”ہمیں کیا کرنا چاہیے۔۔۔۔۔؟“ایک دن گزرنے کے بعد سنی کہا۔
”ہمیں جا کر سیدھا سادھا جواب دینا چاہیے۔۔۔۔“سفیل نے کہا۔
”کس کو۔۔۔کس چیز کا۔۔۔۔؟“سنی نے اسے گھورا۔
”آفتاب صاحب کو اور کس کو یہی کہ ہم آپ کا کام نہیں کرسکتے۔۔۔۔“سفیل تو چاہتا ہی یہی تھا یہ دفتر بند کردینا چاہیے۔
”پاگل ہوگۓ ہو کیا ہم نے انھیں زبان دی ہے۔۔۔“سالار بولا۔
”زبان تو ہمارے منہ میں موجود ہے۔۔۔۔۔“سفیل بولا۔
”بے وقوفوں کے سردار۔۔۔“سالار نے گھورا۔
”اور تم بدھوٶں کے وزیرِ اعظم۔۔۔“سفیل نے دانت پیسے۔
”واہ وزیرِ اعظم بہت امیر ہوتے ہیں اور سردار فقیر۔۔۔“سالار نے بتیسی نکالی۔
”یعنی تم مجھے فقیر کہہ رہے ہو۔۔۔۔“سفیل اٹھا اور چپل اتاری۔
”فقیر فقیر۔۔۔“سالار اسے چڑاتے ہوۓ اندر کی طرف بھاگا اور سفیل اس کے پیچھے سنی سر پکڑے بیٹھ گیا۔
”تم دونوں نہیسں سدھرو گے۔۔۔“سنی چلایا تھا۔
(سنی برادرز یہیں ختم کیے جارہے ہیں)
☆☆☆☆
وہ چاروں ایمون کا انتظار کرتے کرتے تھک گۓ۔وہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔جانے کہاں رہ گیا تھا۔
”میرا خیال ہے جس طرف وہ گیا ہے ہمیں جانا چاہیے اس کے پیچھے کیا پتا وہ کسی مصیبت میں پھنس گیا ہو۔۔۔“جمیل بولا۔
”کچھ دیر مزید انتظار کرلیتے ہیں ہوسکتا ہے وہ واپس آجاۓ۔۔۔“سجاد نے کہا
☆☆☆☆
ایمون کافی دور نکل آیا تھا مگر دریا کی آواز دور ہی آرہی تھی۔
وہ تھک ہار کر ایک درخت کے ساۓ تلے بیٹھ گیا دوپہر کا وقت ہورہا تھا پورے جنگل میں خاموشی کا راج تھا۔
دھوپ بھی بھی بہت تیز نکلی ہوٸی تھی۔
ایمون نے ادھر ادھر دیکھا پھر درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لی۔
اچانک دور سے کسی چیز کے بھاگنے اور دھاڑنے کی آواز سناٸی دی۔
ایمون نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں۔
ارد گرد کا جاٸزہ لیا۔
مگر کوٸی ذی روح دکھاٸی نہیں دی۔اس نے سر جھٹکا اور پھر سے آنکھیں موند لیں۔
کوٸی قریب بہت قریب اس کے آرہا تھا۔
معلوم ہوتا تھا وہ اسے شکار کرلے گا۔
شیر نے انسانی بو سونگھ لی تھی وہ مسلسل اس کی تلاش میں دھاڑتا ہوا چل رہا تھا۔
اسے ایک درخت کے نیچے لیٹا وہ نظر آ گیا
شیر دوڑتا ہوا ایمون کی طرف بھاگا آرہا تھا وہ بس ایک پنجے میں ہی اسے پکڑ لینا چاہتا تھا۔
عین لمحے وہ چاروں پہنچ گۓ۔
”ایموووووووون۔“محب نے اپنا خنجر نکال کر شیر کا نشانہ لیا جیسے ہی شیر ایمون کے بالکل قریب پہنچا اسی وقت محب نے خنجر اس کی آنکھ میں مارا۔
شیر درد سے دھاڑا ایمون کی آنکھ کھل گٸ شیر کو اتنے قریب دیکھ کر وہ گھبرایا۔
”ایمون فکر نہ کرو ہم آگۓ ہیں۔۔۔“طارق چلا کر بولا۔
شیر زمین پر پڑا دھاڑ رہا تھا۔اس کی آنکھ بالکل ہی بے کار ہوچکی تھی۔
وہ چاروں کشتی کو گھسیٹتے ہوۓ لے آۓ تھے۔
ایمون نے محب کا شکریہ ادا کیا کہ وہ وقت پر پہنچ گیا اور اس کی جان بچا لی۔
”میرا خیال ہے اب ہمیں دریا کی طرف نکلنا چاہیے۔۔“سجاد نے کہا۔
”بالکل۔۔۔“ایمون بولا۔
اور وہ چاروں کچھ دیر چلنے کے بعد دریا کے کنارے پر پہنچ کر کشتی پانی میں اتار لی۔وہ سب بیٹھ گۓ۔ایمون کو کشتی چلانا آتی تھی سو وہ ڈراٸنگ کرنے لگا۔
”شکر ہے ہم حویلی کے لیے بھی نکلے۔۔۔“محب بولا۔
پانی میں بہت تیزی تھی کنارے پر لے جانے کی بجاۓ اپنے ساتھ بہاۓ جارہا تھا مگر ایمون نے مہارت سے کنارے کی طرف رخ موڑا۔
ایک گھنے جنگل میں دریا کی تیز لہروں میں چلتی کشتی۔بہت عجیب لگ رہی تھی۔یہاں اس سے پہلے کوٸی انسان نہیں آیا تھا۔طارق پانی میں ہاتھ ڈال رہا تھا۔ایسے میں اچانک پانی میں ہلچل ہوٸی۔
وہ چاروں گھبراۓ ایمون اپنی دھن میں کشتی چلا رہا تھا۔
ہلچل رکی تو ایک عجیب سا جانور نکلا یہ مگرمچھ تو ہرگز نہیں تھا۔
البتہ اس سے ملتا جلتا ضرور تھا۔
وہ جانور فضا میں سر کیے ان سب کو گھور رہا تھا۔طارق نے اپنا خنجر نکالا جسے محب نے روک لیا۔
”ابھی نہیں طارق دیکھتے ہیں یہ کیا کرتا ہے۔۔“
”ہمیں کھاۓ گا اور کیا کرے گا۔۔۔“طارق نے خنجر واپس رکھتے ہوۓ کہا۔
جانور آہستہ آہستہ نیچے جانے لگا پھر مکمل چلا گیا چاروں نے سکھ کا سانس لیا۔
”چلو جی تیار ہوجاٶ ہم اب اترنے لگے ہیں۔۔۔“ایمون نے پیچھے مڑ کر کہا۔
کنارہ اب بہت قریب رہ گیا تھا۔بالآخر کشتی رک گٸ اور وہ سب چھلانگیں مار کر اترنے لگے۔
”شکر ہے ہم ”اس“سے بچ گۓ۔“طارق نے”اس“ پر کافی زور دے کر کہا۔
”کس سے۔۔۔؟“ایمون نے کشتی کو درخت سے باندھتے ہوۓ کہا۔
”وہ ایک عجیب سا جانور تھا اس کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔“طارق نے بتایا۔
”کون سا جانور کچھ مگرمچھ ٹاٸپ کا تھا کیا۔۔۔؟“ایمون کشتی باندھ چکا تھا وہ پانچوں صاف جگہ پر بیٹھ گۓ۔
”جی بالکل مجھے لگا مگرمچھ تھا مگر نہیں۔۔۔“
”اوووف خدایا شکر ہے تونے بچا لیا یہ جانور دراصل شیر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔۔۔۔“ایمون نے کہا تو سب نے اللہ کا شکر کیا۔
وہ کچھ دیر بیٹھے رہے۔محب نے اپنا موباٸل نکالا۔
”ہمارے گھر والے کتنے پریشان ہورہے ہوں گے نا۔۔“سجاد بولا۔
”ہاں مگر ہم ایک عہد لے کر نکلے تھےاسے پورا کرکے لوٹیں گے۔۔۔“
” ان شاء اللہ“سب ایک ساتھ بولے۔
دریا کے اس پار بھی بے حد گھنا جنگل تھا۔یہاں پرندوں کی چہچہاٹ،بہت چہل پہل تھی۔ایسا لگتا تھا یہاں بہت سارے لوگ رہتے ہوں حالانکہ یہاں ان پانچوں کے علاوہ کوٸی انسان نہیں تھا۔
”ہمیں حویلی کے لیے کب نکلنا چاہیے۔۔۔؟“محب نے ایمون سے پوچھا۔
”میرا خیال ہے ابھی نہیں کیوں کہ شام ہونے والی ہے اور اس طرف بہت سے خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہمیں رات تو یہیں کہیں سونا چاہیے تاکہ صبح ہوتے ہی ہم نکل پڑیں،یہ میرا مشورہ ہے اب آپ جو بہتر سمجھیں۔۔۔“ایمون نے جلدی جلدی کہا۔
”میں تم سے متفق ہوں،“محبن نے کہا۔
”مگر میں نہیں ہوں۔۔۔“اچانک سجاد بولا۔
”ہونا پڑے گا کیوں کہ ہم سے زیادہ ایمون جانتا ہے۔۔“محب نے زور سے کہا۔
”ہم کھاٸیں گے کیا۔۔۔بتاٶ ۔؟”سدا کا بھوکا جمیل بولا۔
”مچھلیاں۔۔۔“طارق کے منہ میں پانی آگیا۔
”واااٶ۔“طارق نے تصور میں دیکھا ایک بڑی سی تھالی میں مسالے دار مچھلیاں ہیں اور وہ مزے سے بیٹھا کھا رہا ہے۔
”منہ بند کر بھاٸی بنا کر کھلا دیں گے۔۔۔“محب ہنستے ہوۓ بولا۔
مگر یہاں آگ کیسے جلے گی نمک مسالے اور گھی کہاں سے آۓ گا۔۔؟؟؟“جمیل نے سوال کیا۔
”ہم بغیر مسالے گھی کے مچھلی بناٸیں گے اور رہی بات آگ جلانے کی تو یہ لو۔۔“ایمون نے اپنی جیکٹ سے لاٸٹر نکال لیا۔
”یہ دیکھو یہاں لکڑیوں کی کمی نہیں۔۔“محب نے آس پاس اشارہ کیا۔
”چلو کھانے کا تو مسٸلہ حل ہوا۔۔“جمیل نے اپنے بھوک سے بلبلاتے پیٹ کو سہلاتے ہوۓ کہا۔
”آپ سب جا کر کچھ دیر آرام کریں میں مچھلیاں پکڑ کر لاتا ہوں۔۔۔“ایمون نے کہا محب اور باقی تینوں اس کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ دریا سےکافی دور چلے گۓ۔
ایمون اپنی جیکٹ سے رومال نکال لیا۔جو جال کی جگہ تھا پھر اس نے وہ رومال دریا کے کنارے بیٹھ کر پانی میں ڈال دیا اور انتظار کرنے لگا۔
دریا کی مچھلیاں شاید اس بات سے بے خبر تھیں کہ یہاں انسان بھی آسکتے ہیں کچھ نہ سمجھتے ہوۓ وہ اس رومال میں آگٸیں ایمون نے جھٹ سے باہر کھینچ لیا۔ایسے بارہ تیرہ مچھلیاں پکڑ پکڑ کر وہ کے اوپر رکھتا آرہا تھا۔جلد ہی وہ اس کام سے فارغ ہوا۔
اور مکمل توجہ سے مچھلیاں بغیر گھی کے بنانے لگا۔جب وہ بن گٸیں بھاپ اڑاتی گرم گرم دریا کی تازہ مچھلیاں لے کر وک اس طرف گیا جہاں وہ چاروں آرام فرما رہے تھے۔
”اٹھو نیستیو کھانا بن گیا۔“محب خود بھی اٹھا اور باقیوں کو بھی اٹھایا۔سب نے بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیں۔
بغیر گھی مسالے اور نمک وغیرہ کے مزے دار تو نہیں تھا البتہ کھانے کے قابل ضرور تھا۔
اس وقت دوپہر کے دو بج چکے تھے۔
ان سب کا دل چاہ رہا تھا وہ نکل پڑیں خد ایمون کا بھی مگر کیا وجہ تھی کہ دونوں ہی نہیں کہہ پا رہے تھے کہ وہ اس وقت چلنا چاہتے ہیں۔
اچانک ایک زور دار آواز آٸی وہ سب چونک پڑے ادھر ادھر کا جاٸزہ لیا۔
اس قدر زور کی آواز تھی کہ درخت پر بیٹھے پرندے پھڑپھڑا کر اڑ گۓ۔
”یہ کس چیز کی آوا تھی اتنی خوفناک۔۔۔؟“طارق نے ہکلا کر پوچھا۔
”یہ رابوٹ جن نے ڈکار ماری تھی۔۔۔“ایمون نے یوں بتایا جیسے وہ اس کو کافی جانتا ہو۔
سامنے دیکھتے ہی ایمون مطمٸن سا ہوگیا۔
”چلو آگے چلیں۔۔۔“ایمون نے کہا وہ چاروں پتھر کے سے ہوگۓ۔
”مم۔۔مگر یہ کون ہے۔۔۔؟“سجاد نے ہکلا کر پوچھا۔
”یہ۔۔یہ میرے بابا ہیں میر محمد شکر ہے یہ سہی سلامت ہیں۔۔۔“ایمون نے کہا۔
پھر وہ باقی سیڑھیاں چڑھتے ہوۓ دروازے تک پہنچ گۓ۔
”میرا بچہ۔۔۔“میر محمد نے ایمون کو گلے لگایا۔
”بابا آپ خیریت سے ہیں نا۔۔۔“
ایمون نے الگ ہوتے ہوۓ کہا اس سے پہلے کہ میر محمد کوٸی جواب دیتا اندر سے ایک بھیانک آواز آٸی۔
”کسیلم دروازے پر کیوں کھڑے ہو اندر آٶ۔۔۔“میر محمد شاید اس آواز کا عادی تھا مگر وہ پانچوں تو نہیں تھے نا سو وہ لڑکھڑاتے ہوۓ چند سیڑھیاں نیچے گر گۓ۔
”تم لوگ رات کو آنا تاکہ یہ سب سوجاٸیں پھر کسی کو پتا نہیں چل سکے گا۔۔۔۔“میر محمد دروازہ بند کرتے ہوۓ بولا جسے محب نے لات مار کر اندر کی طرف دھکیلا۔
”نہیں انکل! رات تک انتظار نہیں ہوسکے گا ہم ایک مہم پر آۓ ہیں اس حویلی کا راز جاننے آۓ ہیں۔۔۔“پھر وہ سب اندر داخل ہوگۓ۔
یہ حویلی بہت بڑی تھی ایک ایک کمرہ بہت دور دکھاٸی دے رہا تھا۔صحن تو ایک گاٶں کے برابر بڑا تھا۔
چھ کمرے تھے اوپری منزل بھی تھی اس کی دیواریں بے تحاشا بڑی تھیں۔
کافی دیر غور سے دیکھنے کے بعد وہ اندر کی طرف بڑھے ایسے میں اچانک طارق نے پوچھا۔
”یہاں کچھ دکھاٸی نہیں دے رہا مطلب کہ جن ون بھوت چڑیل۔۔۔؟“
”وہ موجود ہیں بالکل موجود ہیں ہمارے داٸیں باٸیں اِس طرف اُس طرف ہر جگہ موجود ہیں۔۔۔“میر محمد نے بتایا۔
”یہاں کا بانی کون ہے۔۔؟“جمیل نے پوچھا۔
”رابوٹ۔۔۔“میر محمد نے کہا۔
”کسی بھی صورتحال کے لیے تیار رہنا یہاں کی چڑیلیں بہت وحشی ہیں۔۔۔“سجاد بولا۔
”میرا خیال ہے اپنی اپنی پستول نکالنی چاہیے۔۔“محب بولا تو سب نے نکال لیں۔
”کسیلم دروازے پر کیوں کھڑے تھے تم؟؟“ایک کمرے کی کھڑکی سے رابوٹ کی جھانکتیں آنکھیں نظر آٸیں۔
جسے دیکھ کر ان سب کے رونگٹے کھڑے ہوگۓ۔
اتنی بڑی اور پراسرار آنکھیں تھیں اس کی۔
”حضور کوٸی نہیں تھا۔۔۔“میر محمد نے پانچوں کو ایک طرف چھپاۓ رکھا۔
”ہمم۔۔“رابوٹ کی ہنکار ایسی تھی کہ جیسے ہزاروں لوگ ایک ہی اسپیکر سے چیخے ہوں۔
”تم سب ایک طرف چھپ جاٶ آہ۔۔۔“میر محمد بولنے ہی والا تھا کہ اچانک وہ خود بخود دیوار سے چپک گیا اور پھر لوہے کی زنجیروں سے لپیٹا گیا۔
”بابااااااا۔“ایمون چیخا اور اپنے باپ کی طرف بھاگا مگر راستے میں جیسے دیوار سے آگٸ۔
وہ نیچے زمین پر گرا۔
”تم سب اب رابوٹ کے حضور پیش ہو۔۔۔“اچانک ایک زنانہ آواز آٸی پھر ان کے رکے قدم ایک کمرے کی طرف خود ہی چلنے لگے۔
پانچوں نے بہت کوشش کی مگر خود کو روک نہیں پاۓ۔
“تم کون ہو اور یہاں کیوں آۓ ہو۔۔؟“رابوٹ جن کی صرف آواز آٸی تھی وہ خود نہیں دکھاٸی دیا تھا۔
”ہم یہاں تم سب کو ختم کرنے آۓ ہیں۔۔۔“محب بولا۔
”ہاہاہاہا ہمیں ختم کرو گے ہاں ہمیں ختم کرو گے۔۔؟“رابوٹ غصے میں آگیا۔
”ہاں بالکل۔۔“طارق مطمٸن آواز میں بولا۔
”کیسے ختم کرو گے یہاں آ کر تم نے اپنی موت کو دعوت دی ہے۔۔۔“اچانک ایک آواز ان کے پیچھے سے آٸی۔وہ مڑے تو بری طرح چکرا کر رہ گۓ۔
کابوٹ جن ان کو اپنی تین آنکھوں سے گھور رہا تھا یہ آنکھیں نارمل نہیں تھیں ایک آنکھ پانچ فٹ کی تھی۔
”اب تم سب کو ہر رات ایک ایک کرکے کھاٸیں گے۔۔“کابوٹ ہنسا۔
”ان سب کو زندان میں قید کردو اور پھر لوہا گرم کرکے ان کی چمڑی پر لگاٶ۔“رابوٹ نے حکم دیا۔
”ہمیں پہلے پکڑ کر تو دکھاٶ۔۔“سجاد ہنس کر بولا۔
”تمھیں پکڑنے کی ضرورت ہی نہیں خود بخود اپنے پیروں سے چل کر جاٶ گے زندان۔“رابوٹ نے کہا۔
”کیسے۔۔؟”جمیل نے دلچسپی سے پوچھا۔
”جیسے یہاں پہنچے ویسے ہی زندان پہنچ جاٶ گے۔۔“پھر ایسے ہی ہوا۔
ان کے پاٶں خود ہی باہر کی طرف اٹھنے لگے۔موڑ بھی خود ہی مڑنے لگے وہ حیران حیران سے سب دیکھ رہے تھے۔
ایسے میں ایمون نے میر محمد کو ایک اشارہ کیا جس پر میر محمد نے سرہلا دیا اور پھر وہ پانچوں ایک کمرے میں داخل ہوگۓ۔
کمرے میں بے تحاشا کچرا جالے غلاظت تھی۔
پھر وہ دھڑام سے گرے اور زندان کا دروازہ بند ہوگیا۔
موت کی سی خاموشی اور اندھیرا تھا۔روشن دان ضرور تھا مگر اس میں لوہے کی مضبوط سلاخیں لگی تھیں۔
انسانی گوشت کی بدبو۔
ان کو متلی کی سی طبیعت ہونے لگی۔
”اللہ کی قسم! کچھ دیر مزید ٹھہرا تو مر جاٶں گا۔۔۔“سجاد روہانسا ہوگیا۔
”فکر مت کرو کوٸی تو حل ہوگا ہم باہر نکلنے کا“جمیل بولا۔
”بابا کو بتا دیا ہے میں نے وہ کوٸی راہ ضرور نکالیں گے۔۔“ایمون بولا۔
”مگر ان کو تو زنجیروں سے باندھا گیا ہے۔۔“طارق بولا۔
”ہمم مگر ان شاء اللہ وہ آزاد ہوجاٸیں گے۔“۔
” ان شاء اللہ“سب ایک ساتھ بولے۔
”اللہ سے دعا کرتے ہیں وہ ہمیں اس مشکل سے نکالے۔“محب بولا۔
”اگر زندان ہی اتنا بڑا تو تہہ خانہ کتنا بڑا ہوگا۔۔؟“جمیل نے پوچھا۔
”اللہ جانتا ہے۔۔“ایمون نے کہا۔
ایسے میں اچانک زندان کا دروازہ کھلا اور میر محمد داخل ہوا اس کے ہاتھ میں گرم سلاخ اور آگ سے بھرے انگار تھے۔
”مجبور ہوں بچو میرا دل تو تمھیں یہ سزا دینے کو نہیں چاہتا مگر۔۔۔“میر محمد کی سبز آنکھیں پانی سے لبریز تھیں۔
”آپ فکر نہ کریں ہم بخوشی سلاخ لگواتے ہیں تاکہ آپ پر کسی قسم کا کوٸی شک نہ کریں کہ آپ ہمارے ساتھ ملے ہوۓ ہیں پہلے میں حاضر ہوتا ہوں اس کے بعد یہ میرے چاروں بھاٸی لگواٸیں گے۔۔۔“محب نے جلدی جلدی کہا۔
”جیتے رہو دوست شکریہ بہت بہت۔۔۔“ایمون مسکرایا۔
ایک گرم سلاخ میر محمد نے انگاروں سے نکالی اور سیدھی محب کے بازو پر رکھ دی محب کے منہ سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔
میر نے بے شک زور نہیں دیا تھا مگر سلاخ تو گرم تھی نا۔
محب کے بعد طارق اور سجاد پھر جمیل کی باری آٸی۔
چاروں بری طرح جل رہے تھے۔
ایمون نے بھی بخوشی سلاخ لگواٸی تھی۔
”بابا ہمیں یہاں سے نکلنے کی کوٸی ترکیب سوچیے گا۔۔“میر کے جاتے جاتے ایمون نے کہا تھا۔
”بالکل میں ضرور اس پہلو پر غور کروں گا۔۔“یہ کہہ کر میر دروازہ بند کرکے چلا گیا۔
زندان میں خاموشی چھا گٸ۔
اس خاموش فضا میں اچانک کسی کے رونے اور سسکیاں بھرنے کی آواز آٸی سب چونک پڑے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
آواز زنانہ تھی اور یہی بات ان کی پریشانی کا سبب بن رہی تھی۔
”یہ کون ہوسکتی ہے۔۔؟“جمیل نے ایمون کی طرف دیکھا اس نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوۓ کہا۔
”آواز ساتھ والے زندان سے آرہی ہے لگتا ہے وہاں کوٸی قیدی ہے۔۔۔“محب بولا۔
”ہم ان سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔“جمیل بولا۔
”یہ ٹھیک ہے۔۔“
”کون ہے۔۔؟“ایمون نے آواز دی۔جسے سنتے ہی سسکیاں ایک دم رک گٸیں۔
”کون ہے وہاں۔۔؟“ایمون نے پھر آواز لگاٸی۔
”بب۔۔۔بیٹا۔۔۔“دوسری طرف سے بوڑھی ضعیف خاتون کی آواز آٸی۔
”آپ کون ہیں آنٹی۔۔۔؟“اب کی بار محب نے پوچھا۔
مگر کوٸی جواب نہیں ملا وہ پریشان ہوگۓ۔
وہ کون ہے؟ کہاں سے آٸی ہے؟ یہاں کیوں قید ہے؟یہ سوالات ان کے ذہن میں گونج رہے رہے تھے۔
جاری ہے۔
☆☆☆☆
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...