“حسین اب بس نکل آؤ صدمے سے نگہت بہن نے اپنی مریم کا ہاتھ مانگا ہے دیکھو اللّٰہ کو تمہارا بیٹیوں کو بوجھ نہ سمجھنا ان کی اچھی پرورش کرنا یہ سب اتنا پسند آیا ہے کہ اس نے اک ہی دن میں کیسے چار چار بیٹیوں کا اک ساتھ نصیب کھول دیا ہے” حسین صاحب کو ہنوز حیرت میں دیکھ کر شکیل صاحب نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے کہا تھا
“مجھے سمجھ نہیں آ رہا میں کیا کہوں میں اپنے رب کی اس کرم نوازی کا شکر کیسے ادا کروں” بولتے بولتے حسین صاحب کی آواز رندھ گئی تھی
“حوصلہ کرو حسین یہ خوشی پہ موقع پہ تم رو کیوں رہے ہو” شکیل صاحب نے انہیں باقاعدہ آنکھیں دیکھائی تھیں
“یہ تو خوشی کے آنسو ہیں میں نے کھبی اپنی بیٹیوں کو بوجھ نہیں سمجھا کھبی یہ نہیں کہا میری مریم کی عمر نکلتی جا رہی ہے مجھے اس کے رشتے بارے میں سوچنا چاہیے مگر مریم کے پڑھائی کو خیر آباد کہنے سے لا کر آج تک میں لوگوں نے ڈھکے چھپے لفظوں میں جو جو باتیں بنائی انہوں نے میرا دل چھلنی کر دیا پھر اب مائرہ کا رشتہ مریم سے پہلے ہونے پہ بھی جتنے منہ اتنی باتیں ہوئیں” ان کے آنسو تسلسل سے بہہ رہے تھے اور وہ سب خاموشی سے انہیں سن رہے تھے
“ہمارا معاشرہ اتنا دوغلہ کیوں ہے؟ ہر نماز کے بعد دعا میں اللّٰہ سے اس کی رحمت مانگتے ہیں اور جب وہ بیٹیوں کی صورت میں اپنی رحمت سے نوازتا ہے تو لوگ منہ کیوں بنا لیتے ہیں جس کی زیادہ بیٹیاں ہوں اسے ترحم بھری نظروں سے کیوں دیکھتے ہیں کیوں ان کے نصیب سے ڈرتے ہیں جب ان کا نصیب لکھنے والی ذات خدا کی ہے” وہ کچھ دیر کے لیے رکے تھے ان کی باتیں سن کے شکیل صاحب، ان کی بیگم اور نگہت بیگم کی آنکھیں بھی بھیگ گئی تھیں
“لوگ اپنے لفظوں کو منہ سے نکالتے ہوئے یہ کیوں نہیں سوچتے ان کے یہ الفاظ سننے والوں کے دل پہ کیا حشر برپا کر رہے ہیں کھبی ہم نے سوچا ہے ان بیٹیوں کے دلوں پہ کیا گزرتی ہو گی جب ہم ان کے سامنے بیٹے مانگتے ہیں انہیں اپنا آپ کتنا ارزاں لگتا ہوں ان کا دل بھی کرلاتا ہو گا
لوگوں کی باتوں نے مجھے ڈپریشن کا مریض بنا دیا اک وقت ایسا بھی آیا کہ وحشتوں کے سمندر میں ڈوب گیا تھا مگر مجھے اس میں سے نکال کے لانے والی میری بیٹیاں ہیں اگر میں تم لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوں تو اس کی وجہ میری بیٹیاں ہیں جنہوں نے دن اک رات کر دیا تھا میری دیکھ بھال میں ہر وقت مجھے مصروف رکھنے کے بہانے ڈھونڈتی تھیں کہ میں کہیں فارغ بیٹھ کے کسی فضول سوچ میں نہ ڈوب جاؤں شاید اگر میرے بیٹے ہوتے تو وہ بھی میرا اتنا خیال نہ رکھتے جتنا میری بیٹیوں نے رکھا ہے مجھے فخر ہے کہ میں بیٹیوں کا باپ ہوں اللّٰہ کی رحمتوں سے بھرا پڑا ہے میرا گھر” ان کے لہجے میں ان سب بہنوں کے لیے محبت ہی محبت تھی
“بہن جی میری مریم میری سب بیٹیوں میں سب سے زیادہ صابر بیٹی ماں کی وفات کے بعد ساری ذمہ داریاں اس کے کندھوں پہ آ گئی تھیں اس کا بچپن بھی اس کی ذمہ داریوں کے نظر ہو گیا حتیٰ کہ میرے حصے کی بھی کئی ذمہ داریاں میری بچی نے نبھائی ہیں اس کی آنکھ میں اک آنسو بھی آتا ہے تو مجھے لگتا ہے میرا دل پھٹ جائے گا میری آپ سے التجا ہے اگر کھبی میری بچی سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے ماں بن کے معاف کر دیجیے گا” حسین صاحب نے روتے ہوئے نگہت بیگم کے آگے ہاتھ جوڑ دیے تھے
“ارے ارے بھائی صاحب یہ کیا کر رہے ہیں؟ ایسا کر کے مجھے شرمندہ مت کریں میری شروع سے ہی بیٹی کی خواہش تھی مگر اللّٰہ نے مجھے روحان کے بعد مزید اولاد سے نہیں نوازا اس طرح میری بھی کی خواہش خواہش ہی رہ گئی پڑوس میں شکیل بھائی سے اچھے تعلقات تھے ان کے بھی بس دو بیٹے تھے کوئی بیٹی نہیں تھی جس سے پیار جتا لیتی مگر یہاں آ کر میری بیٹی کی خواہش پوری ہو گی اک ساتھ سات سات بیٹیاں مل گئی ماشاءاللّٰہ سب ہی بہت سلجھی ہوئی اور پیاری ہیں مگر مریم کی اک الگ ہی جگہ بن گئی ہے میرے دل میں اس لیے تو اسے ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتی ہوں اور آپ اس کی طرف سے بےفکر رہے ہیں میں ایسے اپنی ہمیشہ بیٹی کی طرح رکھو گی اور مائیں تو اپنے بچوں کی بڑی سے بڑی خطا بھی معاف کر دیتی ہیں” نگہت بیگم نے ان کے ہاتھ نیچے کرتے انہیں مطمئن کرنے کے لیے لمبی وضاحت دی تھی جسے سن کے ان کے دل کو واقعی ہی اطمینان ہوا تھا
“ارے بھئی حسین نگہت بہن کو تو تم نے جواب دے ہی دیا باتوں باتوں میں لیکن ہم بیچارے ابھی وہی لٹکے ہیں جنہوں نے پہلے بات کی تھی” شکیل صاحب نے ماحول پہ چھائی اداسی دور کرنے کے لیے بات کو مزاح کا رنگ دیا تھا
“بھئی تمہیں لگتا ہے کہ میں تمہیں منع کر سکتا ہوں اس صورت میں کہ تم تو بچپن سے ہی ان پہ قبضہ جما کے بیٹھے ہو” حسین صاحب نے بھی اپنی آنکھیں صاف کرتے انہی کی ٹون میں جواب دیا تھا
“تم منع کر کے دیکھو تو سہی” شکیل صاحب کے آنکھیں دیکھانے پہ سب مسکرا دیے تھے
“رامش اور زینیہ دونوں کے ہی مزاج ماشاءاللّٰہ اک جیسے ہیں مگر منیہا اور تابش،،،، ” حسین صاحب نے جھجھکتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی تھی
“ارے بھائی صاحب ابھی بچے ہیں اور شرارتی بھی ہیں اس لیے آپس میں ان کی نوک جھونک چلتی رہتی ہے ان شاءاللّٰہ وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہو جائیں گے آپ بےفکر رہیں” چچی نے انہیں تسلی دی تھی رامش کی پسندیدگی کے بارے میں تو وہ پہلے ہی جانتی تھیں اور منیہا اور تابش کی لڑائیوں کے باوجود بھی انہیں یہ ہی لگا تھا کہ وہ میڈ فار ایچ ادر ہیں شکیل صاحب کے سامنے انہوں نے ہی زینیہ اور منیہا کا نام رکھا تھا
“تو پھر ہم تینوں رشتوں کے لیے ہاں سمجھیں؟” شکیل صاحب نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا تھا
“تھوڑی دیر صبر کرو ابھی آ کے بتاتا ہوں” حسین صاحب نے کرسی سے اٹھتے کہا ان کا رخ اپنی بیٹیوں کے کمرے کی طرف تھا
“ارے ابا آپ” وہ سب مائرہ کو تنگ کرنے میں مصروف تھیں جب حسین صاحب اندر داخل ہوئے وہ سب انہیں دیکھتے سیدھی ہوئی تھیں
“ہاں بس اک بات کرنی تھی” حسین صاحب نے بیڈ پہ بیٹھتے سنجیدگی سے کہا تھا
“کیا بات ہے ابا خیریت تو ہے؟” ان کی سنجیدگی کو دیکھتے مریم نے فوراً تشویش سے پوچھا تھا
“ہاں خیریت ہے وہ بس نگہت بہن نے روحان کے لیے تمہارا ہاتھ مانگا ہے اور شکیل نے رامش کے لیے زینیہ کا اور تابش کے لیے منیہا کا میں نے ہر کام میں تم لوگوں سے مشورہ کیا ہے اس لیے سوچا ابھی بھی کر لوں اور پھر انہیں جواب دوں” حسین صاحب کی غیر متوقع بات پہ وہ سب اپنی اپنی جگہ سے اچھلی تھیں
“ارے واہ ابا روحان بھیا کے لیے تو جھٹ پٹ ہاں کر دیں اتنے اچھے ہیں وہ” روش اپنی جگہ سے اٹھ کے جوش سے بولتی حسین صاحب کے پاس بیڈ پہ بیٹھی تھی مگر یہ جوش مریم کی گھوری پہ ڈھنڈا پڑ گیا تھا
“تم نے بتایا نہیں کچھ مریم” مریم کو چپ دیکھ کر حسین صاحب نے اسے دیکھا تھا
“میں کیا کہوں جو آپ کو بہتر لگے” مائرہ کی دفعہ تو بڑی بہن ہونے کے ناطے وہ بول گئی تھی اب اپنی دفعہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا بولے اس کے جواب کے بعد انہوں نے منیہا اور زینیہ کی طرف دیکھا تھا انہوں نے بھی مریم والا ہی جواب دیا تھا حسین خوشی سے ان کے ماتھے چوم کے باہر چلے گئے تھے
پیچھے وہ تینوں حیران اور پریشان بیٹھی تھیں اس اچانک کایا پلٹ پہ منیہا دل ہی دل میں تابش کو صلواتیں سنا رہی تھی کہ اس لیے اس نے اسے دوست بنایا تھا
“بھئی میں تو اپنی بیٹیوں سے پوچھ آیا ہوں انہیں کوئی اعتراض نہیں تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں تم لوگ اپنے بیٹوں سے پوچھ لو” حسین صاحب باہر آتے سرشاری سے بولے تھے ان کی بیٹیوں نے آج بھی ان کا مان بڑھایا تھا
“اس میں کیا بات ہے ابھی پوچھ لیتے ہیں روحان، رامش، تابش نیچے آؤ زرا” شکیل صاحب نے انہیں جواب دے کر سیڑھیوں کی طرف منہ کرتے اونچی آواز میں بولے تھے تھوڑی دیر بعد ہی وہ تینوں نیچے آ گئے تھے
“بھئی ہم نے تم لوگوں کے لیے اک فیصلہ لیا ہے یہ روحان کے لیے مریم کو مانگا ہے، رامش کے لیے زینیہ کو اور تابش کے لیے منیہا کو تم لوگوں کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟” شکیل صاحب نے تینوں کو دیکھتے پوچھا تھا اپنی مراد بھر آنے پہ روحان اور رامش کی تو بانچھیں کھل گئی تھیں اور تابش صاحب کو حیرانی کا جھٹکا لگا تھا وہ مانتا اس کے دل کی دنیا بدل رہی تھی منیہا کو لے کر مگر وہ اس کے بارے میں نجانے کیا سوچ رکھتی تھی
“ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے” اپنی اندرونی خوشی کو چھپاتے دونوں نے سنجیدگی سے سعادت مندی کا مظاہرہ کیا تھا یہ الگ بات تھی کہ دونوں کے سو والٹ کے روشن چہرے ان کی اندرونی کیفیت کے غماز تھے
“اور صاحبزادے آپ کو لگتا ہے کوئی اعتراض ہے؟” تابش کو چپ دیکھتے شکیل صاحب نے ہلکے پھلکے انداز میں پوچھا تھا لیکن اندر کہی وہ ڈر چکے تھے کہ کہیں وہ نہ ہی نا کہہ دے
“نہیں مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے” اس نے تمام سوچوں کو جھٹکتے جواب دیا تھا جس پہ شکیل صاحب نے اطمینان بھری سانس خارج کی تھی اور سب نے اک دوسرے کو مبارکباد دی تھی جن کے رشتے ہوئے وہ ابھی تک یقین اور بےیقینی کے درمیان ڈول رہے تھے سب کچھ اتنی جلدی ہو گیا انہیں اس بات کا یقین نہیں آ رہا تھا
__________________________
“اماں آپ نے اچھا نہیں کیا مائرہ آپی کی منگنی پہ نا جا کر” ان کی منگنی پہ غیر موجودگی کو دیکھ کر ارسلان کو غصہ تو بہت آیا تھا مگر ضبط کر گیا تھا اور اب گھر آتے اس نے ان سے پہلے یہی سوال کیا تھا
“میرے بغیر کون سا منگنی ہوئی نہیں؟ ہو گئی نا اب گھڑے مردے مت اکھاڑو” انہوں نے سر جھٹکتے کہا تھا
“پھر بھی اماں آپ نے اچھا نہیں کیا جانا چاہیے تھا آپ کو جانتی ہیں کتنی دفعہ ان سب نے آپ کے بارے میں پوچھا اور مجھے آپ کی طبیعت کا جھوٹ بولتے کتنی شرمندگی ہوئی تھی” اب کی دفعہ سارہ نے بھی شکوہ کیا تھا
“میرے جگہ تم جو گئی ہوئی تھی وہ بھی صبح سے” انہوں نے اس کے صبح سے وہی ہونے پہ طنز کیا تھا
“ہاں تو اس کے بھائی کا ہونے والا سسرال ہے کیا ہے اگر صبح سے گئی ہوئی تھی” ارسلان کی اطمینان بھری آواز پہ ان سب نے چونک کے اسے دیکھا تھا اس نے ٹھان لیا تھا آج آر یا پار کر کے رہے گا اور اس کی اماں کو اس کی بات ماننی ہی ہو گی
“کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا؟” انہوں نے کڑے تیوروں سے اس سے پوچھا تھا
“وہی جو آپ سمجھ رہی ہیں میں شادی اپنے پڑوس میں ہی کروں گا اور آپ کچھ دن تک نویرہ کے لیے میرا رشتہ لے کر حسین چچا کے پاس جائیں گی” اس کے دو ٹوک کہنے پہ ان پہ کچھ دیر کے لیے سکتہ طاری ہو گیا تھا
“کر دیا نا انہوں نے کوئی جادو ٹونا تم پہ میں بھی کہوں میرا بچہ بھاگ بھاگ کے ان کے گھر کیوں جاتا ہے دیکھنا ابھی میں ان کا گھر پورا کر کے آتی ہوں انہوں نے سوچ بھی کیسے لیا میں اپنا ہیرے جیسے بیٹا ان کے حوالے کر دوں گی” وہ شعلے اگلتے تیر کی تیزی سے اٹھیں اور گیٹ کی طرف بڑھی تھیں ان کے پیچھے سارہ اور ضبط کی انتہاؤں پہ پہنچا ارسلان بھی بھاگے تھے
“اماں میں کہہ رہا ہوں رک جائیں” اس نے انہیں آواز لگائی تھی مگر وہ ان سنی کرتے گیٹ کراس کر گئی تھیں اور بریک حسین صاحب کے گھر جا کر لگائی تھی جہاں شکیل صاحب اپنے بیگم اور بچوں کے ساتھ بس نکلنے لگے تھے روحان اور نگہت بیگم بھی انہیں الوداع کہنے کے لیے وہی کھڑے تھے انہیں اتنے غصے میں آتا دیکھ کر ان سب کو حیرانی ہوئی تھی
“ارے بہن جی آپ اتنی رات کو یہاں؟ آپ کی تو طبعیت خراب تھی اب کیسی ہیں آپ؟” حسین صاحب نے انہیں دیکھتے اک سانس میں ہی سارے سوال کر ڈالے تھے
“وہ چچا بس اماں مبارکباد دینے آئی تھیں منگنی پہ جو نہیں آ سکیں اس لیے نا اماں؟” ارسلان نے اماں کے برابر کھڑے ہوتے کہا تھا اور ساتھ ہی آنکھوں ہی آنکھوں میں انہیں ان کے ارادے سے باز رہنے کا اشارہ کیا تھا
“میں یہاں کوئی مبارکباد دینے نہیں آئی بس خبردار کرنے آئی ہوں اپنی بیٹیوں کو لگامیں ڈالو خوامخواہ میرے بیٹے پہ ڈورے ڈال رہی ہے” انہوں نے ہاتھ نچاتے کہا تھا
“اماں” ارسلان دبا دبا چیخا تھا جبکہ حسین صاحب کے ماتھے پہ بل پڑے تھے اور شور کی آواز سن کے وہ سب بھی باہر آئی ہوئی تھیں ارسلان کی اماں کی بات پہ مریم نے جن نظروں سے نویرہ کو دیکھا تھا اس کا دل کیا چلو بھر پانی میں ڈوب مرے
“بہن جی آپ ہوش میں تو ہیں آپ کو پتہ ہے آپ کیا کہہ رہی ہیں؟” حسین نے سخت لہجے میں سوال کیا تھا رامش، تابش، شکیل چچا، چچی، نگہت بیگم اور روحان سب انہیں ناگواری بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے
“ٹھیک کہہ رہی ہوں میرا بیٹا کہہ رہا ہے میں آپ کی اس نویرہ کے لیے رشتہ لے کر آپ کے گھر آؤں یقیناً یہاں سے شہہ ملی ہے تو اس کے حوصلے اس قدر بلند ہوئے ہیں نا” انہوں نے نویرہ کو کینہ توز نظروں سے گھورتے کہا تھا اور بس یہی تک تھی نویرہ کی برداشت اس کی آنکھ سے اک آنسو لڑھکا تھا
“بہن جی، اماں” ان کی بات سن کے حسین صاحب اور ارسلان بیک وقت بولے تھے دونوں اس وقت ضبط کی انتہائی حدوں کو چھو رہے تھے
“آپ لوگ یوں چیخ کے سچ کو دبا نہیں سکتے” اماں پہ تو ان کے سختی سے پکارنے کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا تھا ارسلان نے بےبسی سے اک نظر انہیں دیکھا اور خود کو اپنی جلدبازی پہ کوسا تھا تبھی اس کی نظر نویرہ پہ پڑی تھی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی اور آنسو تواتر کے ساتھ بہہ رہے تھے اور ان آنکھوں میں اپنے لیے بدگمانی دیکھ کر وہ تڑپ اٹھا تھا
“سچ یا جھوٹ کا مجھے نہیں پتہ میں اپنی بیٹیوں کو اچھی طرح جانتا ہوں وہ کیا ہیں کیا نہیں مجھے ان کا کریکٹر سرٹیفکیٹ کسی اور سے نہیں چاہیے” حسین صاحب کے ماتھے کی رگ پھولی تھی اور ہاتھوں کی مٹھیاں سختی سے بند تھیں جو ان کے ضبط کی گواہ تھیں
“خدا کا واسطہ ہے آپ کو اماں بس کر دیں اور چلیں یہاں سے” انہیں کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتا دیکھ کر ارسلان نے بےبسی سے باقاعدہ ان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے تھے
“کیوں چلوں آج اچھی طرح میں انہیں سبق سیکھا کے جاؤں گی تا کہ یہ آئندہ تمہاری طرف آنکھ اٹھا کے بھی نہ دیکھ سکیں” انہوں نے اک قہر بھری نظر ان پہ ڈالی تھی
“آج آپ مجھے بتا ہی دیں آپ کو مسئلہ کیا ہے ان کے ساتھ؟ کیوں آپ میری شادی نویرہ سے نہیں ہونے دیں گی” ارسلان بھی طیش میں آ گیا تھا اور اس غصے میں وہ یہ تک بھول گیا تھا کہ وہ کہاں کھڑا ہے
“مجھے مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ہی وجہ سے تُو جیل جاتے جاتے بچا تھا اس مریم کے لیے تُو نے اس لڑکے کا سر پھاڑا تھا اور اک لمحے کو ہمارے بارے میں نہیں سوچا تھا کہ اگر تُو جیل چلا جاتا تو ہمارا کیا ہوتا” انہوں نے مریم کی طرف اشارہ کرتے کہا تھا
“اماں اگر مریم آپی کی جگہ سارہ ہوتی آپ تب بھی یہی کہتیں؟” ارسلان نے بےیقینی سے انہیں دیکھتے پوچھا تھا اس کے تو وہم و گمان میں نہیں تھا کہ اماں اتنی پرانی بات کے لیے ان سے بیر پال کے بیٹھی ہوئی ہیں
“اللّٰہ نہ کرے میری سارہ کے ساتھ کچھ ایسا ہوتا شرم کر کچھ بہن ہے وہ تیری” اماں نے دہل کے اسے گھورا تھا
“بھئی یہ اچھا دوغلا پن ہے بھئی اپنی اولاد پہ بات ائے تو اللّٰہ نہ کرے اور دوسروں کی اولاد پہ چاہے آپ بالٹیاں بھر بھر کے کیچڑ کی اچھالیں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے” وہ استہزائیہ ہنسا تھا
“آپ کا مسئلہ تو پتہ چل گیا جو آپ کو ان سب بہنوں کے ساتھ ہے اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ میرے اور نویرہ کے رشتے میں کونسا کیڑا نظر آتا یے آپ کو” اس وقت وہ دونوں اپنی بحث میں الجھے باقی سب کو بھولے ہوئے تھے جو حیران و پریشان دونوں ماں بیٹے کو ٹکر ٹکر دیکھ رہے تھے
“مسئلہ یہ ہے کہ اس کی ماں بھی اپنی ماں کی اکلوتی بیٹی تھی کوئی بھائی نہیں تھا اس کا اب یہ سات بہنیں ہیں ان کا بھی کوئی بھائی نہیں ہے اور مجھے یقین ہے یہ سب بہنیں جیسے ماموں اور بھائی کی نعمت سے محروم ہیں ویسے بیٹے سے بھی محروم رہے گی میں کسی بھی قیمت پہ ایسی لڑکی سے اپنے بیٹے کی شادی نہیں کروں گی جو میرے بیٹے کی نسل آگے نہ بڑھا سکے” ان کی جہالت سے بھرپور باتیں سن کے ہر کوئی اپنی جگہ سُن ہو گیا تھا
“اماں” سارہ کے لبوں سے مرے مرے انداز میں یہ لفظ نکل تھا ارسلان اور باقی سب ابھی تک بےیقینی سے انہیں دیکھ رہے تھے
“پھر تو آپ کی بیٹی ہے اور بیٹا بھی صرف ایک ہی ہے اگر کل کلاں کو اسے کچھ ہو گیا پھر کیسے چلائیں گی اپنے اکلوتے بیٹے کی نسل؟ یا کل کو آپ کی بیٹی کی بھی بس بیٹیاں ہوں اور اس کا شوہر بھی اسے ہاتھ پکڑ کے آپ کے گھر چھوڑ گیا کہ یہ مجھے بیٹا نہیں دے سکی پھر کیا کریں گی؟” اس کے اتنے سفاکی سے کہنے پہ اماں کا ہاتھ پوری قوت سے اس کے چہرے پہ پڑا تھا اور باقی سب پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے اسے دیکھ رہے تھے جو تھپڑ کھانے کے بعد بھی سرخ آنکھوں کو اپنی ماں پہ ہی ٹکائے ہوئے تھا
“ہوا نہ درد جب بات اپنی اولاد پہ آئی جن کے بارے میں کب سے آپ اناب شناب بول رہی ہیں انہیں بھی ایسے ہی درد ہو رہا ہے ان کے باپ کو بھی ایسے ہی سینہ چھلنی ہو رہا ہے جیسے آپ کا ہو رہا ہے لوگ خود کو پڑھا لکھا اور جدید دور کا انسان کہتے ہیں مگر ان کی سوچ وہی زمانہ جاہلیت والی ہے جب بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا کرتے تھے بلکہ وہ بہت اچھا کرتے تھے پیدا ہوتے ہی بیٹی کو مار دیتے تھے یوں پل پل لوگوں کی باتوں سے مرنے سے بہتر تھا کہ وہ اک بار ہی مر جاتی تھیں” ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ارسلان بول رہا تھا جو اب بلکل ساکت ہو چکی تھیں
“یہ تو خدا کے فیصلے ہوتے ہیں کہ اس نے کسے بیٹے سے نوازنا ہے کسی بیٹی سے، کسے دونوں سے یا کسے نوازنا ہی نہیں ہے لیکن ہم انسان خود خدا بن بیٹھتے ہیں جس کی زیادہ بیٹیوں ہوں اس سے ہمدردی اور افسوس کا اظہار کر کر کے اسے اس بات کو سوچنے پہ مجبور کر دیتے ہیں کہ بیٹیاں اچھی نہیں ہوتیں اور جس کی اولاد نہیں ہوتی اس عورت کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے یہ جاننے کے باوجود کے اولاد تو مرد کے نصیب سے ہوتی ہے” اس کی باتوں پہ ان سب بہنوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے ہر وہ لمحہ ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرا تھا جس میں ہر کوئی حسین صاحب سے ہمدردی کا اظہار کر رہا تھا کہ ان کی بس بیٹیاں ہی بیٹیاں ہیں
“اور پتہ ہے یہ سب اک عورت ہی کرتی ہے اس معاشرے میں اک عورت ہی دوسری عورت کا جینا حرام کرتی ہے کھبی ساس کے روپ میں، کھبی بہو کے روپ میں، کھبی بھابھی کے روپ میں، کھبی نند کے روپ میں، کھبی جھٹانی کے روپ میں تو کھبی دیوارانی کے روپ میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ مرد خود ایسی باتوں کے طعنے عورت کو دے اگر ان کیس دیتا بھی ہے تو اس کے پیچھے بھی عورتوں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے” وہ بولتے بولتے ہانپ گیا تھا اور رک کر آنکھیں بند کر کے لمبے لمبے سانس لینے لگا تھا
“آپ نے آج مجھے کسی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں میں کیسے نظریں ملاؤں گا اس لڑکی سے جس سے میں محبت کا دعویدار تھا مگر سرِعام اس پہ انگلی اٹھائی گئی میری وجہ سے میں کیسے نظریں ملاؤں گا اپنی بہنوں سے جنہیں اتنی باتیں سننی پڑی میری وجہ سے، میں کیسے نظریں ملاؤں گا حسین چچا سے جن کی پرورش پہ انگلی اٹھائی گی میری وجہ سے اور اپنی بہن سارہ سے کیسے نظریں ملاؤں گا جس کے بارے میں میں نجانے کیا کیا بول گیا بس آپ کو آئینہ دکھانے کے لیے” وہ تھکے تھکے لہجے میں بول رہا تھا اس کی بات سن کے نویرہ تو روتے ہوئے اپنے روم کی بجائے بھاگتے ہوئے دوسرے روم میں جا کر بند ہو گئی تھی اماں سمیت سارہ اور ان سب نے تڑپ کے اسے دیکھا تھا جو اب باہر کی طرف جا رہا تھا
اماں نے اسے روکنا چاہا تھا مگر ان کے حلق سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی وہ بھی شرمندگی سے سر جھکائے باہر کی طرف بڑھی تھیں سارہ بھی اک شرمندہ نظر ان سب پہ ڈالتی اماں کے پیچھے ہو لی تھی
ان کے جانے کے شکیل چچا لوگ بھی خاموش سے چلے گئے تھے اس وقت کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کون کس کو کیا تسلی دے ان کے جاتے نگہت بیگم اور روحان بھی اوپر چلے گئے تھے اور باقی رہ گئے حسین صاحب اور ان کی بیٹیاں تو وہ نویرہ کو باہر نکالنے کے لیے دروازہ بجاتے رہے مگر اس نے کھولا نہیں تھا پھر کافی دیر بعد حسین صاحب نے ان سب کو روم میں جانے کا بولا اور خود بھی اس کمرے کے دروازے پہ اک تھکی تھکی نظر ڈالتے اپنے روم میں چلے گئے تھے
_________________________
اگلے دن نگہت بیگم اپنے گھر میں شفٹ ہو گئی تھیں جاتے ہوئے وہ مریم کی ہتھیلی پہ شگن کے پیسے رکھ گئی تھیں وہ منگنی کی بجائے ڈائریکٹ شادی چاہ رہے تھے اس لیے انہوں نے بس شگن کے پیسے رکھ دیے تھے
شکیل صاحب نے بھی یہی کیا تھا وہ بھی آ کر زینیہ اور منیہا کو پیسے دے گئے تھے ان کا ارادہ بھی زینیہ اور رامش کی شادی کا تھا جبکہ منیہا بھی پڑھ رہی تھی اور تابش بھی اس لیے مریم، مائرہ اور زینیہ کی شادی پہ ان کی باقاعدہ منگنی کا ارادہ رکھتے تھے
نگہت بیگم اور روحان نے رینٹ دینا چاہا تھا مگر حسین صاحب نے انکار کر دیا تھا ان کے لاکھ اصرار پہ بھی وہ نہیں مانے تھے ان کا کہنا تھا اگر وہ زیادہ عرصہ رکتے تو وہ لے بھی لیتے اب اک مہینے کا رینٹ لیتے وہ اچھے لگتے ہیں وہ بس یہی سمجھ لیں اک مہینہ اپنے سمدھیوں کے گھر رہ کے جا رہے ہیں
حسین صاحب کے نہ ماننے پہ بالآخر ہار انہیں ہی ماننی پڑی تھی روحان جاتے ہوئے اک دفعہ مریم سے بات کر لینا چاہتا تھا مگر گھر کے افسردہ ماحول کو دیکھتے اس نے اپنا ارادہ بدل لیا تھا اور اسے نظروں میں اچھی طرح بساتے وہ اپنے گھر آ گیا تھا
روش ان کے جانے کا سن کے بہت روئی تھی کیونکہ روحان جو جا رہا تھا روحان نے اسے بہت مشکلوں سے چپ کروایا تھا یہ وعدہ کر کے کہ وہ روز اس سے ملنے آیا کرے گا
ان کے گھر شفٹ ہوتے ہی پہلی فرصت میں ارسل نے ان کے گھر دھوا بولا تھا اور روحان کی بات پکی ہونے کا سن کے اب وہ اس کے کمرے میں لیٹا دکھی گانے سن رہا تھا
“خیر یہ دکھی آتما کیوں بن گئے ہو اچانک؟” روحان نے اسے مشکوک نظروں سے گھورتے پوچھا تھا
“بس کیا بتاؤں میرے یار کی شادی ہو رہی ہے اور میں ویسے ہی کنوارہ پھر رہا ہوں یہ تو زیادتی ہے نا” ارسل نے زمانے بھر کا دکھ اپنے لہجے میں سمایا تھا
“ابے میری بھی بس بات پکی ہوئی ہے میں بھی کنواروں میں ہی شامل ہوں” روحان نے دانت پیستے کہا اور ساتھ ہی اس کی کمر پہ اک جھانپڑ لگایا تھا
“مجھے نہیں پتہ میری بات بھی پکی کروا” ارسل نے اسے تقریباً جھنجھوڑ ڈالا تھا
“تیرا دماغ تو نہیں چل گیا کیا بکواس کر رہا ہے؟ اگر بات پکی کروانی ہے تو اپنے گھر والوں سے رابطہ کر میرا دماغ کیوں کھائے جا رہا ہے؟” روحان نے اسے پیچھے دھکا دیا تھا
“یار جانتا تو ہے وہ شیرنی دو ملاقاتوں میں تیرے یار کو چاروں شانے چت گرا گئی ہے پھر بھی چسکے لگا رہے ہے” ارسل نے اسے گھورا تھا
“ہاں تو تُو اپنے گھر بات کرت گا تو وہ لے کر جائیں گے نا پرپوزل”
“وہ تو لے جائیں گے لیکن آنٹی یا تم میں سے کوئی ساتھ ہو تو انکار کے چانسز کم ہو سکتے ہیں” ارسل نے اس کے دماغ کی دہی کرنے کی وجہ بتائی تھی
“ہوں کرتا ہوں امی سے بات تُو اپنے گھر بات کر اچھا ہے تیرے پرپوزل سے شاید ان کے گھر چھائی اداسی تھوڑی کم ہو” اسے اونچی آواز میں کہتے آخر میں بڑبڑایا تھا
“وہ تو میں کر لوں گا یہ تُو کیا بڑبڑا رہا ہے؟” ارسل نے مشکوک لہجے میں پوچھا تھا
“کچھ نہیں کر رہا تُو بس اپنے گھر بات کر اور رشتہ لے کے جانے کی تیاری کر” روحان نے کہا تو ارسل ہائے کہتا بیڈ پہ ڈھیر ہو گیا تھا اس کی اس حرکت پہ روحان نے نفی میں سر ہلایا تھا
________________________
اس واقعے کو دو تین روز گزر چکے تھے مگر حسین صاحب کے گھر اب تک خاموشی کا راج تھا ہر کوئی اک دوسرے سے نظریں چرائے ہوئے تھا خصوصاً نویرہ نے حسین صاحب کے سامنے جانا بلکل ہی چھوڑ دیا تھا نہ کمرے سے نکلتی نہ ہی سب کے ساتھ بیٹھ کے کھانا وغیرہ کھاتی تھی
حسین صاحب خاموش تھے کہ اک دو دن میں وہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی مگر اسے ہنوز کمرے میں بند دیکھ کر وہ تشویش کا شکار ہوئے تھے آج وہ سٹور سے گھر آئے تو حسبِ معمول اونچی آواز میں سلام کیا تھا جسے سن کے سب باہر آئی تھیں سوائے نویرہ کے یہ دیکھ کر حسین صاحب کا دل دکھا تھا
وہ سب وہی بیٹھنے کا کہہ کے خود روم میں گئے تھے تا کہ نویرہ سے بات کر سکیں وہ روم میں داخل ہوئے تو نویرہ پہ دونوں گھٹنوں پہ سر ٹکائے بیڈ پہ بیٹھی کسی نادیدہ نقطے کو گھورنے میں اتنی مصروف تھی کہ حسین صاحب کی آمد کا بھی پتہ نہ چل سکا
“کیا سوچ رہا ہے میرا بچہ؟” انہوں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے نرمی سے پوچھا تو نویرہ نے چونک کے سر اٹھایا تھا اور حسین صاحب کو دیکھ کر دوبارہ نظریں جھکا لی تھیں
“کچھ نہیں” اس نے آہستگی سے جواب دیا تھا
“کیا بات ہے میرا بچہ اپنے ابا سے ناراض ہے جو اتنے دنوں سے شکل نہیں دیکھائی” انہوں نے اس کے چہرے پہ نظریں جمائے اک اور سوال پوچھا تھا
“نہیں ابا میں تو شاید خود سے ہی ناراض ہوں” وہ سرگوشی میں بولی تھی جسے حسین صاحب بمشکل سن پائے تھے
“میرا بچہ اس دن جو بھی ہوا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں تھا” انہوں نے گہرا سانس بھرتے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا تھا ان کے یہ کہنے کی دیر تھی اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو نکلے تھے
“ابا میں نے ارسلان کو کوئی شہہ نہیں دی تھی میں تو اسے ہمیشہ بس دوست سمجھا تھا وہ اس دن آنٹی جو بھی کہہ رہی تھیں وہ غلط تھا میں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ہے کہ میری وجہ سے کھبی آپ کی تربیت پہ انگلی نہ اٹھے آپ جانتے ہیں نا ابا میں ویسی نہیں ہوں” ان کا ہاتھ پکڑ کے وہ زاروقطار روتے ہوئے بول رہی تھی
“ہاں میرا بچہ مجھے خود سے زیادہ یقین ہے اپنی بیٹیوں پہ میں جانتا ہوں ارسلان نے ان سے جو بھی کہا وہ اس کا اپنا عمل ہے میری بیٹیاں کیا ہیں مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے” اس کے آنسو صاف کرتے حسین صاحب نے اسے دلاسا دیا تھا جبکہ نویرہ ابا کہتے اک دفعہ پھر رو دو تھی اور حسین صاحب نے بھی اسے رونا دیا تا کہ اپنے دل کا غبار نکال لے جب رو رو کے تھک گئی تو خود ہی چپ کر گئی تھی
“ابا آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں نا؟” اس نے سوں سوں کرتے پوچھا تھا
“نہیں میرا بچہ جب تمہاری غلطی ہی نہیں تو میں تم سے ناراض کیوں ہوں گا” ان کے جواب پہ اسے تھوڑا اطمینان ہوا تھا
“اچھا چلو اب جلدی سے ہاتھ منہ دھو کے باہر آؤ تا کہ ہم اپنی شام کی چائے پی سکیں” حسین صاحب نے کہا تو اس نے سر ہلایا تھا حسین صاحب بھی اس کا سر تھپتھپا کے باہر چلے گئے تھے
وہ ابھی صحن میں ہی تھی گیٹ کی بیل بجی تھی وہ بیٹھنے کی بجائے گیٹ کی طرف بڑھ گئے تھے گیٹ کھولا تو سامنے نگہت بیگم نظر آئی اور ساتھ روحان حسین صاحب نے خوش دلی سے ان کا استقبال کیا تھا اور انہیں لیے اندر کی طرف بڑھے تھے وہ سب انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھیں مریم تو مل کے کچن میں چلی گئی تھی جبکہ باقی سب ان کے پاس ہی بیٹھ گئی تھیں
“بھائی صاحب مجھے آپ سے اک ضروری بات کرنی تھی” نگہت بیگم نے کہا تو حسین صاحب نے اک نظر انہیں دیکھا تھا جس کا مطلب تھا کہ وہ وہاں سے اٹھ جائیں ان کا اشارہ سمجھتے وہ سب منہ بسورتے وہاں سے چلی گئی تھیں
“بھائی صاحب آپ کو یاد ہے جب میں بیمار ہوئی تھی تو روحان کا اک دوست ارسل میری عیادت کے لیے آیا تھا” نگہت بیگم نے ان کا تعارف کروانے کے لیے بات کا آغاز کیا تھا
“ہاں ہاں ماشاءاللّٰہ بہت نیک بچہ تھا وہ” حسین صاحب کو اس کا آنکھیں جھکا کے آنا اور پھر جانا یاد آیا تو وہ خوش دلی سے بولے تھے
“میں اسی کے سلسلے میں اک عرضی لے کر آئی ہوں” نگہت بیگم نے کہا تھا
“میں سمجھا نہیں کچھ؟” حسین صاحب نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا تھا
“میں سمجھاتی ہوں نا بھائی صاحب میں نے سوچا کہ ماشاءاللّٰہ آپ کی سب بیٹیوں کے رشتے ہو گئے روش تو چھوٹی ہے بس فاتینا رہ گئی ہے تو میں نے سوچا کیوں نا اس سلسلے میں میں آپ کی مدد کروں” انہوں نے تمہید باندھی تھی حسین صاحب ہنوز انہیں ناسمجھی سے دیکھ رہے تھے
“خدا گواہ ہے بھائی صاحب میں نے آپ کی بچیوں کو بلکل اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھا ہے اور بہت سوچنے کے بعد یہ عرضی لے کر آئی ہوں” بولتے ہوئے انہوں نے تھوڑا توقف لیا تھا
“میں نے روحان کے دوست ارسل کو فاتینا کے لیے پسند کیا ماشاءاللّٰہ وہ بہت سلجھا ہوا بچہ ہے میرے روحان کا بچپن کا دوست ہے اس کے بارے میں سب کچھ پتہ ہے اچھا گھرانہ ہے ماشاءاللّٰہ کھاتے پیتے لوگ ہیں وہ ارسل میرے روحان کا ہی بزنس پارٹنر ہے اور سب سے بڑھ کا بہت اچھا انسان ہے وہ” نگہت بیگم نے اپنی بات ان کے سامنے رکھتے انہیں ہر طرح سے مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی اور حسین صاحب تو بس حیرت سے گنگ تھے انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے رب کا شکر کیسے ادا کریں انہیں اک بھی بیٹی کے لیے رشتہ تلاش کرنے کے لیے تردد نہیں کرنا پڑا تھا اللّٰہ نے ان کے صبر کے جواب میں انہیں اک دفعہ ہی نواز دیا تھا
“میں نے ان سے پہلے اس لیے بات نہیں کی کہ پہلے آپ سے کر لوں پھر انہیں کچھ کہوں گی وہ بھی اپنے بیٹے کے لیے لڑکی تلاش کر رہے ہیں انہوں نے مجھے بھی کہا ہے اگر کوئی لڑکی ہو نگاہ میں تو بتائیے گا تبھی میرے دماغ میں فاتینا آئی تھی مگر میں نے سوچا پہلے آپ سے بات کر لوں مجھے یقین ہے انہیں فاتینا پسند آئے گی اور آپ کو ارسل” انہیں چپ دیکھ کر نگہت بیگم مزید بولی تھیں اور یہ بات سچ تھی کہ ارسل کی والدہ اک دو دفعہ نگہت بیگم سے کہہ چکی تھیں کہ کوئی لڑکی ہو نگاہ میں تو بتائیے گا وہ ارسل کے لیے لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں
“انکل آپ لڑکے کی ٹینشن مت لیں کہ وہ کیسا ہو گا وہ میرا بیسٹ فرینڈ ہے اور دوستوں سے بہتر اک دوسرے کو کون جان سکتا ہے آپ بےفکر رہیں” روحان نے بھی اپنے تئیں انہیں تسلی دی تھی
ارسل کے گھر بات کرنے سے پہلے روحان نے نگہت بیگم کو ارسل کی خواہش کے بارے میں بتایا تھا اور نگہت بیگم نے اسے گھر بات کرنے سے منع کیا تھا کہ وہ اس کے گھر والوں سے خود بات کریں گی اس رات جو کچھ ہوا تھا اسے دیکھنے کے بعد وہ فاتینا کے لیے کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھیں اس لیے انہوں نے پہلے خود حسین صاحب سے بات کرنے کی ٹھانی تھی
“جب آپ دونوں گرینٹی دے رہے ہیں تو پھر آپ کر لیں بات اور اگر وہ آنا چاہیں تو لے آئیے گا” حسین صاحب کے اقرار پہ ان دونوں نے اطمینان بھری سانس خارج کی تھی اک معرکہ تو سر ہوا تھا
پھر تھوڑی دیر میں مریم چائے لے آئی تھی نگہت بیگم نے باقیوں کو بھی باہر بلا لیا تھا اور اب سب بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے اور روحان حسین صاحب کی موجودگی کی وجہ سے اپنی نظروں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو بار بھٹک کے مریم کی طرف جا رہی تھیں
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...