ان لوگوں کے جانے کے بعد سوال گھر والوں کی جانب سے شروع ہوئے۔
عرفان:” بابا ہو کیا گیا ہے آپ کو۔۔۔ سب ہمارا ساتھ دینے کے لئے تیار ہے۔۔۔۔۔ پھر آپ منع کیوں کر رہے ہے۔”
امی:” کیا آپ مسکان کی تکلیف سمجھ نہیں پا رہے کیا سوچ رہی ہوگی وہ ہم کتنے خود غرض ہیں اس کے لئے کھڑے نہیں ہو سکتے۔”
شکیل چاچو:” آپ مجھ سے بڑے ہے بھائی صاحب۔۔۔ مجھے بھی لگتا ہے آپ کو کیس کر دینا چاہئے۔”
ان کے سوالوں سے تنگ آکر بابا طیش میں آگیے
بابا:” نہیں کرنا کوئی کیس سمجھ نہیں آرہی میری بات۔۔” انہوں نے تیز آواز میں کہا۔ سب چپ ہوگئے۔ مسکان بھی روتے روتے چپ ہو کر بابا کی بات سننے لگی۔
“کیا آپ سب کو مسکان کی حالت نظر نہیں آرہی۔۔۔ کس ذہنی کیفیت کا شکار ہے وہ۔۔۔۔۔۔مرتے مرتے بچی ہے میری بیٹی۔۔۔ کیا چاہتے ہیں آپ لوگ۔۔۔۔۔ میں پھر سے اسے تڑپا تڑپا کر مار دوں۔۔۔۔۔ سمجھنے کی کوشش آپ سب کیوں نہیں کر رہے۔۔۔۔۔۔ میری بیٹی سامنا نہیں کر پائے گی ان سب کا۔۔۔۔۔ روز کورٹ کچہری کے چکر۔۔۔۔ روز الگ الگ نیوز چینل پر انٹرویو۔۔۔۔۔ ان درندو نے تو ایک مرتبہ نوچا ہے اسے۔۔۔۔ یہ پولیس اور میڈیا والے روز ہزار طریقوں سے نوچے گے۔۔۔۔ کسی بھی مجرم کو پکڑ کر شناخت کے لئے میری بیٹی کے سامنے لایا کریں گے۔۔۔۔ اور وہ بار بار ہر بار اس رات کو یاد کر کے ان آدم خوروں کی شکلیں یاد کر کے ازیت سے گزرے گی۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا وہ پھر اس ازیت سے گزرے۔۔۔۔۔ اگر کیس نا کروا کر آپ سب کو لگتا ہے میں خودغرض ہوں تو ہوں میں خودغرض۔۔۔۔۔ ہوں میں۔۔۔۔۔ اپنی بیٹی کے لئے خودغرض ہوں۔۔۔۔۔۔ اس کی زندگی کے لئے ہوں۔۔۔۔۔۔ بخش دے اس کی جان۔۔۔۔ بخش دے۔”
بابا اپنی اضطرابی حالت بیان کرتے کرتے رو پڑے تھے۔ شکیل چاچو اور عرفان بھی انہیں سنبھالتے ہوئے رو دئیے۔
بابا آنسو صاف کرتے بھیگی آواز میں پھر اپنا درد بیان کرنے لگے۔
” یہ آزمائش ہم پر آئی ہے اسے ہمیں خود گزارنا ہے۔ دنیا کے سامنے تماشا نہیں بنانا۔۔۔۔ میں ہاتھ جوڑتا ہوں اگر کسی کو بے عزتی محسوس ہورہی ہے تو وہ جا سکتا مجھے اور میری بیٹی کو یہ ماتم اکیلے منانے دیجیئے۔۔۔ پلیز۔۔۔ پلیز” وہ ایک مرتبہ پھر رونے لگے۔
عرفان:” نہیں بابا آپ اکیلے نہیں ہے میں آپ کے ساتھ ہوں۔۔۔ جیسا آپ چاہتے ہے ویسا ہی ہوگا۔” عرفان اشک بار آنکھوں سے بابا کے گلے لپٹ گیا۔
****************
# 1 ہفتےبعد #
اس دن کے بعد ان کے گھر پھر کوئی پولیس اور جرنلسٹس نہیں آئے اور نہ پھر اس ڈاکٹر نے کوئی اقدام اٹھایا۔ مسکان آہستہ آہستہ زندگی کی طرف لوٹنے لگی تھی۔ جیسے جیسے اس کے حسات بحال ہوتے گئے ویسے اس کا ذہنی توازن بگڑتا گیا۔
وہ رات بھر جاگی رہتی اور دن میں بیچینی سے کمرے میں چکر کاٹتی رہتی۔
کھانے کے وقت اسے زبردستی اپنے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا دیا کرتے اس سے بات کروانے کی کوشش کرتے لیکن وہ چپ کر کے بیٹھی ہوتی۔ ستارہ اس کا دھیان بٹانے ہر وقت اس کے ساتھ بولنے میں لگی رہتی پر مسکان خالی ذہن سے اسے تکتی جاتی۔
خرم تو پولیس کیس سے بچنے کیلئے حادثے کی اگلی صبح ہی واپس چلا گیا تھا۔ کومل واپس لوٹ آئی تھی اسلام آباد سے۔ میکے جاکر حقیقت پتہ چلی تو خوب روئی تھی۔ وہ بھی کچھ دن مسکان کی دماغی حالت سدھارنے وہی رہی لیکن سب بے معنی۔ اس نے جیسے جینے کی آس ترک کر دی تھی۔
اس حادثے کے بعد وہ آج پہلی بار آئینہ کے سامنے آئی تھی۔ زخم بھرنے لگے تھے نیل ہلکے ہونے لگے تھے لیکن دل پر لگی چھوٹ اور دماغ پر لگا صدمہ آج بھی گہرا تھا۔ اچانک اسے اپنے آپ سے گھن آنے لگی وہ واشروم گئی اور اپنے بازو گردن اور سر کے زخموں کو صابن لگا کر ملنے لگی وہ چاہتی تھی کہ وہ جلد از جلد ختم ہوجائے لیکن ایسا نہیں ہو سکا اس کے اضطراب میں اضافہ ہونے لگا اسے غصہ آنے لگا۔ طیش میں اس نے ایڑیاں ڑگڑنے والا پتھر اٹھایا اور پوری طاقت سے اپنے زخموں پر ڑگڑنے لگی اس سے بھی اثر نہ ہوا۔ زخموں سے ایک دفعہ پھر خون رسنے لگا۔ وہ کرب سے روتی ہوئی چلانے لگی۔
سائرہ بھابھی لان میں تار پر کپڑے سکھا رہی تھی جب اس نے مسکان کی آواز سنی۔ وہ تیزی سے مسکان کے کمرے میں گئی اور زور سے واشروم کا دروازہ بجانے لگی۔ اسے اتنا پکارنے پر بھی دوازہ نہیں کھلا تو سائرہ نے ہیبت میں امی اور بابا کو پکارہ۔ در پیش صورت حال دیکھ کر وہ بھی دروازہ بجانے لگے۔ مسکان باہر کے حالات سے بے خبر اب بھی ویسے ہی چلا رہی تھی۔ اس کی وحشتناک آوازیں سن کر ستارہ اور چاچی بھی نیچے آگئی تھی۔
بابا کے ہدایت پر سائرہ دراز میں سے چابی لائی اور دروازہ کھول دیا اندر کا منظر دیکھ کر سب خوفزدہ ہوگئے ستارہ جھٹ سے اندر گئی اور اس کے ہاتھ سے آلات پھینک دئیے بابا اور امی اسے مضبوطی سے پکڑ کر کمرے میں لے آئے۔
بابا:” یہ کیا کر رہی ہو تم۔۔۔” انہوں نے مضبوطی سے اسے خود سے لگائے رکھا۔ وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی اب بھی روئے جا رہی تھی۔
سائرہ نے فون پر عرفان کو صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ آفس سے فوراً گھر آگیا اور مسکان کو ہسپتال لے گئے۔
ڈاکٹر نے پٹی کر لینے کے بعد اسے نیند کا انجیکشن لگایا گیا۔
ڈاکٹر:” میری رائے ہے آپ مسکان کو ایک دفعہ کسی سائکالوجسٹ ڈاکٹر کو دکھائے۔” ڈاکٹر نے پرچی پر دوائی لکھتے ہوئے تجویز دی۔
وہ ہسپتال سے گھر آکر سوگئی۔
عرفان سائکالوجسٹ کا نمبر لے آیا تھا۔ اور آج ان کو سائکالوجسٹ کو دکھانے جانا تھا۔ وہ 10 دن بعد اپنے گھر سے اپنے کمرے کے چار دیواری سے نکلی تھی۔ راستے میں بھی وہ خاموشی سے کھڑکی کے باہر دیکھتی رہی۔
عرفان سائکالوجسٹ کو پہلے ہی اس کے ساتھ ہوئے حادثے کے بارے میں بتا چکا تھا ۔ وہ اب تفصیل سے مسکان کا معائنہ کر رہی تھی۔
چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے مسکان کے ذہنی انتشار کو پرکھنے کے لیے کچھ جنرل سوال کئے۔ جس کا اس نے بلکل ٹھیک جواب دیا کچھ تاریخی مقامات کی تصاویر دیکھائی جسے وہ بہت آسانی سے بتاتی گئی۔
مسکان:” آئفل ٹاور پیرس۔۔۔۔ تاج محل انڈیا۔۔۔۔۔ سٹیچو آف لیبرٹی امریکہ۔۔۔۔”
اس کی یاداشت جانچنے کے لئے ڈاکٹر نے اسے میتھ اور سٹیٹس کے سوالات دیے۔ انہیں بھی مسکان نے پانچ منٹ میں حل کر کے دکھایا۔ آخر میں انہوں نے مسکان کو ایک پزل باکس دے کر کونے میں بیٹھ کر بنانے کے لئے کہا۔
وہ سکول کے بچی کی طرح اثابت میں سر ہلاتی کونے والے سیٹ پر جا بیٹھی۔
جب اسے پزل باکس کے ساتھ مشغول پایا تو ڈاکٹر نے رخ عرفان کی جانب کیا۔
ڈاکٹر:” اس کی یاداشت تو بلکل ٹھیک ہے اور پہلے جتنی ذہین بھی ہے۔ اور اس کے دماغ میں اندرونی کوئی چھوٹ بھی نہیں ہے۔” انہوں نے مسکان کے بلڈ رپورٹ اور سی ٹی سکین دیکھتے ہوئے کہا۔
“وہ بس گہرے صدمے میں ہے۔ شدید ڈپریشن کا شکار ہوگئی ہے۔ اس سب سے نکلنے میں اسے وقت لگے گا۔ اسے اکیلے مت رہنے دیجئے اور کوشش کریں اس کے سامنے اس رات کا ذکر نہ ہو۔ رات میں بھی اکیلے سونے نہ دیں کیونکہ ڈپریشن کے دباؤ میں آکر وہ خود کو نقصان پہنچا سکتی ہے اس لیے آپ سب کو بہت محتاط رہنا ہے۔
اگلے تین میہنے تک میرے زیر نگرانی اس کے سیشن کرواتے ہے دیکھتے ہے کنتے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔” انہوں نے کچھ دوائیاں لکھتے ہوئے عرفان کو ہدایات جاری کئے۔
“مسکان کر لیا پزل”
مسکان:” جی آدھا کر لیا۔” اس نے ڈاکٹر کے میز کے قریب آ کر کہا۔
ڈاکٹر:” چلو کوئی بات نہیں باقی اگلے سیشن میں کر لینا اوکے” مسکان نے خاموشی سے سر جھٹکا۔
“اور دوائیاں وقت پر لیتی رہنا۔۔۔۔۔ see you”
وہ اور عرفان ڈاکٹر سے الوداع کرتے باہر آئے۔ چلتے ہوئے
مسکان کے دماغ میں ایک یاد لہرائی۔ کچھ عرصہ قبل یہ جملہ کسی اور نے بھی اس سے کہا تھا۔ جس کی اس کے لئے فکرمندی اسے سب سے انمول تھی۔۔۔ اس کی آنکھیں بھر آگئی تھی اس نے سر جھٹک کر اس کی یاد کو مٹانے کو کوشش کی لیکن ہو نہ سکی۔ گھر آکر بھی وہ اسی کشمکش میں مبتلا رہی۔
اس کا زوہیب سے بات کرنے کا دل کیا۔
” لیکن اگر اس نے پوچھا اتنے دن کہاں تھی تو کیا کہوں گی۔۔۔۔ اور اگر کومل آپی یا جیجو نے اسے سب بتا دیا تھا۔۔۔ تو میں اس کے سوالوں کا کیا جواب دوں گی۔۔۔۔۔ یا پھر۔۔۔۔۔ حقیقت جاننے کے بعد وہ خود ہی مجھ سے بات نہ کرنا چاہتا ہو تو۔۔۔۔۔”
اس نے ملال سے آنکھیں بند کی۔۔۔ اس کے دل میں درد ہونے لگا۔۔۔ اس نے روتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اب وہ زوہیب سے کبھی بھی رابطہ نہیں کریں گی۔۔۔
“میں جانتی ہوں زوہیب میرا ایسا کرنے سے آپ بہت ہرٹ ہوجاو گے آپ کا دل ٹوٹ جائے گا آپ مجھے بہت کوسو گے لیکن۔۔۔۔۔ میرے لئے یہ کرنا ضروری ہے۔۔۔۔ ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا پلیز۔۔۔” اس نے بہتے آنسوؤں سے سوچا اور خود سے عہد کیا۔
**********************
# 2 ہفتے بعد #
سائکالوجسٹ کے ساتھ سیشن کرتے اسے دو ہفتے ہوگئے تھے۔ بہ ظاہر وہ ٹھیک ہوتی نظر آرہی تھی۔ وہ اب کمرے سے باہر آنے لگی تھی ایک آدھ بات بھی کر لیتی۔
اس شام عرفان اس کے لئے نیا موبائل بھی لے آیا تھا۔ اس نے موبائل لے کر سم واپس کر دی۔
مسکان:” مجھے اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ستارہ کے وائی فائی سے ڈاکٹر کی بتائی چیزیں ڈاونلوڈ کر کے رکھ لوں گی۔”
اس کے مایوسی سے نجات کے لیے ڈاکٹر نے اسے کچھ پزل گیمز quiz گیمز کے apps ڈاونلوڈ کر کے مصروف رہنے کی تجویز دی تھی اور ساتھ میں yoga اور ورزش میں دھیان لگائے رکھنے کی صلاح۔
ستارہ کو یونیورسٹی جاتے کئی دن ہوگئے تھے۔ اس نے بھی ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی تو بابا سمیت سب راضی ہو گئے۔ اور اسے مثبت رہنے کی ہمت سے کام لینے کی تلقین کی
اگلی صبح وہ ہمت کرکے خوشی خوشی یونیورسٹی گئی۔ وہاں اسے نئے چہروں کے ساتھ بہت سے پرانے چہرے بھی نظر آئے ۔ اس کی پرانی سہیلیاں اس کے پاس آکر پوچھنے لگی۔ ستارہ اسے اس کے ڈپارٹمنٹ کے آگے لاکر اپنی کلاس میں چلی گئی تھی۔ اسے اکیلے میں اچانک دم گھٹتا محسوس ہوا وہاں موجود سٹوڈنٹس کی ملاتشی نظریں اسے چبنے لگی۔ اس کے ذہنی کیفیت کا اسے اب اندازہ ہورہا تھا وہ ایک ہی جگہ ساکت کھڑی تھی۔
“سنا ہے تمہارے ساتھ کوئی حادثہ ہوا ہے۔ ” اس کی کسی سہیلی نے مشکوک انداز میں تبصرہ کیا۔
اور یہ سن کر مسکان کی سانس رکنے لگی۔ وہ تیزی سے وہاں سے بھاگ گئی۔ کوریڈور کے رش کو چیرتی وہ ستارہ کے کلاس میں داخل ہوئی تو دیکھا اس کی کلاس شروع ہوچکی تھی میم نے لیکچر شروع کر دیا تھا۔
ستارہ نے مسکان کا زرد پڑتا چہرہ روتی آنکھیں اور پھولی سانس دیکھی تو گھبرا گئی۔ میم کو ایکسیوز کرتی وہ مسکان کے پاس آئی۔
ستارہ:” مسکان کیا ہوا تم ٹھیک تو ہو” اس نے مسکان کی پیٹھ سہلاتے ہوئے پوچھا۔
مسکان:” مجھے گھر جانا ہے پلیز مجھے۔۔۔۔۔ مجھے گھر بیھج دو۔” اس نے ستارہ سے لپٹ کر زار و قطار روتے ہوئے کہا۔
ستارہ نے اس سے مزید سوال نہیں کیئے اور اسے سٹوڈنٹس روم میں بیٹھا کر عرفان کو فون ملایا۔
وہ دس منٹ بعد اس کے یونیورسٹی پہنچے اور مسکان کو گھر لے گئے۔
گھر کے گیٹ پر عرفان کی کار کی آواز سن کر سائرہ حیرانی سے لاؤنج کے دروازے پر آئی۔ عرفان مسکان کو سہارا دیتا لاؤنج میں لایا۔
عرفان:” امی اور بابا کہاں ہے۔” اس نے گھر خالی دیکھ کر پوچھا۔
سائرہ:” امی اور چاچی تو کسی کی عیادت پر گئی ہیں اور بابا سیر کرنے۔۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے۔” اس نے مسکان کی طرف اشارہ کیا جو ہاتھ مڑوڑتی لمبی سانس لیتی خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
عرفان:” ہاں وہ یونیورسٹی میں خوفزدہ ہوگئی تھی گھر جانے کی ضد کر رہی تھی۔ ستارہ نے کال کر کے بلایا۔۔۔۔ جب تک امی اور بابا آتے ہیں اس پر نظر رکھنا۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ اپنا اور بچوں کا بھی خیال رکھنا۔۔۔۔۔ میں واپس آفس جا رہا ہوں۔” اسے ہدایت دے کر عرفان واپس چلے گئے۔ اور مسکان اپنے کمرے میں آگئی۔ آج کے منظر سے وہ سمجھ گئی تھی کہ آج کے بعد وہ گھر سے باہر نہیں جا پائے گی۔ آج کے بعد وہ کبھی پڑھ نہیں پائے گی۔
جہاں سے وہ چلی تھی زندگی پھر اسی موڑ پر آگئی تھی
*******************
شام وہ اپنے بیڈروم میں سنگل صوفے پر ٹانگیں اوپر کئے بیٹھی تھی۔ دروازے پر آہٹ ہوئی تو اس نے مڑ کر دیکھا ستارہ اس کے کمرے میں داخل ہورہی تھی۔
وہ بیڈ پر آکر بیٹھی تو ستارہ بھی اس کے پاس بیٹھ گئی۔ مسکان خوش دلی سے اس کے بات کرنے کی منتظر تھی۔
ستارہ: مسکان۔۔۔۔ مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔۔۔۔ تم پہلے میری بات سن لینا۔۔۔۔۔ پھر تسلی سے جواب دینا ٹھیک ہے۔” اس نے مسکان کے تند ردعمل سے بچنے کیلئے پہلے ہی خلاصہ کر دیا۔
مسکان نے شفقت سے سر اثابت میں ہلایا اور اس کہ بات سننے لگی۔
ستارہ:” مسکان وہ۔۔۔۔۔۔ زوہیب تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔ کئی دنوں سے مجھے تم سے رابطہ کروانے کی منت کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔ تم نے اپنی سم تو واپس کر دی اور سوشل اکاونٹس بھی بند کر دئیے ہیں تو وہ پریشان ہورہا ہے۔۔۔۔” اس نے مسکان کے جذبات کو جانچتے ہوئے نرمی سے کہا۔
ایک پل کے لئے مسکان گہری سوچ میں پڑھ گئی۔
” تو کیا اسے میرے بارے میں نہیں معلوم۔۔۔۔۔۔ وہ اب بھی مجھ سے رابطہ کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ یا پھر وہ میرے منہ سے حقیقت کی تصدیق چاہتا ہے۔۔۔۔ یا وہ ہمدردی دکھانا چاہتا ہے۔۔۔۔۔ یا پھر۔۔۔۔۔”
اسے مسلسل چپ دیکھ کر ستارہ ڈر گئی کہ کہی وہ پھر سے ڈپریشن میں نہ چلی جائے اس لیے ستارہ نے اس کے ہاتھ کو جھنجوڑ کر متوجہ کیا۔
مسکان کے سوچ کا تسلسل ٹوٹا۔ اس نے دو تین مرتبہ پلکھیں جھپکا کر اپنے خیالات مہو کئے اور ستارہ سے مخاطب ہوئی۔
” میں اب کسی زوہیب کو نہیں جانتی۔”اس نے رخ موڑ کر کھڑکی کے پار دیکھتے ہوئے کہا۔
ستارہ اسے سمجھانے کے لئے کچھ کہتی اس سے پہلے وہ پھر سے گویا ہوئی۔
” جاتے ہوئے دروازہ بند کر دینا۔” یہ ستارہ کے لئے بحث نہ کرنے کا اشارہ تھا۔ وہ اب بھی رخ موڑے ہوئے تھی۔ وہ کسی بھی صورت ستارہ کو اپنی اندرونی کیفیت سے آگاہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اس کے سامنے ٹوٹنا نہیں چاہتی تھی اس لئے اپنے اضطراب کو قابو رکھنے کی کوشش کرتی رہی۔
ستارہ اس کا اشارہ سمجھ کر دل گرفتگی سے اٹھ گئی۔ وہ دروازے پر پہنچی تھی جب مسکان نے اسے مخاطب کیا۔
“ستارہ۔۔۔ تم اب بھی میری بیسٹ فرینڈ ہو نا” اس نے ستارہ کے آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
ستارہ:”ہاں کیوں نہیں۔۔۔ ” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
مسکان:”تو میرا راز۔۔۔۔ راز ہی رکھنا” یہ کہہ کر اس نے واپس رخ موڑ لیا اور ستارہ بھیگی آنکھوں سے کمرے سے باہر آگئی۔
اپنے گھر جا کر ستارہ نے زوہیب کے کسی بھی میسج کا جواب دیئے بغیر اسے بلاک کر دیا۔ اسے بہت دکھ ہوا لیکن اس کے لئے مسکان سے ضروری کوئی نہیں تھا۔
*********************
# 2 ماہ بعد #
اس نے ڈاکٹر کے بتائے ہوئے apps اور videos ڈاونلوڈ کر لیئے تھے اب اسکا کافی ٹائم پاس ہوجاتا۔ زندگی میں بہت تبدیلیاں آگئی تھی اور اب وہ ان تبدیلیوں میں اڈجسٹ ہونے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔
کبھی اکیلے بیٹھے اسے زوہیب کا خیال ضرور آتا لیکن پھر خود کو کسی کام میں لگا دیتی۔ وہ اب بھابھی اور امی کے ساتھ کچن میں بھی ہاتھ بٹا دیا کرتی۔
پچھلے دو ماہ سے وہ اکیلی نہیں سوئی کبھی امی کبھی ستارہ اس کے پاس آکر سوجایا کرتی۔
اس رات وہ کھانے کے برتن اٹھانے میں بھابھی کی مدد کر رہی تھی جب اس نے لاؤنج میں بابا کے ساتھ فردوس صاحب کو داخل ہوتے دیکھا۔ وہ برتن واپس رکھتی تیزی سے اپنے کمرے میں آگئی۔ اس کے آبرو تن گئے دل میں کئی سوال اٹھنے لگے۔
” وہ اتنے مہینوں بعد اب کیسے آگئے۔۔۔۔۔ کہی پھر سے شادی کی بات تو نہیں کرنی۔۔۔” اسے بیچینی ہونے لگی وہ دروازے پر کان لگا کر باہر سننے لگی۔
پہلے تو اچھے سے حال احوال پوچھا گیا لیکن پھر فردوس صاحب کی آواز بلند ہوگئی۔
“آپ نے یہ سوچ بھی کیسے لیا حارث۔۔۔۔۔ کیا یہ ضروری بات کرنے آپ نے مجھے بلایا ہے۔۔۔۔۔ آپ سب کو کیا میں اتنا بیوقوف لگتا ہوں کہ اتنا سب ہونے کے بعد میں آپ کی بیٹی کو اپنی بہو بناو گا۔۔۔۔۔”
مسکان کو شاک سا لگا۔ کیا بابا نے ان سے میری شادی کی بات کی ہے۔ اس نے دل میں سوچا
“پہلے تو آپ نے یہ رشتہ رد کر دیا تھا اب آپ اپنی استعمال شدہ بیٹی کو میرے بیٹے کے سر تھوپنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔۔”
اپنے لیے مسکان کو( استمعال شدہ ) کا لفظ سن کر چکر سے آنے لگے۔ اس کا دل ڈوب گیا۔ آنسو اس کے گال پر لھڑکتے نظر آئے۔
بابا:” فردوس مجھے لگا آپ میری تکلیف سمجھے گے میری مدد کریں گے” انہوں نے افسوس سے کہا۔
فردوس:” بلکل حارث میں اب بھی تمہاری مدد کرنے پر تیار ہوں۔۔۔۔۔ تمہیں پیسوں کی ضرورت ہو تو کہو۔۔۔۔۔ میں تمہاری بیٹی کا اسلام آباد کے سب سے بہترین دماغ کے ماہر ڈاکٹروں سے علاج کروا دوں گا۔۔۔۔۔۔ لیکن جس مدد کی تم توقع کر رہے ہو۔۔۔۔ وہ اب نا ممکن ہے۔۔۔۔ میرا بیٹا ڈپلومیٹ ہے وہ کسی اور سے ریپ ہوئی ذہنی مریضہ لڑکی سے کبھی شادی نہیں کرے گا۔۔۔ تم اپنے سر کا بوجھ میرے سر لا دینا چاہتے ہو”
مسکان:”کیا میں اپنے گھر والوں پر بوجھ بن گئی ہوں۔”وہ اپنے کپکپاہٹ کو روکنے زمین پر سمٹ کر بیٹھ گئی۔
بابا:” میری بیٹی ذہنی مریضہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں نے سوچا اس کی شادی ہوجائے گی تو وہ اس صدمے سے باآسانی نکل پائے گی۔” بابا نے افسوس سے اپنی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
فردوس:” ہاں تو اپنے سے نیچے طبقے میں دیکھو مل جائے گا کوئی ڈرائیور یا مکینک جو پیسوں کے لئے تمہاری بیٹی سے شادی کر لے گا۔۔۔۔۔۔ لیکن کوئی بھی شریف خاندان ایسی بد ذات لڑکی کو اپنا کر اپنی نسلیں خراب نہیں کریں گا۔
مسکان سے یہ سب اور سنا نہیں جا رہا تھا وہ کانوں پر ہاتھ رکھتی اٹھی اور بیڈ پر تکیے میں منہ چپائے لیٹ گئی۔
*******************
اس رات اس نے گھر والوں کے بوجھ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے خودکشی کا دل بنا لیا تھا۔ اسی ارادے سے اس نے اپنے ڈیپریشن کی دوائی بھی نہیں کھائی تا کہ وہ سو نہ سکے۔
آج کی رات ستارہ اس کے ساتھ سوئی تھی اور وہ ستارہ کے عادت سے خوب واقف تھی کہ ستارہ ایک دفعہ گہری نیند سوجائے تو پھر کان کے پاس ڈھول بجنے پر بھی نہیں اٹھتی۔
وہ سیدھے لیٹی موقع کی تلاش میں چھت کو گھور رہی تھی جب ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ لگی اور وہ سو گئی۔
رات کے کسی پہر اس کی آنکھیں کھلی اس کے حواس بحال ہونے لگے تو دور کہی سے اذان کی آواز اس کی سماعت میں پڑی۔ وہ اپنی جگہ پر اٹھ بیٹھی۔ آواز اب بھی جاری و ساری تھی۔ اس نے دیکھا ستارہ اب بھی گہری نیند سو رہی تھی۔ اسے یاد آیا وہ تو خودکشی کرنے جارہی تھی پھر سو کیسے گئی۔ ایک دم سے اس کے دل میں خیال آیا وہ وضو کرنے آگئی۔ وضو کرتے ہوئے چہرہ دھوتے وقت اس کا دل بھر آنے لگا وہ یاد کرتی رہی کتنے عرصے سے اس نے فجر نہیں پڑھی۔ وہ وضو کر کے آئی تو اذان ختم ہو چکی تھ۔ نماز کے دوران بھی اسے اپنی غفلت پر احساس ندامت ہوا اس کی آنکھیں بھیگنے لگی۔
اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی گہرے نیند سے آج جاگی ہو۔ ہر سجدے کے ساتھ اسے اپنے جذبات، اپنے حسات فعال ہوتے محسوس ہوئے۔ اس کے دل کے گرد لگی کڑیاں ٹوٹنے لگی۔ دعا میں ہاتھ اٹھا کر وہ خوب روئی ہر آنسو کے ساتھ ساتھ اسے ہلکا محسوس ہوتا گیا۔
انسان کو اللہ سے اپنی حالت بیان کرنے کے لئے لفظوں کے ناپ تول کی ضرورت نہیں ہوتی کبھی کبھار چند قطرے آنسو کافی ہوجاتے ہیں۔
اس نے اپنے آپ کو ختم کرنے کے اپنے ارادے پر توبہ کیا اور پھر کبھی ایسی غلطی نہ دوہرانے کا وعدہ کیا۔
“میرے اللہ مجھے معاف کر دینا میں یہ کیا کرنے جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔ زندگی اور موت تو صرف آپ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔۔ میرے ساتھ جو بھی ہوا آپ اس سب سے واقف ہو۔۔۔۔۔ میں آج سے اپنی زندگی آپ کے توکل پر چھوڑتی ہوں۔۔۔۔ مجھے صرف آپ سے امید ہے۔۔۔ میرے گناہ بخش دے میرے رب۔۔۔۔ میری بگڑی بنا دیں۔۔۔۔۔ میرے نصیب سنوار دیں۔۔۔۔۔ تو رحیم و کریم ذات ہے۔۔۔۔ مجھے سیدھے راستے پر لے آ۔۔۔۔۔ بیشک تو ہر چیز کا مالک ہے۔۔۔۔۔ میرا انصاف میں تیرے سپرد کرتی ہوں۔۔۔۔ اب تو ہی مجھے سنبھال۔۔۔۔۔۔ اے میرے خالق۔۔۔۔میرے کارساز بن جا۔۔۔۔۔۔”
دعا کر کے وہ اٹھی اور بیڈ کے بجائے صوفے پر آگئی۔۔۔ اتنے عرصے میں پہلے مرتبہ اسے کچھ سکون ملا تھا۔
بیشک دلوں کا سکون صرف اللہ کو یاد کرنے میں ہے۔
********************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...