دو دن سے مسلسل جاری، تھوڑے تھوڑے وقفے سے برف باری ہو رہی تھی ۔ دو سال کے بعد موسم وہائٹ کرسمس کی طرف جاتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ رات کا سناٹا شہر پر مسلط تھا۔ ہملٹن کی بڑی سی کونڈوز (Condos) بلڈنگ میں بھی سناٹا تھا۔ کھڑکی کے شیشے سے نائٹ بلب کی ہلکی ہلکی روشنی اکثر فلیٹس میں سے جھلک رہی تھی۔ البتہ اپارٹمنٹ نمبر ۳۲۰کی تیز روشنی سے کھڑکی کے شیشے جھلملا رہے تھے۔ کبھی ہلکی باتوں کی آوازیں اور کبھی دبے دبے قہقہوں سے سناٹا ٹوٹ ٹوٹ جاتا اور فضا مر تعش ہو جاتی۔
جیسیکا (Jessica) کے گھر آج اس کے سارے بھائی بہن جمع تھے۔ ہر سال یہ سارے بھائی بہن کسی ایک کے گھر جمع ہوتے، فیملی گیڈٹوگیدر (Family get together) کے لیے۔ دو سال سے یہ ملا قات ملتوی ہوتی جا رہی تھی، کوئی ایک کسی مجبوری کے تحت آنے سے منع کرتا تو دوسرے بھی پیچھے ہٹ جاتے یہ کہہ کر کہ سب اکٹھے ہوں تو اچھا لگے گا۔
اس مرتبہ جیسیکا جو سب سے بڑی بہن تھی، اس نے بہت پہلے سے سب کو آگاہ کر دیا تھا ۲۲؍ دسمبر کو این کی سوئیٹ سکسٹین (Sweet Sixsteen) ہے، سب کو شریک ہونا ہے اور اس مر تبہ کرسمس بھی ہم سب ساتھ منا ئیں گے۔ جیسیکا سے سب بھائی بہن بہت محبت کر تے تھے۔ ماں کے مرنے کے بعد اس ہی نے سارے بہن بھائیوں کو سنبھا لا تھا۔ اس کی بات کو کوئی بھی نہیںٹالتا تھا۔
مارک اور رابرٹ کل نیویارک سے اپنی فیملی کے ساتھ پہنچ چکے تھے اور آج کرسٹین بھی اپنے شوہر ڈیوڈ اور بچوں کے ساتھ واشنگٹن سے آگئی تھی۔ اس وقت سب اکٹھے بیٹھے تھے۔ بات چیت، ہنسی مذاق، جملے بازی چل رہی تھی۔ ایرک (Erick)، جیسیکا کا شوہر اور مارک دونوں شطرنج کی بساط بچھائے بیٹھے تھے۔ ڈیوڈ اور مارک کی بیوی نورا (Nora) بات چیت اور ہنسی مذاق کے ساتھ ساتھ شطرنج میں بھی دل چسپی لے رہے تھے۔ نورا، ایرک کا ساتھ دے رہی تھی اور ڈیوڈ مارک کا۔
’’بچے ابھی تک سوئے نہیں، کافی رات ہوگئی ہے۔‘‘ رابرٹ جو ہلکی آواز میں ٹی وی دیکھ رہا تھا، ٹی وی پر سے نظر ہٹاتے ہوئے اپنی بیوی الیجا (Elija) سے مخاطب ہوا۔
’’بچے تو کب کے سوچکے ہیں۔ آپ کو اندازہ ہے اس وقت ایک بج رہا ہے۔‘‘ الیجا نے کہا۔ رابرٹ جیسیکا کاچھوٹا بھائی تھا۔ خاموش طبیعت، بہت کم بولتا۔ اس کے برعکس الیجا بہت خوش مزاج، ہنسنے بولنے والی تھی۔سب سے اچھی بات اس میں یہ تھی کہ وہ اپنے شوہر رابرٹ کو بہت Supportکرتی تھی۔ ہال میں لگے بڑے سے خوب صورت گھڑیال نے اپنی سریلی آواز میں ایک بجنے کی اطلاع دی۔ ’’لیجیے جناب! گھڑ یال نے بھی میری بات کی گواہی دے دی۔‘‘ اس نے رابرٹ سے ہنستے ہوئے کہا۔
’’موم! کرسٹین آنٹی کہاں ہیں؟ مجھے ان سے بہت ساری باتیں کرنا ہیں۔‘‘ این نے جیسیکا سے پوچھا ۔
’’تم اب تک کہاں تھیں؟‘‘ جیسیکا نے الٹا این سے سوال کر لیا۔
’’میں کمپیوٹر پر کام کر رہی تھی۔‘‘ این نے کہا۔
اس سے پہلے کہ کوئی کچھ بولتا، ڈیوڈ نے کہا، ’’وینڈی کو سلا رہی ہوگی۔ جب تک وہ وینڈی کے ساتھ نہ لیٹے، وینڈی نہیں سوتا۔‘‘ پھر ہنستے ہوئے بولا، ’’کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ وینڈی کو سلاتے سلاتے خود سو جاتی ہے۔ اوروینڈ ی ا س کے پاس سے بھاگ جاتا ہے۔‘‘
وینڈی کرسٹین کا اکلوتا بیٹا تھا، اس کی دوسری بیٹی روز کے پانچ سال بعد پیدا ہوا تھا۔ سب کا بہت لاڈلا تھا۔ ماں باپ بہنیں سب اس پر جان چھڑکتے تھے۔سب کے لاڈ پیار کی وجہ سے وہ تھوڑا خود سر ہوگیا تھا۔
اتنے میں کرسٹین آگئی۔ ’’وینڈی سو ہی نہیں رہا تھا۔ بڑی مشکل سے سویا ہے۔ اپنے بیڈ کو، پِلو کو، کمفورٹر کو، بڑے والے بیئر کو بہت مِس کر رہا تھا۔ اسے یہ سب کچھ چاہیے تھا۔‘‘ پھر اس نے جیسیکا کے ہاتھ سے ٹرے لیتے ہوئے کہا، ’’ سسٹر آپ بیٹھیں میں سب کو کافی دیتی ہوں۔‘‘
’’آنٹی مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنا ہیں۔ ‘‘ این نخروں سے کرسٹین سے بولی۔
کرسٹین نے سب کو کافی دی، ٹرے میز پر رکھی، اپنا کافی کا مگ ہاتھ میں اٹھایا اور این کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی، ’’اب بتائو کیا بہت ساری باتیں ہیں۔‘‘ کرسٹین نے این کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’ آنٹی! مجھے بہت ٹینشن ہو رہی ہے۔میری سوئیٹ سکسٹین میں صرف تین دن باقی ہیں اور ابھی اتنا سارا کام باقی ہے۔ کیسے ہوگا؟‘‘ این کی کرسٹین سے بہت دوستی تھی۔ این اس سے اکثر باتیں شیئر کرتی تھی۔
’’کیک کا بھی موم کچھ نہیں بتا رہی ہیں، کہہ رہی ہیں کہ ’سرپرائز‘ ہے۔ اس کے علاوہ ہال کا ڈیکوریشن ہے۔ مووی بچپن سے لیکر اب تک کی جو ہال میں چلائی جائے گی، Games سیلیکٹ کرنا، تحفے خریدنا۔ کیسے ہو ں گے یہ سب کام؟‘‘ این واقعی بے حد فکر مند نظر آ رہی تھی۔
’’کیک کی تم بالکل فکر نہ کرو۔ تم جانتی ہو سسٹر ہر کام کتنی ذمے داری سے کرتی ہیں۔‘‘ کرسٹین نے این کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے پیار سے کہا۔
’’ہم سب لوگ اسی لیے تو آئے ہیں۔ تم فکر کیوں کر رہی ہو۔ تمھاری ’سوئیٹ سکسٹین‘ ہم سب بہت شان دار طریقے سے منائیں گے۔‘‘ الیجا نے این کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’این! تم ہمیں اپنا وہ ڈریس تو دکھائو جو تم اس دن پہنو گی۔‘‘ کرسٹین نے کہا۔
’’میں ابھی آئی۔‘‘کرکے این بھاگتی ہوئی گئی اور تھوڑی ہی دیر میں اپنا ڈریس لے کر آگئی۔
’’اوہ مائی گارڈ! کتنا خوب صورت ڈریس ہے، ہما ری این تو اس میں شہزادی لگے گی۔‘‘ کرسٹین نے ڈریس این کے جسم سے لگاتے ہوئے کہا۔
’’واقعی بہت حسین ڈریس ہے۔‘‘سب نے ہی تعریف کی۔
’’مگر آنٹی! دیکھیں اس میں بھی نیچے بارڈر پر نگ لگنے باقی ہیں۔‘‘ این نے کہا۔
’’اس ڈریس کو کل ہی میں نگ لگاکر Complete کر دوں گی۔ اور تمھارے باقی کام بھی سب ہو جائیں گے، تم بالکل فکر مت کرو۔ البتہ تم اپنی چیزیں دیکھ لو جیولری، شوز، وغیرہ۔‘‘ کرسٹین نے اسے لپٹاتے ہوئے کہا۔
’’اور میری مووی جو ہال میں چلے گی؟‘‘ این نے پھر فکر مندی ظا ہر کی۔
’’ وہ میں دیکھ لوں گا۔‘‘ رابرٹ جو خاموشی سے بیٹھا سب سن رہاتھا، بولا۔
’’اتنے میں شور ہوا، معلوم ہو ا مارک نے بازی جیت لی۔ ڈ یوڈ خوشی سے چلایا، ’’ہم جیت گئے۔‘‘
’’آپ لو گوں نے چیٹنگ کی ہے۔‘‘ نورا نے کہا۔
ایرک صرف مسکرا رہا تھا، بولا، ’’کسی کو تو ہارنا تھا، ہم ہی ہار گئے۔‘‘
’’آہستہ پڑوسی اُٹھ جائیں گے۔‘‘ جیسیکا نے کہا۔ وہ جانتی تھی پڑوسی خاصی حد تک نک چڑھے ہیں۔ رات کو ہلکی سی آواز پر یا تو اپنی چھت پر نوک (Knock) کریں گے یا دروازے پر آجائیں گے۔ ’’تین بجنے والے ہیں اب ہمیں سو جانا چاہیے۔‘‘ جیسیکا نے کہا۔ ایرک این اور جیسیکا ہال میں ہی سوگئے۔
اگلے دن چھٹی تھی، سب دیرتک سوتے رہے۔ کرسٹین کی چھوٹی بیٹی روز نے ماں کو جگاتے ہو ئے کہا، ’’موم! مجھے بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ پھر اچانک اس کی نظر پڑی اس نے دیکھا بیڈ پر ماں کے ساتھ وینڈی نہیں ہے۔
’’وینڈی کہاں ہے موم؟‘‘ روز نے ماں کو ہلاتے ہوئے کہا۔
’’یہیں کہیں ہوگا۔ یا ٹی وی دیکھ رہا ہوگا۔‘‘ کرسٹین نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا۔ تھوڑی دیر کے بعد روز اور کرسٹین کی بڑی بیٹی لیزا دونوں ماں کے پاس آئیں اور اس کو بتایا کہ وینڈی کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔ کرسٹین فوراً گھبرا کر اٹھی، اس نے اور ڈیوڈ نے پورا گھر دیکھ ڈالا، جیسیکا اور ایرک بھی اُٹھ گئے۔ بچوں سے بھی پوچھ گچھ کرلی، کسی نے بھی وینڈی کو نہیں دیکھا۔ سب لوگ پریشان تھے۔ جیسیکا کسی کام سے دروازے کی طرف گئی۔
’’یہ کنڈی کیسے کھلی ہوئی ہے؟ میں نے رات خود اپنے ہاتھ سے کنڈی بند کی تھی۔‘‘ جیسیکانے دروازے کی کھلی کنڈی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
وینڈی کی تصویر دکھا کر پڑوسیوں سے پوچھ گچھ کی۔ ہر ہر فلور پر ایک ایک گھر میں سب لو گوں سے پوچھا۔ سیکیورٹی والے سے پوچھا اس نے کہا، میں تمام وقت اپنے کمرے ہی میں تھا۔ کھڑکی کے شیشے سے مسلسل دیکھ رہا تھا۔ بلڈنگ میں لگے ہوئے کیمرے میں بھی وینڈی نہیں تھا۔‘‘ سب لوگ بے حد پریشان تھے کہ وینڈی کہاں چلا گیا۔ 911 اور پولیس بھی آچکی تھی۔ وہ لوگ بھی پوچھ گچھ اور تلاش میں لگے ہوئے تھے۔ میڈیا بھی حرکت میں آگئی تھی۔
’’یاخدا! وینڈی کہاں ہے؟‘‘ کرسٹین صدمے سے زخم زخم ہو رہی تھی۔ روز اور لیزا کا رو رو کر برا حال ہو رہا تھا۔ ڈیوڈ بھی بیٹے کی محبت میں صدمے سے نڈھال ہو رہا تھا، لیکن اپنے آپ کو سنبھال رہا تھا۔
وینڈی، ماں باپ اور بہنوں کا بے حد چہیتا تھا۔ روز کے پانچ سال بعد پیدا ہوا تھا۔ سب اسے جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ وہ اکثر کچھ ایسی حرکتیں کر جاتا تھا جو اس کی عمر کے بچے نہیں کرتے تھے۔ اسے ’سرپرائز‘ دینے کا بھی بہت شوق تھا۔
ایک دفعہ وارڈ روب کے اندر چھپ گیا سب ڈھونڈ ڈھونڈ کر پریشان ہوگئے، 911 کو کال کرنے ہی والے تھے کہ آکے کھڑا ہوگیااورکہنے لگا، ’سرپرائز۔‘
پانج بج رہے تھے، شام کے دھندلکے گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ پوری رات اور پورا دن وقفے وقفے سے اسنو ہوتی رہی تھی۔ وینڈی کے نہ ملنے کی وجہ سے سب کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ اب تک اس کو تلاش کرنے کی ہر کوشش ناکام ہو چکی تھی۔
سیکیو رٹی والے نے دروازہKnock کیا۔ ایرک باہر گیا، ’’آپ کو پولیس انسپکٹر بلا رہا ہے۔‘‘ مارک، رابرٹ اور ڈیوڈ بھی ایرک کے ساتھ گئے۔
’’ہمارے آدمی نے دیکھا، لان میں اسنو میں سے کسی کا ہاتھ نظر آ رہا ہے۔ ہم نے ضروری سمجھا آپ کو بھی ساتھ لے لیں۔‘‘ پولیس انسپکٹر نے کہا۔
لان میں دیوار کے ساتھ لگا ایک بچے کا ہاتھ نظر آ رہا تھا۔ جلدی جلدی اسنو ہٹائی گئی۔ اسنو کے نیچے دبا ہوا وینڈی تھا، کچھ ہی فاصلے پر ایک چھوٹا سا شویل (Shovel) اسنو میں نصف دبا ہوا پڑا تھا ۔ یہ شویل کچھ دن پہلے ہی اسے اس کی موم نے خرید کر دیاتھا ۔ اور کہا تھا، ’’ اسنو صاف کر نے میں اس شویل سے تم بھی میری مدد کرنا۔‘‘
وینڈی کو فوراََ اسپتال پہنچایا گیا، مگر وہ تو اس دنیا کو چھوڑ کر جا چکا تھا۔ واشنگٹن کے بجائے ٹورانٹو ہی میں اس کی تد فین کی گئی۔ ایسا محسوس ہو تا تھا اس کے جنا زے میں پورا شہر آگیا ہے۔ وینڈی کو وقت سے بہت پہلے ’’وہائٹ کرسمس‘‘ مل گئی۔ جس کے لیے دو سال سے لوگ ترس رہے تھے۔ تصور میں ہر جاننے والے کی نظروں میں وہ کھڑا اپنی مخصوص آواز میں کہہ رہا تھا، ’سرپرائز۔‘