوست بھی تو ہیں نا ” بابا نے مسکراکے کہا
” جی بابا وہ بابا میں کہنا چاہتی ہوں کہ وجدان حیدر کے پرپوزل کو ہاں کرنے میں مجھے کوئی دقت نہیں ہے پر ایک طرف دیکھا جائے تو وہ میرے باس ہیں فرض کریں میں ہاں بھی کردوں تو میرا آفس اسٹاف کیا کہے گا اور باقی لوگ ” بابا اس کی بات پہ مسکرائے ” بیٹا میں وجدان سے ملا ہوں وہ sensible بندہ ہے وہ سب سنبھال لے گا اور رہی بات باس کی تو تم بس یہ بات یاد رکھو کہ وہ تمہارے بابا کے دوست کا بیٹا ہے”
” اوکے بابا” وہ کچھ سوچ کے بولی ” اگر آپ کو سب ٹھیک لگتا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے”
” یعنی میں اپنی بیٹی کی ہاں سمجھوں؟؟؟”
” جی بابا” وہ سر جھکا کے بولی تو بابا نے اسے گلے لگا لیا
” مجھے تم سے یہ ہی امید تھی بیٹا” جاوید صاحب مسکرائے۔
************
” ماما انہوں نے جواب نہیں دیا” وجدان نے پوچھا
بیٹا انہوں نے سوچنے کا ٹائم مانگا ہے ”
” ماما تین دن ہو گئے اب تو” وجدان بے صبری سے بولا تو ماما ہنس دیں
” بیٹا وہ سوچ کے ہی جواب دیں گے نا”
” پر۔۔۔۔۔۔” اتنے میں بابا آئے
” مبارک ہو بھئی ان کی طرف سے ہاں ہے” بابا خوش ہو کے بولے اور وجدان کو گلے لگایا ” اب خوش ہو برخودار انگلیوں پہ دن گن رہے ہو کب سے ” بابا نے چھیڑا تو وہ جھینپ گیا ماما نے بھی گلے لگایا اور اس کا ماتھا چوما ” اللٰہ ایسی ہی تمہیں خوش رکھے” ماما نے دعا دی تو وہ مسکرا دیا وانیہ جو اےنی دیر سے خاموش تھی بولی ” ماما دیکھیں آج تو بھائی کی مسکراہٹ ہی ختم نہیں ہو رہی ورنہ تو مسکراتے ہی نہیں ہیں کبھی ” تو ماما ہنس دیں وجدان نے اسے گھوری دی تو وہ بھی ہنس دی۔
ان کا ارادہ منگنی کا تھا پر وجدان نے نکاح پہ زور دیا تو بات نکاح پہ ڈن ہوئی اور اگلے سنڈے کو نکاح کی تقریب رکھی گئی۔
***********
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...