سہیل احمد صدیقی(کراچی)
میری تدریس کا آغاز متوسط طبقے کی اس بستی کے ‘ بہت بڑے خبیث کے اسکول سے ہوا۔ نام نہاد انگریزی میڈئیم اسکول میں پہلا دن بڑی حیرت لے کر آیا…………میں نے ننھے منے بچوں سے فرنگی زبان میں خطاب شروع کیا تو کچھ دیر بعد معائنے پر آنے والی ہیڈ مسٹریس نے مجھے پیریڈ کے بعد اپنے دفتر میں حاضری کا حکم دیا۔ شرفِ باریابی ملا تو نہایت دبلی پتلی ‘ کم کم بولنے والی مہذب خاتون نے فرمایا : ’’ آپ تو چھوٹے بچوں سے ایسے بول رہے تھے جیسے یونی ورسٹی میں کلاس لے رہے ہوں۔۔۔۔ یہ مسٹر [Mr.] ۔۔۔ کیا ہوتا ہے۔۔۔ ؟ پھر انہوں نے ازراہِ عنایت مجھے سمجھادیا کہ یہاں مخلوط زبان سے کام لینا ہے اور انگریزی ‘ جنرل سائنس یا ریاضی پڑھاتے ہوئے انگریزی جھاڑنے سے گریز لازم ہے۔ آگے چل کر بظاہر تنگ ‘ اور لیے دئے رہنے والی میڈم سے خوشگوار تعلقات قائم ہوگئے اور ایک مدت بعد ‘ میرا اُن کے گھر آنا جانا بھی ہوگیا جو کم از کم میرے لیے اعزاز اور ایسا استثنیٰ تھا ‘ جس کا علم بھی میرے خاص دوست اور رفیقِ کار کے سوا کسی کو نہ تھا‘کیوں کہ وہ ایک آدھ مرتبہ میرے ساتھ اُ ن کے گھر گیا تھا ۔ یہ خاتون واقعی پڑھی لکھی مگر نجی مسائل کے سبب بظاہر دوہری شخصیت کی حامل تھیں …… میرے سوا بہت کم افراد نے انہیں ہنستے بولتے دیکھا تھا۔
اسکول میں میرے علاوہ دو مرد اساتذہ تھے‘ جن میں ایک میرا پرانا دوست تھا۔ پھر ایک دن غلغلہ بلند ہوا۔۔۔ ایک بھاری بھرکم صاحب ‘ دراز زلفوں اور خوفناک مونچھوں سے لیس‘ گہری سانولی ( تقریباً کالی) رنگت اور طرفہ تماشا یہ کہ کسی قدر زنانہ آواز کے حامل ‘ انگریزی اور سائنس پڑھانے کے لیے تشریف لائے۔ موصوف نے لاہور کے مشہور زمانہ کالج سے ایم ۔اے بزبان فرنگی کیا تھا‘ جس کے ثبوت میں کالج کا بلیزر اکثر زیب تن فرماتے تھے‘ گفتگو میں احساس تفاخر نمایاں تھا۔پہلے دن تو انہوں نے جو انگریزی کا باؤنسر مارا تو پانچویں جماعت کے بچے ‘ بے چارے کلین بولڈ ہوگئے اور انہوں نے خاکسار کے سامنے فریاد کی۔ہم کہ ٹھہرے خادم خلق اور چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار ‘ جا بھڑے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دیسی نمائندے سے ……ذرا دیر گزری تھی کہ ’’ پردیسی بابو‘‘ دیسی زبان میں از خود رواں ہوگئے ……یا حیرت کیا ماجرا ہے……ہم تو ‘ ابھی انٹر کا امتحان پرائیویٹ دے کر آئے تھے…… کچھ ہی دن بعد نتیجہ برآمد ہوا تو شیرینی کی تقسیم بھی لازم ہوگئی ۔
پردیسی بابو تھوڑے ہی عرصے بعد خاکسار سمیت اکثر اسٹاف سے اچھے تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ شوخ ‘ چنچل ‘ بے باک اور خوبصورت شانزے پہلے پہل تو کونے کھدرے میں بیٹھی اپنی حسین ہم جولی نازیہ اور دیگر سے مل کر نازش کا تمسخر اڑایا کرتی تھی ‘ پھر نگاہوں کا جادو چلا ‘ یا دل کی اچھل کود بے قابو ہوئی اور شانزے پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی گود میں آگری ……میں نے چند ایک مرتبہ دونوں کو اپنی اپنی کلاس چھوڑ کر مسکراہٹوں اور خیالات کا تبادلہ کرتے ہوئے دیکھا……پھر گاہے گاہے جب شانزے کی چھیڑ چھاڑ کا رخ ادھر ہوا تو ترکی بہ ترکی جواب سے نوازا………… اُدھر نازش نے بھی مجھے محرم سمجھتے ہوئے ہلکے پھلکے انکشافات ( خالص دیسی گالیوں کے ساتھ) شروع کئے ‘ پھر نوبت بہ اینجا رسید کہ میڈم زرمینہ نے مجھے بر وقت اطلاع دی کہ دونوں پیار کے متوالے بند ‘ خالی کمرے میں کئی کئی پیریڈ راز و نیاز کررہے ہیں………… میں نے بھی کچھ دبی دبی ہنسی ‘ مترنم قہقہوں کی آواز‘ بالکل سرگوشی جیسی ’’ منحنی ‘‘ زنانہ نما آواز سے ہم آہنگ ہوتے سنی……مگر افسوس …… میڈم نے ہلکی پھلکی سرزنش بعد از آں کی بھی تو شانزے نے کوئی خاص اثر نہ لیا۔یوں بھی وہ گھر کے پاس ہوتے ہوئے ‘ بھا ئی کے اچھے خاصے لوفر ہونے کے سبب کافی بے پروا تھی ۔
سفیدی ہے ‘ سیاہی ہے ‘ شفق ہے ‘ ابرِ بارا ں ہے مزہ برسات کا چاہو تو ان آنکھوں میں آبیٹھو
ذکر اُ س پری وش کا…… نازیہ بہت متاثر کن مگر کانٹوں بھرا گلاب تھی ۔ایم ایس سی کرچکی تھی ‘ بی ۔ایڈ کر رہی تھی ۔ عمر میں بھی ناچیز سے آگے جاچکی تھی …… ان دنوں یہ ناچیز بھی کچھ کم ’ چیز‘ نہ تھا……کھلتے گندمی رنگ ‘ چھریرے بدن ‘ دراز بالو ں مگر واحد Disqualification‘ مونچھوں کے باوصف ‘ تھوڑا بہت ہیرو نما تھا۔
شانزے نے پہلے میرے گورے ‘ سیدھے سادے دوست پر کچھ طبع آزمائی کی ……پھر اُ سے اپنی سانولی ‘ خود سے بالکل برعکس( مگر جسمانی کشش میں بدرجہا بہتر)چھوٹی بہن کے لیے چھوڑ دیا جو ایک عرصہ تک شریفانہ طریقے سے اُسے ’’ راہِ سلوک‘‘ پر لانے کے لیے کوشاں رہی…… شانزے کا دوسرا نشانہ مَیں بنا۔ جلد ہی اُسے اندازہ ہوگیا کہ یہاں معاملہ بڑا مختلف ہے۔ایسے میں نازش کی آمد نے پہلے سے ہلکورے لیتے پانی میں گویا طغیانی برپاکردی(یا جَل میں آگ لگادی……؟؟)ارے…… مَیں تو آپ کو پری وش کا بتانے لگا تھا……ہاں یاد آیا …… ایک دن جب بالکل ابتداء ہی تھی ‘ شاید ایک آدھ ہفتہ گزرا تھا ‘ بندہ ابھی نامانوس تھا……شانزے اور نازیہ سر جوڑے اسٹاف روم میں کھسر پھسر میں مصروف تھیں……ایک کونے میں بہجت الگ تھلگ غالباً کاپیاں چیک کررہی تھی‘ نازیہ ایک انگریزی ناول کا مطالعہ ادھورا چھوڑکر خاصی اونچی آواز میں شانزے سے گِٹ پِٹ کررہی تھی ‘ میں سامنے خاموش بیٹھا تھا…… بات نمعلوم کہا ں سے کہاں جا پہنچی ۔نازیہ کہنے لگی : ’’ عیسائیوں کے دو گروپ ہیں‘ ایک رومن کیتھولک ‘ دوسرے پروٹسٹینٹ……‘ ‘ پھر شانزے کے استفسار پر بولی : ’’ رومن کیتھولک کا بانی تھا ‘ مارٹن لوتھر۔‘‘ مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے حسبِ عادت تصحیح کردی۔ نازیہ پہلے تو نہ مانی پھر سرخ ہو کر بولی : ’’ کوئی ریفرینس [Reference]ہے آپ کے پاس؟‘‘……مَیں نے کسی قدر تفصیل سے جواب دے دیا۔ نازیہ چپ ہوگئی …… مگر ہائے افسوس وہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے محتاط ہوگئی ‘ میرے سامنے کبھی بھی ایسا موضوع چھیڑنے سے گریز کرتی تھی اور مَیں اُس کی زیارت پر ہی اکتفا کرتا تھا ۔
شروع دنوں میں روزمرّہ کے تدریسی امور میں معاونت کے لیے سب سے پہلا ہاتھ بڑھانے والی شخصیت بہجت تھی۔گوری چٹّی ‘ اچھے نین نقش والی ‘ کچھ بے پروا انداز میں ‘ بھرپور سراپے کو لباس میں ٹھیک سے ملفوف نہ کرنے والی یہ شادی شدہ عورت مجھے بہت بھلی لگی ( اس کا شوہر ملک سے باہر تھا)-اس نے گاہے گاہے رسمی معمولات میں ہاتھ بٹایا…… پھر ……؟ نا ناں…… اُ س کا عبرت انگیز قصہ پھر سہی ……بقول شخصے Yet another story!…… دوسرا دستِ تعاون دراز کیا‘ مترنم ‘ متبسم ‘ پُر وقار اور ملنسار وجیہا نے ۔
وجیہا بہت کم گو مگر شگفتہ لڑکی تھی۔ اس کا شائستہ لہجہ کسی بھی مرد کو گرویدہ بنانے کے لیے کافی تھا۔کچھ دن گزرے تو دلِ ناداں پر یہ خبر بجلی بن کر گری کہ اُس کا کوئی قدر داں اُسے اپنانے میں پہل کرچکا ہے یعنی خاتون منگنی شدہ ہیں …… خیر ہمیں کیا…… زندگی پڑی تھی ابھی……
ایک دن دوسری جماعت کی ایک پیاری سی بچی نے کہ عادتاً ذرا جلد بے تکلف ہوگئی تھی‘ مجھے بھری جماعت میں ایک قیمتی خوشبو کا تحفہ پیش کیا۔پیکنگ کو ایک نظر دیکھ کر اندازہ ہوا کہ استعمال شدہ ہے‘ مگر میں نے یہ تحفہ لینے سے مصلحتاً گریز کیا‘ پہلے نرمی پھر سختی سے کام لیا……(بچی بھی چیچڑی کی طرح چپک گئی تھی ناں……)وائے نادانی کہ اسی پر بس نہ کیا ‘ میڈم زرمینہ کے دفتر جاکر انہیں بھی کہہ سنایا……انہوں نے بچی کو بلاکر سختی کی……مجھے اِدھر اُدھر سے معلوم ہوا کہ آنسہ وجیہا اس پیاری بچی کی سوتیلی بہن ہے……بچی نے بھی تصدیق کردی……
میں ابھی حالات کا صحیح تجزیہ نہیں کرپایا تھا یا شاید چڑھتی عمر میں جوش ‘ ہوش پر غالب آگیا تھا۔کچھ طے نہ کرسکا تھا کہ صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کیا ہے یا غلط موقع پر تیر درست نشانے پر چلایا ہے ……اس واقعے کے تیسرے دن اسکول پہنچا تو خلافِ معمول وجیہا نے میرے سلام کا بے رُخی سے جواب دیا‘ نہ فطری مسکراہٹ سے نوازا‘ نہ کچھ اور کہا……اُس کی آنکھیں سرخ اور متورم تھیں۔ کسی فری پیریڈ میں اسٹاف روم پہنچا تو اُس نے بلا تمہید کہا:
’’ سہیل صاحب …… آپ سے یہ امید نہ تھی۔‘‘
میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس کی شکل تکتا ہوا بھیڑ میں گم ہوگیا……اگلے دن یہ افسوس ناک خبر ملی کہ
Wajiha has gone with the wind!
وہ ا ستعفیٰ دے کر جاچکی تھی۔