ایئر پورٹ کی شاندار اور مشہور ڈیوٹی فری دوکانوں میں نیلے یونیفارم میں کام کرنے والی لڑکیاں خریداری میں مسافروں کی مدد کر رہی تھیں۔ ٹرمینل ون کی انڈیگو ایئر لائنس کا ابھی اعلان نہیں ہوا تھا۔ صائمہ دوکان سے باہر نکل کر ذرا سُستانے کو اور وقت گزارنے کو قطار میں جُڑی ہوئی کُرسیوں کی طرف بڑھی۔ ایئر پورٹ کی گراؤنڈ سروس میں کام کرنے والی لڑکیاں پوری آستین کے شرٹ اور اسکرٹ میں پیروں میں سٹاکنس اور جوتے پہنے ہوئے بڑی چستی کے ساتھ گھوم رہی تھیں۔ کچھ عَمِراتی گراؤنڈ ہاسٹیس عورتیں کالے برقعے میں اپنے کھُلے چہرے کو سمائے ہوئے آتی جاتی دکھائی دے رہی تھیں۔ کچھ دوری پر کالی شرٹ پہنے ہوئے سُرخ بالوں اور نیلی آنکھوں والا شخص دوسری بار صائمہ کو دیکھ کر مسکرایا تھا۔ وہ سر تا پا تھرّا گئی۔ اس کی آنکھوں کے آگے بھولے ہوئے منظر ناچنے لگے۔ وہ اپنے خیالوں میں دور تک چلی گئی۔ اب اس کے سامنے مرد نہیں ایک برقعہ پوش عورت تھی۔ وہی عورت جس کا پیر اس کی اپنی گیلری سے کودتے ہوئے پھسل گیا تھا۔ وہ اپاہج عورت … وہ تھرّا گئی …
وہ دسمبر کے خوشگوار موسم کی ایک رات تھی۔ دس بج رہے تھے۔ صائمہ اپنے دونوں بچوں کو کمرے میں بستر پر لیٹی کہانی سنا کر سلا رہی تھی۔ کہانی کے طور پر وہ انھیں ہر رات کسی نہ کسی پیغمبر کا قصہ سناتی۔ آج وہ یوسف علیہ السلام کا قصہ سنا رہی تھی۔
’’ … اور … ان کے گیارہ بھائیوں نے انہیں سوکھے کنویں میں ڈال دیا … وہ بلکتے رہے۔ فریاد کرتے رہے … مگر بھائیوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔‘‘
’’تو کیا امی ان کے بھائیوں کے سروں میں جوئیں ہو گئی تھیں؟‘‘ چار سالہ چھوٹی نے حیرانی سے ماں سے پوچھا۔ صائمہ ہنسنے لگی۔
’’ارے کانوں پر جوں نہ رینگنا تو محاورہ ہے نا بیٹا!‘‘
’’اور امی کنویں میں گر کر ان کے چوٹ نہیں آئی؟‘‘ چھوٹی نے پھر پوچھا، ’’ … اور ان کے بھائیوں کو پولیس پکڑ کر نہیں لے گئی؟‘‘
’’چھوٹی کے سوال ہیں کہ ختم ہی نہیں ہو رہے ہیں، امی! آپ آگے کی کہانی سنائیے۔‘‘ سات سالہ بڑی نے ذرا چِڑ کر ماں سے کہا۔
اُسی وقت ’’دھَن … دھَن‘‘ کی آواز نے انھیں چونکا دیا۔ آواز کسی چیز کو ہاتھوں سے پیٹنے کی تھی اور بہت قریب سے آ رہی تھی۔ صائمہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ اس کا دھیان قصے سے ہٹ چکا تھا۔
’’باقی قصہ کل سناؤں گی۔ صبح اسکول جانا ہے نا!‘‘ بچوں کو بلب کی مدھم روشنی میں اونگھتا چھوڑ کر صائمہ ڈرائنگ روم میں آئی۔ دوبئی کی نائٹ لائف بہت مصروف ہوتی ہے۔ کلب، ڈسکو اور پتہ نہیں کیا کیا! بالکنی میں پیچھے سے آنے والی روشنی کی وجہ سے صائمہ کو وہاں بالکنی میں کچھ صاف کچھ دھندلاسا ایک ہیولہ نظر آیا۔ ڈرائنگ روم کی ہلکی نیلی لائٹ کی روشنی میں اس نے بالکنی میں غور سے دیکھا۔ ’ اِس وقت کوئی یہاں، اِس بالکنی میں!‘، اُسے کسی آسمانی آفت کا گمان ساہوا۔ غور سے دیکھا تومحسوس ہوا جیسے کوئی عورت نماز کا دوپٹّہ اوڑھے کھڑی ہو۔ بالکنی کی کالی کانچ پر ہتھیلیوں کی گولائیوں میں چہرہ رکھ کر اس ہیولے نے بالکنی سے اندر ڈرائنگ روم میں جھانکا۔ صائمہ نے سختی سے پوچھا،
’’کون ہو تم؟؟ … کون ہو؟‘‘ صائمہ نے کچھ اور ہمت کر لی اور بالکنی کا سلائڈنگ ڈور ذرا سا سرکا کر بالکنی میں دیکھا اور اپنا سوال مکمل کیا، ’’ … اور یہاں کیسے آئی ہو؟‘‘
’’آپ کے پڑوس میں رہتی ہوں اور اپنی بالکنی کی دیوار پھاند کر آئی ہوں۔‘‘ سامنے سے بڑی سادگی کے ساتھ جواب ملا۔
صائمہ نے ٹیوب لائٹ آن کر دی اور دودھیا روشنی میں اسے غور سے دیکھنے لگی۔ دبلی پتلی … کالے رنگ کا برقعہ پہنے ہوئے، وہ اپنے ہاتھوں میں بیگ اور چپّل لئے کھڑی تھی۔ تقریباً پانچ فٹ کی ہی ہو گی۔ بیس بائیس سال سے زیادہ بڑی نہیں لگتی تھی۔
’’پلیز آپ مجھے اپنے گھر میں سے ہو کر جانے دیجئے۔‘‘ اس نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔
’’میرے گھر سے؟؟ تم اپنے گھر کے دروازے سے باہر کیوں نہیں نکلیں؟‘‘
’’میرا شوہر بڑا ظالم ہے۔ بہت مارتا ہے مجھے۔ دن بھر مجھے گھر میں بند رکھتا ہے۔ کسی سے ملنے نہیں دیتا۔ تالا لگا کر باہر جاتا ہے … آج بھی دروازے پر باہر سے تالا لگا کر ہی کام پرگیا ہے … ‘‘
’’ارے ایسے کیوں؟ وہ پاگل ہے کیا؟‘‘
’’ہاں۔ اب پلیز، مجھے اندر لے لیجئے۔‘‘
’’میں تم کو ایسے کیسے اپنے گھر کے اندر اپنی بالکنی سے آنے اور پھر گھر سے گزر کر اپنے میں ڈور سے نکل کر جانے دوں! … یہ اچھی رہی۔ … یہ کون سا راستہ ہے باہر جانے کا؟ … اور پھر … میں نے تو تم کو کبھی دیکھا تک نہیں ہے۔ … تم ہو کون؟ … ‘‘ صائمہ نے ہڑبڑاتے ہوئے کہہ تو دیا مگر خود اسے اپنا سوال ہی عجیب سا لگا۔
’’میں آپ کو بتاتی ہوں نا! چور نہیں ہوں میں! … اِقراء نام ہے میرا۔‘‘
صائمہ کے شوہر حمید، کچن میں دروازہ بھِڑے کھانے کی میز پر لیپ ٹاپ کھولے کام کر رہے تھے۔ ہال میں اکثر صائمہ کے ساس بہو والے سیریل جو چلتے رہتے تھے۔ بات چیت کا شور سن کر باہر ڈرائنگ روم میں چلے آئے۔ انھیں دیکھ کر تو اقراء کی درخواست اور تیز ہو گئی۔
’’پلیز مجھے اندر تو آنے دیجئے۔ اب اگر میرا شوہر آ گیا اور میں یہاں ملی … تو وہ مجھے جان سے مار دے گا۔‘‘
’’اپنا فون نمبر دو مجھے۔‘‘ حمید کے ساتھ سے صائمہ کی ہمّت بڑھ گئی۔
’’موبائل نمبر؟؟کیوں شیشے میں سے آپ کو میری آواز صاف سنائی نہیں دیتی کیا؟ … ‘‘
’’ … ‘‘ صائمہ نے جواب میں اسے گھورا۔
’’ ابھی دیتی ہوں نا! ۔۔ ۔‘‘ وہ ہڑبڑا کر بولی۔
’’تو دو نا!‘‘
’’مگر اپنا نمبر تو مجھے یاد نہیں۔‘‘
’’ یہ لو میرا نمبر۔ … 5 … 7 … 4 … 5 … 5 تم مجھے کال کرو۔‘‘ صائمہ کی بات ادھوری رہ گئی۔ اس کے موبائل کی گھنٹی بجی اور بند ہو گئی۔ اپنے موبائل میں اقراء کا نمبر دیکھ کر اسے ذرا اطمینان ہوا۔
’’ … دیکھئے، آپ مجھے جب کبھی کال کریں تو صرف ایک رِنگ بجایا کریں۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’دو رِنگ بجنے پر میرا کال میرے شوہر کے فون پر ڈائیورٹ ہو جاتا ہے اور وہ اسے اٹھا لیتا ہے۔‘‘
صائمہ کو اقراء سہمی سہمی سی لگی تھی۔ ’’پتہ نہیں سچّی ہے کہ اداکاری کر رہی ہے۔ اکثر اتنی رات گئے … ‘‘ وہ شوہر سے اپنی تشویش دھیرے سے ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’ارے بھائی! اِس کو اندر تولو۔‘‘ حمید اقراء کی پریشانی دیکھ کر صائمہ کی بات کاٹی اور بولے۔
صائمہ نے سلائیڈنگ وِنڈو کھول کر اقراء کو ہال میں لیا اور اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، ’’کہاں جاؤ گی؟ … کیسے جاؤ گی؟‘‘
’’ … ‘‘ وہ خاموشی سے سوچنے لگی۔
’’ماں باپ کون ہیں تمہارے؟اور کہاں رہتے ہیں؟‘‘
’’میری ماں کا نام امینہ ہے اور وہ حیدرآباد کے چار مینار علاقے کی ہیں۔‘‘
’’اور تمہارے والد؟‘‘
’’باپ عربی ہیں۔‘‘
صائمہ نے غور سے دیکھا۔ آپ نے دوبئی میں عربوں کی دو قسمیں دیکھی تھیں۔ پہلی خوبصورت اور گورے عربوں کی اور دوسری سانولوں کی۔ ان میں زیادہ تر بدّو بلوچی ہی تھے۔ یہ لڑکی اپنے گیہویں رنگ اور نین نقش سے عربی تو نہیں دکھائی دے رہی تھی، البتہ صاف اردو بولتے ہوئے ہندوستانی ضرور لگ رہی تھی۔
’’کیا نام بتایا تھا تم نے اپنی ماں کا؟‘‘
’’امینہ۔‘‘
’’وہی امینہ، جس کی شادی ایک ساٹھ سال کے بوڑھے عرب سے ہو رہی تھی اور جسے ایئرپورٹ سے بچا لیا گیا تھا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ آپ کو پتہ ہے اُس امینہ کے بارے میں؟‘‘
’’وہ تو بڑا مشہور قصہ ہے۔‘‘ اقراء کی آنکھوں میں مشہور اور جانی پہچانی ہونے کی چمک آ گئی۔
’’ہاں، اُسی امینہ کے پڑوس میں میری امّی بھی رہتی تھیں۔ امّی کی شادی بھی … ویسے ہی … ایک پچاس برس کے عرب سے ہوئی تھی … میرا ننہال بھی حیدرآباد کے چار مینار کے پاس کی بستی کا بہت غریب کنبہ تھا۔۔ ۔ بس امی نے شکایت نہیں کی اور یہاں آ گئیں اور اُنھوں نے شکایت کی اور پولیس ایکشن ہوا۔‘‘
’’کس محلے کی ہیں وہ؟ … ‘‘
’’ … مجھے ٹھیک سے یاد نہیں … ‘‘ وہ سوچنے لگی پھر بولی، ’’امی نے بتایا تو تھا بارکَس! … ایک منٹ۔ میں ذرا اپنی امی سے بات کر لیتی ہوں۔‘‘ بات کرتے کرتے اقراء نے اپنی ماں کو فون لگا لیا تھا۔
’’ … ۔ نہیں نہیں امّی … میں آئندہ ایسے نہیں کروں گی۔ مجھے بلا لو۔‘‘ کان سے موبائل چپکائے وہ تڑپ اٹھی تھی۔
’’ذرا پانی پلا سکتی ہیں؟‘‘ موبائل بند کر کے اقراء نے ٹھنڈی سانس لی۔
صائمہ پانی لینے کچن میں گئی۔ اس نے پانی کا گلاس بھرا ہی تھا کہ دروازے کی گھنٹی کی آواز سنائی دی۔
’’میرا شوہر آ گیا۔‘‘ اقراء نے گھبرا کر اندازہ لگایا اور بولی۔ پھر جلدی سے اٹھ کروہ پاس کے کمرے میں گھس گئی۔ اسے اپنی خواب گاہ میں گھستے دیکھ کر صائمہ بھی پریشان ہو گئی اور اس کے پیچھے اندر لپکی۔
’’میں دیکھتا ہوں۔‘‘ حمید نے کہا اور بیوی کو اقراء کے پیچھے خواب گاہ میں دوڑتے دیکھا تو اطمینان کا سانس لیا، ’’شکر خدا کا!‘‘ اس کے منہ سے نکلا۔ ’اچھا ہوا کہ میں بے خیالی میں اقراء کے پیچھے بیڈروم میں نہیں بھاگا۔ … پتہ نہیں صائمہ اس کا مطلب کیا سمجھتی!‘، منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے اس نے دروازہ کھولا۔ صائمہ نے خواب گاہ کے دروازے سے جھانکا۔
’’ارے! یہ تمہارا شوہر … تو نہیں ہے … پولیس میں ہے … !‘‘ حمید کو پولیس میں نے اِشارے سے باہر بلایا تو گھر پر پریشانی طاری ہو گئی۔
’’اے! تو نے کیا کِیا کہ پولیس میرے گھر، تجھے ڈھونڈتی ہوئی آ گئی؟‘‘ صائمہ بھڑک کر اقراء سے بولی۔
’’میں نے کیا کِیا … ؟ … بس ماں سے فون پر بات ہی توکی تھی۔‘‘ اقراء بھی گھبرا گئی تھی۔
’’آخر ہو کیا رہا ہے یہ؟‘‘ حمید لوٹے تو صائمہ نے پوچھا۔
’’جب یہ اپنی بالکنی سے گزر کر ہماری بالکنی میں کود رہی تھی، نیچے سے کسی نے اسے آتے ہوئے دیکھ لیا اور پیٹرول پولیس کو خبر کر دی۔‘‘ حمید نے خلاصہ کیا۔
’’اور اس پولیس مین نے کچھ کیا نہیں؟ چلا گیا؟‘‘
’’پوچھ تاچھ کی تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ لڑکی کا شوہر اسے مارتا پیٹتا ہے۔‘‘
’’کیا کچھ کرنے کا کہا ہے؟‘‘
’’نہیں، وہ کہتا ہے، ’گھریلو معاملہ ہے۔ دوبئی میں تو ایسے گھریلو تشدد کے معاملے بہت سنائی دیتے ہیں ‘۔‘‘
’’یہ اچھا ہے!‘‘ صائمہ جھنجھلائی۔
تبھی دوبارہ گھنٹی بجی۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ کالا برقعہ پہنے ہوئے ایک قدرے کم رنگ کی ذرا بھرے جسم کی عورت تیکھے ہندوستانی نین نقش، پھیلی ہوئی آنکھوں کی وہی حیرانی لئے ہوئے دروازے میں کھڑی تھی، جو اقراء کی آنکھوں میں تھی … البتہ اس کے چہرے پر خاندانی ناداری کی جھلک ابھی تک باقی تھی۔
’’ماں آئی ہیں۔‘‘ خبر دیتے ہوئے اقراء کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ صائمہ نے اسے گھر کے اندر بلا لیا اور تجسس کے ساتھ پوچھا:
’’آپ حیدرآباد کی ہیں نا؟‘‘ خاتون نے ایک نظر درد کے احساس سے صائمہ کو دیکھا۔ پوری زندگی فلم کی ریِل کی طرح آنکھوں کے سامنے سے گُزر گئی۔ اس نے صائمہ سے نظر چُرا لی اور اقراء کی جانب دیکھا۔ پھر دونوں صائمہ کا شکریہ ادا کر کے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر دروازے سے نکل گئیں۔
خاتون راستے بھر خاموش تھی۔ اُس کی آنکھیں منظر منظر دیکھ رہی تھیں۔ 1948کے پولیس ایکشن کے بعد سے ہی معاشرے میں افراتفری کا ماحول تھا۔ غربت بہت تھی۔ اے سی گارڈ، مولا علی پہاڑ، جہاں شاعرہ مہ لقا چندہ بائی نے خود اپنے لئے مزار بنایا تھا۔ بیرون دبیر پورہ، یاقوت پورہ، چار مینار چوک، لاڈ بازار، اور موسیٰ ندی کے اُس پار بارکَس علاقے کے پرانے محلے اور کچی بستیاں … مٹی کی دیواریں، کویلو کی چھت والے کچّے مکان … زیادہ غریب لوگوں کے ٹاٹ کے پردے لگے گھر … رشتے لگانے والی عورتیں اور مرد … جو ہمدردی کے طور پر بیٹیوں کی شادی عربوں سے کرواتے۔
’’کائے کُو نئیں دیتی ماں تُو بیٹی کُو … اس کا اپنا گھر ہو جائے گا۔ اِس کی وجہ سے سارا گھر کھڑا ہو جائے گا۔‘‘
شوق بڑھا، دھندے بازی بڑھی۔ کبھی کبھارکوئی عرب شادی کر کے اپنے ساتھ بھی لے جاتا، مگر وہاں اس لڑکی کا کیا حشر ہوتا تھا، خد اہی کو معلوم! شادی کر کے بیٹی کو بھول ہی تو جانا تھا۔ کچھ مُتعہ اور کچھ حلالہ کے نام پر بھی برباد ہوئیں۔ دو دن کبھی دو ماہ … قلیل مدت کے لئے متعہ کروایا جاتا۔ خُلع کروا کے یا طلاق دے کر چلے جاتے۔ پیٹ میں بچہ پلتا بھی تو کسی کو کیا تھا۔ اسے گرانے کا کیا بندوبست نہیں ہو سکتا تھا! اسقاط حمل کے پیسے گھر والوں تک پہنچے یا نہیں … کون خبر لیتا! … لالچی لوگوں نے دھندا بنا لیا۔ اے سی گارڈ، خیرت آباد خاص طور پر بارکس میں، جو حبشی چاؤشوں کا علاقہ کہلاتا۔ یہ چاؤش ’حضور نظام سرکار‘ میں بڑے اہم تھے۔ یہ ان کے باڈی گارڈوں میں بھی شامل ہوتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ چاؤش عرب ملکوں سے بلائے گئے تھے۔ شاید یہ لوگ نسلاً عرب تھے یا شاید انھیں کا سلسلہ، مگر یہ ضرور ہے کہ یہ عربوں کے رشتہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ عربوں کا وہاں پہلے سے آنا جانا شروع تھا۔ آپس میں شادیاں ہوئیں۔ اکثرکسی کی خالہ کی پوتی تو کسی کی بیٹی کی نواسی کسی نہ کسی عرب سے بیاہی گئی۔
اقراء کی ماں امینہ بھی ان میں سے ایک تھی۔ ریاستیں ضم ہوئیں۔ بیروزگاری پھیل گئی۔ بارکس میں امرود کے بہت سے درخت ہوتے تھے۔ ’’جام لے لو۔‘‘ ٹوکری بھر امرود سائیکل پر رکھ کر یہاں کے لوگ بیچتے پھرتے۔ وہ سائیکل رکشا میں پردہ لگا کر یاقوت پورہ سے بارکس کے چڑھاؤ پر ایک اردو اسکول میں پڑھنے جاتی تھی۔ ایک جام والے لڑکے سے دوستی کی ہی تو سزا تھی کہ وہ اسکول سے چھڑا دی گئی تھی … پھر … عبد اللہ سے … اپنے سے دوگنی عمر کے مرد سے … ایک عرب … سے اس کی کسی نمبر کی بیوی کی حیثیت سے شادی اور دیس نکالا … اور اب اس کی بیٹی … کتنی پیڑھیاں … اقراء کی ماں امینہ نے اپنی آنکھیں کلمے کی اُنگلی سے رگڑیں اور بیٹی کا ہاتھ سختی سے تھام لیا۔
گھر کے جھمیلوں میں اس واقعے کی تفصیل بھول جانے کا صائمہ کو ڈر تھا۔ پولیس دوبارہ آ جائے تو! کوئی بات ذہن سے نکل جائے اورپولیس کو شک میں مبتلا کر دے تو! … پتہ نہیں کہاں یہ باتیں دہرانے کی ضرورت پڑ جائے! پتہ نہیں یہ سب کچھ جو آج ہوا تھا ایک عارضی واقعہ تھا یا کسی آنے والی مشکل کا پیش خیمہ … ! صائمہ نے اپنی ڈائری نکالی اور آج کا سارا واقعہ، تاریخ، وقت اور مقام کے ساتھ لکھا اور بڑی حفاظت کے ساتھ الماری کے لاکر میں رکھ دیا۔
آج کل اس کا دل ہر وقت سہما سہما سا رہتا تھا۔ وہ اے سی کی ریلنگ کو پکڑ کر اپنی بالکنی سے پیر گھما کر ان کی بالکنی میں کسی چیز کو پکڑ کر آئی تھی! بہت دن ہوئے، اس نے سنا تھا ان کا پڑوسی راتوں کو عورتیں لے کر آتا تھا۔ لوگ کہتے تھے ’ہم نے سنا ہے۔ ‘ مگرکسی نے اپنی آنکھوں سے کبھی دیکھا نہیں تھا۔ اس نے اب اقراء سے شادی کر لی ہو گی! جیسا خود ہے، ویسا ہی بیوی کو سمجھتا ہو گا! اس دن جب گھر لوٹا ہو گا، اس نے سوچا ہو گا کہ ’ جب میں رات کو بیوی کو گھر میں لاک کر کے گیا تھا تو یہ نکلی کہاں سے!‘، یہی سب تصور کر کے صائمہ گھبراتی۔ شوہر سے کہتی، سہیلیوں سے بات کرتی۔ شاید اسی گھبراہٹ کی وجہ سے اسے عجیب عجیب آوازیں سنائی دیتیں۔ کبھی دروازہ کھٹکھٹانے کی، سرگوشی میں اسے نام لے کر آواز دینے کی، بالکنی میں تو اس نے عجیب سے چہرے بھی دیکھے تھے جو قریب جا کر دیکھنے پر غائب ہو گئے تھے۔
اس دن صبح ناشتے کے ٹیبل پر لبن، شہد، ڈبل روٹی اور زعتر رکھتے ہوئے صائمہ نے دھیرے سے حمید کے ذہن میں یہی بات ڈالنے کی کوشش کی، ’’جس سے بات کرو، یہی کہتا ہے، مکان مالک یا پولیس سے شکایت کرو۔‘‘
’’پردیس میں کہاں جھمیلے میں پڑیں!‘‘ حمید تذبذب میں تھے۔
’’اب آپ شکایت کرنے کا من بنا ہی لیجئے۔ ایسے کب تک چلے گا!‘‘
’’صائمہ، ہم کتنے سالوں سے دوبئی میں ہیں؟‘‘ حمید نے اچانک پوچھا۔
’’مجھے دس سال ہوئے، آپ کو تو پندرہ سال ہو گئے۔ کیوں!‘‘
’’ہمارا علاقہ ہندوستانیوں، پاکستانیوں اور فیلپینوں سے بھرا رہتا ہے، ہے نا! پڑوس میں پیٹرول پمپ ہے۔ پیچھے بس اسٹیشن ہے۔ زندگی آسان ہے کیونکہ ایک مانوس ڈھرّے پر چل رہی ہے۔ … مگر اب … اب تو فکر ہو گئی ہے مجھے … ‘‘
’’مجھے یقین ہے آئندہ کچھ نہیں ہو گا … انشاء اللہ … ویسے آپ نے غور کیا، تین مہینے ہوئے، کچھ ہوا نہیں ہے۔ لیکن یہ کیسے کہ اپنے عمانی پڑوسی نے کبھی اس سلسلے میں کسی سے کوئی بات نہیں کی!‘‘ صائمہ کہہ ہی رہی تھی کہ اس کے موبائل کی گھنٹی بج اٹھی۔
’’ہاں بیٹا!‘‘ کسی عورت کی آواز تھی۔ ’’ میں اقراء کی ماں بول رہی ہوں۔ ذرا دروازہ کھولنا۔‘‘
صائمہ نے گھبرا کر دروازے کے پیپ ہول میں سے جھانکا۔ وہی تھی۔ اس نے دروازہ کھول دیا۔
’’میری بیٹی آپ کی بالکنی میں کھڑی ہے۔ خدا کے لئے اُسے اپنی بالکنی سے اپنے گھر میں آنے دو۔‘‘ اقراء کی ماں نے گزارش کی تو صائمہ کا پارہ چڑھ گیا۔
’’ارے! آپ لوگوں نے تو راستہ بنا لیا!‘‘ اس نے دروازہ کھولا۔
’’پلیز!‘‘ اقراء کی ماں وہیں کھڑی التجا کرنے لگی۔
’’آپ کا جو بھی معاملہ ہے سلجھا لو بھائی! ہمیں کیوں پریشانی میں ڈالتے ہو؟‘‘
’’آخری بار … اقراء کہہ رہی ہے، آئندہ ایسا نہیں کرے گی۔ آگے سے آپ کی بالکنی میں نہیں جائے گی۔ اِس کا عمانی شوہر جادوگر ہے۔‘‘
’’کیا بات کرتی ہیں؟‘‘
’’ہاں اور نہیں تو کیا!‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’اب دیکھو نا! اس دن آپ کے گھر سے اقراء ہمارے یہاں آئی تھی۔ شوہر کا فون آیا۔ گھنٹے بھر بات کی پھر کھڑی ہو گئی کہ جاؤں گی۔ پتہ نہیں کیا جادو کرتا ہے۔‘‘
’’اوہ!‘‘
صائمہ نے حمید کی جانب دیکھا۔ وہ بہت ناراض تھے مگر کرتے کیا! بیوی کو اشارہ کیا کہ ہال کی بالکنی کا سلائیڈنگ دروازہ کھول دے۔
صائمہ نے با دلِ نا خواستہ اقراء کو صوفے پر بٹھایا، پانی پیش کیا اور پوچھا، ’’کیسے آتی ہو؟‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی، اس کی ماں دروازے سے اندر آ گئی۔
’’یہ بدمعاش آپ کو کہاں سے مل گیا؟‘‘ اب صائمہ کا سوال اس کی ماں سے تھا۔
’’ آپ کو پتہ ہے، کہ ہندوستانی ماؤں کی بیٹیوں کی یہاں اچھے گھروں میں شادی نہیں ہوتی! … اقراء کا باپ بوڑھا تھا۔ مر گیا، ورنہ وہ کسی عربی کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کروانے کی کوشش ضرور کرتا۔ … ‘‘
’’تم ہی عربی داماد نہیں چاہتی ہو گی!‘‘
’’ ایسا نہیں ہے۔ مجھے بھی اچھا لگتا۔‘‘
’’کیوں؟ تم ایسا کیوں چاہو گی؟‘‘
’’بھلا میں کیوں نہ چاہتی کہ میری بیٹی میری طرح کسی عرب سے ہی شادی کرے؟ … وہاں شادی کا پورا خرچ لڑکا اٹھاتا ہے نا! شادی کے ایک جوڑے کی قیمت ایک لاکھ روپئے ہوتی ہے۔ … ان کے گھر بھی تو بہت خوب صورت ہوتے ہیں اور وہ ہنی مون پر دوسرے ملک جانا پسند کرتے ہیں۔ بیوی کے ساتھ دوسرے گھر والوں سے الگ رہتے ہیں۔ شہروں میں ان کے بڑے بڑے بنگلے ہوتے ہیں۔ ان کی عورتیں بہت کم بچے پیدا کرنا پسند کرتی ہیں۔ پھر میں کیوں نہ چاہتی کہ میری بیٹی میری طرح کسی عرب سے ہی شادی کرے؟‘‘
’’جو اتنا خرچ نہیں اٹھا سکتا، اس کے گھر میں جھگڑے شروع ہوتے ہیں؟‘‘
’’ہاں … عربی عورتیں … یہ سب برداشت نہیں کر سکتیں۔‘‘
’’پھر تم نے اپنے طور پر اقراء کی کسی عرب سے شادی کرانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟‘‘
’’وجہ یہ ہے کہ اب عربی جلدی شادی نہیں کرتے اور مجھے اِس کی شادی کی جلدی تھی۔ دوسرے … اب ایک ’تھالسیمیا ‘ نامی بیماری سننے میں آتی ہے … جسم کا پورا خون بدلنا پڑتا ہے۔ یہ خاندان کے اندر ہی اندر بہت قریبی رشتوں میں نسل در نسل شادی کرنے کا نتیجہ ہوتی ہے۔‘‘
’’ … پھر عربی آپس میں شادیاں کیوں کرتے ہیں؟‘‘ صائمہ سوالات کی بوچھار کئے جا رہی تھی۔
’’اسی لئے تو فلپنیوں اور تھائی لینڈی یا انڈین سے شادی کرتے ہیں … ‘‘
’’کیا صرف اسی لئے؟؟‘‘ صائمہ نے اس کی بات کاٹی مگر اس نے بڑی تیزی سے اپنی بات کو بچا لیا۔
’’ مگر اب حکومت نے شرط رکھ دی ہے کہ دوسرے ملک والوں سے شادی کی تو اسے قومیت نہیں ملے گی۔‘‘
’’مگر اقرا ء کا مرد تو فضول ہے۔‘‘
’’اقراء کا بڑا بھائی بھی یہی کہتا ہے … کہ بیٹھ جا گھر … ہم ہیں۔ … ابھی بال بچہ بھی نہیں … جاتی ہو، پھر ہم سے معافی مانگ کر لوٹ آتی ہو!‘‘ اقراء کی ماں ایک لمحہ رکی پھر بات جاری رکھتے ہوئے بولی۔
’’تم لوگ ہندوستان کیوں نہیں لوٹ جاتے؟‘‘ صائمہ نے پوچھا:
’’اماں باوا نہیں رہے۔‘‘
’’بھائی بہن؟‘‘
’’وہ بھی نہیں رہے۔ ان کی اولادیں ہیں مگر پتہ نہیں کون کہاں ہے؟سُنا ہے اب حیدرآباد نے بہت ترقّی کر لی ہے اور میرے گھر والے بھی … ‘‘
’’یعنی تمہارا یہاں آنا ضائع نہیں گیا۔‘‘ وہ دھیرے سے ہنسی۔ پھر ذرا خاموش ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں اس کا آسودہ شہر، گھر پریوار جھانکنے لگے۔
’’ میرا بلڈ پریشر بڑھ گیا تھا۔ اسپتال میں ایڈمٹ تھی۔ بیٹی کا فون آیا۔ کہا لینے آؤ تو اسپتال سے سیدھے چلی آ رہی ہوں۔‘‘ اقراء کی ماں نے کہا۔
’’کیوں؟‘‘
’’اتنا ٹینشن جو دیتی ہے۔۔ ۔۔ اچھا چلتے ہیں۔ شکریہ۔ میں اپنے بھائی کو نیچے روک آئی ہوں۔‘‘
’’ایک عرضی بنا لیجئے۔ اِس بار تو بلڈنگ کی سوسائٹی میں تحریری شکایت کرنی ہو گی۔‘‘ اُن ماں بیٹی کے جانے کے بعد صائمہ نے حمید سے کہا۔
’’کچھ دن پہلے میں نے عرضی دینے کی کوشش کی تھی مگر منیجر نے نہیں لی۔‘‘
’’ارے واہ! ایسے کیسے؟‘‘ صائمہ چِڑ کر بولی۔ ’’آخر کہتا کیا ہے؟ عرضی لینے میں کیا پریشانی ہے اس کو؟یہ تو بلڈنگ کی حفاظت کے لئے ہے نا! ایسے کیسے نہیں لے گا؟ آپ نے پوچھا نہیں؟کہتا کیا تھا؟‘‘
’’ کہتا تھا، عرضی کا ترجمہ عربی میں کر کے دو۔‘‘
’’تو کروا لیجئے نا! میری سہیلی … ‘‘
’’میں کیوں کروں؟‘‘ حمید نے خفا ہو کر بیوی کی بات کاٹی، ’’ میں سکریٹری کے گھر انگریزی میں عرضی دے آیا ہوں۔ وہ کریں، جو کرنا ہے۔‘‘
ظہر کی نماز کا وقت تھا۔ آج دوپہر حمید گھر پر ہی تھے۔ بچوں نے بھی ابھی کھانا نہیں کھایا تھا۔ صائمہ کچن میں چلی گئی۔ حمید نے منیجر کو فون کیا۔ ’’ارے بھائی پانچ دن ہو گئے، عرضی دیئے، کیا ہوا اس کا؟‘‘ فون بند کرتے ہی صائمہ سر ہو گئی۔
’’کیا کہتا ہے؟‘‘
’’ کہتا ہے، ترجمہ ہو گیا ہے۔ میں آپ کے گھر آتا ہوں۔ عرضی پر سائن کر دیجئے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، پھر میں نماز اندر پڑھ لیتی ہوں۔‘‘ صائمہ اپنی جانماز اُٹھا کر کمرے میں چلی گئی۔ اس نے اقراء والے واقعے کی جانب سے اپنا دھیان ہٹایا اور نماز پڑھنے کھڑی ہو گئی۔ رکعت باندھتے ہی نیچے سڑک کی طرف سے زور زور سے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ جلدی جلدی سلام پھیر کروہ بالکنی میں دوڑ کر گئی۔
’’ارے! یہ عورت ہے یا بندریا!‘‘ حمید پہلے ہی بالکنی میں موجود تھے۔
’’ہُرّے! … منکی گرل!‘‘ چھوٹی نے ہلّا کیا۔
صائمہ نے نیچے سڑک پر نظر ڈالی۔ وہاں لوگوں کا مجمع تھا جو ان کی بلڈنگ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ چیخ پکار کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
صائمہ نے نیچے جھانکا۔ ان کے ٹھیک نیچے کی پہلے منزلے کی بالکنی میں اقراء اے سی کی مشین پر بیٹھی تھی۔
’’رسّی بھی لٹکتی دکھائی نہیں دیتی! اللہ جانے کیسے اتری ہو گی!!‘‘ صائمہ کو تعجب ہوا۔
’’بتائیے ہماری پوری بلڈنگ کے نیچے تو’بلاسم سپر مارکیٹ ‘ہے، پھر یہ کہاں سے یہاں پہنچی ہو گی!‘‘
’’ہاں، اور پہلے منزلے پر فرنٹ کے دو فلیٹ سپر مارکیٹ کے ہی تو ہیں۔‘‘
’’ہاں۔ اسی لئے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح اقراء سپر مارکیٹ کے سٹور روم کی بالکنی کے ا سپلٹ یونٹ تک پہنچ گئی ہو گی! تعجب ہے! … ہے نا صائمہ؟‘‘
’’اور اس بار بھی وہ برقعہ پہنے ہوئے ہے۔ دیکھئے نا، ہاتھ میں چپّل اور بیگ بھی ہیں، بھاگنے کی پوری تیاری کے ساتھ کودتی ہے۔‘‘
’’اس کے ہاتھوں کے پنجوں کو تو دیکھو! کیسے کالے دکھائی دے رہے ہیں نا؟‘‘
’’مجھے تو جلی ہوئی بوُ بھی محسوس ہو رہی ہے۔‘‘ صائمہ نے جھانک کر دیکھا۔ ’’ذرا جھک کر دیکھئے، وہاں دھواں تو نہیں۔‘‘
’’نہیں ایسا تو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔‘‘
’’چھلانگ مت لگانا۔‘‘ اچانک اقراء کو جھک کرسڑک کا اندازہ کرتے دیکھ کر صائمہ کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔ اقراء نے سر اٹھا کر بڑے درد کے ساتھ اسے دیکھا۔
’بلاسم سپر مارکیٹ ‘والوں نے نیچے سڑک پرسیڑھی لگوائی۔ سیڑھی چھوٹی تھی، پہلے منزلے کی بالکنی تک بھی نہیں پہنچی۔ دوبارہ بھاگ دوڑ ہوئی۔ بلڈنگ کے پیچھے کے پٹرول پمپ سے لمبی سیڑھی منگوائی گئی اور اقراء نیچے اتر آئی۔ کچھ منٹوں بعد وہ بلاسم والوں کو کچھ بتا رہی تھی۔ پھر وہ لوگ اسے سپر مارکیٹ کے میں گیٹ کی جانب لے کر چلے گئے۔
’’وہ کیسے گئی ہو گی وہاں؟ کیا لگتا ہے؟‘‘ صائمہ نے پوچھا، ’’حیرت ہے!!‘‘
’’ ہوں صاحب!‘‘
’’کوئی کیسے ایک فلیٹ کی بالکنی سے دوسرے فلیٹ کی بالکنی میں کود جاتا ہے؟کمال ہے! … تو کہاں تھا؟‘‘ حمید نے واچ میں کو بلا کر پوچھا۔
’’بلڈنگ میں کچھ بھی ہوا تو منیجر صاحب مجھ ہی کو ڈانٹتے ہیں۔‘‘ وہ شکایتی لہجے میں بولا۔ ’’صاحب! دونوں گیٹ بھی دیکھنے ہوتے ہیں اور بلڈنگ کا راؤنڈ لگانا بھی … ‘‘
حمید کو اس غریب بنگلہ دیشی واچ میں سے ہمدردی تھی۔ کبھی کبھار بیوی بچوں کے ہندوستان جانے کے دنوں میں وہ اس کے کپڑے استری کروا لاتا یا ضرورت کا کوئی سامان خرید کر لا دیتا تھا۔
’’ٹھیک ہے۔ تم جاؤ۔ آگے سے خیال رکھنا۔‘‘ حمید نے اس کی چوکیداری پر اٹھے سوال کو نظر انداز کر دیا کہ غریب پھر ڈانٹ کھائے گا۔
کچھ دیر بعد بلڈنگ میں نیچے پولیس آئی۔ اقراء کا شوہر اور مکان مالک بھی نیچے تھے۔ حمید بھی نیچے اتر گئے۔
’’ہوا کیا تھا آخر؟‘‘ لوٹے تو بیوی کا سوال تیار تھا۔
’’پتہ نہیں۔ اس کی ماں آئی اور اسے گاڑی میں بٹھا کر لے گئی۔ سنا ہے، اس کے شوہر کو وارننگ ملی ہے کہ پھر ایسا نہ ہو۔‘‘
’’لوگ کیا کہتے ہیں؟‘‘
’’کوئی کہتا ہے، اقراء کے منہ سے خون آتا تھا۔ کوئی کہتا ہے، ہاتھ باندھ کر اسے جلا دیا تھا۔‘‘
’’سب افواہیں لگتی ہیں۔‘‘
’’مگر ہے بڑی ڈھیٹ یہ عورت!‘‘
انہیں دنوں حمید کو سعودی عرب جانا پڑا۔ یہ پروگرام اچانک بنا تھا۔
’’ہماری سیفٹی کیا ہے، حمید؟‘‘ صائمہ پریشان ہو کر حمید سے سوال کرتی، ’’میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ یہ عمارت تین منزلہ ہے اور ہم تو دوسرے منزلے پر ہیں۔ اگر کوئی چور بدمعاش آ گیا تو تیسرے منزلے پر ٹیریس سے آئے گا یا نیچے سے۔ اگر نیچے سے آیا تو پہلے منزلے والوں کو خطرہ ہو گا۔ ہم تو دونوں طرف سے محفوظ ہیں … مگر! … اب دن بھر ڈر لگا رہے گا نا!‘‘
’’واچ میں کو آواز دے دینا … ‘‘
’’اور رات کے وقت؟۔۔ ۔ کیا رات کو بھی واچ میں کو گھر بُلاؤں؟‘‘
’’تم خواب گاہ کا دروازہ لاک کر کے بچوں کے ساتھ اندر سو جانا۔ صرف دو دنوں کی ہی تو بات ہے۔‘‘
’’اچھا ہے، جولائی کا مہینہ ہے۔ بچے گرمیوں کی چھٹیوں میں ہیں، اگر اسکول ہوتا تو!!‘‘
’’تو کیا ہوتا؟ بچے اسکول بس میں اسکول چلے جاتے۔‘‘ حمید نے ہنس کر بات کو ہلکا کر دیا۔
’’ اب تک بات ہمارے گھر اور بلڈنگ تک ہی تھی … اب پبلک میں آ گئی ہے۔ سپر مارکیٹ والوں کو پتہ چل گیا تھا۔ کتنے ہی دنوں تک سڑک پر چلتے لوگ انگلی کے اشارے سے ایک دوسرے کو پہلے منزلے کی بالکنی دکھاتے رہے، پتہ ہے نا!‘‘
-’ ’مگر اب تو سب ٹھیک ہے۔‘‘
’’ہاں۔ لگ تو یہی رہا ہے۔‘‘
’’پھر خوش رہو نا!‘‘
’’اور اپنی کِٹّی پارٹی کا کروں؟؟ … دو دنوں بعد ہماری باری ہے! اور آپ ہیں کہ جا رہے ہیں۔‘‘
’’بھلا خواتین کی کِٹی پارٹی میں میری کیا ضرورت!‘‘
’’اکیلی کیسے … ‘‘ صائمہ نے حمید کو اپنے غیر محفوظ ہونے اور تنہا ہونے کا احساس کرانا چاہا تھا۔
’’دو دن بعد کی پارٹی کو دو دن پہلے کر لونا!‘‘ حمید شاید بھانپ گئے تھے۔
’’کیا کہتے ہیں؟دو دن بعد کی پارٹی کو دو دن پہلے کر لوں؟ یعنی آج … پارٹی!‘‘
اس وقت صبح کے ساڑھے دس بج رہے تھے۔ صائمہ نے فوراً سہیلیوں کو فون پراسی دن شام چھے بجے کی کِٹّی پارٹی کی دعوت دی اور ان کے لئے بر دوبئی علاقے سے کچھ تحائف خریدنے کے خیال سے نکلی۔ ڈیرا سستی شاپنگ کے لئے مشہور ہے۔ اپنی بلڈنگ کے پیچھے والی سڑک پار کر کے اس نے بس اسٹیشن پہنچ کر سی ون بس پکڑی۔ بس کے دائیں جانب کی مشین میں ’ این او ایل کارڈ‘ پنچ کیا۔ ’’دو درہم بیس فِلس‘‘ وہ حساب دوہراتی ہوئی اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ بس میں اس کا ذہن پراگندہ ہی رہا۔ رہ رہ کر اسے فون پر ملی سہیلیوں کی اطلاعات یاد آتیں اور وہ سہم سہم جاتی۔ کل ہی تو صائمہ کو اس کی پڑوسن سہیلی مریم نے فون پر بتایا تھا:
’’ پتہ ہے، اپنے عمانی پڑوسی کی آج کل نائٹ ڈیوٹی ہوتی ہے۔‘‘
’’بیوی کو گھر میں لاک کر کے جاتا ہو گا!‘‘
’’شاید اقراء کو اس کی ماں کے یہاں چھوڑ جاتا ہے۔‘‘
’’ہاں صبح چھے بجے اسے ہاتھ پکڑ کر گھر لے آتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے۔‘‘
’’ پتہ نہیں، ان کا نکاح ہوا بھی ہے کہ نہیں۔‘‘ دوسری دوست نے شک ظاہر کیا تھا۔
’’ شادی کی ہے؟ لگتا تو نہیں۔‘‘
’’کی تو ہے، مگراس نے اپنی شادی کے بارے میں کسی رشتہ دار کو معلوم نہیں کروایا۔‘‘ مریم نے جانکاری دی۔
’’تمہیں کیسے پتہ؟‘‘
’’اس کا ایک رشتہ دار، میرے بیٹے کی کمپنی میں کام کرتا ہے۔‘‘ مریم نے اپنی کہی بات کا ثبوت پیش کیا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے، لیکن ہے بہت شکی۔‘‘ صائمہ سہیلیوں سے اقراء کی پُر اسرار زندگی کے بارے میں معلومات اکٹھا کرتی رہتی۔
’’آج صبح بہت سویرے کوئی جنگلی کی طرح اُن کا دروازہ پیٹ رہا تھا۔ اکثر اِسی طرح پڑوسیوں کو جگا دیتا ہے۔‘‘
’’یہ لیجئے! میں تو سمجھتی تھی کہ عمانی دروازے کی چابی ساتھ لے جانا بھول جاتا ہو گا۔ بیوی سو گئی ہو گی، اس لئے دروازہ پیٹتا ہو گا۔‘‘ صائمہ بولی۔
’’نہیں، یہ عمانی کا بھائی تھا۔ جو دروازہ پیٹ پیٹ کر چلا گیا تھا۔‘‘
’’تم نے اُس شخص کو دیکھا تھا؟‘‘ صائمہ میں تجسس جاگا۔
’’تم نے کبھی دیکھا نہیں کیا، دونوں کی شکلیں کتنی ملتی جلتی ہیں!‘‘
’’ہاں … میرے شوہر بھی ڈیوٹی سے اُسی وقت آئے تھے ‘۔ ‘
’’کیا کہتی ہو!‘‘
’’ کمال ہے … کوئی ایکشن ہی نہیں لیتا۔ بلڈنگ والوں کو تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا ہے۔ کوئی جھمیلے میں پڑنا نہیں چاہتا۔‘‘
’’مکان مالک کے ایک دوست نے یہ فلیٹ لیا ہے اور اپنے دوست کو دیا ہے!‘‘ سہیلی نے صائمہ کو بتایا تھا۔ یہی خیال اور باتیں بس اسٹاپ پہنچنے تک صائمہ کے ذہن میں گونجتی رہیں۔
بس اسٹاپ پر اتر کر صائمہ نے سڑک پار کی۔ سامنے ہی لَوٹنے والی سی ون بس کھڑی تھی۔ پنچنگ مشین میں ستوا کے لئے اپنے کارڈ سے دو درہم، بیس فلس کٹوا کر وہ اطمینان سے اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
’’ارے! تم بغیر شاپنگ کئے ہی گھر لوٹ آئیں! … یہ تو تاریخی واقعہ ہے!‘‘ حمید کے چہرے پر زبردست مسکراہٹ تھی۔ ’’بچ گئے بھائی!‘‘
ٹی وی پر کوئی ٹاک شو چل رہا تھا۔ صائمہ پروگرام سے غافل صوفے پر بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھ لگی ہی تھی کہ ایک چیخ سے ہڑبڑا کر اٹھی۔ صائمہ نے بالکنی سے نیچے جھانکا۔ اس کے سامنے اقراء کا ٹوٹا پھوٹا جسم تھا۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں، ٹوٹے ہوئے گھٹنے، ادھڑا ہوا برقعہ، پیشانی پر خون کی ایک لکیر، چہرے پر زمین کی دھول، ٹوٹی ٹوٹی سانسیں، ہچکیاں لیتی لڑکی، اسے اس حال میں دیکھ کر صائمہ کی چیخ نکل گئی۔
’’امی پانی لاؤں … ‘‘
’’آپ کو کیا ہوا؟ خواب میں ڈر گئیں کیا؟‘‘ بڑی ماں کو جھنجھوڑ رہی تھی۔
’’امی پانی لیجئے۔‘‘ چھوٹی نے اپنی اسکول کی واٹر بوتل ماں کی جانب بڑھا دی۔
’’ممی پانی لیجئے نا! ڈرئیے مت ہم ہیں نا!‘‘ صائمہ نے گہری سانس لی۔
چھوٹی اچھل کر اس کی گود میں چڑھ بیٹھی۔ صائمہ نے جھرجھری لی اور اپنے خیالوں سے نکل آئی۔ ایئر پورٹ پر چہل پہل بڑھ گئی تھی۔ ڈِسپلے اسکرین پر ہوائی جہازوں کی آمدورفت کی جانکاری دی جا رہی تھی۔ صائمہ کے دل میں پیار امڈ آیا۔ اس نے چھوٹی کو سینے میں جذب کرتے ہوئے بڑی کو بھی اپنے سے قریب کر کے ان کے گالوں کا بوسہ لیا۔ کچھ ہی فاصلے پر وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا شخص اپنی گہری نگاہیں اسی پر گاڑے تھا۔ صائمہ نے سوچا، ہو سکتا ہے، بوڑھے مسافر کی نگاہوں کے ساتھ اس کا ذہن نہ ہو! صائمہ کا ذہن دوبارہ فلیش بیک میں لوٹ گیا۔
’’امّی، کیا اب ہمارا اسکول بھی بدل جائے گا!‘‘ نئے گھر میں بڑی بیٹی نے صائمہ سے پوچھا تھا۔
’’ اسکول کا کیا مسئلہ ہے! آپ اپنے اسکول میں ہی رہیں گی اور اُسی طرح بس سے آیا جایا کریں گی۔‘‘
’’اِسی’ اُود میٹھا روڈ ‘ والے ’دی انڈین ہائی اسکول‘ میں نا امّی؟‘‘
’’ہاں ہاں اسی میں!‘‘
’’ہرّے! ہماری امّی زندہ باد!‘‘
’’امّی اب ہم کس علاقے میں رہنے لگے ہیں؟‘‘ بڑی نے پوچھا۔
’’اس نئے علاقے کا نام ’راس الخور‘ ہے۔ تمہیں اچھا لگا؟‘‘
’راس الخور‘ صنعتی علاقہ تھا۔ یہاں عام طور پر تین اور چار منزلوں کی عمارتیں دکھائی دیتیں۔ کرِیک پُرانے شہر بر دوبئی اور ڈیرا کو الگ کرتی ہے۔ شارجہ میں کافی اونچی چوبیس پچیس تیس منزلہ عمارتیں تھیں۔ شیخ زائد روڈ پر دُنیا کی سب سے اونچی عمارتیں تھیں اور ڈیرا بھی اونچی عمارتوں کا علاقہ تھا۔ شیخ محمد زائد روڈ کے پاس یہ نیا رہائشی علاقہ تیار ہوا تھا۔ یہ انّیس عمارتوں کی ایک کمیونِٹی تھی، جس کا نام ’ثنا ڈیولپمنٹ‘ تھا۔ آمدورفت کے لئے راس الخور میں ٹرانسپورٹ کی تکلیف تھی، اسی لئے کالونی کے اندر مسجد اور ضرورت کے سامان کے لئے ایک سپر مارکیٹ بھی بنا لیا گیا تھا۔ کمیونٹی کے باہر کا علاقہ، جہاں ٹرک ٹھہرائے جاتے، ریتیلا تھا۔ دور ہونے کے باوجود ہائی وے سے سیدھے سیدھے نکل کر شیخ زائد روڈ سے ہوتے ہوئے تقریباً پچیس منٹ میں وہاں سے سَتواپہنچا جا سکتا تھا۔ کمیونٹی کے بائیں جانب گھر سے پانچ منٹ کی دوری پربس اسٹاپ تھا۔ ستوا کے ایک بیڈ روم ہال کِچن فلیٹ کے کرائے میں ہی اُنہیں یہاں دو بیڈ روم ہال کِچن کا گھر مِل گیا تھا اور پھر کالونی بھی سیف تھی۔ کم سے کم چوروں کے خوف سے نجات تو مل گئی تھی۔ اس کے باوجود صائمہ کو بچوں کو چھوڑنے اور لینے وہاں تک جانا پڑتا۔ وجہ یہ تھی کہ افواہ تھی کہ گاڑی رکوا کر کچھ بدمعاش لڑکیوں کو اُٹھا لے جاتے ہیں۔
’’نہیں امّی! ہمارا’ستوا‘ مارکیٹ ایریا ہے۔ بہت سی دوکانیں ہیں۔ پِن سے پیانو تک سب کچھ وہاں ملتا ہے۔ میری دور دراز علاقے کی سہیلیاں خاص کپڑوں کی خریداری کے لئے وہاں جاتی ہیں۔‘‘
’’وہاں ستوا میں کپڑے مہنگے بھی تو ہوتے ہیں۔‘‘ صائمہ نے بڑی ہوتی بیٹی کو اداسی سے بچانا چاہا۔
’’ مگر خوبصورت بھی تو اِتنے ہوتے ہیں نا!‘‘
’’وہاں عام طور پر وہ لوگ رہتے ہیں، جو ستوا کے پیچھے کی جانب واقع شیخ زائد روڈ یا جَبل علی علاقوں کے آفسوں میں کام کرتے ہیں۔ پھر تمہارا اپنا کمرا بھی تو ہو گیا ہے۔ ہے نا!‘‘ صائمہ نے اسے پریشان ہونے سے بچانے کی دوبارہ کوشش کی۔
’’نہیں امّی! یہاں رونق نہیں ہے اور پھر ہماری اچھی اچھی دوست وہاں رہ گئیں۔ امّی! کیا کبھی دوبئی یا انڈیا میں ہمارا اپناگھر نہیں ہو سکتا؟‘‘ بڑی نے ذرا اداسی کے ساتھ کہا۔
’’یہاں تو منکی گرل ہے نا!‘‘ چھوٹی بچی نے آپی اور امّی کی گفتگو کے بیچ جھٹ سے اپنی فرمائش پیش کر دی، ’’امی، آج آپ ہم کو منکی گرل کی کہانی سنائیں گی نا؟‘‘
’’ پھر … وہی منکی گرل کی کہانی … ! … اب اُس بندریا کو بھول جاؤ بیٹا!‘‘
’’مگر امّی! کیا یہ سچ مچ کی منکی گرل تھی؟ … کیسے اسپائڈر میں کی طرح کہیں بھی پہنچ سکتی تھی! اِس کا کچھ آئیڈیا ہے آپ کو؟ ہم کو منکی گرل کی کہانی سنائیں نا امّی!‘‘ چھوٹی بڑے لاڈ کے ساتھ ماں سے چِمٹ گئی۔
’’بھول جاؤ ڈیئر، اِس نئے گھر میں نہ کسی منکی گرل کی کہانی ہے اور نہ اس کی بندر چھلانگیں!‘‘ صائمہ دونوں بیٹیوں کو ایک ساتھ جواب دیتے ہوئے مسکرا دی۔
کچھ لڑکے کسی بات پر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ پر زور سے تالی بجاتے ہوئے صائمہ کے پاس سے گزر گئے۔ صائمہ نے چونک کر دیکھا۔ ایئرپورٹ کی رونق میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ صائمہ کے بھتیجے کی شادی تھی۔ حمید اپنی مصروفیت کی وجہ سے انڈیا جا نہیں سکتے تھے۔ سیاہ برقعے کے خوبصورت نگ لگے اسکارف میں صائمہ اپنی دونوں بچیوں کے ہاتھ پکڑے انھیں دوبئی کے شاندار ایئر پورٹ سے لطف اندوز ہوتے دیکھ رہی تھی ان کی خوشی چھلک پڑتی تھی۔ وہ وقت سے ذرا پہلے پہنچ گئے تھے۔ ایئر پورٹ پر، دیس بِدیس کے رنگ برنگے مسافر اپنے اپنے پہناوے میں سہولت محسوس کر رہے تھے۔ ویسے تو یو اے ای کی راجدھانی ابو ظہبی ہے۔ سات امارات میں سے ایک یہ خوبصورت شہر، اپنے ڈیوٹی فری زون کے لئے مشہور ہے اور کاروباری راجدھانی بھی کہلاتا ہے۔ یوروپ اور ایشیا کے ملکوں سے اس کے تعلقات کافی اچھے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی صائمہ کی نظر وہیل چیئر پر بیٹھے اس شخص پر پڑی۔ وہ اب بھی گہری گہری پُراسرار نگاہیں اس پر گاڑے ہوئے تھا۔ در اصل سامنے وہیل چیئر پر مرد بیٹھا نہیں تھا، کوئی عورت تھی، برقعہ پہنی ہوئی۔ اس کے پیر ناکارہ ہو چکے تھے۔ اچانک صائمہ کی گیلری سے اس کا پیر پھسل گیا … ’’اوہ! … ‘‘ ،۔ صائمہ نے جھرجھری لی۔ وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے آدمی نے کروٹ بدلی۔ وہ واقعی تکلیف میں تھا۔ ایئر پورٹ کے کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی کو اپنے کاغذات دیتے ہوئے صائمہ نے قریب سے کسی کو اپنا نام پکارتے ہوئے سنا۔ اسے لگا یہ اس کی غلط فہمی ہے مگر جب دوسری بار بھی دائیں جانب سے اپنے نام کی پکار محسوس ہوئی تو اس نے گردن گھما کر دیکھا مگر وہاں تو ایک افریقی، ننھے سے بچّے کو اپنے پیٹ سے چپکائے اسے پچکار رہا تھا۔
’’صائمہ صاحبہ!‘‘
افریقی کے لحیم شحیم جسم کے پیچھے سے ایک لڑکی اس کی جانب جھانک رہی تھی۔ اس لڑکی کو صائمہ نے غور سے دیکھا۔ اب وہ ان کے سامنے کھڑی تھی۔
’’ہاں … جی جی … ‘‘ صائمہ گڑبڑا گئی۔
’’نہیں پہچانا نا!‘‘ لڑکی مسکرا رہی تھی، ’’اقراء ہوں … آپ کی پڑوسن۔‘‘
’’منکی گرل!‘‘ چھوٹی نے پہچان لیا اور جوش کے ساتھ تالی بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔
’’اچھا؟؟‘‘ صائمہ کی آنکھوں میں پہچان، حیرانی میں گھل مل گئی۔ بڑی مشکل سے اس نے کہا، ’’تم یہاں؟ ایئرپورٹ میں جاب پر ہو؟‘‘
’’مرحبا سروس میں ہوں۔ ایئرپورٹ پرمسافروں کی مدد کرتی ہوں۔ وہیل چیئر پر اِن صاحب کو ایئر پورٹ سے باہر لے جا رہی تھی۔‘‘ اقراء کو کچھ خیال آیا اور پلٹ کر اُس نے وہیل چیئر پر بیٹھے اسی بوڑھے شخص سے خطاب کیا، نیلی آنکھوں والا …
سرخ بالوں والا …
’’ایکسکیوز می سر!‘‘
’’ٹیک یور اون ٹائم، بیوٹی فل لیڈی!‘‘ اُس نے اپنے سُرخ بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے ہاں میں سر ہلا کر جواب دیا اور مسکرایا۔
’’یہ کیسے ہوا؟‘‘ صائمہ نے پوچھا۔
’’چھوٹ گئی؟‘‘ اِقراء نے دائیں ہاتھ کی کلمے کی اُنگلی انگوٹھے سے مِلائی اور باقی تین انگلیوں کو پیچھے کی جانب جھٹک دیا۔
’’ کیسے؟‘‘
’’آئیڈیا‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
’’اچھا؟؟‘‘
’’مجھے آپ کا بڑا آسرا ملا تھا … شکریہ! … مگر میں آپ لوگوں کو تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی۔ بس ہمت کر کے اپنے گھر کے دروازے سے ایک دن بھاگ نکلی تھی۔ میرا شوہراُس وقت باتھ روم میں تھا۔ نکلا، دیکھا، پیچھا کیا مگر میں امّی کے گھر نہیں گئی، سہیلی کے گھر چلی گئی تھی۔ امّی پر کتنے دن بوجھ رہتی۔ بھائی مجھے ہرگز کام کرنے نہیں دیتے۔ اخبار میں واک اِن انٹرویو دیکھا اور اب یہاں ہوں۔‘‘
’’امّی کے ساتھ رہتی ہو؟‘‘
’’نہیں۔ سہیلی کا گھر شیئر کرتی ہوں۔‘‘
’’اور تمہارا شوہر؟ اُس نے تمہیں کام کرنے دیا؟‘‘
’’اس کے پنجے سے نکل آئی۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’قاضی سے نکاح فسخ کروا لیا۔‘‘
’’ آپ کتنی خوبصورت لگ رہی ہیں۔‘‘ چھوٹی نے درمیان میں بات کر کے بات کا موضوع بدل دیا۔ واقعی اقراء کے چہرے کو میک اپ نے چمکا دیا تھا۔ نیوی بلیو پورے آستین کی سنہرے بٹن لگی جیکٹ، کوٹ، پینٹ، نیلی ٹوپی میں جھانکتا ہوا شوخ سُرخ رنگ کا اسکارف پہنے وہ کسی اور دنیا کی مخلوق نظر آ رہی تھی۔ اپنے کو اُن تینوں ماں بیٹیوں کو اِتنے غور سے دیکھتے دیکھ کر اقراء ذرا سا شرمائی اور اس نے دونوں بچیوں کے رخساروں کو پیار سے چھو لیا اور چھوٹی نے ماں کے سامنے کئی بار دہرایا ہوا اپنا سوال پھر ایک بار دہرانے کا موقعہ ہاتھ سے نہیں گنوایا۔
’’آپ دیوار کیسے پھلانگتی تھیں؟ … امی تو کچھ بھی نہیں جانتیں۔ آپ ہی بتا دیجئے نا … سچ سچ بتائیے منکی گرل!‘‘ اس سے پہلے کہ اقراء اُسے کوئی جواب دیتی، چھوٹی کو اچانک اس سے بھی اہم سوال نے ستایا اور اس کا دھیان اپنے دیوار پھلانگنے کی ٹیکنک جاننے والے سوال سے ہٹا۔ اس نے ماں کو مخاطب کیا اور پوچھا:
-’امی! منکی گرل سے ڈر کر ہی تو ہم ’راس الخور ‘رہنے چلے گئے ہیں نا! مگر امی! اب اس منکی گرل کو ہماری اُس بالکنی سے نکالے گا کون؟ کہیں پھسل کر گر گئیں تو ان انکل کی طرح انھیں بھی وہیل چیئر پر بیٹھنا پڑے گا نا!‘‘ چھوٹی آنکھیں پھاڑے دایاں ہاتھ سوالیہ انداز میں نچاتے ہوئے صائمہ کے جواب کی منتظر تھی۔ صائمہ نے چھوٹی کو جلدی سے اپنے قریب کر لیا اور وہ ماں کے لمس کے اشارے کو محسوس کر کے با دلِ نا خواستہ چپ ہو گئی۔ صائمہ نے اقراء کی آنکھوں میں ٹھہرے سوال سے بچنے کے لئے اپنی نظریں وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے شخص پر مرکوز کر لیں جو اپنی منتظر آنکھوں بڑی عجیب سی مسکراہٹ لئے ان کی جانب دیکھ رہا تھا۔
٭٭٭